ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کا حکم حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

کیا دائیں ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ بعض لوگ ایک ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرنے کو انگریز کا طریقہ شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، قرآن وسنت کی رو سے ہماری راہنمائی فرمائیں۔

جواب :

اس سے پہلے کہ مصافحہ کے بارے میں احادیث صحیحہ ذکر کی جائیں، مصافحہ کی تعریف ملاحظہ ہو۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هي مفاعلة من الصفحة والمراد بها الإنضاء بصفحة اليد إلى صفحة اليد
(فتح الباري 54/11)
”مصافحہ کا لفظ باب مفاعلہ سے ہے اور صفحہ سے ماخوذ ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ ایک آدمی کے ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے آدمی کے ہاتھ کی ہتھیلی سے لگ جائے۔“
امام ابن اثير جزری فرماتے ہیں:
ومنه حديث المصافحة عند اللقاء وهى مفاعلة من الصال صفح الكف بالكف
(النهاية في غريب الحديث والأثر 43/3)
”صفحہ لفظ سے ملاقات کے وقت مصافحہ کی حدیث بھی ہے۔ مصافحہ لفظ باب مفاعلہ سے ہے، اس کا معنی ہتھیلی کو ہتھیلی سے ملانا ہے۔“
مصافحہ کا یہی معنی علامہ محمد طاہر پٹنی نے مجمع بحار الأنوار (328/3) اور ابو الحسین احمد بن فارس وغیرہ نے معجم مقاییس اللغة (ص 546) میں کیا ہے۔ مصافحہ کی یہ تعریف اہل حدیث کے مصافحہ پر پوری اترتی ہے اور جو مصافحہ احناف کے ہاں رائج ہے اس پر یہ تعریف صادق نہیں آتی۔ اب احادیث صحیحہ ملاحظہ ہوں، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا جنب فأخذ بيدي فمشيت معه حتى قعد فانسللت
(صحيح البخاري، كتاب الغسل، باب الجنب يخرج ويمشي في السوق وغيره 285)
”مجھے رسول الله صلى الله عليه وسلم ملے اور میں جنبی تھا، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں آپ کے ساتھ چل پڑا، یہاں تک کہ آپ ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں کھسک گیا۔“
اس میں ایک ہاتھ کی مزید تصریح صحیح البخاری کے درسی نسخہ کے حاشیہ پر ایک نسخہ کے حوالے سے ”بيميني“ ہے۔ اس کا معنی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے میرا دایاں ہاتھ پکڑا اور اس نسخہ کا ذکر علامہ عینی حنفی نے بخاری کی شرح عمدة القاری (241/2) میں اور علامہ احمد قسطلانی نے بخاری کی شرح ارشاد الساری (209/1) میں کیا ہے۔ یہ حدیث اس مسئلہ پر نص صریح ہے کہ رسول اللہ کریم صلى الله عليه وسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے وقت ان کا دایاں ہاتھ پکڑا۔ اسی طرح عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ترون كفي هذه فأشهد أني وضعتها على كف محمد صلى الله عليه وسلم
(مسند أحمد 189/4، ح : 17842-17838، تاريخ دمشق 154/27-155، الكنى للدولابي 118/2، صحيح ابن حبان 275/9، معجم الصحابة لابن قاتع 81/2)
”تم میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو؟ میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے اس ہتھیلی کو محمد صلى الله عليه وسلم کی ہتھیلی پر رکھا ہے۔“
اور علامہ ابن عبد البر نے التمهيد (247/12) میں الفاظ یوں رقم کیے ہیں:
ترون يدي هذه صافحت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم
”تم میرے اس ہاتھ کو دیکھتے ہو؟ اس کے ساتھ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مصافحہ کیا تھا۔“
ان احادیث میں ”كفي هذه“ ، ”يدي هذه“ اور ”بيميني“ کے الفاظ معترضین کے بلند و بانگ دعوؤں کی قلعی کھول دیتے ہیں، کیونکہ ”هذه“ اسم اشارہ واحد پر دلالت کرتا ہے، لفظ ”يدي“ اور ”كفي“ میں بھی ایک ہاتھ اور ایک ہتھیلی کا تعین ہے، دونوں ہاتھ مراد نہیں۔ جو لوگ ان واضح و صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے ایک ہاتھ کے مصافحہ کو انگریز کا طریقہ باور کراتے ہیں وہ راہ صواب سے کوسوں دور اور نسیج تقویم سے بنے ہوئے ہیں۔ جادۂ مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگوں نے سنت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو انگریز کا طریقہ قرار دے کر اپنے ایمان کا بیڑا غرق کیا اور ضلالت و گمراہی کے عمیق گڑھوں میں جا گرے۔ جو لوگ المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده (مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں) جیسی احادیث میں لفظ ”يد“ کو دلیل بنا کر صحیح احادیث کا حلیہ بگاڑتے ہیں، ان کا موقف درست نہیں، کیونکہ اس حدیث میں عموم مقصود ہے، وہ حقیقی ہو یا معنوی، اصل میں مسلمان کو تکلیف دینا ممنوع ہے۔ تفصیل کے لیے علامہ عینی حنفی کی عمدة القاري (20/1) ہی ملاحظہ کرلیں۔ اور مصافحہ والی احادیث کو اس حدیث پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، کیونکہ یہاں بحث صرف لفظ ”يد“ سے نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ ”مصافحہ“ کے تابع ہے۔ جیسا کہ اوپر اہل لغت کے مصافحہ کے بارے اقوال سے اس کی توضیح ہو چکی ہے۔ بہر کیف ایک ہاتھ سے مصافحہ مسنون اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے