اہل حدیث سے متعلق عام غلط فہمی اور حقیقت – مکالمہ کی شکل میں وضاحت
حنفی:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محمدی:
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ فرمایئے، کہاں سے تشریف لائے ہیں؟
حنفی:
یہیں اسی شہر سے۔
محمدی:
کیا آپ بہاولپور میں ہی رہائش پذیر ہیں؟
حنفی:
جی ہاں۔
محمدی:
آپ کو پہلے کبھی یہاں نہیں دیکھا۔
حنفی:
جی، میں آپ کی مسجد میں پہلی بار آیا ہوں۔
محمدی:
تو آج کیسے آنا ہوا؟
حنفی:
ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔
محمدی:
جی فرمائیے، میں حاضر ہوں۔
اہل حدیث کے بارے میں سنی سنائی باتوں کی حقیقت
حنفی:
میں نے سنا ہے کہ اہل حدیث ایک نیا فرقہ ہے جو نہ صحابہ کرام کو مانتا ہے، نہ اماموں کو، بلکہ بزرگوں کو بھی گالیاں دیتا ہے؟
محمدی:
بھائی! یہ سب پروپیگنڈا ہے جو مخالفین کی طرف سے پھیلایا گیا ہے۔ اگر دیانتداری سے بات کی جائے تو ہم نہ کسی کو برا کہتے ہیں، نہ کسی کو گالی دیتے ہیں۔ بلکہ جو لوگ عزت کے لائق ہیں، ہم ان کی عزت کرتے ہیں اور جو حق پر ہوں، انہیں تسلیم بھی کرتے ہیں۔
اہل حدیث اور ائمہ کی حیثیت
حنفی:
تو کیا آپ لوگ اماموں کو مانتے ہیں؟
محمدی:
کیوں نہیں، ہم یقیناً مانتے ہیں۔
حنفی:
مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ اماموں کو نہیں مانتے۔
محمدی:
یہ تو ویسا ہی ہے جیسے عیسائی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے۔ تو کیا آپ واقعی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے؟
حنفی:
نہیں نہیں، ہم تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں۔
محمدی:
پھر عیسائی آپ کے بارے میں یہ کیوں کہتے ہیں کہ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے؟
حنفی:
اس لیے کہ ہم ان کو ویسے نہیں مانتے جیسے وہ مانتے ہیں۔
محمدی:
بالکل اسی طرح، لوگ ہمارے بارے میں بھی یہی بات کرتے ہیں۔ ہم ائمہ کو ویسے نہیں مانتے جیسے وہ مانتے ہیں، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ائمہ کو مانتے ہی نہیں۔
ائمہ کی اتباع اور نبی ﷺ سے نسبت
حنفی:
تو لوگ ائمہ کو کیسے مانتے ہیں؟
محمدی:
بالکل نبیوں کی طرح۔
حنفی:
نبیوں کی طرح کیسے مانتے ہیں؟
محمدی:
ان کی ایسی اتباع کرتے ہیں کہ ان کے نام پر فرقے بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ اتباع اور انتساب صرف نبی کریم ﷺ کا حق ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ عیسائی اور مرزائی، جو کہ کافر ہیں، وہ بھی اپنے نبی کی طرف نسبت کر کے "عیسائی” اور "احمدی” کہلاتے ہیں۔ اور آپ، جو مسلمان ہیں، اپنے نبی ﷺ کو چھوڑ کر امام کی طرف نسبت کرتے ہیں اور "حنفی” کہلاتے ہیں۔
تو کیا عیسائی اور مرزائی بہتر نہیں رہے جنہوں نے کم از کم نسبت تو اپنے نبی کی طرف رکھی؟
اہل حدیث اور حنفی: نسبت، تقلید اور اتباع پر تفصیلی مکالمہ
حنفی:
آپ چونکہ خود کو "حنفی” نہیں کہتے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو نہیں مانتے؟
محمدی:
اگر ہم خود کو حنفی نہیں کہتے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم امام ابو حنیفہؒ کو امام نہیں مانتے۔ ہم انہیں امام مانتے ہیں، لیکن نبی نہیں مانتے کہ اُن کے نام پر اپنی نسبت رکھیں اور خود کو "حنفی” کہلائیں۔
آپ ہی بتائیے، کیا آپ خود کو شافعیؒ کہتے ہیں؟ نہیں کہتے، لیکن کیا آپ امام شافعیؒ کو نہیں مانتے؟
حنفی:
ہم امام شافعیؒ کو ضرور مانتے ہیں، مگر چونکہ ہم حنفی ہیں، تو شافعی کہلانے کی ضرورت نہیں۔
محمدی:
بالکل اسی طرح، جب ہم خود کو محمدی یا اہل حدیث کہہ دیتے ہیں، تو ہمیں حنفی کہلانے کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے؟
محمدی نسبت کا جواز اور افضلیت
حنفی:
آپ اپنے آپ کو محمدی کیوں کہتے ہیں؟
محمدی:
جیسے آپ امام کے نام پر اپنی نسبت قائم کرتے ہوئے خود کو "حنفی” کہلاتے ہیں، اسی طرح ہم نبی ﷺ کے نام پر نسبت رکھتے ہوئے خود کو "محمدی” کہتے ہیں۔
آپ ہی انصاف سے بتائیے: نبی افضل ہیں یا امام؟
اور "محمدی” نسبت بہتر ہے یا "حنفی”؟
حنفی:
نسبت تو بلاشبہ "محمدی” بہتر ہے، لیکن "حنفی” ہونا بھی غلط نہیں۔
محمدی:
غلط کیوں نہیں؟ جب آپ کا اصل روحانی باپ رسول اللہ ﷺ ہیں، تو کسی اور کی طرف نسبت کرنا کس شریعت کا مسئلہ ہے؟
اگر کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے ہوتے ہوئے کسی اور کو باپ بنا لے تو یا تو وہ اپنے باپ کا نہیں یا وہ نافرمان اور گمراہ ہے جو خود کو غیر کی طرف منسوب کرتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"لا ترغبو عن آبائکم فمن رغب عن ابیہ فقد کفر”
(مشکوٰۃ شریف)
’’اپنے باپوں سے منہ نہ موڑو، جو شخص اپنے باپ سے منہ موڑے، وہ کافر ہے۔‘‘
اور دوسری حدیث میں فرمایا:
"من ادعی الی غیر ابیہ وھو یعلم فالجنۃ علیہ حرام”
(مشکوٰۃ شریف)
’’جو شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے، اس پر جنت حرام ہے۔‘‘
جب رسول اللہ ﷺ ہمارے دینی باپ ہیں، تو انہیں چھوڑ کر کسی اور کی طرف نسبت کرنا دین سے انحراف نہیں تو اور کیا ہے؟
حنفی کہلانے کی شرعی بنیاد؟
محمدی:
اب آپ بتائیں، کیا حنفی بننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے؟
یا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے؟
یا خود امام ابو حنیفہؒ نے ایسا کہا ہے؟
حنفی:
نہیں، کسی نے ایسا نہیں کہا۔
محمدی:
جب نہ اللہ تعالیٰ نے کہا، نہ رسول ﷺ نے حکم دیا اور نہ امام ابو حنیفہؒ نے دعوت دی، تو پھر یہ نسبت (حنفی کہلانا) کس بنیاد پر درست کہی جائے گی؟
جب اسلام میں "حنفیت” کی نہ کوئی قسم ہے، نہ اس کا کوئی دینی وجود ہے اور نہ آخرت میں اس کا کوئی فائدہ ہے، تو پھر "حنفی” نسبت غلط کیوں نہ کہی جائے؟
سلف میں نسبت اور دورِ حاضر کا فرق
حنفی:
تو پھر پہلے جتنے لوگ "حنفی” کہلاتے رہے، کیا وہ سب غلط تھے؟
محمدی:
نہیں، ماضی کے "حنفی” لوگ آج کل کی طرح نہ تھے۔
اس وقت نسبت اگر صرف علمی یا استادی شاگردی کے طور پر تھی، تو وہ غلط نہیں تھی۔
لیکن جب یہ نسبت مذہبی اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہو، تو یہی نسبت گمراہی بن جاتی ہے۔
فرقہ پرستی کی نسبت: اہل حدیث بمقابلہ حنفی
حنفی:
اگر آپ کہتے ہیں کہ "حنفی” کہلانا فرقہ پرستی ہے، تو پھر "اہل حدیث” کہلانا بھی تو فرقہ پرستی ہے؟
محمدی:
نہیں، "اہل حدیث” کوئی فرقہ نہیں ہے۔
"اہل حدیث” تو اصل میں عین اسلام ہے، کیونکہ اسلام کا مطلب نبی اکرم ﷺ کی پیروی ہے، اور نبی ﷺ کی پیروی صرف اُس وقت ممکن ہے جب اُس کی حدیث پر عمل کیا جائے۔
لہٰذا، "اہل حدیث” بنے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔
"اہل حدیث” نام کی شرعی حیثیت
حنفی:
کیا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے "اہل حدیث” بننے کا حکم دیا ہے؟
محمدی:
اگر آپ یہی سوال کر رہے ہیں، تو میں آپ سے بھی پوچھتا ہوں: کیا قرآن و حدیث میں "اہلسنت” بننے کا حکم آیا ہے؟
آپ تو خود کو "اہلسنت” کہتے ہیں۔
حنفی:
کیا قرآن و حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کا حکم نہیں ہے؟
محمدی:
جی ہاں، پیروی کا حکم تو ہے، مگر "اہلسنت” نام اپنانے کا کوئی حکم موجود نہیں۔
حنفی:
لیکن سنت کی پیروی ہی تو پیروی کہلاتی ہے اور یہی اہلسنت ہونا ہے۔
محمدی:
صحیح، مگر یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کون سی سنت رسول ﷺ کی ہے؟
حنفی:
یہ بات تو صرف حدیث سے ہی معلوم ہو سکتی ہے۔
محمدی:
تو پھر "اہل حدیث” کے بغیر "اہلسنت” ہونا ممکن کیسے ہے؟
جیسے سنت کے بغیر اسلام کا وجود نہیں، ویسے ہی حدیث کے بغیر سنت کا تعین ممکن نہیں۔
اسی لیے ہم لوگ عملی طور پر "اہلسنت” ہیں اور مذہباً "اہل حدیث”۔
اگر ہم "اہل حدیث” نہ ہوتے، تو آپ جیسے ہوتے جن کا دعویٰ تو "اہلسنت” ہونے کا ہے، مگر عمل اہل بدعت والا ہے۔
دعویٰ اہلسنت کا، عمل بدعت کا
آپ خود ہی دیکھیں:
- دعویٰ کرتے ہیں کہ "اہلسنت” ہیں، مگر اماموں کی تقلید کرتے ہیں۔
- کہتے ہیں "اہلسنت” ہیں، مگر عید میلاد النبی مناتے ہیں۔
- "مولود” پڑھتے ہیں، "ختم” اور "گیارھویں” کرتے ہیں۔
- "قل”، "تیجا”، "چالیسواں” جیسے اعمال انجام دیتے ہیں۔
یہ تمام بدعتی اعمال ہیں، جو رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے کسی صورت ثابت نہیں۔
تو بتائیے، جو شخص ایسے اعمال کرے جو حدیث سے ثابت ہی نہ ہوں، وہ "اہلسنت” کیسے ہو سکتا ہے؟
اہل حدیث کیوں؟ مسلم، حنفی، اور دیگر نسبتوں پر تفصیلی گفتگو
حنفی:
اللہ تعالیٰ نے تو قرآن مجید میں مسلمانوں کا نام "مسلم” رکھا ہے، تو آپ لوگ خود کو "اہل حدیث” کیوں کہلواتے ہیں؟
محمدی:
"مسلم” ہمارا ذاتی اور بنیادی نام ہے، بالکل ویسا ہی جیسے بچے کی پیدائش پر اس کا ذاتی نام رکھا جاتا ہے۔ جبکہ "اہل حدیث” ایک وصفی نام ہے جو ہمارے طرزِ عمل اور طریقِ کار کو ظاہر کرتا ہے۔
انسان کے کئی نام اس کے پیشے، اوصاف اور مشاغل کی بنیاد پر رکھے جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ شرعاً ممنوع ہے، نہ عرفاً ناپسندیدہ۔
رسول اللہ ﷺ کے "محمد” اور "احمد” ذاتی نام تھے، جبکہ "حاشر”، "عاقب”، "شافع” وغیرہ وصفی نام تھے جو آپ ﷺ کی صفات اور کردار کو ظاہر کرتے تھے۔
قرآن مجید نے بھی عیسائیوں کو ان کے کتابی وصف کی بنیاد پر "اہل انجیل” کہا:
وَلْيَحْكُم أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فِيهِ
(المائدہ: 47)
’’اور اہل انجیل اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے۔‘‘
اسی طرح حدیث میں ہے:
فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ
’’اے اہل قرآن! وتر ادا کرو۔‘‘
کیا "اہل حدیث” کا نام رسول اللہ ﷺ کے دور میں تھا؟
حنفی:
لیکن حضور اکرم ﷺ کے دور میں تو یہ نام مسلمانوں کا نہیں تھا۔
محمدی:
کیوں نہیں تھا؟ اگرچہ یہ نام اُس دور میں مشہور نہ ہوا ہو، لیکن نام تو موجود تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ اگر کوئی لقب یا وصفی نام غلط یا برا نہ ہو تو اس کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں، چاہے وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں معروف نہ ہو۔
اس کا مقصد تفریق نہیں بلکہ وضاحت اور امتیاز ہوتا ہے۔
"اہل سنت”، "اہل حدیث”، "محمدی” وغیرہ جیسے نام اس وقت مشہور نہیں تھے کیونکہ ان کی ضرورت ہی نہ تھی۔
اس وقت سب مسلمان تھے، سب کا طرزِ عمل اور منہج ایک تھا۔ کوئی فرقہ نہیں تھا۔
جب بعد میں فرقہ واریت کا آغاز ہوا، تو امتیازی ناموں کی ضرورت پیش آئی:
- جب شیعہ فرقہ نمودار ہوا تو اہل سنت والجماعت کا نام سامنے آیا۔
- جب تقلیدِ ائمہ کا رجحان بڑھا تو اہل حدیث کا نام متعارف ہوا۔
یہ نام اتباعِ رسول ﷺ اور تعلق بالرسول کو ظاہر کرتے ہیں، اس لیے یہ برے یا ناجائز نہیں۔
کیا حنفی کہلانا بھی وصفی نام کے تحت درست ہے؟
حنفی:
اگر وصفی یا لقبی نام رکھنا بدعت نہیں، تو پھر "حنفی” کہلانے میں کیا حرج ہے؟
محمدی:
بہت بڑا حرج ہے۔ اگر ایک شخص "حنفی” کہلائے گا تو دوسرا "شافعی”، تیسرا "مالکی” اور چوتھا "حنبلی” کہلائے گا۔
یوں دینِ اسلام میں فرقے اور تقسیم جنم لے گی۔
جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں "مسلم” کہا ہے، تو کوئی وصفی یا لقبی نام ایسا ہونا چاہیے جو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ ہو، اسلام کو واضح کرے، نہ کہ تقسیم کرے۔
"حنفیت” اسلام کی کوئی قسم یا شاخ نہیں، نہ اس سے اسلام کی وضاحت ہوتی ہے۔ بلکہ اس سے:
- دین کی تقسیم ہوتی ہے۔
- فرقہ پرستی جنم لیتی ہے۔
- دین میں ٹکڑوں کا تصور پیدا ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ "حنفی”، "شافعی” وغیرہ جیسے نام دین میں تفریق اور اس کی بنیاد پر تباہی کا ذریعہ ہیں۔
اسلام کے مترادف نام صرف یہی ہو سکتے ہیں:
- محمدی
- اہل سنت
- اہل حدیث
ان تینوں میں بھی "اہل حدیث” سب سے جامع نام ہے، کیونکہ:
- محمدیت اور سنتِ رسول ﷺ کی جانچ اور تصدیق صرف حدیث سے ہوتی ہے۔
- حدیث ہی وہ ذریعہ ہے جو قرآن کی تفصیل اور نبی ﷺ کی سنت کو واضح کرتا ہے۔
یہی حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ:
دیوبندی، بریلوی وغیرہ کا "اہل سنت” ہونے کا دعویٰ درست نہیں کیونکہ ان کے اعمال سنت کے مطابق نہیں۔
اہل حدیث کا مفہوم اور جامعیت
"اہل حدیث” کا نام اس لیے بھی زیادہ جامع ہے کہ "حدیث” کا اطلاق قرآن پر بھی ہوتا ہے۔
لہٰذا "اہل حدیث” وہ جماعت ہے جو:
- قرآن پر بھی عمل کرتی ہے۔
- حدیث پر بھی عمل کرتی ہے۔
جبکہ "حنفیت” کی نسبت:
- قرآن و حدیث سے ہٹ کر صرف فقہ حنفی تک محدود رہ جاتی ہے۔
- جو کہ ایک نقصان دہ اور محدود دائرہ ہے۔
صرف ماننے سے نسبت ثابت نہیں ہوتی
حنفی:
ہم حدیث کو تو مانتے ہیں۔
محمدی:
آپ صرف مانتے ہیں، عمل نہیں کرتے۔
اگر عمل کرتے تو آپ "اہل حدیث” ہی کہلاتے۔
دیکھیے، انسان بہت سے لوگوں کو مانتا ہے، مگر نسبت صرف اسی کی طرف کرتا ہے جس سے اس کا زیادہ تعلق ہو۔
مثال کے طور پر:
- مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں، مگر عیسائی نہیں کہلاتے، کیونکہ وہ حضرت عیسیٰؑ کی شریعت پر عمل نہیں کرتے۔
- مرزائی بھی کہتے ہیں کہ وہ محمد ﷺ کو مانتے ہیں، لیکن وہ احمدی کہلاتے ہیں کیونکہ ان کا اصل تعلق مرزا غلام احمد سے ہے، نہ کہ نبی اکرم ﷺ سے۔
آپ بھی:
- حدیث کو مانتے ہیں۔
- امام شافعیؒ کو بھی مانتے ہیں۔
لیکن:
- نہ "اہل حدیث” کہلاتے ہیں۔
- نہ "شافعی”۔
کیوں؟ کیونکہ آپ کا اصل تعلق فقہ حنفی سے ہے، نہ کہ حدیث یا امام شافعی سے۔
جبکہ ہم:
- اماموں کو بھی مانتے ہیں۔
- مگر ہم خود کو صرف محمد ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں کیونکہ ہم ان ہی کی پیروی کرتے ہیں۔
اسی لیے:
- نہ ہم شافعی کہلاتے ہیں۔
- نہ حنفی۔
صرف مان لینا کافی نہیں، اصل ہے پیروی
حنفی:
حضور ﷺ کو تو سب ہی مانتے ہیں۔
محمدی:
جی ہاں، لیکن صرف ماننا کافی نہیں۔
اصل چیز ہے پیروی کرنا۔
اگر واقعی پیروی کی جائے، تو پھر:
- "حنفی” یا "شافعی” کہلانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
- صرف محمدی یا اہل حدیث کہلانا ہی کافی اور صحیح رہتا ہے۔
امام کی ضرورت یا نبی ﷺ کی پیروی؟ حنفی و محمدی مکالمہ میں مکمل وضاحت
حنفی:
کیا آپ کے نزدیک حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی امام نہیں؟
محمدی:
کیا حضور ﷺ کے بعد کسی امام کی ضرورت باقی رہتی ہے؟
متجدد مسائل کا حل: امام یا نبی ﷺ؟
حنفی:
زندگی مسلسل حرکت میں ہے، ہر دن نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ان کا حل آخر کس سے لیا جائے گا؟
محمدی:
ان کا حل حضور نبی کریم ﷺ سے لیا جائے۔
حنفی:
لیکن آپ ﷺ اب دنیا میں موجود نہیں، تو ان سے مسائل کیسے لیے جا سکتے ہیں؟
محمدی:
کیا آپ نبی ﷺ کی حیات کے قائل نہیں؟
حنفی:
جی ہاں، میں حیات النبی ﷺ کا قائل ہوں۔
محمدی:
جب آپ نبی ﷺ کی حیات کے قائل ہیں تو پھر کسی اور امام کی کیا ضرورت؟ جو کچھ درکار ہو، وہ نبی ﷺ سے ہی لیا جائے۔
حنفی:
مگر اب وہ کیا عطا فرماتے ہیں؟
محمدی:
اگر نبی ﷺ اب کچھ نہیں دیتے تو پھر "حیات النبی ﷺ” کا کیا مطلب؟ اور اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے؟
حنفی:
حیات النبی ﷺ سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ سلام سنتے ہیں۔
محمدی:
تو کیا نبی ﷺ صرف سلام سننے کے لیے زندہ ہیں؟ یہ کیسی حیات ہے کہ ان کے عاشق ان کے سامنے شرک و بدعت میں مبتلا ہوں، وہ سب کچھ دیکھیں اور خاموش رہیں، صرف سلام سنتے رہیں؟
کیا نبی ﷺ دنیا میں صرف سلام سننے کے لیے آئے تھے یا شرک و بدعت کے خاتمے اور دین سکھانے کے لیے تشریف لائے تھے؟
حنفی:
آپ ﷺ تو دین سکھا کر جا چکے ہیں، اب مزید کچھ سکھانے کی ضرورت نہیں۔
محمدی:
اگر آپ کا یہ ماننا ہے کہ آپ ﷺ دین سکھا کر جا چکے، تو پھر امام کی کیا ضرورت باقی رہ گئی؟
جدید مسائل کے حل میں امام کی حیثیت؟
حنفی:
زندگی میں نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کے حل کے لیے امام کا ہونا ضروری ہے۔
محمدی:
تو بتائیے، آج کل آپ کا امام کون ہے؟ جو ان نئے مسائل کا حل پیش کرتا ہے؟
حنفی:
ہمارے امام تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔
محمدی:
وہ کب پیدا ہوئے؟
حنفی:
80 ہجری میں۔ یعنی حضور اکرم ﷺ کے وصال کے تقریباً 70 سال بعد۔
محمدی:
کیا آپ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں بھی "حیات الامام” کا عقیدہ ہے، جیسا کہ آپ نبی ﷺ کے بارے میں رکھتے ہیں؟
حنفی:
نہیں، امام صاحب تو وفات پا چکے ہیں۔
محمدی:
ان کی وفات کو کتنا عرصہ گزر چکا ہے؟
حنفی:
تقریباً ساڑھے بارہ سو سال۔
محمدی:
اب غور کریں!
آپ نبی ﷺ کو "حی” (زندہ) مانتے ہیں، اور امام کو "فوت شدہ”۔
دونوں کے وصال میں زیادہ فاصلہ بھی نہیں، پھر یہ کیسی منطق ہے کہ:
- امام کی فقہ تو آج کے جدید مسائل حل کرے
- اور نبی ﷺ کی تعلیمات فیل ہو جائیں، اور وہ کام نہ آ سکیں؟
امام ابو حنیفہؒ کی فقہ اور نبی ﷺ کا دین
حنفی:
امام صاحب نے اپنی زندگی میں اصول دین کی روشنی میں فقہ کی ایسی تدوین کی کہ لاکھوں مسائل ایک جگہ جمع کر دیے، جو قیامت تک کے لیے کافی ہیں۔
محمدی:
تو کیا یہ کام نبی ﷺ انجام نہیں دے سکے؟
کیوں نبی کریم ﷺ نے ایسا نظام پیش نہیں کیا جو قیامت تک کام دیتا؟
آخر کیا وجہ ہے کہ:
- نبی ﷺ کا پیش کردہ دین صرف ابتدائی سو سال میں ناکام ہو گیا اور
- امام ابو حنیفہؒ نے ایسا نظام پیش کیا جو ساڑھے بارہ سو سال سے کامیاب چل رہا ہے؟
اگر واقعی امام صاحب کا کام اتنا اعلیٰ و ارفع ہے کہ:
- آج تک ان کی فقہ ہی چل رہی ہے
- آج تک ان کے بعد کسی نئے نبی یا امام کی ضرورت پیش نہیں آئی
تو پھر کیوں نہ امام ابو حنیفہؒ کو نبی ہی بنا دیا جاتا؟
اس طرح:
- محمدی، حنفی کا جھگڑا ختم ہو جاتا
- شافعی، مالکی، حنبلی جیسے اختلافات نہ ہوتے
- سب مسلمان "حنفی” کہلاتے اور دین میں وحدت پیدا ہو جاتی
تضاد: عقیدہ حیات النبی ﷺ، مگر تقلید امام کی
اب عجیب تضاد ملاحظہ کیجیے:
- عقیدہ حیات النبی ﷺ مانتے ہیں
- مسائل حل کرتے ہیں امام صاحب سے
- کلمہ پڑھتے ہیں: "محمد رسول اللہ”
- عمل کرتے ہیں: امام ابو حنیفہؒ کی پیروی پر
یہ دوہرا معیار قابلِ غور ہے۔
اگر نبی ﷺ ہی اصل رہنما اور زندہ ہیں تو پیروی انہی کی کی جائے، نہ کہ کسی دوسرے امام کی۔
حیات النبی ﷺ: عقیدہ، عمل اور تقلیدِ امام پر مدلل مکالمہ
حنفی:
آپ لوگ نبی کریم ﷺ کی حیات کے قائل کیوں نہیں ہیں؟
محمدی:
اگر واقعی حضور نبی اکرم ﷺ دنیا میں زندہ ہوتے، تو ہم ضرور حیات النبی ﷺ کے قائل ہوتے۔
اگر اس عقیدے کا کوئی عملی فائدہ ہوتا، تو ہم ضرور اس کے قائل ہوتے۔
مگر جب آپ خود "حنفی” بن گئے تو پھر حیات النبی ﷺ کا عقیدہ کہاں گیا؟
سچ تو یہ ہے کہ آپ لوگ صرف زبانی طور پر حیات النبی ﷺ کے قائل ہیں، دل و عقل سے اس کو صحیح نہیں سمجھتے۔
اگر آپ واقعی حیات النبی ﷺ کو دل سے مانتے ہوتے تو کبھی بھی کسی امام کی پیروی نہ کرتے۔
آپ کا رسول اللہ ﷺ کے بعد "حنفی” بن جانا ہی واضح دلیل ہے کہ آپ نبی اکرم ﷺ کو زندہ نہیں سمجھتے۔
کیونکہ کوئی مسلمان یہ گستاخی نہیں کر سکتا کہ نبی ﷺ کی زندگی میں کسی اور کو امام یا پیر بنائے۔
آپ اگر امام اور پیر کو تھامے ہوئے ہیں، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ:
- یا تو آپ نبی ﷺ کو زندہ نہیں مانتے
- یا ان کو کافی نہیں سمجھتے
اہل حدیث کا عقیدہ: برزخی حیات
حنفی:
تو آپ لوگ نبی اکرم ﷺ کی حیات کے بالکل بھی قائل نہیں؟
محمدی:
ہم نبی اکرم ﷺ کی برزخی حیات کے قائل ہیں، دنیاوی حیات کے نہیں۔
حنفی:
اس کا کیا مطلب ہے؟
محمدی:
اس کا مطلب یہ ہے کہ:
- نبی کریم ﷺ دنیا میں خود زندہ نہیں
- بلکہ آپ ﷺ برزخ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زندہ ہیں
- دنیا میں آپ کی نبوت، دین اور تعلیمات زندہ ہیں
دین حاصل کرنا: نبی ﷺ یا امام؟
حنفی:
اگر حضور ﷺ دنیا میں زندہ نہیں تو لوگ ان سے دین کیسے لیتے ہیں؟
محمدی:
جس امام کو آپ نے تھاما ہوا ہے، وہ کیا آج دنیا میں زندہ ہے؟
حنفی:
نہیں، وہ بھی وفات پا چکے ہیں۔
محمدی:
پھر آپ اس امام سے مسائل کیسے لیتے ہیں؟
حنفی:
ان کی کتابیں موجود ہیں، انہی سے ہم مسائل لیتے ہیں۔
محمدی:
تو کیا نبی اکرم ﷺ کی احادیث موجود نہیں ہیں؟
حدیث اور فقہ کی تدوین: حقیقت اور فرق
حنفی:
فرق یہ ہے کہ اماموں نے اپنی کتابیں خود لکھی ہیں، جبکہ حدیث تو نبی ﷺ نے خود نہیں لکھی، بلکہ لوگوں نے بعد میں جمع کی۔
محمدی:
تو جس فقہ حنفی کو آپ مانتے ہیں، وہ امام صاحب نے خود نہیں لکھی۔
وہ بھی بعد والوں نے بغیر سند کے مرتب کی ہے۔
تو جیسے فقہ آپ تک پہنچ گئی، حدیث بھی ہم تک پہنچ گئی۔
آپ جیسے امام ابو حنیفہؒ کی جمع کردہ فقہ کو "فقہ حنفی” کہتے ہیں،
ہم کہیں زیادہ یقین اور سند کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کی احادیث کو "حدیثِ رسول ﷺ" کہتے ہیں۔
اللہ کی حفاظت: حدیث یا فقہ؟
محمدی:
مزید فرق یہ ہے کہ:
- حدیث دین ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے
- کسی امام کی فقہ دین نہیں، اس لیے اللہ اس کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں
حنفی:
اللہ فقہ کا ذمہ دار کیوں نہیں؟
محمدی:
کیونکہ:
- فقہ انسانوں کی رائے پر مبنی ہوتی ہے
- اور رائے درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی
فقہ وحی نہیں ہے کہ ہر صورت صحیح ہی ہو۔
اسی لیے ہر امام کی الگ الگ فقہ ہے:
- فقہ بدلتی رہتی ہے
- حدیث نہیں بدلتی
حدیث اور فقہ کا بنیادی فرق
- حدیث رسول اللہ ﷺ کی ہے، سب کے لیے ایک ہے
- فقہ مختلف ائمہ کی آراء پر مشتمل ہے، ہر ایک کی الگ ہے
لہٰذا:
- حدیث دین ہے، فقہ دین نہیں
- اسی لیے اللہ تعالیٰ حدیث کی حفاظت کا ضامن ہے، فقہ کا نہیں
فقہ اور حدیث: فرق، اختلافات اور فہم پر تفصیلی مکالمہ
حنفی:
کیا واقعی فقہ حنفی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خود نہیں لکھی؟
محمدی:
جی ہاں، آپ کسی بھی عالمِ دین سے اس بات کی تحقیق کر لیں۔
اگر کوئی ثابت کر دے کہ فقہ حنفی امام صاحب نے خود قلم بند کی ہے تو ہم بھی تسلیم کر لیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی کو امام صاحب کے بعد ان کے تلامذہ نے مرتب کیا، خود امام صاحب نے یہ کتابی صورت میں نہیں لکھی۔
فہمِ حدیث اور فقہ: کیا صرف امام ہی حدیث سمجھ سکتے ہیں؟
حنفی:
مان لیا کہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی ہے، لیکن حدیث کو ہر کوئی سمجھ نہیں سکتا۔
محمدی:
کیا فقہ کو ہر کوئی سمجھ لیتا ہے؟
حنفی:
فقہ تو بہت آسان ہے۔
محمدی:
کیا یہ علم بغیر پڑھے خود آ جاتا ہے؟
حنفی:
نہیں، اسے پڑھنا پڑتا ہے۔
محمدی:
تو کیا حدیث بھی پڑھنے سے سمجھ نہیں آتی؟
حنفی:
آ تو جاتی ہے، لیکن اس کا سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ حدیثوں میں اختلاف بہت ہے۔ اس لیے حدیث کا سمجھنا تو صرف امام کا کام ہے۔
حدیث میں اختلاف یا فقہ میں؟
محمدی:
یہ سب دشمنانِ رسول ﷺ کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں کہ حدیثوں میں اختلاف ہے۔
حقیقت میں اختلاف حدیث میں نہیں، فقہ میں ہے۔
- حدیث رسول ﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات کا نام ہے
- جبکہ فقہ انسانی اقوال اور آراء کا مجموعہ ہے
چونکہ حدیث دین ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، اس لیے اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔
فقہ چونکہ انسانوں کی رائے اور قیاس پر مبنی ہے، اس لیے اس میں اختلاف ہونا لازمی ہے۔
فقہ حنفی میں اختلافات: واضح مثالیں
حنفی:
کیا واقعی فقہ میں اتنا اختلاف ہے؟
محمدی:
جی ہاں، فقہ حنفی میں تو اتنا اختلاف ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔
فقہ حنفی کے تین بڑے امام ہیں:
- امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
- امام ابو یوسف رحمہ اللہ
- امام محمد رحمہ اللہ
ان تینوں اماموں کے درمیان دو تہائی مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب محول میں ذکر کیا ہے۔
مثال نمبر 1:
نماز کے فرائض:
- امام ابو حنیفہؒ: 7 فرض
- صاحبین (امام ابو یوسف و امام محمد): 6 فرض
- نتیجہ: اگر التحیات میں وضو ٹوٹ جائے تو امام صاحب کے نزدیک نماز نہیں ہوتی، صاحبین کے نزدیک ہو جاتی ہے
(ہدایہ صفحہ 110)
مثال نمبر 2:
شوہر لاپتہ ہو جائے تو عورت کا کیا حکم ہوگا؟
- امام ابو حنیفہؒ: 120 سال تک انتظار
- بعض علماء: جتنی عمر کے لوگ فوت ہو جائیں تب تک
- بعض اقوال: 90 سال
(ہدایہ صفحہ 206)
ایک حنفی عورت ایسی صورت میں کہاں جائے؟ کس بات پر عمل کرے؟
مثال نمبر 3:
عصر کا وقت کب ہوتا ہے؟
- امام ابو حنیفہؒ: جب دو مثل سایہ ہو
- صاحبین: جب ایک مثل سایہ ہو
(ہدایہ صفحہ 46)
مثال نمبر 4:
جمعہ کے قیام کے لیے کتنے افراد ضروری ہیں؟
- امام ابو حنیفہؒ: چار افراد
- صاحبین: تین افراد
(ہدایہ صفحہ 149)
مثال نمبر 5:
مستعمل پانی (استعمال شدہ پانی)
- کوئی اسے پاک کہتا ہے
- کوئی پلید
- اس پر بھی اختلاف کہ کم استعمال شدہ پاک ہے یا زیادہ، کم ناپاک ہے یا زیادہ؟
خلاصہ:
- حدیث رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر مبنی ہے، اس میں اختلاف نہیں
- فقہ انسانی آراء کا مجموعہ ہے، اس میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے
- حدیث دین ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ہے
- فقہ دین نہیں، اس لیے اس کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں
اختلافِ فقہ، تقلیدِ امام اور وحدتِ دین: ایک مفصل مکالمہ
حنفی:
یہ تو آپ نے فقہ میں اختلافات کی بات کی، مگر یہ تو علماء کی آراء میں فرق ہوگا۔
آخر امام صاحب کا فیصلہ کیا ہے؟
محمدی:
بات یہ ہے کہ اختلاف صرف علماء کا نہیں، بلکہ خود امام ابو حنیفہؒ کے اقوال میں بھی ہے۔
ذرا ملاحظہ کیجیے:
امام ابو حنیفہؒ کے مختلف اقوال کی مثالیں
📌 استعمال شدہ پانی (مستعمل ماء)
- امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے:
"مستعمل پانی خود تو پاک ہے، مگر دوسری چیز کو پاک نہیں کر سکتا” - دوسرا قول امام ابو حنیفہؒ کا یہ نقل کیا گیا ہے:
"مستعمل پانی پلید ہے” - امام حسنؒ کی روایت ہے:
"یہ پانی نجاستِ غلیظہ ہے” - ابو یوسفؒ کی روایت ہے:
"یہ پانی نجاستِ خفیفہ ہے”
(حوالہ: ہدایہ صفحہ 22)
📌 گھوڑے کے جوٹھے کا حکم
منیۃ المصلی میں امام ابو حنیفہؒ سے چار مختلف روایتیں منقول ہیں:
- نجس
- مشکوک
- مکروہ
- پاک
اب بتائیں، حنفی مقلد کس قول پر عمل کرے؟
کس کو صحیح سمجھے؟ کہاں جائے؟
فقہی اختلافات، اور حدیث سے گریز کا غیرمنطقی خوف
محمدی:
حنفی مولوی حدیث سے لوگوں کو متنفر کرتے ہیں، اس بہانے سے کہ:
"حدیثوں میں اختلاف ہے!”
لیکن خود فقہ میں کتنا اختلاف ہے، یہ دکھاتے نہیں۔
یہ لوگ اس شخص کی مثال ہیں:
فَرَّ مِنَ الْمَطَرِ وَقَامَ تَحْتَ الْمِيزَابِ
"بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہوا”
- حدیث چھوڑ دی اختلاف کے ڈر سے
- اور جا کر فقہی اختلافات کی دلدل میں پھنس گئے
جبکہ حقیقت یہ ہے:
- حدیث رسول ﷺ میں کوئی اختلاف نہیں
- اختلاف صرف فقہی آراء میں ہے
اہلِ حدیث اور تقلید کا اصول
حنفی:
آپ لوگ ہماری طرح کسی ایک امام کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟
محمدی:
ہم اس لیے کسی ایک امام کو نہیں پکڑتے کیونکہ:
➊ نبی ﷺ کے بعد کسی کو پکڑنے کی ضرورت نہیں
- رسول اللہ ﷺ ہمارے امام ہیں
- آپ ﷺ کے بعد کسی کی پیروی فرض یا لازم نہیں
➋ نبی ﷺ کے بعد کوئی معصوم نہیں
- ہر انسان سے غلطی ہو سکتی ہے
- اگر ہم کسی غیر معصوم امام کو پکڑیں گے اور وہ غلطی کرے گا، تو:
- وہ تو اپنی اجتہادی غلطی پر بخشا جا سکتا ہے
- مگر ہم جان بوجھ کر اندھی تقلید کرنے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے
➌ نبی ﷺ کے بعد کوئی کامل شخصیت نہیں
آپ جیسے "حنفی” بنے، تو عقائد کے لیے "ماتریدی” ہونا پڑا
پھر تصوف کے لیے کبھی:
- قادری
- چشتی
- سہروردی
- نقشبندی
یعنی:
- دین مکمل لینے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں
- کوئی ایک امام، پیربا، یا صوفی ایسا نہیں جو تمام دین کا جامع ہو
➍ ایک کو پکڑنے سے باقیوں کا انکار لازم آتا ہے
- جب آپ صرف امام ابو حنیفہؒ کو مانتے ہیں تو باقی ائمہ:
- امام شافعیؒ
- امام مالکؒ
- امام احمد بن حنبلؒ
- ان سب کا غیر ارادی رد کرتے ہیں
- اس سے فرقے بنتے ہیں
- دین تقسیم ہوتا ہے
- ایک دین کے چار ٹکڑے اسی وجہ سے ہوئے ہیں
قرآن کی واضح ہدایت: فرقہ بندی سے بچو
وَلَا تَفَرَّقُوا
"فرقے فرقے نہ بنو”
(آلِ عمران: 103)
وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا
"اور ان مشرکوں جیسے نہ بنو جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے ہو گئے”
(الروم: 31-32)
لہٰذا:
- نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی ایک کو پکڑنا
- دین میں فرقہ بندی پیدا کرنا
- اور اس بنیاد پر باقیوں کا انکار کرنا
- قرآن کے خلاف ہے اور شرک کے قریب لے جاتا ہے
اہل حدیث، اہل سنت اور حنفیت: نسبت، فرقہ، اور اصل دین پر مفصل مکالمہ
حنفی:
آپ لوگوں کا فرقہ کب سے قائم ہوا؟
محمدی:
ہمارا کوئی فرقہ بنا ہی نہیں۔
فرقہ تو وہ ہوتا ہے جو اصل دین سے کٹ جائے۔ فرقہ وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی ایک شخص کو امام بنائے، اس کی تقلید کرے، اور پھر اپنی نسبت اسی کے نام پر قائم کرے۔
جبکہ ہم:
- نہ کسی امام کو نبی ﷺ کے بعد پکڑتے ہیں
- نہ کسی فقہ یا امام کے نام پر اپنی نسبت رکھتے ہیں
ہم وہی اصل اہلِ اسلام ہیں، یعنی اہلِ حدیث، جو:
- اسی وقت سے ہیں جب سے حدیث ہے
- اور حدیث اسی وقت سے ہے جب سے رسول اللہ ﷺ ہیں
ہم کوئی نیا فرقہ نہیں، بلکہ اصل دین ہیں۔ ہم فرقہ نہیں، بلکہ وہ جماعت ہیں جو نبی ﷺ کی سنت اور حدیث کو لے کر چل رہی ہے۔
اہل سنت اور اہل حدیث: کیا فرق ہے؟
حنفی:
پھر آپ ہماری طرح خود کو اہل سنت کیوں نہیں کہتے؟
محمدی:
آپ اہل سنت کہاں؟
آپ تو حنفی ہیں۔
اہل سنت تو ہم ہیں جو:
- نہ حنفی ہیں
- نہ شافعی
- نہ مالکی
- صرف اور صرف سنتِ رسول ﷺ پر قائم ہیں
حنفی:
لیکن آپ تو خود کو "اہل حدیث” کہتے ہیں!
محمدی:
اہل حدیث اور اہل سنت ایک ہی چیز ہیں۔
درحقیقت، "اہل سنت” کا اصل مفہوم اہل حدیث ہی ہے۔
فرق صرف نام کا ہے، حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں۔
اہل حدیث کہلانے کی وجہ
حنفی:
تو پھر آپ خود کو اہل حدیث کیوں کہتے ہیں؟
محمدی:
تاکہ حنفی اہل سنت اور اصلی اہل سنت میں فرق واضح ہو جائے۔
- اہل سنت وہ ہوتا ہے جو صرف سنتِ رسول ﷺ کا پابند ہو
- کسی امام کا مقلد نہ ہو
- اور جو سنت صرف ان احادیث کو سمجھے جو صحیح ہوں
- یعنی جس کے نزدیک سنت کا واحد معیار صحیح حدیث ہو
اسی لیے ہم اہل حدیث کہلاتے ہیں۔
جب:
- اسلام سنتِ رسول ﷺ کا نام ہے
- اور سنت صرف حدیث سے ہی معلوم ہوتی ہے
تو اہل سنت وہی ہو سکتا ہے جو اہل حدیث ہو۔
اہل سنت بغیر اہل حدیث کے ہو ہی نہیں سکتا۔
حنفی "اہل سنت” کیوں نہیں؟
محمدی:
آپ حنفی اہل سنت کہلاتے ہیں، لیکن درحقیقت:
- یہ "اہل سنت والجماعت” کی نسبت شیعہ کے مقابلے میں ہے
- یعنی صرف نسبتی انتساب ہے
- مگر عملی لحاظ سے آپ اہل سنت نہیں، بلکہ حنفی ہیں
کیونکہ:
- آپ امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کرتے ہیں
- اور اہل سنت کی تعریف میں کسی امام کی تقلید شامل نہیں
اہل سنت وہ ہوتا ہے:
- جو صرف سنت رسول ﷺ پر عمل کرے
حنفی وہ ہوتا ہے:
- جو امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کرے
- اور فقہ حنفی کو ہی دین سمجھے
اب اگر حنفی اور اہل سنت کو ایک ماننا ہے تو پہلے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ:
"سنت رسول ﷺ = فقہ حنفی”
اور یہ ممکن نہیں۔
جب سنت رسول ﷺ اور فقہ حنفی ایک جیسی نہیں ہو سکتیں
تو حنفی اور اہل سنت بھی ایک نہیں ہو سکتے۔
اہل سنت اور اہل حدیث میں فرق نہیں، مگر حنفی اور اہل سنت میں ہے
حنفی:
مجھے تو نہیں لگتا کہ اہل سنت اور حنفی میں کوئی خاص فرق ہے۔
محمدی:
فرق اہل حدیث اور اہل سنت میں تو نہیں،
کیونکہ:
- سنت بھی رسول اللہ ﷺ کی
- حدیث بھی رسول اللہ ﷺ کی
لیکن حنفی اور اہل سنت میں بہت فرق ہے۔
حنفیت: امتیوں کا نظام، اہل سنت: نبی ﷺ کا دین
محمدی:
حنفیت ایک امتی کی بنائی ہوئی فقہ ہے،
جبکہ سنت، نبی ﷺ کی تعلیمات ہیں۔
جیسے نبی اور امتی میں فرق ہے
ویسے ہی اہل سنت اور حنفی میں فرق ہے
حنفی اہل سنت وہ شخص ہے:
- جس کی قومیت تو اہل سنت ہے
- لیکن اس کا مسلکی خاندان حنفی ہے
- وہ نسبتاً اہل سنت ہے، عملی طور پر حنفی
یعنی:
- وہ پدرم سلطان بود کی بنیاد پر اہل سنت کہلاتا ہے
- لیکن خود سنت پر نہیں، بلکہ فقہ پر عمل کرتا ہے
مذہب، نسل نہیں بلکہ کسب ہے
محمدی:
مذہب کوئی نسلی چیز نہیں، کہ باپ حنفی تھا تو بیٹا بھی ہو گا۔
مذہب تو:
- کسب ہے
- پسند ہے
- عمل اور عقائد کا مجموعہ ہے
اہل سنت وہی ہو سکتا ہے جو:
- خود سنت رسول ﷺ پر چلے
- نہ کہ صرف اس لیے کہ اس کے آباء و اجداد اہل سنت تھے
جس نے بدعتیں اپنا لی ہوں،
حنفیت یا بریلویت کو اختیار کر لیا ہو،
وہ صرف نسبتاً اہل سنت ہو سکتا ہے،
حقیقتاً نہیں۔
مذہب کا تعلق عقیدہ و عمل سے ہے، نہ کہ نسل سے
محمدی:
اہل سنت کوئی قوم نہیں، بلکہ مذہب ہے۔
- قوم تو کبھی نہیں بدلتی
- مذہب عمل اور عقائد کی بنیاد پر بدلتا رہتا ہے
جو آپ عمل میں کرتے ہیں، وہی آپ کا مذہب ہے:
- اگر سنت رسول ﷺ پر عمل کرتے ہیں، تو آپ اہل سنت ہیں
- اگر کسی امام، پیر، فقیر، ولی کی پیروی کرتے ہیں، تو آپ کا مذہب وہی ہے
آج کے حنفی و بریلوی اگر اپنے آپ کو اہل سنت کہتے ہیں، تو یہ ویسا ہی ہے جیسے:
آج کے بہت سے لوگ خود کو "مسلمان” کہتے ہیں،
حالانکہ اسلام کی اصل حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں
وہ مسلمان قوم کا حصہ ہیں،
مگر عمل اور عقائد میں اسلام سے دور ہوتے ہیں
خالص اسلام: نہ کوئی ism، نہ کوئی فقہی رنگ
محمدی:
اسلام ایک خالص دودھ ہے:
- نہ اس میں ازموں کی پلید ملاوٹ برداشت ہے
- نہ ائمہ کی پاک آمیزش کی گنجائش
چاہے ملاوٹ:
- پاک ہو یا پلید
- امام کی ہو یا فلسفے کی
ملاوٹ ہوئی تو دین، خالص نہ رہا
اہل سنت وہی ہے جو:
- صرف اہل سنت ہو
- نہ حنفی، نہ بریلوی، نہ دیوبندی
جونہی آپ اہل سنت کے ساتھ کوئی اور نسبت جوڑتے ہیں:
"حنفی اہل سنت”، "بریلوی اہل سنت”
وہ اصل نہیں، ملاوٹی بن جاتا ہے
اور اللہ تعالیٰ:
"غیر اصلی کسی چیز کو قبول نہیں کرتا”
اہل سنت کون؟ عوامی عرف، بریلوی دعویٰ، اور حقیقتِ تقلید پر مفصل مکالمہ
حنفی:
آپ جو کچھ بھی کہیں، عوام تو حنفیوں، خاص طور پر بریلویوں کو ہی اہل سنت مانتے ہیں۔
محمدی:
عوام کو نہیں دیکھا جاتا۔
عوام تو قرآن کی زبان میں كَالْأَنْعَامِ (جانوروں جیسے) ہوتے ہیں۔
اصل اہمیت حقیقت کو ہوتی ہے — یہ دیکھا جائے کہ:
- حنفی اور بریلوی کی حقیقت کیا ہے؟
- اور اہل سنت کی اصل تعریف کیا ہے؟
اہل سنت اور بدعت کی حقیقت
محمدی:
اہل سنت وہ ہے:
- جو سنتِ رسول ﷺ کا پابند ہو
- اور بدعتوں سے بچنے والا ہو
جبکہ:
- حنفی اور بریلوی وہ ہیں جو فقہ حنفی اور بریلوی رسومات کے پابند ہیں
- اور یہ دونوں خود بدعتوں کا مجموعہ ہیں
اب جب کسی کا طرزِ عمل ہی بدعت پر مبنی ہو، تو وہ اہل سنت کیسے ہو سکتا ہے؟
عوامی عرف اور حقیقت میں فرق
محمدی:
عوام یا خود ساختہ دعوے اہل سنت ہونے کی دلیل نہیں۔
یہ صرف عرفاً کہلانے کی بات ہے، جو کہ حقیقت نہیں۔
مثلاً:
- عرفِ عام میں ہر کلمہ گو کو مسلمان کہہ دیا جاتا ہے
- ہر داڑھی والے کو مولوی، صوفی یا ولی سمجھا جاتا ہے
- مشرک ہو یا موحد، سنی ہو یا شیعہ — سب کو "مسلمان” سمجھ لیا جاتا ہے
یہی عرف مرزائیوں کو بھی "مسلمان” کہتا رہا ہے، حالانکہ ان کا کلمہ بھی وہی ہے جو عام مسلمان پڑھتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے:
کیا صرف کلمہ پڑھ لینے سے کوئی حقیقی مسلمان ہو جاتا ہے، چاہے اس کے عقائد کچھ بھی ہوں؟
اگر مرزائی کافر ہیں باوجود اس کے کہ ان کا کلمہ وہی ہے،
تو شرک و بدعت کرنے والا اہل سنت کیسے ہو سکتا ہے؟
شیعہ کے مقابلے میں "اہل سنت” کہلانا: ایک سیاسی عرف
محمدی:
بریلوی اور حنفی جب "اہل سنت” کہلاتے ہیں، تو یہ شیعہ کے مقابلے میں ایک نسبتی شناخت ہوتی ہے۔
- چونکہ بریلوی حضرات کی اکثریت ہے، اس لیے وہ عرف عام میں اہل سنت کہلاتے ہیں
- لیکن شیعہ کے اہل سنت کہنے سے کوئی اہل سنت نہیں ہو جاتا
جیسے:
- ہندو یا انگریز اگر مرزائی کو مسلمان کہیں، تو کیا وہ مسلمان ہو جائے گا؟
- نہیں! کیونکہ دین میں اصل چیز عرف نہیں بلکہ حقیقت ہے
بریلویوں کا اہل سنت ہونے کا دعویٰ
حنفی:
بریلوی صرف شیعہ کے کہنے سے اہل سنت نہیں کہلاتے، وہ خود بھی زبردست دعویدار ہیں۔
محمدی:
جی نہیں، وہ زبردست نہیں، زبردستی کے دعویدار ہیں۔
اگر کوئی رخ کرے بریلی کا، مگر قبلہ کہے کعبہ کو،
اور راستہ چلے کوفے کا، مگر دعویٰ کرے مدینہ کا —
تو اسے سچا کون کہے گا؟
صرف دعویٰ کر لینا کافی نہیں ہوتا۔
مرزائی بھی زور سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔
تو کیا وہ اپنے دعوے سے مسلمان ہو جاتے ہیں؟
اہل سنت ہونے کا دعویٰ: اہل حدیث کا موقف
حنفی:
آپ بھی تو صرف دعویٰ ہی کرتے ہیں کہ ہم اہل سنت ہیں۔
محمدی:
نہیں، ہمارا یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے:
- ہم صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں
- انہی کو امام، ہادی، اور مرشد مانتے ہیں
- اور کسی اور کی طرف اپنی نسبت نہیں کرتے
اگر ہم بھی:
- کسی ایک امام کی تقلید کرتے
- اور اپنی جماعت کا نام اسی کے نام پر رکھتے
تو ہم بھی اہل سنت نہ ہوتے بلکہ حنفی یا کچھ اور ہوتے۔
اہل حدیث کو "وہابی” کہنے کا معاملہ
حنفی:
آپ کو تو لوگ وہابی کہتے ہیں۔
محمدی:
ہم وہابی خود کو نہیں کہتے۔
یہ تو آپ جیسے لوگ ہمیں وہابی بناتے ہیں۔
حنفی:
ہمیں کیا ضرورت ہے آپ کو وہابی بنانے کی؟
محمدی:
تاکہ سب ایک ہی حمام میں ننگے ہوں،
سب ہی مقلد ہوں،
اور کوئی کسی کو تقلید پر طعنہ نہ دے سکے۔
تقلید: فخر یا طعنہ؟
حنفی:
مقلد ہونا بھی کوئی طعنہ ہے؟
محمدی:
جی ہاں، لیکن صرف اس شخص کے لیے جو سمجھتا ہو۔
حنفی:
کیسے طعنہ؟
محمدی:
کیونکہ "تقلید” کا مطلب ہے:
کسی کے پیچھے آنکھ بند کرکے چلنا
یہی تو:
- جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈالنے کے مترادف ہے
- یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے کبھی بھی تقلید کو انسان کے لیے استعمال نہیں کیا
قرآن و حدیث میں "تقلید” کا تصور صرف جانوروں کے لیے آتا ہے۔
تقلید، غیر مقلد، اور وہابی کے الزامات پر مفصل مکالمہ
حنفی:
کیا آپ واقعی کسی کی بھی تقلید نہیں کرتے؟
محمدی:
جی ہاں، ہم تقلید کسی کی بھی نہیں کرتے۔
کیونکہ تقلید جانوروں کے لیے ہے، انسانوں کے لیے نہیں۔
جب یہ عمل انسانی فطرت کے شایانِ شان ہی نہیں، تو ہم اسے کیوں اپنائیں؟
ہر کوئی تقلید کرتا ہے؟
حنفی:
سنا ہے تقلید کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ ہر کوئی کسی نہ کسی کی تقلید کرتا ہے، جیسے ماں باپ یا استاد کی۔
محمدی:
اگر ماں باپ یا استاد کی بات ماننے کو تقلید کہتے ہیں،
اور یہی تقلید ہے جس سے آپ ہمیں غیر مقلد کہتے ہیں،
تو پھر آپ کے امام بھی مقلد ہوئے، کیونکہ:
- امام ابو حنیفہؒ کے بھی ماں باپ تھے
- وہ بھی اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرتے تھے
مگر آپ کہتے ہیں کہ مجتہد مقلد نہیں ہوتا۔
یہ آپ کے علما کی "تلبیسِ ابلیس” ہے۔
کیونکہ جو تقلید محلِ نزاع ہے، وہ یہ نہیں کہ والدین یا استاد کا ادب کیا جائے،
بلکہ وہ ہے کہ:
"کسی کی بات بغیر دلیل کے ماننا اور اسے حتمی حجت سمجھنا”
نبی کریم ﷺ کی تقلید؟
حنفی:
تو کیا آپ لوگ نبی کریم ﷺ کی بھی تقلید نہیں کرتے؟
محمدی:
نہیں! نبی کریم ﷺ کی پیروی کرتے ہیں، تقلید نہیں۔
- تقلید کا مفہوم ہے: کسی ایسے کی بات ماننا جس کی بات پر شرعی دلیل نہ ہو
- جب کہ نبی ﷺ کا ہر قول و فعل شریعت کا حصہ ہے، دلیل ہی دلیل ہے
لہٰذا:
- نبی ﷺ کی بات ماننا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے
- تقلید سے اللہ ہر مومن کو بچائے، یہ تو ایک بڑی لعنت ہے
- کہ انسان اپنے گلے میں ایسے کا رسہ ڈالے:
- جو نہ جانے
- نہ پہچانے
- نہ کام آئے
- نہ قیامت میں سفارشی بنے
امام کو اپنا امام بنانے کی بنیاد؟
حنفی:
ہم اپنے امام کو نہیں جانتے؟
محمدی:
آپ کو یہ کس نے بتایا کہ:
"یہی تمہارا امام ہے”
"اسی کا رسہ گلے میں ڈالو”
"یہی تمہیں پار لگائے گا”
جب کہ:
- اللہ کا نبی ﷺ وہ ہے جسے اللہ نے امام مقرر کیا
- اسی کا کلمہ پڑھوایا
- اسی کی سنت کو قانون بنایا
- اسی کو شافع اور نجات دہندہ بنایا
لیکن آپ نے اس نبی کی اتباع چھوڑ دی اور گھر کے بنائے ہوئے امام کو تھام لیا،
جو قیامت کے دن:
- نہ پہچانے گا
- نہ پکڑوائے گا
- نہ چھڑوائے گا
آپ غیر مقلد ہیں تو لوگ آپ کو وہابی کیوں کہتے ہیں؟
حنفی:
جب آپ تقلید نہیں کرتے، تو پھر لوگ آپ کو "وہابی” کیوں کہتے ہیں؟
محمدی:
ہم خود کو وہابی نہیں کہتے۔
یہ تو آپ جیسے لوگ ہمیں وہابی بناتے ہیں۔
اور یہ خود تناقض (contradiction) ہے:
- اگر ہم غیر مقلد ہیں تو وہابی کیسے؟
- اور اگر ہم وہابی ہیں تو غیر مقلد کیسے؟
- دونوں باتیں ایک ساتھ سچ نہیں ہو سکتیں
الزامات: اہل بدعت کی روایت
محمدی:
یہ سب اہل بدعت کے حسد اور بغض کا نتیجہ ہے۔
اسی حسد میں وہ:
- ہمیں مختلف ناموں سے پکارتے ہیں
- چاہے ان ناموں سے ان کی اپنی جہالت ہی ظاہر ہو
یہی روش کفارِ مکہ کی بھی تھی،
جو نبی کریم ﷺ کو کہتے تھے:
- ساحر
- شاعر
- کاہن
- مجنون
- کذاب
- مفتری
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا﴾
(الفرقان: 9)
’’دیکھو، یہ لوگ تمہارے لیے کیسے الٹے سیدھے نام اور مثالیں گھڑتے ہیں، پس یہ گمراہ ہو گئے ہیں اور انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔‘‘
اہل حدیث پیر عبدالقادر جیلانیؒ کی نظر میں – غنیۃ الطالبین سے ناقابلِ تردید شہادت
اب اہل سنت اور اہل حدیث کے تعلق سے پیر کامل، قطب الاقطاب، امام الاولیاء حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی کتاب غنیۃ الطالبین کا واضح اور روشن بیان ملاحظہ ہو، جو اہل حدیث کے حق میں ایک زبردست شہادت ہے:
🌟 اصل اقتباس:
"اعلم ان لأهل البدعة علامات يعرفون بها، فعلامة أهل البدعة الوقيعة في أهل الأثر…”
(غنیۃ الطالبین، صفحہ 294)
ترجمہ:
"جان لو کہ بدعتیوں کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ اہلِ اثر (یعنی اہلِ حدیث) پر طعن و تشنیع کرتے ہیں، ان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ سب کچھ عصبیت اور بغض کی وجہ سے ہوتا ہے، جو ان کو اصل اہل سنت سے ہوتا ہے۔ اہل سنت کا صرف ایک ہی نام ہے اور وہ اہل حدیث ہے۔”
📌 پیر عبدالقادر جیلانیؒ کے بیان کی روشنی میں چند یقینی نتائج:
✅ 1. اہل حدیث پر طعن کرنے والے اہل سنت نہیں:
جو لوگ اہل حدیث کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کے لیے پیر عبدالقادر جیلانیؒ کا فیصلہ واضح ہے کہ وہ بدعتی ہیں، اور بدعتی اہل سنت نہیں ہو سکتے۔
✅ 2. وہابی، غیر مقلد کہنے والے بدعتی ہیں:
جو اہل حدیث کو کبھی "وہابی”، کبھی "غیر مقلد” جیسے الٹے سیدھے ناموں سے یاد کرتے ہیں، وہ بھی بدعتی ہیں، اور بدعتی کبھی اہل سنت نہیں ہو سکتے۔
✅ 3. اہل سنت صرف اہل حدیث ہیں:
پیر جیلانیؒ کی عبارت سے بالکل صاف ہو گیا کہ:
اہل سنت کا واحد اور حقیقی نام "اہل حدیث” ہے۔
باقی جو خود کو اہل سنت کہتے ہیں، وہ زبردستی کے دعویدار ہیں، حقیقت میں اہل سنت نہیں۔
✅ 4. شاہ عبدالقادر جیلانیؒ خود اہل حدیث تھے:
جب انہوں نے فرمایا کہ "اہل سنت صرف اہل حدیث ہوتے ہیں”، تو لازم ہے کہ وہ خود بھی اہل حدیث تھے۔
اور چونکہ وہ پیر کامل اور مسلم عندالکل تھے، لہٰذا:
✅ 5. اہل حدیث میں بڑے بڑے اولیاء گزرے ہیں:
شاہ عبدالقادر جیلانیؒ جیسے ولیٔ کامل کا اہل حدیث ہونا، اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اہل حدیثوں میں بڑے بڑے اولیاء کرام گزرے ہیں۔
✅ 6. اہل حدیث ولی نہیں ہوتے؟ جھوٹا اعتراض:
یہ کہنا کہ اہل حدیث میں کوئی ولی نہیں ہوا، بے بنیاد اور لاعلمی پر مبنی دعویٰ ہے۔
پیر عبدالقادر جیلانیؒ کا وجود ہی اس باطل اعتراض کا دو ٹوک رد ہے۔
✅ 7. ولی بننے کے لیے اہل حدیث ہونا شرط ہے:
جب اہل حدیث ہی ناجی فرقہ (نجات پانے والی جماعت) ہے، اور ولی کا ناجی ہونا شرط ہے، تو ثابت ہوا کہ ولی صرف اہل حدیث ہو سکتا ہے۔
✅ 8. تمام اولیاء، اہل حدیث تھے:
جب ولی صرف اہل حدیث ہو سکتا ہے، تو نتیجہ نکلا کہ جتنے بھی حقیقی اولیاء گزرے ہیں، وہ سب اہل حدیث تھے۔
✅ 9. جو اہل حدیث نہیں، وہ ولی بھی نہیں:
جو شخص اہل حدیث نہ ہو، چاہے عوام نے اسے ولی مشہور کر رکھا ہو، درحقیقت وہ ولی نہیں۔
✅ 10. نجات اور ولایت، دونوں کے لیے اہل حدیث ہونا ضروری:
پیر جیلانیؒ کے بیان کی روشنی میں یہ بات اٹل ہے:
- اہل حدیث ہونا نجات کے لیے ضروری ہے
- اہل حدیث ہونا ولی بننے کے لیے بھی شرط ہے
جو اہل حدیث نہیں، نہ ولی ہو سکتا ہے، نہ ہی نجات یافتہ۔
نجات کا راستہ، حق کی پہچان، اور حدیث کا معیار: تفصیلی مکالمہ
حنفی:
آپ نے تو بہت ڈرا دیا۔
محمدی:
یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کو حقیقت کی سمجھ آ گئی۔
ورنہ آج بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں:
- اپنی نجات کی کوئی فکر نہیں
- وہ فرقہ پرستی میں مست و مدہوش ہیں
- اور اسی فرقہ پرستی کی حمایت کو دین کی خدمت سمجھتے ہیں
اصل بات سوچنے اور سمجھنے کی ہے:
- پہلے حق کو پہچانو
- اور پھر اس پر ثابت قدمی سے قائم ہو جاؤ
حق کی پہچان کیسے ہو؟
حنفی:
حق کا پتہ کیسے لگے گا؟ ہر ایک یہی کہتا ہے کہ وہی حق پر ہے۔
محمدی:
حق وہ ہے جو:
- نبی کریم ﷺ کی سنت پر قائم ہو
- اور صرف اسی پر عمل کو نجات کا راستہ سمجھے
ہر ایک کا دعویٰ حق پر ہونے کا: جانچ کا معیار کیا ہو؟
حنفی:
کہتا تو ہر کوئی یہی ہے کہ میں حق پر ہوں۔ تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ واقعی کون حق پر ہے؟
محمدی:
حق کو پہچاننے کا ایک اصولی معیار ہے:
"جو دین میں ملاوٹ نہ کرے، وہی حق پر ہے۔”
اس معیار سے آپ ہر فرقے اور جماعت کو پرکھ سکتے ہیں:
- دنیا کے ہر فرقے نے نبی ﷺ کے بعد خود کو کسی نہ کسی امام، پیر یا بانی کی طرف منسوب کر لیا ہے
- یہ نسبتیں خود اس بات کی دلیل ہیں کہ ان میں دین کی ملاوٹ ہو چکی ہے
جبکہ:
اہل حدیث وہ واحد جماعت ہے جو کسی امام یا شخصیت کی طرف منسوب نہیں ہوتی
وہ صرف نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہیں، جو حدیث سے ثابت ہو
سنت رسول ﷺ کیا ہے؟
حنفی:
سنت کا مطلب کیا ہے؟
محمدی:
سنت کی تعریف ہے:
"ما سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم”
یعنی "وہ راستہ، طریقہ یا عمل جو رسول کریم ﷺ نے امت کے لیے مقرر فرمایا ہو”
اور:
سنت پر عمل کرنے والا ہی "اہل سنت” کہلاتا ہے
سنت کا علم کیسے حاصل ہو؟
حنفی:
سنت رسول ﷺ کا پتہ کہاں سے اور کیسے لگتا ہے؟
محمدی:
سنت کا علم حاصل ہوتا ہے:
- حدیث پڑھنے سے
- اور حدیث کے علماء سے دریافت کرنے سے
کیا ہر عالم حدیث کا عالم ہوتا ہے؟
حنفی:
حدیث کے تو سب ہی عالم ہوتے ہوں گے — چاہے وہ حنفی ہوں یا اہل حدیث؟
محمدی:
نہیں، حدیث کے اصل اور مستند علماء صرف اہل حدیث ہی ہوتے ہیں۔
- دوسرے مسالک کے لوگ یا تو حدیث پڑھتے ہی نہیں
- یا اگر پڑھتے ہیں تو اپنے فقہی نظریے کے مطابق چلنے نہیں دیتے
اسی لیے:
اگر حدیث و سنت کے مسائل دریافت کرنا ہوں تو اہل حدیث علماء سے رجوع کریں
اور اگر فقہ حنفی کی کوئی بات پوچھنی ہو تو حنفی علماء سے پوچھیں
جیسے ہر چیز ایجنسی سے ہی اصل اور معیاری ملتی ہے، ویسے ہی علمِ حدیث بھی اصل ماہرین سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
معتبر حدیث کی کتابیں کون سی ہیں؟
حنفی:
حدیث کی کون کون سی کتابیں معتبر ہیں؟
محمدی:
حدیث کی کتابوں کے درجات ہوتے ہیں۔ ان کی تفصیل یوں ہے:
✅ اعلیٰ درجے کی کتابیں:
- صحیح بخاری
- صحیح مسلم
- موطا امام مالک
یہ تین کتابیں سب سے معتبر اور صحیح احادیث کا خزانہ ہیں۔
✅ درمیانے درجے کی کتابیں:
- جامع ترمذی
- سنن ابی داؤد
- سنن نسائی
- مسند احمد بن حنبل
ان میں احادیث کا درست انتخاب ہے، اگرچہ درجہ صحیح بخاری و مسلم سے کم ہے۔
⚠️ تیسرے درجے کی کتابیں:
- شرح معانی الآثار (طحاوی)
- معجم طبرانی
- سنن کبریٰ (بیہقی)
ان میں صحیح، ضعیف، موضوع سب طرح کی حدیثیں شامل ہوتی ہیں۔
لہٰذا ان سے استدلال احتیاط کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔
❌ چوتھے اور پانچویں درجے کی کتابیں:
ان میں موضوع یا گھڑی ہوئی احادیث بھی پائی جاتی ہیں، اس لیے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
خلاصہ:
- اہل حدیث وہ جماعت ہے جو ملاوٹ سے پاک ہے
- جو صرف نبی ﷺ کی سنت پر چلتی ہے
- اور حدیثِ صحیح کو معیار مانتی ہے
- دیگر فرقے کسی نہ کسی امام یا پیر کی نسبت سے مخلوط مذہب بن چکے ہیں
- نجات اور حق پر ہونے کے لیے، ملاوٹ سے بچنا لازم ہے
تقلید، شرک اور حدیث: درجہ بندی، فہم اور فکری انحرافات پر مدلل مکالمہ
حنفی:
کتابوں کی یہ درجہ بندی (حدیث کے درجات) کس نے کی ہے؟
محمدی:
یہ تقسیم پہلے دور کے محدثین اور علماء نے کی ہے۔ خاص طور پر آپ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب "حُجّۃُ اللہ البالغہ” پڑھیں، ان شاء اللہ سب کچھ وضاحت سے معلوم ہو جائے گا۔
کیا سب فرقے حدیث کی درجہ بندی کو مانتے ہیں؟
حنفی:
کیا اس تقسیم کو تمام فرقے مانتے ہیں؟
محمدی:
جی ہاں، جو لوگ اہل سنت کہلاتے ہیں، سب فرقے اس تقسیم کو مانتے ہیں۔ یعنی بخاری، مسلم، موطا امام مالک کو سب اعلیٰ درجے کی کتابیں تسلیم کرتے ہیں۔
بخاری، مسلم میں تمام احادیث صحیح؟
حنفی:
کیا درجہ اول کی کتابوں کی تمام حدیثیں صحیح ہیں؟
محمدی:
جی ہاں، قریباً تمام حدیثیں صحیح ہیں۔ خاص طور پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم تو صحیح ترین مجموعے ہیں، جن پر امت کا اجماع ہے۔
تقلید اور شرک: کیا واقعی تعلق ہے؟
حنفی:
ہم نے سنا ہے کہ آپ لوگ تقلید کو بھی شرک کہتے ہیں، حالانکہ تقلید کا شرک سے کیا تعلق؟
محمدی:
تعلق کیوں نہیں؟ تقلید اور شرک تو یوں ساتھ ہیں جیسے چولی دامن کا ساتھ ہو۔
شرک اگتا ہی تقلید کی زمین پر ہے۔
ہر مشرک:
- پہلے مقلد ہوتا ہے
- پھر شرک میں مبتلا ہوتا ہے
اگر تقلید نہ ہو تو شرک کی فضا ہی پیدا نہ ہو۔
تقلید، جہالت اور اندھی عقیدت
محمدی:
تقلید ہمیشہ جاہل اور بے عقل انسان کرتا ہے۔
اور شرک بھی وہیں ہوتا ہے جہاں:
- عقل کا فقدان ہو
- اندھی عقیدت کا غلبہ ہو
دونوں (تقلید و شرک) کی بنیاد ایک جیسی ہے:
- کسی کو حد سے بڑا سمجھنا
- اپنے آپ کو انتہائی حقیر جاننا
یہی تو عبادت کی تعریف ہے:
"عبادت یہ ہے کہ دوسرے کو بڑا سمجھا جائے اور اپنے آپ کو اس کے مقابلے میں حقیر سمجھا جائے۔”
اور یہی کچھ:
- مقلد اپنے امام کے ساتھ کرتا ہے
- اسے حد سے زیادہ بلند مانتا ہے
- اپنے آپ کو جانور سمجھتا ہے
- اور امام کی تقلید کو نجات کا ذریعہ مانتا ہے
یہی سوچ رفتہ رفتہ شرک میں بدل جاتی ہے۔
امام کو اللہ کا شریک کیسے بنایا جاتا ہے؟
حنفی:
امام کو اللہ کا شریک کیسے بنا دیا جاتا ہے؟
محمدی:
اس طرح کہ:
اس کی بات کو "خدائی حکم” سمجھا جاتا ہے
یعنی:
- جو صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حق ہے
- وہ اپنے امام کو دے دیا جاتا ہے
قرآن کی روشنی میں تقلید اور شرک
محمدی:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ” (الشوریٰ: 21)
"کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں وہ باتیں مقرر کیں جو اللہ نے اجازت نہیں دی؟”
یہ آیت واضح اعلان ہے کہ:
- جو شخص اللہ کی اجازت کے بغیر دین کے مسئلے بنائے
- یا اس کی بات کو دین سمجھا جائے
- تو وہ اللہ کا شریک بن جاتا ہے
نبی ﷺ کی بات بھی تبھی دین ہے جب وہ اللہ کی طرف سے ہو،
تو ائمہ و علماء کی آراء کو دین بنانا کس قدر گمراہی ہے!
سورۃ توبہ میں علماء و مشائخ کو رب بنانے کا بیان
محمدی:
اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں فرمایا:
"اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ” (التوبہ: 31)
"انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ کے سوا رب بنا لیا۔”
جب عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے نبی ﷺ سے پوچھا:
"ہم نے تو اپنے علماء کو رب نہیں بنایا!”
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"کیا تم ان کے حلال کو حلال اور ان کے حرام کو حرام نہیں سمجھتے تھے؟”
عدیؓ نے عرض کیا:
"ہاں، یہ بات تو تھی۔”
نبی ﷺ نے فرمایا:
"یہی تو رب بنانا ہے۔” (ترمذی)
خلاصہ
- تقلید اندھی پیروی ہے
- یہ انسان کو شرک کی سرزمین پر لے جاتی ہے
- جو شخص دین میں غیر اللہ کی بات کو دین کا درجہ دے، وہ اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے
- امام کی بات کو دلیلِ شرعی ماننا شرک کی ابتدا ہے
- اہل حدیث اس اندھی تقلید اور شرکیہ فضا سے بچنے والی جماعت ہے
امام، تقلید اور نجات: قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل مکالمہ
حنفی:
ہم تو اپنے امام کو رب نہیں بناتے، ہم تو صرف امام مانتے ہیں۔
محمدی:
یہی بات یہود و نصاریٰ بھی کرتے تھے، وہ بھی اپنے علماء و مشائخ کو "رب” نہیں کہتے تھے، مگر عملی طور پر رب جیسا درجہ دیتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں "أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ” قرار دیا۔
نام بدل دینے سے حقیقت نہیں بدلتی۔
حقیقت تو وہی رہتی ہے، چاہے نام کچھ بھی رکھ لو۔
سوال یہ ہے: آپ امام بناتے ہی کیوں ہیں؟ کس لیے؟
امام کو بنانے کا مقصد؟
حنفی:
دین کے مسائل لینے کے لیے۔
محمدی:
بس یہی تو یہود و نصاریٰ کرتے تھے۔ وہ بھی دین کے مسائل اپنے علماء و مشائخ سے لیتے تھے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے اس عمل کو شرک قرار دیا۔
تو ایسی امامت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
قرآن میں "امام” کا ذکر؟
حنفی:
قرآن میں آیا ہے: "وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا” (الأنبیاء: 73)
محمدی:
یہ آیت انبیاء علیہم السلام کے بارے میں ہے۔ قرآن نے کسی غیر نبی کو امام نہیں کہا۔
نبی امام ہو سکتا ہے، کیونکہ اللّٰہ اسے امام بناتا ہے
لیکن نبی کے سوا کوئی امام نہیں ہو سکتا
دین میں "ائمہ دین” کا مفہوم
حنفی:
اسلام میں بڑے بڑے ائمہ دین گزرے ہیں۔
محمدی:
جی ہاں، "ائمہ دین” سے مراد ہے:
- دینی علوم کے ماہر
- علمی رہنمائی کرنے والے
لیکن:
انہیں ایسا امام بنانا کہ:
- وہ قابلِ اطاعت ہو
- اس کی رائے کو شریعت قرار دیا جائے
- اس کے نام پر مذہب کی بنیاد رکھی جائے
یہ سب اسلامی تصورِ امامت سے خارج ہے۔
تقلیدی امامت کا ماخذ: شیعہ تصورِ امامت
محمدی:
تقلیدی امامت کا تصور سب سے پہلے شیعہ نے گھڑا۔
- شیعہ کے نزدیک امام اور نبی میں کوئی فرق نہیں
- ان کے عقیدے کے مطابق:
"پیغمبر اور امام ایک ہی چشمے اور ایک ہی ڈول سے پانی لیتے ہیں”
(نہج البلاغہ)
یہی غیر قرآنی تصورِ امامت بعد میں اہل سنت کے بعض گروہوں نے بھی اختیار کر لیا، اور امام ابو حنیفہؒ، شافعیؒ، مالکؒ، احمدؒ وغیرہ کے نام پر مذاہب قائم کیے گئے۔
"معصوم امام” کا دعویٰ؟
حنفی:
شیعہ تو امام کو معصوم کہتے ہیں، ہم تو ایسا نہیں کہتے۔
محمدی:
زبان سے نہ سہی، عملی طور پر آپ کا عمل یہی بتاتا ہے:
- آپ اپنے امام کی بات کو حرفِ آخر مانتے ہیں
- اس پر اعتراض یا تحقیق کی گنجائش نہیں چھوڑتے
تو چاہے معصوم نہ کہو، مگر مانتے معصوم ہی ہو۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں:
اسلام میں سوائے نبی کے کوئی امام نہیں ہو سکتا۔
کسی کو "امام اعظم” بنا لینا نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ سنت سے۔
قیامت کے دن امام کے نام پر بلایا جائے گا؟
حنفی:
ہم نے امام اس لیے بنایا کہ قرآن میں ہے: "يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ” (بنی اسرائیل: 71)
محمدی:
یہ آیت دراصل نامۂ اعمال کے بارے میں ہے، آپ کے بنائے ہوئے اماموں کے بارے میں نہیں۔
اسی آیت کے فوراً بعد فرمایا:
"فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُوْلَئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ”
یعنی:
"جس کو اس کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ اسے خوشی سے پڑھے گا۔”
اگر "امام” سے مراد شخصی امام لیا جائے، تو وہ صرف وہی ہو سکتے ہیں جنہیں اللہ نے امام بنایا ہے، یعنی انبیاء علیہم السلام۔
قبر اور قیامت میں سوال کس کے بارے میں ہوگا؟
-
- جیسے قبر میں سوال ہوتا ہے:
"من نبیُّک؟” — "تمہارے نبی کون ہیں؟”
- ایسے ہی قیامت کے دن بھی امتیں نبیوں کے نام پر پکاری جائیں گی:
- جیسے قبر میں سوال ہوتا ہے:
"اے موسیٰ کی امت آؤ، اے عیسیٰ کی امت آؤ، اے محمد ﷺ کی امت آؤ۔”
خوش نصیب وہ لوگ ہوں گے:
- جنہوں نے نبی ﷺ کو امام بنایا
- اور کسی غیر نبی کی تقلید سے اجتناب کیا
اہل حدیث کا اعزاز: نبی ﷺ ہی امام
محمدی:
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ھٰذا أکبرُ شرفٍ لأصحاب الحدیث لأن إمامَهم النبی ﷺ” (ابن کثیر)
یعنی:
"اہل حدیث کے لیے سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ ان کے امام نبی ﷺ خود ہیں۔”
نتیجہ یہ ہو گا:
- اہل حدیث نبی ﷺ کے ساتھ جنت میں جائیں گے
- اور مقلدین اپنے خود ساختہ اماموں کے ساتھ کھڑے رہیں گے
- پھر وہ انہی اماموں کے ساتھ جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے
تقلیدی امام اور جنت و دوزخ کا مسئلہ: ایک تحقیقی مکالمہ
حنفی:
کیا ہمارے امام دوزخ میں جائیں گے؟
محمدی:
پہلے یہ بتائیں، آپ کے امام ہیں کون؟
حنفی:
ہمارے امام، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔
محمدی:
ٹھیک، لیکن وہ آپ کے امام کیسے بنے؟
کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں امام بنایا ہے؟
حنفی:
نہیں، اللہ نے تو نہیں بنایا۔
محمدی:
کیا خود امام ابو حنیفہؒ نے کہا تھا کہ:
“میں تمہارا امام ہوں، میری تقلید کرو”
حنفی:
نہیں، انہوں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔
تو پھر امام کیسے بن گئے؟
محمدی:
جب اللہ نے امام نہیں بنایا اور
خود انہوں نے بھی اپنی امامت کا دعویٰ نہیں کیا
تو پھر آپ نے انہیں امام کیسے مان لیا؟
حنفی:
ہم نے خود مانا ہے اور ان کو اپنا امام سمجھا ہے۔
محمدی:
تو صرف آپ کے ماننے سے اگر کوئی امام بن سکتا ہے
تو پھر ہر شخص جس کو چاہے امام بنا لے؟
یہ کیسے ممکن ہے؟
نماز میں بھی امام تب بنتا ہے جب وہ اقتداء کی نیت کرے
اگر وہ نیت نہ کرے تو کوئی شخص خود سے ماننے سے اسے امام نہیں بنا سکتا۔
امام ابو حنیفہ کس کو جنت میں لے جائیں گے؟
محمدی:
ذرا ایک بات سوچیں:
- امام ابو حنیفہؒ کو
- دیوبندی بھی اپنا امام مانتے ہیں
- بریلوی بھی اپنا امام مانتے ہیں
اب سوال یہ ہے کہ:
امام ابو حنیفہ جنت میں کس کو لے کر جائیں گے؟
- دیوبندی؟
- یا بریلوی؟
کیونکہ:
دیوبندی اور بریلوی ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں
اور کافر جنت میں نہیں جا سکتا
لہٰذا:
- اگر بریلوی جنت میں گئے، تو دیوبندی دوزخ میں جائیں گے
- اگر دیوبندی جنت میں گئے، تو بریلوی دوزخ میں جائیں گے
امام ابو حنیفہؒ دونوں کے امام ہیں
تو پھر وہ خود کس کے ساتھ جائیں گے؟
یہی حال شیعہ اور سنی کا بھی ہے
اگر:
- شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ جنت میں چلے گئے
- تو سنی کہاں جائیں گے؟
اور اگر:
- سنی اپنے اماموں کے ساتھ جنت میں چلے گئے
- تو شیعہ کہاں جائیں گے؟
حالانکہ:
دونوں کے امام بظاہر نیک اور صالح تھے
اور ان شاء اللہ وہ جنت میں ہی جائیں گے
لیکن:
- ان کے ماننے والے فرقوں میں شدید اختلاف ہے
- بعد المشرقین ہے
- عقائد میں زمین و آسمان کا فرق ہے
تو ان کے ماننے والے دونوں جنت میں کیسے جا سکتے ہیں؟
نتیجہ:
- حقیقت یہ ہے کہ امامت کا حق صرف نبی ﷺ کو ہے
- نبی کے بعد کوئی امام اس حیثیت سے قابلِ تقلید نہیں
- کسی کو صرف "اپنے ماننے” سے امام بنانا:
- نہ قرآن سے ثابت
- نہ سنت سے ثابت
- بلکہ گمراہی و فرقہ پرستی کی بنیاد ہے
تقلید اور محبتِ اولیاء کا دھوکہ – نجات کا معیار کیا ہے؟
حنفی:
آپ کی باتوں سے تو لگتا ہے کہ یہ اماموں کا معاملہ ایک بہت بڑا چکر ہے۔
محمدی:
بالکل ایسا ہی ہے۔ اور یہی چکر وہ لوگ گھماتے ہیں جو
"المرء مع من أحب” (یعنی: "آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے”)
کا مفہوم غلط سمجھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ:
“ہم اماموں اور اولیاء سے محبت رکھتے ہیں، اس لیے قیامت کے دن انہی کے ساتھ ہوں گے۔”
محبتِ امام اور نجات کا زعم
یہ بھی کہتے ہیں:
“چونکہ اہل حدیث کسی ولی یا امام کو نہیں مانتے، اس لیے انہیں کوئی ساتھ نصیب نہیں ہوگا۔”
لیکن ہم ان سے پوچھتے ہیں:
کیا عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جنت میں جائیں گے؟
- وہ بھی محبت کے دعویدار ہیں۔
- لیکن چونکہ وہ آنحضرت ﷺ کی اتباع نہیں کرتے، اس لیے ان کی محبت باطل اور ناقابلِ قبول ہے۔
اسی طرح:
- تبرائی شیعہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کے دعویدار ہیں
- گیارھویں والے شاہ عبدالقادر جیلانیؒ کو یاد کرتے ہیں
لیکن ان کی محبت:
- اگر شرک و بدعت سے بھری ہو
- اور نبی اکرم ﷺ کی سنت سے عاری ہو
تو ایسی محبت انہیں ہرگز جنت میں نہیں لے جا سکتی۔
اصل محبت وہی ہے جو اتباع کے ساتھ ہو
- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کبھی ان سے محبت نہیں رکھیں گے جو ان کے بعد آئے نبی یعنی محمد ﷺ کی اتباع نہ کریں
اسی طرح:
- شاہ عبدالقادر جیلانیؒ اور
- دیگر اولیاء کرامؒ
کبھی ان لوگوں کے ساتھ محبت نہیں رکھ سکتے:
- جو حضور ﷺ کی سنت کو چھوڑ کر
- شرک و بدعت کے مرتکب ہوں
- اور تقلیدی اماموں کی پیروی کو ذریعہ نجات سمجھیں
قرآن کا واضح حکم
"اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونه اولیاء” (الاعراف: 3)
"اس کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا کسی ولی کی پیروی نہ کرو۔”
اولیاء سے مراد یہاں وہ شخصیات ہیں جنہیں لوگ اللہ کا مقرر کردہ نہیں بلکہ خود ساختہ رہنما بنا لیتے ہیں، حالانکہ نجات کا واحد ذریعہ صرف اور صرف نبی ﷺ کی اتباع ہے۔
شیطان کا چکر
- دنیا میں جتنے شرک و بدعت کے پیروکار ہیں، حقیقت میں:
- ان کا امام اور پیر شیطان ہوتا ہے
- وہ نام تو اللہ والوں کا لیتے ہیں
- مگر عمل شیطان کی پیروی پر ہوتا ہے
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"لا تعبدوا الشیطان” (یٰسین: 60)
"شیطان کی عبادت نہ کرو”
"ولا تتبعوا خطوات الشیطان” (البقرہ: 168)
"شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو”
شیطان کی چال: اولیاء کے نام، اپنا دھندہ
- شیطان جب دیکھتا ہے کہ کوئی نبی ﷺ کی سنت پر مائل ہے، تو وہ فوراً انسانی ایجنٹوں کے ذریعے اسے پھنسانے کی کوشش کرتا ہے
- اولیاء کے ناموں پر بدعات اور شرک رائج کرتا ہے
- تصور ان بزرگوں کا ہوتا ہے، مگر عمل دراصل شیطان کی عبادت پر مبنی ہوتا ہے
قرآن کیا کہتا ہے؟
"الذین ضل سعیھم فی الحیوٰۃ الدنیا وھم یحسبون انہم یحسنون صنعا” (الکہف: 104)
"وہ لوگ جن کی ساری کوششیں دنیا میں ضائع ہو گئیں اور وہ سمجھتے رہے کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں۔”
"ولا یغرنکم باللہ الغرور” (لقمان: 33)
"دھوکہ باز (شیطان) تمہیں اللہ کے نام پر دھوکہ نہ دے۔”
"ان الشیطان لکم عدوّ فاتخذوہ عدوا” (فاطر: 6)
"شیطان تمہارا دشمن ہے، اسے دشمن ہی سمجھو۔”
قیامت کے دن اولیاء کا اعلانِ براءت
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
جن بزرگوں کو تم پکارتے ہو، وہ قیامت کے دن تمہارے دشمن ہوں گے،
اور تمہاری پوجا پاٹ سے بالکل بے خبر ہوں گے۔
- "وہم عن دعائھم غافلون” (الاحقاف: 5)
- "ما کنتم ایانا تعبدون” (یونس: 28)
- "یکونون علیہم ضدا” (مریم: 82)
حتیٰ کہ:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہوگا
"کیا تم نے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟”
وہ صاف انکار کریں گے کہ "ہم نے کچھ نہیں کہا، یہ سب ان کی اپنی حرکتیں تھیں۔”
نتیجہ
- گمراہ ہونے والوں کے اصل امام اور پیر وہ شیطان ہیں جنہوں نے ان کے دلوں میں بدعت اور تقلید کا بیج بویا
- جو نیک بزرگوں کے نام پر عبادت کراتے رہے مگر حقیقت میں ان کا وجود صرف ذہنوں میں تھا
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے:
آپ کو چاہیے: سنت رسول ﷺ؟
تو وہ صرف حدیث رسول ﷺ سے ملے گی
اور حدیث آپ کو صرف اہل حدیث کے پاس ملے گی
اگر چاہیے: سنت امام؟
تو وہ فقہ حنفی سے ملے گی
اور فقہ حنفی صرف حنفی علما سے
فیصلہ کریں! آپ کو کون سی راہ اپنانی ہے؟
حنفیت یا سنت رسول ﷺ؟ نجات کا معیار کیا ہے؟
امام کی سنت یا رسول ﷺ کی سنت؟
حنفی:
سنت تو رسول اللہ ﷺ کی ہوتی ہے، امام کی سنت کہاں سے آ گئی؟
محمدی:
پھر آپ حنفی کیوں ہیں؟ آخر حنفی کسے کہتے ہیں؟
حنفی:
حنفی وہ ہوتا ہے جو فقہ حنفی پر عمل کرے۔
محمدی:
تو فقہ حنفی کس کو کہتے ہیں؟
حنفی:
امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کو۔
محمدی:
اور "مسلک” کا مطلب؟
حنفی:
مسلک یعنی "طریقہ”۔
محمدی:
بالکل، اور "سنت” کا مطلب بھی طریقہ ہی ہوتا ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ یہ سنت رسول ﷺ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ طریقہ اپنایا تھا یا ہمیں اس کا حکم دیا تھا۔
لہٰذا جس کے طریقے پر آپ چلتے ہیں، درحقیقت اسی کی سنت پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔
حنفی:
یہ بات بالکل درست ہے، میری سمجھ میں آ گئی۔
سنت پر عمل یا امام کی تقلید؟
محمدی:
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ حنفی امام ابو حنیفہؒ کے طریقے پر چلتا ہے، جبکہ اہل حدیث نبی کریم ﷺ کے طریقے پر۔
لیکن…
حنفی:
لیکن امام ابو حنیفہؒ کا طریقہ بھی تو وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کا ہے۔
محمدی:
ہو سکتا ہے طریقہ وہی ہو یا نہ ہو، لیکن آپ کے عمل کا محرک صرف اور صرف فقہ حنفی ہوتا ہے۔
یعنی:
- اگر کوئی عمل سنت رسول کے مطابق بھی ہو، تب بھی آپ اسے حنفی مسئلہ سمجھ کر کرتے ہیں۔
- اگر کوئی عمل سنت رسول کے خلاف ہو لیکن فقہ حنفی میں ہو، تب بھی آپ اسے کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
- شروع کی رفع الیدین آپ کرتے ہیں، لیکن اس لیے نہیں کہ یہ سنت رسول ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ حنفی طریقہ ہے۔
- رکوع جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین نہیں کرتے، چاہے یہ سنت رسول ہو، کیونکہ فقہ حنفی میں یہ نہیں۔
- حتیٰ کہ جو چیز سنت رسول نہ ہو لیکن فقہ حنفی میں ہو، اس پر جان دیتے ہیں۔ جیسے:
قنوت کی رفع الیدین
حنفی کا طرزِ عمل – حقیقت پسندانہ اعتراف
حنفی:
یہ حقیقت ہے، ہمیں عام طور پر یہ خیال نہیں آتا کہ ہمارا مسئلہ سنت رسول ﷺ کے مطابق ہے یا مخالف۔
ہمیں بس یاد ہوتا ہے کہ:
- ہم حنفی ہیں
- ہمیں فقہ حنفی پر عمل کرنا ہے
اگر کوئی حدیث دکھا بھی دے تو:
- ہم اس کا انکار نہیں کرتے
- لیکن ہم اس پر عمل بھی نہیں کرتے
ہماری ذہنیت یہ ہوتی ہے:
- یا تو یہ حدیث صحیح نہیں
- یا منسوخ ہے
- یا مراد کچھ اور ہے
- یا ہمارے امام نے اس پر عمل نہیں کیا، تو ہم کیوں کریں؟
ہم صرف اپنے امام کے مذہب پر چلتے ہیں۔
کلمہ محمد رسول اللہ ﷺ اور عمل امام کا؟
محمدی:
جب آپ کا طرز عمل یہی ہے، تو پھر آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ:
- کلمہ محمد رسول اللہ ﷺ پڑھیں
- اور خود کو اہل سنت کہیں
اگر آپ اتنی ہی سختی سے رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے جتنی سختی سے فقہ حنفی پر کرتے ہیں،
تو یقیناً نجات حاصل کر لیتے۔ مگر اس حال میں نجات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
رسول کی اتباع یا امام کی تقلید؟
آپ تو امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کرتے ہیں۔
اگر کوئی شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تقلید کرے تو بھی نجات نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"لو بدا لکم موسیٰ فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل”
اگر آج موسیٰ علیہ السلام آ جائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔
جب موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی پیروی میں نجات نہیں،
تو امام ابو حنیفہؒ جیسے فقیہ کی تقلید میں کیسے ہو سکتی ہے؟
اہل حدیث کی دعوت – بس رسول ﷺ کی اتباع
ہمیں امام ابو حنیفہؒ سے کوئی بغض نہیں۔
نہ ہم آپ کو کسی اور امام کی طرف بلاتے ہیں۔
ہم تو صرف رسول اللہ ﷺ کی طرف بلاتے ہیں:
- جن کا آپ کلمہ پڑھتے ہیں
- جن کی پیروی میں نجات ہے
- اور جن کے علاوہ کسی کی پیروی میں نجات نہیں
سوچ لیں! معاملہ نجات کا ہے۔
اگر اسی حنفیت پر آپ کا خاتمہ ہو گیا، تو معاملہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔
قرآن کا اعلان
"ھذا بلاغ للناس و لینذروا بہ و لیعلموا أنما ھو إلہ واحد و لیذکر أولو الألباب” (ابراہیم: 52)
’’یہ (قرآن) انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے تاکہ ان کو اس کے ذریعے ڈرایا جائے، اور تاکہ وہ جان لیں کہ بس ایک ہی معبود ہے، اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں۔‘‘