ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہونے کا بیان اوراس کے دلائل

تحریر: شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

[یہ تحقیقی مقالہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے شاگرد قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ نے توحید ڈاٹ کام کو ارسال کیا ہے]

دلیل نمبر ۱

سیدنا محمود بن لبیدؓ فرماتے ہیں رسولﷺ کو اطلاع ملی کہ ایک شخص نے بیک وقت اکھٹی تین طلاقیں دے دیں تو آپ غصہ سے کھڑے ہو گۓ اور فرمانے لگےمیری موجودگی میں اللہ تعالی کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔

(نسائی ٣٤٣٠، الکبری النسائی٩٤۵۵)

اس روایت سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ بیک وقت دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار کی جائیں گی نبی کریم ﷺ کا غصہ کرنا اس بات پر دلیل ہے اگر بالفرض تین کو ایک ہی شمار کیا جاتا تو نبی کریم ﷺ غصہ کا اظہار نہ فرماتے بلکہ آپ اس شخص کو رجوع کا حکم فرماتے جیسا کہ سیدنا عبداللہ ابن عمر کو فرمایا تھا کہ تم رجوع کر لو۔

(موطا امام مالک روایۃ یحی ٣۵١٢، روایۃ ابن القاسم ٢٣٣، بخاری١۵٢۵، مسلم١٤٧١، ابو داوٴد ٢١٧٩، ابن ماجہ ٢٠٢٢، ترمذی ١١٧٦، نسائی ٣٤٢٨، وغیرە۔)

بعض لوگوں کا اس روایت کے بارے میں یہ فرمانا کہ اس میں یہ کہاں ہے کہ طلاق پڑ گئی تو ان سے عرض ہے کہ نبی کریم ﷺ کا اظہار غصہ کیا معنی رکھتا ہے؟؟؟

_________________

دلیل نمبر ۲

سیدنا رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی اور آکر نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ اللہ کی قسم میں نے صرف ایک ہی کا ارادە کیا تھا تو رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم نے صرف ایک کا ہی ارادە کیا تھا؟؟؟ تو سیدنا رکانہؓ نے کہا اللہ کی قسم میں نے ایک ہی کا ارادە کیا تھا تو رسول ﷺ نے انکی بیوی ان کی طرف لوٹا دی۔

(ابوداوٴد ٢٢٠٦، دار القطنی ٣٩٣٣، مستدرک جلد ٢، ١٩٩، وغیرە)

اس روایت میں غور طلب بات یہ ہےجو نبی کریم ﷺ نے سیدنا رکانہؓ سے کہی [تم نے صرف ایک کا ہی ارادە کیا تھا] اگر بالفرض نبی کریم ﷺ بیک وقت اکھٹی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتے تو آپ ﷺ سیدنا رکانہؓ سے کیوں سوال کرتے کہ تم نے ایک کا ہی ارادە کیا تھا؟

دوسری بات یہ کہ سیدنا رکانہؓ بھی یہ بات اچھی طرح جانتے تھے ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں لیکن انہوں نے یہ جلد بازی میں کیا (غیر ارادی طور پہ)تو ان کو اس بات میں شک گزرا کہ (غیر ارادی طور پر دی گئی اکھٹی تین طلاقیں تین شمار ہوں گی یا نہیں تو اپنی اس بات کا فیصلہ کروانے وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آۓ تھے نہ کہ عام حالت میں دی جانے والی اکھٹی تین طلاق کے بارے میں۔

تو الحمد اللہ یہ حدیث مندرجہ بالاحدیث کی تفسیر کر رہی ہے جس میں نبی کریم ﷺ اکھٹی تین طلاق دینے والے شخص پر ناراض ہوئے تھے اگر بالفرض سیدنا رکانہؓ اپنی صفائی پیش نہ کرتے کہ (میرا ارادە ایک ہی کا تھا) تو یہاں بھی نبی کریم ﷺ ناراضگی کا اظہار فرماتے اور ان کی بیوی کو ان پر حرام قرار دے دیتے۔

ان دونوں احادیث سےیہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی ہوں گی اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ (تین طلاق کے واقع ہونے کا ذکر نہیں ملتا)تو میرے خیال میں ان لوگوں نے یہ ہنر فرقہ باطلہ سے اخذ کیا ہے جن کے سامنے جب دلیل پیش کی جاتی ہے (قل إنما أنا بشر مثلكم، الکہف ١١٠) کہہ دیجیے کہ میں تمھاری طرح کا ہی ایک بشر ہوں،،،،،، تو اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے قرآن کی اس آیت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ میں نور نہیں ہوں۔

_________________

دلیل نمبر ۳
لعان کے بعد سیدنا عویمرؓ نے نبی کریم ﷺ کے حکم سے پہلے اسے (اپنی بیوی)کو تین طلاقیں دے دیں۔

(موطا امام مالک روایۃ یحی ١٢٣٢، روایۃ ابن قاسم ٦، بخاری ٩۵٢۵، مسلم ٩٢۴١، ابوداوٴد ٨۴٢٢، ابن ماجہ ٢٠٦٦، مسند احمد ٢٢٢٣٩، نسائی ٣٤٣١، ابن حبان ٤٢٨٥، وغیرە۔

اگر تین طلاقیں نہ پڑتیں تو آپ ﷺ سیدنا عویمرؓ کی ضرور نکیر کرتے۔ اور اگر لعان کے بعد طلاق دینا ضروری نہ ہوتا تو سیدنا عویمرؓ اس عمل سے گریز کرتے اور حدیث سے یہ بات بھی ظاہر ہو رہی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں تین کو تین ہی شمار کیا جاتا تھا تب ہی تو سیدنا عویمرؓ نے نبی کریمﷺ سے پوچھنا ضروری نہ سمجھا اور بیک وقت اکھٹی تین طلاق دے ڈالی۔

علامہ نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں اس حدیث سے (اصحاب شوافع) نے یہ استدلال کیا ہے ایک ہی لفظ میں جمع کر کے تین طلاقیں دے دینا حرام نہیں ہے اگر تین طلاقیں دفعۃ دے دینا حرام ہوتا تو آپ ﷺ ضرور اسکی نکیر فرماتے اور یہ فرما دیتے کہ اکھٹی تین طلاقیں دینا حرام ہے تو تو کیوں تین طلاقیں دے رہا ہے؟؟؟ (شرح صحیح مسلم جلد ١، ٤٨٩)

اس حدیث سے یہ بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ لعان کے بعد خاوند بیوی میں خود بخود تفریق نہیں ہوتی بلکہ طلاق کے بعد جدائی ہوتی ہے امام بخاری نے اس حدیث پر کچھ اس طرح باب باندھا ہے (“باب اللعان ومن طلق بعد اللعان”( لعان کا باب اور جو شخص لعان کے بعد طلاق دے۔) (کتاب الطلاق باب ٢٩ قبل الحدیث ٣٠٨۵)

_________________

دلیل نمبر ۴
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں پھر اس نے دوسرے مرد سے نکاح کیا دوسرے خاوند نے (ہم بستری سے پہلے) اسکو طلاق دے دی۔ نبی کریم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ عورت پہلے مرد کے لیئے حلال ہو گئی تو آپ ﷺنے فرمایا نہیں جب تک دوسرا مرد اس سے صحبت نہ کر لے۔

(بخاری ٢٦١۵، مسلم ١٤٣٣، ترمذی ١١١٨، نسائی ٣٤٣٨، ٣٤٣٧، ابن ماجہ ١٩٣٢، سنن الکبری للبہقی جلد٧، ٣٣٤ وغیرە۔)

اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ اس میں ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر نہیں حالانکہ امام بخاری نے اس حدیث پہ کچھ اس طرح باب باندھا ہے (” من جواز الطلاق الثالث “) اور محدثین نے جو ابواب قائم کیئے ہیں احادیث بھی ان ابواب کے تحت ہی لے کر آئے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں یہ جملہ ظاہر اسی کو چاہتا ہے تین طلاقیں اکھٹی اور دفعتہ دی گئی تھیں (فتح الباری جلد ٩ ، ۵٢٩)

علامہ قسطلانی، عینی حنفی نے بھی اسی طرح کہا ہے دیکھیں (عمدە القاری ٩، ٣٧۵، ارشاد الساری ٨، ٧۵١)۔

_________________

دلیل نمبر۵

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی غیر مدخولہ بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا تمھاری تین طلاقیں تین ہی تصور کی جائیں گی اور وہ تجھ پر حلال نہیں جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔

(سنن الکبر ی للبہقی ٧، ٣٣٤)

_________________

دلیل نمبر۶
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ جب سیدنا عمر فاروقؓ کے پاس کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوتیں تو آپ اسکو سزا دیتے اور دونوں میں تفریق کرا دیتے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ۵،١٧٧٨٤)
_________________

دلیل نمبر۷
ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دیں تو سیدنا عمر فاروقؓ نے اسکی درە سے مرمت کی اور فرمایا تجھے تو تین طلاقیں کافی تھیں۔
(سنن الکبر ی للبہقى ٧، ٣٣٤، مصنف ابن ابي شیبه ١٧٧٩٥، سعید بن منصور ١٠٧٣)

سوچنے کی بات ہے کیایہ شخص (ایک ہزار) طلاق وقفہ سے دیتا رہا؟؟؟ ہر گز نہیں بلکہ اس نے ایک ساتھ اکھٹی ہزار طلاق دے دی تب سیدنا عمرؓ نے اس کی درە سے پٹائی کی اور سیدنا عمرؓ کا یہ فرمانا کہ تجھے (تین کافی تھیں مطلب یہ کہ اگر صرف تین ہی اکھٹی دے دی جاتیں تو بیوی تجھ پہ حرام ہو جاتی ہزار دینے کی کیا ضرورت تھی۔

تو قارئین کرام اب یہاں رک کر سنن نسائی کی اس حدیث کو بھی یاد کریں جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت اکھٹی تین طلاقیں دے دی تھیں اور نبی کریم ﷺ نے غصہ فرمایا تھا اور اس حدیث کے بارے میں یہ اعتراض کرنا کہ نبی کریم ﷺ نے کب کہا کہ طلاق پڑ گئی؟؟؟ تو عرض ہے کہ سیدنا عمرؓ کا یہ فرمانا (تجھے تین کافی تھیں)کیا اس بات کی طرف اشارہ نہیں کہ اگر تم اکھٹی تین ہی دے دیتے تو تب بھی طلاق واقع ہو جاتی اور ہزار طلاق دینے پر سیدنا عمرؓ کا اس شخص کو مارنا پیٹنا اور بعد میں یہ فرمانا کہ تجھے تین ہی کافی تھیں یہ زبردست دلیل ہے کہ اکھٹی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی تو عرض کرنے کا مطلب ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ناراض ہونے کا مقصد ہی یہی تھا کہ طلاق واقع ہو گئی اور سیدنا عمرؓ کا اس شخص کو مارنا بھی اس وجہ سے تھا کہ طلاق واقع ہو گئی۔

لیکن پھر بھی یہی شور برپا ہے کہ ہم ان احادیث اور اقوال سے استدال کر رہے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ استدلال میں غلطی لگ سکتی ہے لیکن ہم یہ دعوی کرتے ہیں (اگر یہ ہمارا استدلال ہے بقول آپ کے) تو ہم اپنے استدلال کے صحیح ہونے پر بھی دلیل پیش کرتے ہیں۔

_________________

دلیل نمبر۸

ایک شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیااور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو (ایک ہزار)طلاق دے دی ہے تو آپ نے فرمایا تین طلاق سے وہ تجھ پر حرام ہو گئی
(سنن الکبری ٧، ۵٣٣)

الحمداللہ ہمارا استدلال صحیح ثابت ہوا کیونکہ یہاں بات واضح ہوگئی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا (تین طلاق سے وہ تجھ پہ حرام ہو گئی) یعنی ہزار طلاق جو (اکھٹی دی گئیں تھیں) ان ہزار میں سے تین طلاق سے وہ تجھ پر حرام ہو گئی۔

_________________
دلیل نمبر۹

امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جوشخص اپنی بیوی کو ہمبستری سے پہلے تین طلاق دے دے تو وہعورت اس کے لیئے حلال نہیں رہتی ۔۔۔۔۔۔۔
(سنن الکبری، ٧، ٣٣٤)

_________________

دلیل نمبر۱۰

سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ نے فرمایا اگر تو نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں تو وہ عورت تجھ پر حرام ہو گئی جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے اور تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالی کی نافرمانی بھی کی ہے۔

(بخاری،٣٣٢۵،٦٢٦١، مسلم ٦۵٣٦،٣۵٣٦، ابوداوٴد، ٢١٨٠، نسائی، ٩۵۵٣، دار القطنی،٣٩٢١، سنن الکبری للبہیقی، ٧، ٢٣١)وغیرە۔
سیدنا عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ (تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالی کی نافرمانی بھی کی) اس بات کی دلیل ہے کہ بیک وقت میں تین طلاق دی گئی تھی کیونکہ طلاق دینا تو اللہ تعالی کی نافرفانی تو نہیں البتہ اکھٹی تین طلاق دینا خلاف شرع ہے مگر عبداللہ ابن عمر نے ساتھ یہ وضاحت بھی کر دی کہ (اکھٹی تین طلاق سے بیوی حرام ہو جاتی ہے)

_________________

دلیل نمبر۱۱

سیدنا عبداللہ ابن عباس سے ایک شخص نے یہ کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو (سو طلاقیں) دی ہیں تو آپ نے فرمایا تیری طرف سے تین طلاقیں ہو گئیں۔

(مشکوة، ٣٢٩٣، موطا امام مالک، ۵١١٩، مصنف عبدالرزاق، ٣۵١١٣، ابن ابی شیبہ، ١٧٧٩٧، سنن الکبری، ١٤٩٤٥ وغیرە)

_________________

دلیل نمبر۱۲

امام مجاہد فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کے پاس تھا کہ ایک شخص آکر کہنے لگا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالی ہیں آپؓ خاموش ہوگئے میں سمجھا رجوع کا فتوی دیں گے پھر فرمانے لگے پہلے حماقت کر بیٹھے ہو پھر اے ابن عباس اے ابن عباس کہتے ہوئے میرے پاس آتے ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیئے راستہ پیدا کر دیتا ہے (الطلاق،٢) چونکہ تو اللہ تعالی سے نہیں ڈرا لہذا میں تیرے لیئےکچھ نہیں کرسکتا تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اس لیئے تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی ہے۔

(ابوداوٴد ٢١٩٧، سنن دار القطنی ٣٨٨٢،واخرجه سنن الكبرى)

_________________

دلیل نمبر۱۳

امام سعید بن جبیر اور امام مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک شخص عبداللہ ابن عباسؓ کے پاس آیا میں نے اپنی بیوی کو ستاروں جتنی طلاقیں دی ہیں تو آپؓ نے فرمایا تم نے سنت کی مخالفت بھی کی ہے اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی ہے۔
(دارالقطنی، ٣٩٠٢)

_________________

دلیل نمبر۱۴

سیدنا ابوہریرەؓ اور سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کے پاس ایک شخص غیر مدخولہ بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد مسلۂ پوچھنے آیا تو آپ دونوں صحابہ نے فرمایا کہ وہ تجھ پر حرام ہو گئی جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے۔

(موطا امام مالک ۵١٢٣، ابوداوٴد ٢١٩٨، مسند شافعی ٤٣٦، بہقی ١٤٩٦٥)

_________________

دلیل نمبر۱۵

ایک شخص اپنی غیر مدخولہ بیوی کو تین طلاق دے کر سیدنا عبداللہ ابن زبیؓر کے پاس مسلۂ پوچھنے آیا تو آپ نے فرمایا سیدنا ابوہریرەؓ اور سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ سے یہ مسلۂ پوچھو۔ وہ آیا اور پوچھا تو عبداللہ ابن عباسؓ فرمانے لگے کہ اے ابو ہریرەؓ فتوی دیجیے مگر سوچ سمجھ کر بتانا کیونکہ مسلۂ پیچیدە ہے تو سیدنا ابو ہریرەؓ نے فرمایا ایک طلاق سے وہ تم سے علیحدہ ہو گئی اور تین طلاق سے وہ تم پر حرام ہو گئی سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ نے بھی ایسے ہی فرمایا۔

(موطا امام مالک ١٢٣٧، سنن الکبر ی للبہیقی ٧، ۵٣٣)

_________________

دلیل نمبر۱۶

سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو سیدنا عبداللہ ابن عباس نے فرمایا تمھارے چچا نےاللہ تعالی کی نافرمانی کی ہے۔

(طحاوی ٢، ٢٩، سنن الکبری ٧، ٣٣٧)

_________________

دلیل نمبر۱۷

امام سعید بن جبیر (ثقہ تابعی) سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دی تو آپؓ نے فرمایا تجھے تین کافی تھیں وہ تجھ سے جدا ہو گئی۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ٥/١٧٨٠٧،١٣، دارالقطنى ٣٨٧٩)

_________________

دلیل نمبر۱۸

امام عمرو بن دینار (ثقہ تابعی) سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو (ستاروں کی تعداد کےبرابر) طلاقیں دیں تو انہوں نے فرمایا اس کے لیئے تین طلاق کافی تھیں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ١٧٨٠٧، بہقی ٧، ٣٣٧)

_________________

دلیل نمبر۱۹

امام عنترە بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا اے ابن عباسؓ اس نے اپنی بیوی کو (سو ١٠٠) طلاقیں دی ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ایک ہی دفعہ سب کہہ دی ہیں تو میری بیوی تین طلاق سے جدا ہو جائے گی یا ایک ہے؟ تو آپ نے فرمایا تین کے ساتھ جدا ہو گئی اور تجھ پر ننانوے کا گناہ ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ١٧٧٩٧)

ہم اپنے احباب سے گزارش کرتے ہیں کہ (اللہ کے لیئے( عبداللہ ابن عباسؓ کے ان اقوال پر غور و فکر کریں یہ وہی عبداللہ ابن عباسؓ ہیں جن کا (صرف ایک قول( لے کر امت کو یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہو گی۔ (ہم ان کے اس قول کو بھی اسلاف کی عدالت میں رکھیں گے) إنشاٴاللہ۔

مگر پہلے ان کے مندرجہ بالا اقوال پر روشنی ڈالتے ہیں۔ عبداللہ ابن عباسؓ کے ان اقوال سے بات واضح ہو رہی ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق تین ہی شمار ہوں گی جیسا کہ خود انہوں نے فرمایا (تیری طرف سےتین طلاقیں ہو گئیں۔( دیکھیں دلیل نمبر١١۔۔۔۔۔۔۔تجھے تین کافی تھیں وہ تجھ سے جدا ہو گئی۔) نیز دیکھیں دلیل نمبر ١٧۔۔۔۔۔۔۔ایک آدمی نے ستاروں کی تعداد کے برابر طلاقیں دیں تو آپ نے فرمایا اس کے لیئے تین طلاقیں کافی تھیں۔ دیکھیں دلیل نمبر ١٨۔

ایک دوسرا شبہہ جو عوام الناس کے ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے کہ جس کام کو کرنے سے شریعت نے روکا ہے اسکے کرنے سے وہکیسے ہو جاتا ہے یعنی بیک وقت اکھٹی تین طلاق دینےسے شریعت نے منع کیا ہے لہذا اگر کوئی شخص ایسا کر گزرے تو طلاق ایک ہی واقع ہو گی۔
ہم یہ کہتے ہیں اگر آپ کی اس (عقلی دلیل)کو مان لیا جائے تو شریعت مطہرە میں ایسے بہت سے عمل ہیں جن کو کرنے سے روک دیا گیا جس طرح ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے اب اگر کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو قتل کر ڈالے تو کیا یہ کہا جائے گا کہ اس پر کوئی حد مقرر نہیں کیوں کہ شریعت نے قتل کرنے سے منع کیا ہے لہذا اس نے کچھ بھی نہیں کیا؟؟؟ ہر گز نہیں بلکہ اسے قتل کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔(اور قاتل كى یہى سزا مقرر ہوئی ہے)۔

اسی طرح شراب پینے سے شریعت نے روکا ہے تو کیا شرابی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ اگر اس نے پی بھی لی تو اس پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ شریعت شراب پینے سے روکتی ہے؟؟؟ ہر گز نہیں بلکہ اس پر حد مقرر کی جائے گی اور اس کو کوڑے لگائے جائیں گے (اور شرابی کے لیئے کوڑوں کی سزا مقرر ہوئی)

بالکل یہی حال ایک مجلس میں تین طلاق دینے والوں کا ہے جس طرح قتل کرنے سے شریعت نے روکا ہے مگر قاتل کو اسکے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور شراب پینے سے شریعت نے منع کیا ہے مگر شرابی کو بطور سزا کوڑے مارے جائیں گے تو اسی طرح ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے شریعت نے روکا ہے مگر کوئی یہ حماقت کر ڈالے تو اسکی سزا یہی ہو گی کہ اسکی بیوی اس پہ حرام ہو جاتی ہے (اور یہی اس جرم کی سزا مقرر ہوئی) اور پھر عجیب عقل ہے ان عقلی دلائل والوں کی کہ شریعت نے بیک وقت تین طلاق دینے سے روکا ہے لہذا جس کام سے روکا جائے تو وہ کیسے ہو جاتا ہے؟؟؟ تو شریعت کی ممانعت کی وجہ سے تین طلاق کو تین شمار نہیں کی جائے گا تو پھر تین کو ایک کیسے تسلیم کر لیا جائے؟؟؟ کیا شریعت نے ایک طرف ایک عمل سے روکا بھی اور دوسری طرف اسی عمل میں سے کچھ حصہ قبول بھی کر لیا؟؟؟

لیکن دین جب عقل سے بنایا جاتا ہے تو یہی حال ہوتا ہے۔!!!

اور اگر غور کیا جائے تو عبداللہ ابن عباسؓ کے ان اقوال سے بھی یہ وضاحت ہو رہی ہے کہ اکھٹی تین طلاق دینا ( ہے تو خلاف شرع مگر طلاق واقع ہو

جاتی ہے )جیسا کہ انہوں نے فرمایا (تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اس لیئے تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی دیکھیں دلیل نمبر ١٢ )، (تو نے سنت کی مخالفت بھی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی۔ دیکھیں دلیل نمبر ١٣)، (تمھارے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی ہے۔ دیکھیں دلیل نمبر ١٦)، (تین کے ساتھ تجھ پر حرام ہو گئی اور نناوے کا تجھ پر گناہ ہے۔ دیکھیں دلیل نمبر ١٩)
_________________

دلیل نمبر۲۰

سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو (دو سو ٢٠٠) طلاقیں دی ہیں تو آپ نے فرمایا وہ تجھ سے جدا ہو گئی ہے۔

(مصنف عبدالرزاق ١١٣٤٢، موطا امام مالک ١١٩٦، مصنف ابن ابی شیبہ ۵١٧٨٠، سنن الکبری للبہقی ١٤٩٦٢)

_________________

دلیل نمبر۲۱

ایک شخص نے اپنی غیر مدخولہ بیوی کو تین طلاق دیں تو سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ وہ تجھ پر حرام ہو گئی ہے۔

(سنن سعید بن منصور ١، ١٠٧٦، بہقی ٧، ۵٣٣)

_________________

دلیل نمبر۲۲

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے گزشتہ رات اپنی بیوی کو (سو طلاقیں ١٠٠)دے دیں تو آپ نے کہا کیا تو نے ایک ہی دفعہ کہہ دی تھیں؟ اس نے کہا ہاں تو عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا جیسا تو نے کیا ویسا ہی ہو گیا۔۔۔۔

(بہقی ٧، ۵٣٣)

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے ان اقوال سے بھی یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یہ صحابی رسول ﷺ بھی ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی تسلیم کرتے تھے اور ان کا یہ فرمانا (کیا تو نے ایک ہی دفعہ کہہ دی تھیں؟( اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں اور پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا (تو نے جیسا کیا ویسا ہی ہو گیا) یعنی سو طلاق دینے پر تین واقع ہو گئیں۔

عبداللہ ابن مسعودؓ کا یہ قول جو سورج کی کرنوں کی طرح روشن ہے اس سے آنکھیں بند کر لینا ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟

_________________

دلیل نمبر۲۳

سیدنا ابو موسی اشعریؓ اور سیدنا عمران بن حصیؓن بھی ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاق کے قائل وفاعل تھے اور فرماتے تھے کہ اس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔

(سنن الکبری ٧، ٣٣٢، مستدرک ٢، ٤٧٢)

_________________

دلیل نمبر۲۴

ایک شخص سیدنا عمرو بن العاصؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ ایک شخص نے ہمبستری سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں وہ کیا کرے تو اس پر امام عطا بن یسار نے کہا کہ کنواری کی تو ایک ہی طلاق ہوتی ہے تو سیدنا عبداللہ ابن عمرؓو نے ان سے فرمایا تو، تو قصہ گو ہے ایک طلاق سے کنواری جدا ہو جاتی ہے اور تین طلاق سے وہ حرام ہو جاتی ہے جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے۔

(موطا امام مالک ١٢٣٦، مسند شافعی ٣٦، طحاوی ٢، ٣٠)

_________________

دلیل نمبر۲۵

سیدنا علی رضی اللہ عنہ ابن ابی طالب کہتے ہیں جو شخص اپنی بیوی سے کہے تو مجھ پر حرام ہے تو تین طلاق پڑ جاتی ہیں۔

(موطا امام مالک ١٢٠٠، استذکار ١١٢٠، مصنف عبدالرزاق ١١٣٨٠، مصنف ابن ابی شیبہ ١٨١٧٣، سعید بن منصور ١٦٩٤)

_________________

دلیل نمبر۲۶

سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ کہتے تھے کہ خلیہ اور بریہ ہر ایک میں تین طلاق پڑ جائیں گی۔

(موطا امام مالک ١٢٠١، مصنف عبدالرزاق ١١١٨٤، مصنف ابن ابی شیبہ ٩۵١٨١، سعید بن منصور ١٦٧٩، بہقی ٠١٩۵١، استذکار ١١٢١)

_________________

دلیل نمبر۲۷

سیدنا عبد الرحمن بن عوفؓ نے بیماری کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق بتہ (تین طلاقیں) دیں۔

(موطا امام مالک ١٢٣٨، مسند شافعی ١٣٩٨، مصنف عبدالرزاق ۵١٢١٩، مصنف ابن ابی شیبہ ١٩٠٦٢، بہقی ١٢٦۵١، استذکار ٨۵١١)

_________________

دلیل نمبر۲۸

امام ابو عبداللہ عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ بنی عدی کی ایک لونڈی جس کا نام زبراٴ تھا ایک غالم کے نکاح میں تھی ام المومنین سیدہ حفضہؓ نے اس کو بلایا اور کہا میں تم سے ایک بات کہتی ہوں مگر یہ نہیں چاہتی کہ تو کچھ کر بیٹھے تجھے اختیار ہے جب تک تیرا خاوند تجھ سے ہمبستری نہ کرے اگر ہمبستری کرے گا پھر تجھے اختیار نہیں رہے گا زبراٴ بول اٹھی اگر ایسا ہی ہے تو طلاق ہے پھر طلاق ہے پھر طلاق ہے تین بار ایسا کہہ کر اپنے خاوند سے جدا ہو گئی۔

(موطا امام مالک ۵١٢٢، مصنف عبدالرزاق ١٣٠١٧، سنن الکبری ١٤٢٨٦، مسند شافعی ٢٦٩، ١٢٨١)

_________________

دلیل نمبر۲۹

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا میں نے اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دیا تھا اس نے خود سے طلاق دے دی آپ کیا فرماتے ہیں تو آپ نے فرمایا طلاق پڑ گئی تو وہ بوال ایسا نہ کہیں آپ، تو عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا میں نے کیا کیا، تو نے اپنے آپ کیا۔

(موطا امام مالک ١٢٠٤، مصنف عبدالرزاق ١١٩٠٩، استذکار ١١٢٤)

_________________

دلیل نمبر۳۰

سیدہ عاٴشہ صدیقہؓ غیر مدخولہ کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتی تھی۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ٤۵١٧٨)

_________________

دلیل نمبر۳۱

سیدنا عبداللہ بن زبیؓر بھی غیر مدخولہ کی تین طلاق کو تین ہی شماد کرتے تھے۔
(تاریخ الکبیر ١، ٢٠، ٢١)

_________________

دلیل نمبر۳۲

ایک شخص نے اپنی بیوی کو (سو ١٠٠) طلاقیں دیں تو سیدنا مغیرە بن شعبہؓ نے فرمایا کہ تین طلاق سے وہ اس پر حرام ہو گئی ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ١٧٨٠٠، بہقی ٧، ٣٣٦)

_________________

دلیل نمبر۳۳

سیدنا ابو ہریرەؓ بھی غیر مدخولہ کی تین طلاق کو تین ہی شمار کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ١٧٨٥٤)

ہدایت عطا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کسی انسان کے بس کی یہ بات نہیں کہ وہ لوگوں میں ہدایت تقسیم کرتا پھرے انسان صرف اور صرف تبلیغ و اشاعت کا حق رکھتا ہے اور علم کو حاصل کرنا اور اسے پھیلانا اہم فریضہ ہے مگر اسکے ساتھ ایک مبلغ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چایۓ کہ پہلےخود قرآن و حدیث کو اس طرح سمجھے جس طرح ہمارے اسلاف نے سمجھا ہے اسکے بعد اسے حق ہے کہ وہ عوام تک علم کی اس روشنی کو پھیلائے۔

ایک مجلس کی تین طلاق تین یا ایک ؟ یہ اہم ترین مسئلہ ہے نہ کہ معمولی چونکہ راقم کو تقلید سے شدیدنفرت ہے اس لیئے تحقیق سے کام لیا گیا اور دونوں طرف کے دلائل کو اکھٹا کرنا شروع کیا اور کیا دیکھا کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین کہنے والے اپنے پاس (روشن دلائل رکھتے ہیں) اور دوسری جانب دلائل سے دامن خالی نظر آتا ہے بلکہ یوں کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ (اس معاملہ میں ہمیں تقلید کی بو آئی)اب تک ہم نے آپ کے سامنے احادیث اور اقوال اصحاب النبی ﷺ کو پیش کیا آئیں اب آپ کے سامنے تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کو پیش کرتے چلیں کیونکہ ( اھلحدیث کا دوسرا نام اھل دلیل ہے)

_________________

دلیل نمبر۳۴

امام عبدالرحمن قاسم بن محمد (متوفی ٴ١٠٧ھ) سے روایت ہے ایک ثقفی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دیا اسکی بیوی نے اپنے آپ ایک طلاق دی یہ چپ رہا پھر اس کی بیوی نے دوسری طلاق دی اس کے شوہر نے کہا تیرے منہ میں پتھر، پھر اسکی بیوی نے تیسری طلاق دی، اسکے شوہر نے کہا تیرے منہ میں پتھر دونوں لڑتے ہوئے مروان بن حکم کے پاس آئے مروان بن حکم نے قسم لی اسکے شوہر سے کہ اس نے طلاق کا اختیار دیا تھا۔

(موطا امام مالک ١٢٠٧، بہقی ٠٤٨۵١)

مروان بن حکم کا اس شخص سے قسم لینا اس بات کی دلیل ہے کہ طلاق پڑ گئی۔

اس طرح اابو عبدالملک مروان بن حکم (متوفی ۵٦ھ) طلاق بتہ میں تین طلاق کا حکم کرتے تھے۔

(موطا امام مالک ١١٩٨)

_________________

دلیل نمبر۳۵

امام محمد بن مسلم بن شہاب زہری (متوفی ١٢٤) فرماتے تھے اگر مرد عورت سے کہے میں تجھ سے بری ہوا اور تو مجھ سے بری ہوئی تین طلاقیں پڑیں گی مثل بتہ کے۔

(موطا امام مالک ١٢٠٣، مصنف عبدالرزاق ١١١٨٧، مصنف ابن ابی شیبہ ٨١٤٠، ۵٨١٦، ٨١٧٠)

_________________

دلیل نمبر۳۶

امام جعفر بھی تین طلاق کو تین ہی تصور کرتے تھے۔

(سنن الکبری للبہقى، ٧، ٣٤٠)

_________________

دلیل نمبر۳۷

امام سعید بن جبیر غیر مدخولہ کی تین طلاق کو تین شمار کرتے تھے۔

(سنن سعید بن منصور، جلد ١، ١٠٧٨)

_________________

دلیل نمبر۳۸

امام ابرھیم نخی غیر مدخولہ کی تین طلاق کو تین ہی شمار کرتے تھے۔

(سنن سعید بن منصور ١، ۵٢٦)

_________________

دلیل نمبر۳۹

امام مالک بن انس بھی تین طلاق کو تین ہی شمار کرتے تھے۔

(موطا امام مالک مترجم، ٥٨٣)

_________________

دلیل نمبر۴۰

امام شافعی بھی تین طلاق کو تین ہی تصور کرتے تھے۔

(کتاب االم ۵، ۵١٦)

علماٴ کرام کے اقوال

دلیل نمبر۴۱

حافظ ابن حزم اندلسی (متوفی ٦۵٤ھ) بھی اکھٹی تین طلاق پڑنے کے حق میں تھے۔
(المحلی١٠، ٢٠٧)

_________________

دلیل نمبر۴۲

حافظ ابن رشد (متوفی ٤٥٦ھ)فرماتے ہیں اکناف اور اطراف اور شہروں کے جمہور علماءفرماتے ہیں کہ ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاقیں تین ہی ہوں گی۔

(بدایہ المجتہد ٢، ٦٠)

_________________

دلیل نمبر۴۳

علامہ نووی (متوفی ٦٧٦ھ)فرماتے ہیں کہ آئمہ اربعہ اور جمہور سلف و خلف کا یہ مذہب ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت دینے سے تین پڑ جاتی ہیں۔

(شرح صحیح مسلم ١، ٤٧٨)

_________________

دلیل نمبر۴۴

علامہ امیر یمانی محمد بن اسماعیل (متوفی ١١٨٢ھ) لکھتے ہیں اہل مذاہب اربعہ اس پر متفق ہیں کہ بیک وقت اکھٹی تین طلاقیں تین ہو جاتی ہیں۔


(سبالم السالم ٣، ۵٢١)

_________________

دلیل نمبر۴۵

علامہ سیوطی (متوفی ٩١١ھ) نے کہا ہے کہ مقلدین آئمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے کہ تین طلاقیں دفعۃ دی جائیں تو تین ہی شمار ہوتی ہیں۔

(مسالک احنفاٴ ٦۵)

_________________

دلیل نمبر۴۶

قاضی شوکانی (متوفی ٠۵١٢ھ) فرماتے ہیں کہ جمہور تابعین اور صحابہ کرام رضوان اللہ کی اکثریت اور آئمہ اربعہ اور مذاہب اربعہ اور اہل بیت کا ایک طائفہ جن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ان سب کا یہی مذہب ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تین واقع ہو جاتی ہیں۔

(نیل االوطار ٦، ٢٤٥)

ان تمام دلائل کے بعد مسئلہ ایک مجلس کی تین طلاق کو اجماع میں دیکھتے ہیں مگر پہلے اجماع کی تعریف اور شریعت میں اجماع کا مقام کیا ہے اس پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔

“اجماع” کے لفظی معنی اکھٹا ہونے کے، مل کربیٹھنے کے، اور علمی لحاظ سے کسی دینی مسئلہ پر(علماءحق صحیح العقیدە اھل سنہ والجماعت)کے متفقہ فیصلے کا نام ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اور جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول ﷺ کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ پھرتا ہے ہم اسے اسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ (سورۃ النساء ۵١١)

برھان الدین ابراھیم بن عمر الباقی (متوفی ۵٨٨ھ)کی تفسیر میں لکھا ہے اور یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے۔

(نظم الدرر فی تناسب االآیات والسورج ٢، ٣١٨)

اس آیت کی تفسیر میں ابو عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر بن فرح القرطبی (متوفی ٦٧١ھ) نے فرمایا “علماءنے فرمایا کہ اس میں اجماع کے قول کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔

(تفسیر قرطبی الجامع االحکام القرآن ۵، ٣٨٦)

ابو اسحاق ابراھیم بن موسی بن محمد الشاطبی (متوفی ٴ٧٩٠ھ) نے لکھا ہے کہ پھر عام علماءنے اس آیت سے یہ استدلال کیا کہ اجماع حجت ہے اور اس کا مخالف گناہ گار ہے۔

(الموافقات ٤، ٣٨ الفصل الرابع فی العموم والخصوص: المسالۃ الثلاثہ، تحقیق مشہور حسن)

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں اجماع کہ معنی یہ ہے کہ احکام میں کسی حکم پر مسلمانوں کے علماء جمع ہو جائیں اور جب کسی حکم پر امت کا اجماع ہو جائے تو کسی کے لیئے جائز نہیں کہ وہ علماء کے اجماع سے باہر نکل جائے کیونکہ امت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی لیکن بہت سے مسائل میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجماع ہے حالنکہ ان میں اجماع نہیں ہوتا بلکہ دوسرا قول کتاب و سنت میں زیادە راجح ہوتا ہے۔

(الفتاوی الکبری ١، ٤٨٤، مجموع فتوی ٢٠، ١٠)

اور ہمارے امام نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ “اللہ میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔
(مستدرک الحاکم ١، ١١٢ح ٣٣٩)

دوسری روایت میں ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی لہذا تم جماعت (اجماع) کو لازم پکڑو کیونکہ یقینا اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔

(المحعجم الکبیر للطبرانی ١٢، ٤٤٧ ح ١٣٦٢٣ و سند حسن لذاتہ وصحیح لغیرە)

سیدنا عمرؓابن خطاب نے جلیل القدر تابعی امام شریح بن الحارث القاضی کی طرف لکھ کر بھیجا جب تمھارے پاس اللہ کی کتاب میں سے کوئی دلیل آئے تو اس کے مطابق فیصلہ کرو اور اسکے مقابلے میں لوگوں کی طرف التفات نہ کرنا۔ پھر اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو رسول ﷺ کی حدیث دیکھ کر اس کے مطابق فیصلہ کرنا۔ اور اگر کتاب اللہ اور رسول ﷺ کی سنت میں بھی نہ ملے تو پھر دیکھنا کہ کس بات پر لوگوں کا اجماع ہے پھر اسے لے لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔االآخر

(مصنف ابن ابی شیبہ ٧، ٢٤٠ ح ٢٢٨٩٠ و سند صحیح، المختارە ٢٣٨ح ١٣٤)

سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمر والاانصاریؓ نے ایک تابعی کو نصیت کرتے ہوئے فرمایا میں تمھیں اللہ کے تقوی اور جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم دیتا ہوں کیونکہ اللہ تعالی محمد ﷺ کی امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔
(کتاب المعرفہ والتاریخ ٣، ٢٤٤ ،٢٢٤٥)

امام المحدثین ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری کی کتاب صحیح البخاری میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ تین آدمیوں کو قتل کرنا جائز ہے قاتل ، شادی شدہ زانی ، اور جماعت کو چھوڑنے واالا۔ (رقم الحدیث ٦٨٧٨)

اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر العسقلانی نے کہا (جماعت کو چھوڑنے والا اجماع کے مفہوم میں داخل ہے۔ (فتح الباری ٢، ٢٠٤)

ان تمام برہان کے بعد یہ بات ثابت ہو گئی کہ اجماع امت حجت ہے اور ہمارے احباب اہل حدیث باخوبی اس بات سے واقف ہیں یا یوں کہیں کہ ڈنکے کی چوٹ پر وہ اس بات کا اعلان و اقرار کرتے ہیں کہ اجماع امت حجت ہے توآئیں دیکھتے ہیں (کتب االاجماع) ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں کیا کہتی ہیں۔

_________________

دلیل نمبر ٤٨

علامہ ابو البرکات عبدالسلام بن تیمیہ (متوفی ٦٢١ھ) فرماتے ہیں کہ ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر اجماع ہے۔

(منتقی االخبار ٢٣٧ مع نیل االوطار ٦، ٢٤٣)

_________________

دلیل نمبر ٤۹

حافظ ابن قیم فرماتے ہیں تین طلاقوں کے واقع ہونے پر ابو بکر ابن العربی اور ابوبکر الرازی نے اجماع نقل کیا ہے امام احمد بن حنبل کے کالم کا ظاہر بھی اسی کو چاہتا ہے۔

(اغاثہ اللھفھان ١، ٣٢٣)

_________________

دلیل نمبر ۵۰

امام ابو بکر بن المنذر (متوفی ٣١٨ھ) اپنی کتاب ” کتاب الاجماع” میں فرماتے ہیں کہ اجماع ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین سے زائد طلاقیں دیں تو صرف تین ہی حرمت کے لیئے کافی ہیں۔
(کتاب الاجماع ٣٩٩)

_________________

دلیل نمبر ۵۱

اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو پھر بغیر دوسرے شوہر کے پہلے شوہر کے لیئے وہ حلال نہیں جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔

(کتاب الاجماع لابن المنذر ۴۱۱)

تو قارئین کرام “ایک مجلس کی تین طلاق” کا مسئلہ اجماع سے بھی ثابت ہوا کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق تین ہی ہوں گی نہ کہ ایک اور اسکے بعد بھی اگر کوئی شخص اجماع کے برعکس کوئی فیصلہ کرتا ہے اور پھر اس فیصلے پر ہٹ دھرمی کا مظاہرە کرے تو اس کو بخاری شریف کی حدیث اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے فتوی پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہیئےکہیں ایسا نہ ہو ( کہ دلائل معلوم ہو جانے کے بعد آخرت میں پچتانا پڑے؟)

_________________

دلیل نمبر ۵۲

مشہور اھلحدیث عالم محدث شمس الحق عظیم آبادی (متوفی ١٣٢٩ھ)کہتے ہیں کہ آئمہ اربعہ اور جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے کہ تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔

(عون العبود ٢٢٩)

_________________

دلیل نمبر ۵۳

مشہور اھلحدیث عالم حافظ عبداللہ روپڑی بھی اسی کے قائل ہیں۔

(رسالہ ایک مجلس کی تین کی طلاقیں ضمیمہ تنظیم اہل حدیث، ص ۵،٤،٣)

_________________

دلیل نمبر ۵۴

اہلحدیث عالم مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی (متوفی ١٣٨١ھ) لکھتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں یہ مسلک صحابہ کرامؓ ، تابعین، وتبع تابعین، و آئمہ محدثین، متقدمین کا ہے ہی نہیں یہ مسلک (٧٠٠ سات سو) سال کے بعد کا ہے جو شیخ االسلام ابن تیمیہ کے فتوی کے پابند ہیں اور ان کے معتقد ہیں یہ فتوی ابن تیمیہ نے ساتویں صدی کے آخر میں یا آٹھویں صدی کے شروع میں دیا تھا تو اس وقت کے علماء اسلام نے ان كی سخت مخالفت کی تھی متاخرین علماء اھلحدیث جو ابن تیمیہ کے متعقد ہیں اور اس مسئلے میں متفق ہیں وہ اسی کو محدثین کا مسلک بتاتے ہیں اور مشہور کردیا گیا کہ یہ مذہب محدثین کا ہے اوراس کے خلاف مذہب حنفیہ کا ہے اس لیئے ہمارے اصحاب فورا اس کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اسکے خلاف کو رد کر دیتے ہیں حالانکہ یہ فتوی یا یہ مذہب (ایک مجلس کی تین طلاق) آٹھویں صدی ہجری میں وجود میں آیا۔

(فتاوی ثنائیہ جلد ٢، ٤٣ تا ٤٦)

_________________

دلیل نمبر ۵۵

اھلحدیث عالم محمد ابراھیم سیالکوٹی (متوفی ۵١٣٧ھ) تین طلاق کے واقع ہونے کے قائل تھے۔

(اخبار اھلحدیث ۵١ نومبر ١٩٢٩)

ان لوگوں کے دلائل کا جائزہ جو ایک مجلس کی 3 طلاق کو ایک کہتے ہیں

ایک مجلس کی تین طلاق کو تین کہنے والوں کے دلائل کو آپ نے پڑھا اب فریق ثانی (ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک) کہنے والوں کے دلائل کو محدثین و اسلاف کی عدالت میں رکھتے ہیں۔

_________________

دلیل نمبر ۱

سیدنا رکانہؓ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم رجوع کر لو رکانہؓ نے کہا میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے معلوم ہے تم رجوع کر لو۔

(ابو داود ٢١٩٦، سنن الکبری للبہقی ٧، ٣٣٩ و سندہ ضعیف )

سند کی تحقیق۔۔۔ ” بعض بنی ابی رافع” مجہول ہیں۔

بعض، بنی ابی رافع سے مراد فضل بن عبداللہ بن ابی رافع لیتے ہیں (تقریب ٤، ٣٩١) فضل بن عبداللہ بن ابی رافع مقبول ہے حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں متابعت کی صورت میں اسکی روایت قبول کی جائے گی ورنہ لین الحدیث کمزور راوی ہے۔

خلاصہ تحقیق یہ روایت ضعیف ہے

_________________

دلیل نمبر ۲

سیدنا رکانہؓ نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں تو آپ ﷺ نے اسے رجوع کا حکم دیا۔

(مسند احمد ١، ۵٢٦، ٢٣٨٧، سنن الکبری للبہقی ٧، ٣٣٩، مسند ابی یعلی ١، ٢٤٩٥ و سندە ضعیف )

اسکی سند میں داود بن حصین ہے جو عکرمہ سے روایت کرتا ہے محدثین کا فرمانا ہے کہ یہ جب عکرمہ سے روایت کرے تو روایت منکر ہوتی ہے۔ امام ابو داود بھی فرماتے ہیں کہ داود بن حصین کی روایت عکرمہ سے منکر ہوتی ہے۔(میزان الاعتدال جلد ١، ٣١٧، التہذیب ٣، ١٨١، خلاصہ الخزرجی ١٩١٠)

حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کو محلول کہتے ہیں (تخلیص الحبیر ٣١٩)

محدث جوزجانی کہتے ہیں کہ محدثین اس حدیث کو قابل تعریف نہیں سمجھتے تھے (تہذیب جلد ٣، ١٨١)
امام ذہبی اس روایت کو داود بن حصین کے مناکیرمیں شمار کرتے تھے (میزان الاعتدال جلد ١، ٣١٧)

حافظ ابن رشد نے بھی اس روایت پہ کلام کیا ہے (بدایہ المجتہد جلد ٢، ٦١)

محدث عبداللہ روپڑی نے بھی اس روایت پر کلام کیا ہے (رسالہ ایک مجلس کی تین طلاقیں (ضمیمہ ١٦)
خلاصہ تحقیق یہ حدیث ضعیف ہے۔

اس روایت سے متعلق محدثین اور علماء کی آراء جاننے کے لیئے یہ تحریر پڑھیں۔

_________________

دلیل نمبر ۳

بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ہے کہ وہ تین طلاقوں کو ایک ہی تسلیم کرتے تھے۔

(ابو داود ١، ٢٩٩، شرعی طلاق ٢٠، ایک مجلس کی)

(تین طلاق اور ان کا شرعی حل ٢٠۵، دین الحق ٢، ٦٦٨)

امام ابو داود اس قول کو اپنی سنن میں تحت الحدیث ٢١٩٧ میں اس سند کے ساتھ لے کر آئے ہیں۔ عن ابن عباسؓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔االآخر

امام ابو داود (٢٠٢ھ) میں پیدا ہوئے (تاریخ المحدثین٤٨٤، تذکرە الحفاظ ۵٦١)

امام حماد بن زید (١٧٩ھ) میں فوت ہوئے (تذکرە الحفاظ ٢٣١)

لہذا اس قول کی سند منقطع ہے (اہلحدیث جن کا دوسرا نام اہل دلیل ہے) ان کو یہ بات زیبا نہیں دیتی وہ منقطع روایات کو دلیل بنائیں ۔

_________________

دلیل نمبر ۴

عطا بن ابی رباح کہتے ہیں مجھے خبر ملی ہے کہ ابن عباسؓ تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے تھے۔

(مصنف عبدالرزاق ١١٠٧٦ بحوالہ دین الحق ٢، ٦٦٩)

یہ خبر دینے والے کون تھے؟؟؟ مجھے خبر ملی۔۔۔۔۔ ایک بزرگ نے کہا۔۔۔۔۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔۔۔ ہم اپنے بھائیوں سے التجا کرتے ہیں اللہ کے لیئے اس طرح کے دلائل سے مسلک اھلحدیث کا وقار ختم نہ کریں اس طرح کی بچکانہ باتیں دیوبند کے تبلیغی نصاب میں بہت درج ہیں اگر آپ کی اس پیش کردہ سند کو حجت مان لیا جائے تو تبلیغی نصاب میں بے سند من گھڑت واقعات کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ تین طلاق کو ایک کہنے والوں کے پاس جتنے بھی اقوال ہیں مندرجہ بالا اقوال کی طرح بے سند، منقطع، ضعیف، ہیں جہاں تک عبداللہ ابن عباسؓ کا قول مسلم شریف میں درج ہے اس کے بارے میں محدثین اور ہمارے اسلاف کا کیا کہنا ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔

_________________

دلیل نمبر ۵

سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ نے فرمایا نبی کریم ﷺ، سیدنا ابوبکر صدیؓق اور سیدنا عمرؓ ابن خطاب کے ایام خلافت کے ابتدائی دو سال میں تین طلاق ایک ہی ہوتی تھی سیدنا عمرؓ نے فرمایا لوگوں نے اس معاملے میں جلد بازی سے کام لیاحالانکہ ان کو سوچنے اور سمجھنے کا وقت حاصل تھا ہم کیوں نہ ان کو ان پر نافذ کر دیں تو سیدنا عمر فاروقؓ نے ان پر تین ہی نافذ کر دیں۔

(مسلم ١٤٧٢، مسند احمد ٢١٦، مستدرک ٢، ١٩٦، سنن الکبری البہقی ٧، ٣٣٦ و سند صحیح)

نمبر ١۔۔۔ وہ کون سے محدث کرام ہیں جنہوں نے اس روایت سے یہ استدلال کیا ہو کہ (ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہوتی ہے) ان کے نام بتائے جائیں۔

نمبر ٢۔۔۔ یہ مرفوع بھی نہیں بلکہ سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کا قول ہے۔

نمبر ٣۔۔۔ سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کی دوسری روایات اس قول کے خلاف ہیں اور مخالفت کی صورت میں ترجیح جمہور کو ہو گی اس لیئے امام بہقی فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے اس روایت کی تخریج نہیں کی محض اس لیئے کہ سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کی جملہ احادیث اسکے خلاف ہیں۔

(سنن الکبری ٧، ٣٣٧)

اور امام بہقی فرماتے ہیں سعید بن جبیر ، عطابن ابی رباح ، مجاہد ، عکرمہ ، عمرو بن دینار ، مالک بن الحوریث ، محمد بن ایاس بن بکیر ، معاویہ بن عیاش االنصاری تمام ثقہ و مشہور راوی عبداللہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیا ہے۔

(سنن الکبری ٧، ٣٣٨)

حافظ ابن رشد نے بھی اسی طرح کہا ہے (بدایہ المجتہد ٢، ٦١)

امام بہقی نے مزید فرمایا کہ امام شافعی فرماتے ہیں بعید نہیں کہ یہ روایت منسوخ ہو ورنہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ایک حکم ان کو معلوم ہو پھر وہ دیدە دانستہ اسکے خلاف عمل کرتے اور فتوی دیتے ہوں۔

(سنن الکبری ٧، ٣٣٨)

امام شافعی کا یہ قول نظرانداز کرنے کے قابل بھی نہیں کیونکہ پہلے تین طلاقیں دینے کے بعد بھی رجوع ہو سکتا تھا۔

عبداللہ ابن عباسؓ سے ہی روایت ہے کہ پہلے تین طلاق کے بعد رجوع ہو سکتا پھر جب ” الطلاق مرتان ” اتری تو یہ حکم منسوخ ہو گیا۔

(ابوداود ۵٢١٩، نسائی ٣٥٨٤، سنن الکبری للنسائی٧٨٤۵)

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں لوگ بے شمارطلاقوں کے مالک ہوا کرتے تھے ایک آدمی چاہتا تو اپنی بیوی کو (١٠٠ سو) یا اس سے بھی زیادە طلاقیں دے دیتا پھر جب ” الطلاق مرتان” اتری تو لوگ سنبھل گئےاور نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا۔

(ترمذی ١١٩٢)

نمبر ٤۔۔۔ حافظ ابن حزم فرماتے ہیں اس روایت میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس چیز پہ دلالت کرتی ہو کہ نبی کریم ﷺ نے تین طلاقوں کو ایک کہا ہو اور نہ اس میں یہ چیز ہے کہ نبی کرم ﷺ کو اس کا علم ہو اور آپ ﷺنے اس کو برقرار رکھا اور حجت تو صرف اسی چیز میں ہے جو نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہو یا کوئی کام کیا ہو یا آپ کو اس کا علم ہوا ہو اور آپ نے اس پر نکیر نہ فرمائی ہو۔

(المحلی ١٠، ٢٠٦)

کسی چیز کا نبی ﷺ کے عہد مبارک میں اور عہد صدیقی میں ہونا اس بات کی طرف اشارہ نہیں کہ وہ کام آپ کے حکم اور اجازت سے ہوا ہو بعض کام ایسے بھی تھے جو آپ ﷺکے دور میں بھی ہوتے رہے مگر آپ ﷺ کو ان کی خبر نہ ہوئی۔

مثال سیدنا عمار بن یاسرؓ نے نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جنابت کے لیئے زمین پر پلٹے کھائے اور بعد میں نبی کریم ﷺ

کو اس بات کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے ان کے اس عمل کی تغلیط فرمائی اور صحیح تیمم کا طریقہ بتایا۔

(صحیح بخاری ٣٣٨، مسلم ٨٢٠)

سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ متعہ کے جواز کا فتوی دیتے تھے جس پر سیدنا عبداللہ ابن زبیؓر شدید تنقید کرتے تھے۔

(صحیح مسلم ٣٤٣٢)

گو آخر میں سیدنا عبداللہؓ نے اس سے رجوع کر لیا تھا (صحیح ابی عوانہ ٣٢٨٤)

سیدنا عمرؓ فاروق حج تمتع سے منع فرماتے تھے تو سیدنا ابو موسی اشعری نے ان کا رد کیا۔
(مسلم ١٢٢٢)

اسی طرح سیدنا عثمانؓ بھی حج تمتع کا منع کرتے تھے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کا رد کیا (صحیح مسلم ١٢٢٣)

اب جو حضرات سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کے قول سے استدلال کرتے ہیں ان کا حج تمتع، متعہ اور تیمم کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟؟؟؟؟ تو عرض کرنے کا مطلب ہے صرف دلیل سے بات نہیں بنتی جب تک دلیل روشن نہ ہو۔

دونوں طرف کے اقوال کا جائزە لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں صحابہ کرام تابعین و تبع تابعین آئمہ محدثین کا یہی فیصلہ تھا اور اجماع بھی اسی پر ہوا کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں۔ عبداللہ ابن عباسؓ کا یہ قول خبر واحد ہے اور دوسری طرف ان کے اپنے جملہ اقوال اور دیگر اصحابہ کرام عبداللہ ابن عباسؓ کے اس قول کے خلاف فتوی دیتے ہیں تین طلاق کو ایک کہنے والے ہمیں عبداللہ ابن عباسؓ کے قول کے علاوہ کسی اور صحابی رسول ﷺ سے یا خیر القرون کے دور میں سے کوئی ایک دلیل دے دیں اگر نہ دے سکیں تو پھر خبر واحد کو حجت نہ بنائیں کیونکہ بقول امام شافعی کہ اجماع خبر واحد سے بڑا ہے (آداب الشافعی ومناقبہ البن ابی حاتم ١٨٨،١٧٧)

اس روایت سے متعلق محدثین کا فہم جاننے کے لیئے یہ تحریر پڑھیں۔

آخری گزارش ہمارے اس مضمون کا جواب اگر کوئی دینا چاہے تو ہماری ہر دلیل پر کلام کرے ہمارا مقصد صرف اور صرف آپ کی اصلاح ہے۔بحث و مباحثہ کا شوق اور مناظرانہ لہجہ رکھنے والے حضرات جواب دینے سے پرہیز کریں ہمارے دلائل اور ہمارے سوالات اہل علم کے لیئے قیامت کی صبح تک باقی رہیں گے جواب دینے والے جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں کیونکہ وقت طویل ہے.

وما علینا الا البلاغ

تاریخ ١/٢/٢٠١٤

یہ تحریر اب تک 115 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔