ایک جانور کو دو یا اس سے زیادہ اسی جنس کے جانوروں کے عوض فروخت کرنا جائز ہے
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم اشترى عبدا بعبدين
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو غلاموں کے عوض ایک غلام خریدا ۔ “
[مسلم: 1602 ، كتاب المساقاة: باب جواز بيع الحيوان ، ابو داود: 3358 ، ترمذي: 1239 ، ابن ماجة: 2869 ، أحمد: 349/3 ، بيهقي: 286/5]
➋ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا۔ اونٹ ختم ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صدقہ کے اونٹوں پر (ادھار اونٹ) لینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ راوی کہتا ہے کہ :
فـكـنــت آخــذ البعير بالبعيرين إلى إبل الصدقة
”میں ایک اونٹ صدقہ کے دو اونٹوں کے بدلہ میں لیتا تھا۔“
[حسن: إرواء الغليل: 1358 ، أحمد: 171/2 ، ابو داود: 3357 ، كتاب البيوع: باب فى الرخصة فى ذلك ، دار قطني: 70/3 ، حاكم: 56/2 ، بيهقي: 278/5]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو دحیہ کلبی سے سات غلاموں کے عوض خریدا ۔“
[أحمد: 123/3 ، مسلم: 1365 ، ابو داود: 2997 ، ابن ماجة: 2272 ، بيهقي: 287/5]
➍ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الحيوان بالحيوان
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوان کو حیوان کے بدلے (اُدھار ) فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1841 ، المشكاة: 2822 ، ابو داود: 3356 ، ترمذي: 1237 ، ابن ماجة: 2270 ، دارمي: 254/2 ، شرح معاني الآثار: 60/4 ، بيهقى: 288/5]
امام شافعیؒ نے آخری حدیث اور پہلی حدیثوں کے درمیان تطبیق اس طرح دی ہے کہ یہاں ادھار سے مراد دونوں طرف سے اُدھار ہے (یعنی بیع الکالی ، با لکالی)۔
امام خطابیؒ نے اسی کو پسند کیا ہے۔
[معالم السنن: 29/5 ، سبل السلام: 1130/3]
اس مسئلے میں علما کا اختلاف ہے:
(جمہور ، شافعیؒ ، اسحاقؒ) حیوان کی حیوان کے بدلے بیع ادھار اور کمی بیشی کے ساتھ مطلق طور پر جائز ہے۔
(مالکؒ) انہوں نے جنس مختلف ہونے کی شرط لگائی ہے۔
(احناف ، ثوریؒ ، احمدؒ ) اُدھار کے ساتھ یہ بیع کرنا مطلق طور پر ممنوع ہے ۔
[حلية العلماء: 154/4 ، الحاوى: 100/5 ، المبسوط: 122/12 ، الهداية: 62/3 ، المغنى: 64/6 ، سبل السلام: 51/3]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
[سبل السلام: 1136/3]