نبوت، قیامت اور تقدیر پر ایمان کی فرضیت پر قرآنی وحدیثی دلائل
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

ایمان اسلام کی بنیاد ہے اور اس کے بغیر انسان کی زندگی اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے۔ گذشتہ خطبات میں ایمان کی اہمیت اور ارکانِ ایمان کے تین حصے یعنی ایمان باللہ، ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔ اس مضمون میں ایمان کے بقیہ تین ارکان — ایمان بالرسل، ایمان بالیوم الآخر، اور ایمان بالقدر — کو مکمل طور پر بیان کیا جائے گا۔

ایمان کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان دل سے یقین کرے، زبان سے اقرار کرے، اور اپنے اعمال کے ذریعے اس کی تصدیق کرے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا اور کامل ایمان عطا فرمائے۔

رسولوں پر ایمان لانا

❖ رسولوں پر ایمان کا مفہوم

رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات پر یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے مخصوص افراد کو اپنی وحی کے ابلاغ کے لیے منتخب فرمایا۔
ہم ان سب پر ایمان رکھیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا اور جن کا ذکر نہیں آیا۔
تمام رسولوں نے اللہ کا پیغام امانت کے ساتھ پہنچایا، کچھ نہ چھپایا اور نہ اس میں کوئی تبدیلی کی۔

انبیاء و رسل نے اپنے فریضے کو کمالِ امانت کے ساتھ ادا کیا، لوگوں پر حجت قائم کر دی، خیر خواہی کی اور ہدایت کا راستہ واضح کیا۔ جو ان کی پیروی کرے وہ راہِ ہدایت پاتا ہے، اور جو ان کی نافرمانی کرے وہ گمراہ ہو جاتا ہے۔

❖ حقیقتِ نبوت

نبوت دراصل خالق اور مخلوق کے درمیان وحی و شریعت کے پیغام کا واسطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے منتخب فرما لیتا ہے۔
یہ ایک وہبی (عطائی) مقام ہے، نہ کہ کسی کے اپنے کسب و ریاضت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ ﴾ [الحج: ۷۵]

ترجمہ:

“اللہ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو چن لیتا ہے، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔”

اسی طرح فرمایا:
﴿ اَللّٰہُ یَجْتَبِیْ إِلَیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَیَہْدِیْ إِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ ﴾ [الشوریٰ: ۱۳]

ترجمہ:

“اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے چن لیتا ہے، اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے وہ اپنی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔”

❖ رسولوں کی بعثت کی حکمتیں

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مختلف حکمتوں کے تحت مبعوث فرمایا، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

① توحید کی دعوت اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دینا

رسولوں کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو مخلوق کی عبادت سے نکال کر اللہ واحد کی عبادت میں لگایا جائے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ [النحل: ۳۶]

ترجمہ:

“ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور تمام باطل معبودوں سے بچو۔”

② لوگوں پر حجت قائم کرنا

رسولوں کی بعثت کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی حجت بندوں پر پوری ہو جائے تاکہ قیامت کے دن کوئی عذر باقی نہ رہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ﴾[النساء: ۱۶۵]

ترجمہ:

“ہم نے رسولوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تاکہ ان کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔”

اسی طرح فرمایا:
﴿ اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللّٰہِ وَیَخْشَوْنَہُ وَلَا یَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللّٰہَ ﴾ [الأحزاب: ۳۹]

ترجمہ:

“یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور صرف اسی سے ڈرتے ہیں، اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔”

③ غیبی امور کی خبر دینا

انبیاء و رسل نے انسانوں کو ان امور سے آگاہ کیا جن تک عقل خود نہیں پہنچ سکتی، جیسے اللہ کے اسماء و صفات، فرشتے، قیامت، حساب، جنت و دوزخ وغیرہ۔

④ عملی نمونہ بن کر شریعت کی وضاحت کرنا

رسولوں کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ وہ وحی پر عمل کر کے دین کا عملی نمونہ پیش کریں۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ ﴾ [النحل: ۴۴]

ترجمہ:

“ہم نے آپ پر ذکر (قرآن) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کریں جو ان پر نازل کیا گیا ہے۔”

اسی طرح فرمایا:
﴿ أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ ﴾ [الأنعام: ۹۰]

ترجمہ:

“یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی، پس آپ بھی ان کے طریقے کی پیروی کریں۔”

⑤ نفوس کی اصلاح اور تزکیہ

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولًا مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ ﴾ [الجمعۃ: ۲]

ترجمہ:

“وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے، انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔”

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ)
[البيهقی فی السنن الکبریٰ: ۱۰/۳۱۸، احمد: ۱۴/۵۱۳، صحیح الجامع: ۲۳۴۹]

ترجمہ:

“مجھے بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں۔”

❖ تمام انبیاء کا دین — دینِ اسلام

تمام انبیاء و رسل علیہم السلام ایک ہی دین کی دعوت لے کر آئے، اور وہ ہے دینِ اسلام۔ ان سب کی دعوت کا محور و مرکز اللہ کی توحید تھا — یعنی صرف اللہ کی عبادت اور ہر قسم کے شرک سے اجتناب۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّٰہِ الْإِسْلَامُ ﴾ [آلِ عمران: ۱۹]

ترجمہ:

“یقیناً اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔”

چنانچہ تمام رسولوں نے اپنی قوموں کو اسی دین کی طرف بلایا۔ اگرچہ ان کی شریعتوں اور طریقوں میں کچھ جزوی اختلافات تھے، مگر ان کا عقیدہ، ایمان، اور بنیادی دعوت ایک ہی تھی۔

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(الأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ أُمَّهَاتُہُمْ شَتّٰی وَدِیْنُہُمْ وَاحِدٌ)
[بخاری: ۳۴۴۳، مسلم: ۲۳۶۵]

ترجمہ:

“تمام انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں (یعنی باپ ایک اور مائیں مختلف ہیں)، مگر ان کا دین ایک ہی ہے۔”

❖ تمام رسول بشر ہیں — علمِ غیب صرف اللہ کے لیے

تمام انبیاء علیہم السلام انسان تھے۔ وہ کھاتے پیتے، شادی کرتے، سوتے اور بیماری و تھکاوٹ کا سامنا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں انسانوں میں سے ہی منتخب فرمایا تاکہ وہ انسانی زندگی میں رہ کر وحی کی عملی تفسیر بنیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ إِلَّا إِنَّہُمْ لَیَأْکُلُونَ الطَّعَامَ وَیَمْشُونَ فِی الْأَسْوَاقِ ﴾ [الفرقان: ۲۰]

ترجمہ:

“ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔”

اسی طرح فرمایا:
﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّیَّۃً ﴾ [الرعد: ۳۸]

ترجمہ:

“ہم نے آپ سے پہلے بھی کئی رسول بھیجے اور ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا۔”

جہاں تک علمِ غیب کا تعلق ہے، وہ صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ انبیاء علیہم السلام غیب نہیں جانتے تھے، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ انھیں بتا دیتا۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُولٍ ﴾ [الجن: ۲۶-۲۷]

ترجمہ:

“وہی غیب کا جاننے والا ہے، اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اس رسول کے جسے وہ پسند کر لے۔”

❖ انبیاء و رسل تبلیغ میں معصوم ہیں

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اخلاقی و روحانی اعتبار سے سب سے کامل انسان بنایا۔ وہ کبیرہ گناہوں اور تبلیغِ رسالت میں خطا سے محفوظ رکھے گئے۔
اللہ نے ان کی حفاظت کی تاکہ وہ دین کو امانت و دیانت کے ساتھ پہنچائیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ﴾ [المائدۃ: ۶۷]

ترجمہ:

“اے رسول! اپنے رب کی طرف سے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دو، اگر ایسا نہ کیا تو تم نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا، اور اللہ تمہیں لوگوں سے بچائے گا۔”

اگر کسی نبی سے کبھی کوئی معمولی لغزش سرزد ہوئی جو تبلیغ سے متعلق نہ تھی، تو اللہ نے فوراً اس کی اصلاح فرمائی اور وہ فوراً توبہ کر کے رجوع کر لیتے۔

❖ انبیاء و رسل کی تعداد

حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
“یا رسول اللہ! انبیاء کی تعداد کتنی ہے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:

(مِائَۃُ أَلْفٍ وَأَرْبَعَۃٌ وَعِشْرُونَ أَلْفًا، الرُّسُلُ مِنْ ذٰلِکَ ثَلَاثُمِائَۃٍ وَخَمْسَۃَ عَشَرَ)
[احمد، تفسیر ابن کثیر ۱/۷۱۷، صحیحۃ الألبانی ۵۷۳۷]

ترجمہ:

“انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے، جن میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں۔”

❖ نبی اور رسول میں فرق

علماء کے نزدیک رسول وہ ہوتا ہے جسے نئی شریعت کے ساتھ مبعوث کیا جائے، اور وہ مومنین کے ساتھ ساتھ کفار تک بھی اللہ کا پیغام پہنچانے کا مکلف ہو۔
جبکہ نبی وہ ہوتا ہے جسے وحی دی جائے مگر وہ اپنی قوم میں موجود شریعت ہی کی تبلیغ کرے۔

اسی لیے حضرت نوح علیہ السلام کو پہلا رسول قرار دیا گیا، کیونکہ ان سے پہلے کے انبیاء جیسے آدم، شیث اور ادریس علیہم السلام صرف نبی تھے۔

حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا:
“یا رسول اللہ! کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا: “ہاں، اللہ نے ان سے کلام کیا۔”
پوچھا: “آدم اور نوح علیہما السلام کے درمیان کتنا زمانہ تھا؟”
آپ ﷺ نے فرمایا: (عَشْرَۃُ قُرُونٍ)
[ابن حبان: ۶۱۹، صحیح الأرناوط]

ترجمہ:

“دس صدیاں (یعنی دس نسلیں) گزر گئیں۔”

❖ جن انبیاء کا ذکر قرآن میں آیا

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض انبیاء علیہم السلام کے نام ذکر فرمائے اور بعض کا ذکر نہیں کیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاہُمْ عَلَیْکَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ ﴾ [النساء: ۱۶۴]

ترجمہ:

“اور ہم نے بہت سے رسولوں کے واقعات آپ سے بیان کیے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے نہیں بیان کیے۔”

❖ انبیاء میں فضیلت و درجہ بندی

اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّیْنَ عَلٰی بَعْضٍ ﴾ [الإسراء: ۵۵]

ترجمہ:

“ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر برتری دی۔”

اور فرمایا:
﴿ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ ﴾ [البقرۃ: ۲۵۳]

ترجمہ:

“یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔”

سب سے افضل رسول اولو العزم کہلاتے ہیں:
حضرت نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد ﷺ۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ﴾ [الأحقاف: ۳۵]

ترجمہ:

“پس آپ صبر کریں جیسے اولو العزم رسولوں نے صبر کیا۔”

❖ سید الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی فضیلت

تمام رسولوں میں سے سب سے افضل رسول ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ خاتم النبیین، امام المتقین اور سید ولدِ آدم ہیں۔
قیامت کے دن تمام انبیاء علیہم السلام آپ کے جھنڈے تلے ہوں گے، اور آپ ہی صاحبِ مقامِ محمود، صاحبِ لواء الحمد، صاحبِ حوض، اور صاحبِ شفاعتِ کبریٰ ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیثَاقَہُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوحٍ وَإِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَأَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّیثَاقًا غَلِیْظًا ﴾ [الأحزاب: ۷]

ترجمہ:

“اور جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا، اور (بالخصوص) تم سے، اور نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ ابن مریم سے۔ اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا۔”

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَبِیَدِیْ لِوَاءُ الْحَمْدِ، وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِیٍّ یَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)
[الترمذی: ۳۱۴۸، صحیح الألبانی]

ترجمہ:

“میں قیامت کے دن تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں گا، میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا، اور یہ فخر کی بات نہیں۔ اس دن آدم علیہ السلام اور ان کے سوا تمام نبی میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔”

آپ ﷺ کی شریعت سب سے کامل، اور آپ کی امت سب امتوں میں بہترین ہے۔ قرآن نے آپ کو اور آپ کی امت کو فضیلت بخشی، اور یہ امت آخری ہونے کے باوجود قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھائی جائے گی۔

 آخرت پر ایمان

❖ آخرت پر ایمان کی حقیقت

ایمان بالآخر یعنی قیامت، حساب و جزا، جنت و دوزخ پر یقین رکھنا، ایمان کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔
یہ یقین رکھنا کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اور پھر سب کو دوبارہ زندہ کر کے اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا تاکہ ان کے اعمال کا حساب لیا جائے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ یَوْمَ یَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا کَأَنَّہُمْ إِلٰی نُصُبٍ یُّوفِضُونَ ﴾ [المعارج: ۴۳]

ترجمہ:

“جس دن لوگ اپنی قبروں سے تیزی سے نکلیں گے جیسے وہ اپنے بتوں کی طرف دوڑ رہے ہوں۔”

اور فرمایا:
﴿ قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ إِلٰی مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ﴾ [الواقعۃ: ۴۹-۵۰]

ترجمہ:

“آپ کہہ دیجیے کہ یقیناً سب اگلے اور پچھلے، ایک مقرر دن کے وقت جمع کیے جائیں گے۔”

❖ قرآن میں یومِ آخرت کے مختلف نام

قیامت کے دن کو قرآن نے متعدد ناموں سے یاد کیا ہے، ہر نام اس کی ایک خاص کیفیت کو ظاہر کرتا ہے:

① یوم القیامۃ (قیامت کا دن)
﴿ لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ ﴾ [القیامۃ: ۱]
ترجمہ: “میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔”

② القارعۃ (کھڑکھڑانے والی آفت)
﴿ اَلْقَارِعَۃُ، مَا الْقَارِعَۃُ ﴾ [القارعۃ: ۱-۲]
ترجمہ: “کھڑکھڑانے والی آفت، کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی آفت؟”

③ یوم الحساب (حساب کا دن)
﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ ﴾ [ص: ۲۶]
ترجمہ: “جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک گئے ان کے لیے سخت عذاب ہے، کیونکہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے۔”

④ یوم الدین (جزا کا دن)
﴿ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ، یَصْلَوْنَہَا یَوْمَ الدِّیْنِ ﴾ [الانفطار: ۱۴-۱۵]
ترجمہ: “یقیناً بدکار دوزخ میں ہوں گے، وہ اس میں جزا کے دن داخل کیے جائیں گے۔”

⑤ الطامۃ (بڑی آفت)
﴿ فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّۃُ الْکُبْرٰی ﴾ [النازعات: ۳۴]
ترجمہ: “جب وہ بڑی آفت (قیامت) آ جائے گی۔”

⑥ الواقعۃ (واقع ہونے والی)
﴿ إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ﴾ [الواقعۃ: ۱]
ترجمہ: “جب واقع ہونے والی (قیامت) واقع ہو جائے گی۔”

⑦ الحاقۃ (ثابت ہونے والی)
﴿ اَلْحَاقَّۃُ، مَا الْحَاقَّۃُ ﴾ [الحاقۃ: ۱-۲]
ترجمہ: “وہ ثابت ہونے والی (قیامت) کیا ہے؟”

⑧ الصاخۃ (کان بہرا کر دینے والی)
﴿ فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّۃُ ﴾ [عبس: ۳۳]
ترجمہ: “جب وہ کان بہرا کر دینے والی (آواز) آ جائے گی۔”

⑨ الغاشیۃ (چھا جانے والی)
﴿ ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ ﴾ [الغاشیۃ: ۱]
ترجمہ: “کیا تمہارے پاس چھا جانے والی (قیامت) کی خبر پہنچی ہے؟”

❖ ایمان بالیوم الآخر کی تفصیلات

ایمان بالآخر میں ان تمام امور پر ایمان لانا شامل ہے جو موت کے بعد پیش آئیں گے، جیسے:

◈ قبر کی نعمتیں اور عذاب

◈ صور میں پھونکنا

◈ دوبارہ زندہ ہونا

◈ حشر و حساب

◈ میزان (اعمال کا ترازو)

◈ حوضِ کوثر

◈ صراط

◈ جنت و دوزخ

ان تمام پر ایمان رکھنا ایمانِ کامل کی شرط ہے۔

تقدیر پر ایمان لانا

❖ تقدیر کا مفہوم

ایمان بالقدر (تقدیر پر ایمان) ایمان کے چھٹے رکن میں سے ہے، اور اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
تقدیر سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلی علم اور حکمت کی بنیاد پر ہر چیز کا فیصلہ پہلے سے طے کر دیا ہے۔
ہر چیز اسی کے علم، ارادے اور قدرت سے واقع ہوتی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ إِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ ﴾ [القمر: ۴۹]

ترجمہ:

“بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے اور تقدیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔”

ایمان بالقدر دراصل اللہ کی ربوبیت پر ایمان کا ایک حصہ ہے، کیونکہ تمام مخلوقات کا خالق، مدبر اور حاکم وہی ہے۔

❖ تقدیر کے چار مراتب

تقدیر پر ایمان لانے کے چار بنیادی درجے ہیں، اور ان پر ایمان کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا:

① اللہ کے علم پر ایمان

سب سے پہلے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے — جو ہو چکی، جو ہو رہی ہے، اور جو آئندہ ہو گی۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذٰلِکَ فِی کِتَابٍ إِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیرٌ ﴾ [الحج: ۷۰]

ترجمہ:

“کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے؟ یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے، اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔”

اور فرمایا:
﴿ وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ ﴾ [الأنعام: ۵۹]

ترجمہ:

“غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں، ان کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ خشکی اور سمندر کی ہر چیز جانتا ہے، کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے۔ ہر چیز واضح کتاب (لوح محفوظ) میں لکھی ہوئی ہے۔”

② اللہ کے نوشتہ (لوحِ محفوظ) پر ایمان

اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق ہر چیز کو لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ﴾ [الأنعام: ۳۸]

ترجمہ:
“ہم نے کتاب (لوحِ محفوظ) میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔”

اور فرمایا:
﴿ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ ﴾ [یونس: ۶۱]

ترجمہ:

“زمین و آسمان میں کوئی ذرہ برابر چیز بھی آپ کے رب سے چھپی نہیں، سب کچھ واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔”

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِیْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ)

[مسلم: ۲۶۵۳]

ترجمہ:

“اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے تمام مخلوقات کی تقدیر لکھ دی تھی۔”

③ اللہ کی مشیت پر ایمان

یعنی ہر چیز اللہ کی چاہت اور مشیت سے ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔
جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے، اور جو نہ چاہے وہ نہیں ہوتا۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَمَا تَشَاءُوْنَ إِلَّا أَنْ یَشَاءَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ﴾ [التکویر: ۲۹]

ترجمہ:

“تم کچھ نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ، جو تمام جہانوں کا رب ہے، نہ چاہے۔”

نبی کریم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا جس نے کہا: “جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں”:
(أَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا؟ بَلْ مَا شَاءَ اللّٰہُ وَحْدَہُ)

[مسند احمد، صحیحۃ الألبانی: ۱۳۹]

ترجمہ:

“کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا؟ بلکہ یوں کہو: جو اللہ اکیلا چاہے وہی ہوتا ہے۔”

④ اللہ ہر چیز کا خالق ہے

ایمان بالقدر کا چوتھا درجہ یہ یقین رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے — بندوں سمیت ان کے اعمال تک۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَکِیْلٌ ﴾ [الزمر: ۶۲]

ترجمہ:

“اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے، اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔”

نبی ﷺ نے فرمایا:
(خَلَقَ اللّٰہُ کُلَّ صَانِعٍ وَصَنْعَتَہُ)
[البزار، مجمع الزوائد]

ترجمہ:

“اللہ تعالیٰ نے ہر کاریگر اور اس کی کاریگری کو پیدا کیا ہے۔”

❖ سلف صالحین کا عقیدہ تقدیر کے بارے میں

سلف صالحین رحمہم اللہ کا عقیدہ یہ تھا کہ:

اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے۔

اس نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ان کی تقدیر لکھ دی۔

بندے کے اعمال، اس کا رزق، عمر اور سعادت یا شقاوت سب طے شدہ ہیں۔

لیکن بندے کو ارادہ و اختیار دیا گیا ہے تاکہ وہ نیکی یا بدی میں اپنی راہ خود منتخب کرے۔

ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ﴾ [العنکبوت: ۶۹]

ترجمہ:

“جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور انھیں اپنی راہوں کی ہدایت دیتے ہیں۔”

❖ بندے پر تقدیر کے بارے میں واجبات

نیکی اور فرائض کی ادائیگی میں کوشش کرے، گناہوں سے بچے، اور اللہ سے مدد مانگے۔

مصیبت میں صبر کرے اور یقین رکھے کہ جو لکھا گیا ہے وہی ہو گا۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
(الْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیفِ… قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَاءَ فَعَلَ)

[مسلم: ۲۶۶۴]

ترجمہ:

“طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ جو تمہیں نفع دے اس کے حصول کی کوشش کرو، اللہ سے مدد مانگو اور عاجز نہ بنو۔ اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کرتا تو یوں ہوتا، بلکہ کہو: اللہ نے ایسا مقدر کیا اور جو چاہا کیا۔”

🌿 مضمون کا خلاصہ

ایمان اسلام کی اساس اور بنیاد ہے، جس کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں۔ ایمان کے چھ ارکان میں سے تین (اللہ، فرشتوں اور کتابوں پر ایمان) پہلے بیان ہو چکے، جبکہ اس مضمون میں آخری تین ارکان — رسولوں پر ایمان، آخرت پر ایمان، اور تقدیر پر ایمان — تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔

❖ رسولوں پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ انسان دل سے یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے رسول بھیجے، جنہوں نے اللہ کا پیغام امانت داری کے ساتھ پہنچایا، کچھ نہ چھپایا، اور نہ تبدیل کیا۔ تمام رسول انسان تھے، کھاتے پیتے اور معاشرتی زندگی گزارتے تھے، مگر ان میں اخلاق، کردار اور صداقت کے اعتبار سے سب سے بلند تھے۔ وہ تبلیغِ دین میں معصوم تھے۔ سب رسولوں کا دین ایک ہی تھا — دینِ اسلام۔ انبیاء میں سے پانچ کو "اولو العزم” کہا گیا: نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، اور محمد ﷺ، جن میں سب سے افضل خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ ہیں۔

❖ آخرت پر ایمان کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اس یقین پر قائم رہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی ہوگی، سب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے، اعمال کا حساب ہوگا، اور پھر جزا و سزا کے مطابق جنت یا جہنم میں داخل ہوں گے۔ قرآن میں قیامت کے دن کو مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے، جیسے یوم القیامہ، یوم الحساب، الطامۃ، الحاقۃ، الغاشیۃ وغیرہ۔ ایمان بالآخر کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ زندگی گزارے۔

❖ تقدیر پر ایمان ایمان کا چھٹا رکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز اللہ کے علم، ارادے اور حکم سے ہوتی ہے۔ تقدیر کے چار مراتب ہیں: (۱) اللہ کے علم پر ایمان، (۲) لوحِ محفوظ میں سب کچھ لکھا جانا، (۳) ہر چیز کا اللہ کی مشیت سے ہونا، اور (۴) اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہونا۔ بندے کو اس کے باوجود اختیار دیا گیا ہے تاکہ وہ اچھے برے راستے میں سے خود انتخاب کرے۔ سلف صالحین کا عقیدہ یہی تھا کہ بندہ نہ بالکل مجبور ہے نہ مختارِ کل؛ بلکہ وہ اللہ کے اذن کے تحت اپنے اعمال انجام دیتا ہے۔

ایمان بالقدر کا حاصل یہ ہے کہ مومن مصیبت پر صبر کرے، نیکی میں کوشش کرے، اور اللہ کے فیصلوں پر راضی رہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
“طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے… اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو کہو: اللہ نے تقدیر لکھی اور وہی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔” [مسلم: ۲۶۶۴]

آخر میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایمان بالرسل ہمیں اطاعت و اتباع سکھاتا ہے، ایمان بالآخر ہمیں آخرت کی تیاری پر آمادہ کرتا ہے، اور ایمان بالقدر ہمیں صبر، رضا اور تسلیم و توکل کا درس دیتا ہے۔ یہی ایمانِ کامل کی بنیاد ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے