ایصال ثواب سے متعلق بریلوی شبہات
حفیظ الرحمن قادری لکھتے ہیں کہ ایصال کا مطلب ہے پہنچانا اور ثواب کا مطلب ہے نیکی تو ایصال ثواب کا مطلب ہوا کہ ایک مسلمان اپنے عمل سے دوسرے مسلمان بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے وہ زندہ ہو کہ انتقال کر چکا ہو جبکہ بعض افراد کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر بندے کے عمل اپنے اپنے ہیں کوئی کسی کو اپنے عمل سے فائدہ نہیں پہنچا سکتا لہذا جو قل خوانی ، ساتہ چہلم ، برسی ، گیارویں شریف اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب معاذ اللہ فضول ہیں نا جائز وحرام ہیں لہذا جو بندہ فوت ہو گیا ہم اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے آیئے اس سلسلے میں چند دلائل اختصار کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔
➊ نماز جنازہ پڑھنا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم نماز جنازہ فوت شدگان ہی کی پڑھتے ہیں تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعا کی جاتی ہے دعا کرنے والے زندہ ہوتے ہیں اگر زندوں کی دعا سے انتقال کرنے والوں کو فائدہ نہیں پہنچتا تو نماز جنازہ کیوں پڑھی جاتی ہے۔
➋ نماز پنجگانہ میں ایصال ثواب ہر نماز میں قعدہ اخیرہ میں دعا:
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبِّنا وتقبل دعاء ربنا اغْفِرْ لي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (سورۃ ابراہیم: 40 – 41)
میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو اے ہمارے رب ہماری دعا سن اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اللہ سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہو گا ۔
اگر ہماری دعا سے فائدہ نہیں پہنچتا تو نماز میں یہ دعا کیوں پڑھی جاتی ۔ (شرک کیا ہے صفحہ 56-57)
الجواب :
اس مسئلہ کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے آخرت کی فکر ختم ہوگئی اور لوگوں کو مولوی حضرات نے سبز باغ دکھائے کہ اس کے پیچھے یہ عمل کیا جائے تو اس کو جنت میں اتنے درجے مل جائیں گے یہ وظیفہ کر کے اتنی بار بھیجا جائے تو وہ شخص عذاب قبر سے محفوظ ہو جائے گا لوگوں کے ذہنوں سے اور دلوں میں نیک اعمال کرنے کا جزبہ ختم ہو گیا۔ مالدار لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنی دیگیں پکا کر ایصال ثواب کر دیں گے۔ اس سے سارا مسئلہ حل ہو جائے ایصال ثواب کی اصل بنیاد یہ ہے ایک انسان کا عمل کسی دوسرے کے کام آسکتا ہے کہ نہیں یہ سارا مسئلہ صرف اسی بنیاد پر موقوف ہے اگر یہ بنیاد درست ہے تو اس پر قائم کی ہوئی عمارت بھی درست ہے اور اگر یہ بنیاد ہی سرے سے غلط ہے یا اس میں کچھ بھی ہے تو ظاہر ہے۔ اس پر کھڑی کی ہوئی عمارت بھی غلط ہو گی۔ بلکہ اس عمارت کے گرنے کا ہر وقت خطرہ ہے میں افسوس کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ طبقہ جو مروجہ ایصال ثواب کا قائل ہے وہ سرے سے بنیاد ہی کو نظر انداز کئے ہوئے ہے۔ وہ یہ راگ ضرور الاپتا ہے کہ اس کی فلاں فلاں دلیلیں ہیں لیکن جو دلیل ہمیں مطلوب ہے اس کا نام نشان تک نہیں وہ دلیل قرآن اور صحیح احادیث مبارکہ ہے۔
اہلحدیث کا ایصال ثواب پر موقف
اہل حدیث کے نزدیک اس مسئلہ کی بنیاد یہ ہے کہ ایک انسان کا عمل دوسرے کے کام آسکتا ہے یا نہیں تو بلحاظ عمل اس کے دو پہلو ہیں کیوں کہ تمام انسانی اعمال دو طرح پر تقسیم ہوتے ہیں جنہیں شریعت کی زبان میں خیر اور اعمال شر سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی کوئی فعل دو حال سے خالی نہیں ہوتا فعل اچھا ہو کے برا نیک ہو کہ بد قابل ستائش ہوگا یا قابل مذمت ہوگا یا قابل اجر وثواب ہوگا یا قابل سزا ہوگا۔
انسان کا یہی عمل ہے جس پر وہ انعام کا مستحق ہوتا ہے یا عذاب الہی کا شکار شریعت اسلامیہ کا پورا دائرہ اس کے گرد گھومتا ہے لیکن دلائل شروع کرنے سے پہلے ایک بات اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں ایصال کا مطلب ہے کہ کسی کو ثواب گفٹ کرنا اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا ثواب ہمارے اختیار میں بھی ہے یا نہیں کیوں کہ ثواب پر اختیار تو اللہ کو ہے اگر ہم کسی چیز کے مالک ہی نہیں بنے تو وہ چیز دوسرے کو کیسے ھبہ کر سکتے ہیں۔ البتہ اولاد کے نیک اعمال جو قرآن و صحیح احادیث سے ثابت ہیں خود ساختہ اور بناوٹی نہیں ہیں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا ان اعمال کو بجا لانا کارِ ثواب اور باعث نجات سمجھتے ہیں۔ لیکن جو طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہیں ان کو بدعت وضلالت اور دوزخ کا باعث سمجھتے ہیں اور ایسے نیک اعمال جس میں میت کا کسی طرح کا عمل دخل نہیں اور وہ عمل سنت سے ثابت بھی نہیں ایسے اعمال کا مردے کو کوئی فائدہ نہیں۔
چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى (سورۃ الانعام: 164)
جو شخص کوئی بھی عمل کرتا ہے وہ اس پر رہتا ہے اور کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
يَأْتِهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشُوا يَوْمًا لَّا يَجْزِى وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازِ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا (سورۃ لقمان: 33)
اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے گا اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آسکے گا ۔
ان تین آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ہر بندہ اپنے اچھے بُرے اعمال کا جواب دہ خود ہوگا۔ اور ایک ایسا دن بھی ہے جس سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ جس دن باپ اپنے بیٹے کے کام نہ آسکے گا اور بیٹا باپ کے کام نہ آسکے گا۔ غور فرمائیں باپ بیٹے سے بڑھ کر کونسا قریبی رشتہ ہوگا جو ہمارے اعمال میں اضافہ کر کے ہمیں بچائے گا یہ سب دل کو تسلی دینے والی باتیں ہیں۔
جو کوئی برائی کرے گا اس کا وبال اس پر ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں ہے۔
وَمَنْ يَكْسِبُ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (سورۃ النساء: 111)
اور جو گناہ کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
مرنے کے بعد کوئی عزیز رشتہ دوست یار انسان کے کام نہ آئے گا نہ بوجھ اٹھائے گا۔
چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَة إِلى حِمْلِهَا لَا يُعْمَلُ مِنْهُ شَيْءٍ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْلى (سورۃ فاطر: 18)
اور کوئی بوجھ میں لدا ہوا اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی کو بلائے تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا اگرچہ قرابت دار ہی ہو۔
قرآن کریم پارہ اول کے آخری رکوع میں اللہ نے متعدد انبیاء علیہم السلام یعنی ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، اور ان کی اولاد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُم وَلا تُسْلُونَ عَمّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورۃ البقره: 141)
یہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی ان کے کام ان کا کیا ہوا آئے گا اور تمہارے کام تمہارا کیا ہوا آئے گا اور تم سے ان کے کئے ہوئے کی پوچھ بھی نہ ہوگی۔
مذکورہ آیت مبارکہ اس رکوع میں دوبار آئی ہے اور واضح طور پر ثابت کر رہی ہے کہ ان جماعت انبیاء علیہم السلام کے اعمال خیر تمہارے ہر گز کام نہیں آسکتے اور نہ تمہارے اعمال خیر ان کے کام آسکتے ہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ کسی کا عمل دوسرے کے کھاتے میں جمع کر دیا جائے کیوں کہ لفظ كسب پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ جس کی کمائی ہے۔ جس نے محنت سے کام کیا ہے اور جس نے جتنی اور جس قسم کی مزدوری کی ہے اس کی اجرت اسی کو ملے گی کمائی اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ لیکن انبیاء علیہم السلام کی کمائی تو بہت ہی اچھی ہے مگر کسی دوسرے کے کھاتے میں نہیں ڈالی جاسکتی۔ کسی دوسرے کے بُرے اعمال کا مواخذہ اس سے نہیں کیا جا سکتا یہ تھا قادری صاحب کی ایک بات کا جواب کے بعض افراد کہتے ہیں کہ ہر شخص کا اپنا عمل ہے ایک بات انہوں یہ کہی کہ قل خوانی ساتہ ، گیارویں شریف ، میلاد النبی ، چہلم ، برسی یہ فضول ہیں نا جائز ہیں جواباً عرض ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فى رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃ الاحزاب: 21)
بیشک تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
نبیﷺ اور صحابہ کرام سے ایصال ثواب کے بارے میں راہنمائی
سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صاحبزادے اور صاحبزادیاں فوت ہوئیں آپ کے متعدد عزیز و اقارب نے بھی وفات پائی مثلا حضرت امیر حمزه رضی اللہ عنہ سید الشھداء آپ کے چچا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ آپ کے چچازاد بھائی اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور دیگر رشتہ دار بھی فوت ہوئے کوئی شہید ہوئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کے لیے قل خوانی قرآن خوانی ، ساتہ، چہلم، برسی کی ۔ کاش ہمیں قرآن وحدیث یا تاریخ میں کسی ایک جگہ بھی کوئی دکھلا دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتہ کیا یا چہلم یا برسی یا گیارویں شریف یا عید میلاد نبی وغیرہ بلکہ مروجہ تمام رسومات خود ساختہ ہیں نہ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے اور نہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیے یہ سب کام اپنے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے شروع کیے گئے ہیں قرون اولیٰ میں ان رسومات کا نام ونشان بھی نہ تھا اور دین میں کوئی ایسا عمل اپنی طرف سے ایجاد کرنا بدعت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من احدث فى امرنا هذا ما ليس منه فهورد ( بخاری)
جو شخص ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالے وہ مردود ہے۔
نماز حنفی میں پڑھی جانے والی ایک دعا اور ایصال ثواب
قادری صاحب کہتے کہ نماز جنازہ تو فوت شدگان کی ہی پڑھتے ہیں مگر پیروں کی بھی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں وہ فوت ہی نہیں ہوئے اب انہوں نے مان لیا ہے کہ جن کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے وہ فوت شدگان ہی ہوتے ہیں۔
ایصال ثواب کی دلیل پیش کرتے ہیں کہ نماز جنازہ میں جو دعا پڑھی جاتی ہے۔
پنجگانہ نماز میں ایصال ثواب : رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ(40)رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(41)
الجواب
پہلی بات کہ یہ دعا نماز میں پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں یہاں اولاد تو اپنی ذات کے لیے دعا ہے بعد میں، والدین کے لیے بشرطیکہ اس دعا کے وقت والدین کا انتقال ہو چکا ہو ورنہ یہ دعا بھی خالص زندوں اور مردوں دونوں کو شامل ہو گئی یہی طریقہ ابراہیم علیہ السلام نے اختیار کیا تھا انہوں نے مذکورہ دعا کی تھی یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے۔
اس میں بھی یہ احتمال ہے کہ جس وقت یہ دعا کی گئی ہو اس وقت ابراہیم علیہ السلام کے والدین حیات ہوں کیوں کہ قرآن کریم اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ جب انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ ان کے باپ کا کفر سے ہٹنا ممکن نہیں تو وہ اس سے بے زار ہو گئے :
فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ (سورۃ التوبه : 114)
پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے۔
اس لحاظ سے یہ دعا بھی زندوں کے ساتھ مخصوص ہوئی۔ لیکن مردوں کے حق میں دعا کرنا قرآن وسنت سے ثابت ہے اور دوسری بدعات قل خوانی ، قرآن خوانی، ساتہ چہلم برسی ، گیارویں جشن میلاد النبی وغیرہ کا ثبوت قرآن وسنت میں نہیں ہے دعا جو میت کے لیے کی جاتی ہے ایصال ثواب سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ۔
ایصال ثواب کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہم اپنی اس قرآن خوانی اپنے اس صدقے اور اپنے فلاں عمل کا اجر فلاں مردے کو اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ کرنے والے کے لیے یہ عمل ضرورت سے زیادہ تھا جبکہ دعا میں اللہ تعالیٰ سے یہ التجا اور درخواست کی جاتی ہے کہ اے اللہ فلاں کی مغفرت فرمادیجئے ۔ اپنے کسی عمل کے منتقل کرنے کا دعا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اگر دعا اور ایصال ثواب ایک ہی چیز ہیں تو ایصال ثواب مردوں کے ساتھ ہی مخصوص کیوں سمجھا جاتا ہے جبکہ دعا زندہ اور مردہ دونوں کے لیے عام ہے بلکہ ہر انسان پر یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہمہ وقت اللہ سے دعا کرتا رہے خواہ اپنے لیے یا دوسروں کے لیے فوت شدگان کے لیے دعا کرنا قرآن مجید سے واضح الفاظ میں ثابت ہے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلُ فِي قُلُوبِنَا غلا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمه (سورۃ الحشر: 10)
اے ہمارے رب ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ نہ پیدا ہونے دے اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔
اس سے پہلی آیات میں مہاجرین اور انصار کا ذکر ہے اس کے بعد والی نسلوں کا ان کی جانب سے یہ دعا نقل کر کے انہیں یہ تعلیم دی گئی کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف کے لیے دعا مغفرت کرتے رہو اور ان کی جانب سے دل میں کسی قسم کا کینہ نہ رکھو کیوں کہ اللہ عالم الغیب ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میری مخلوق میں ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوگا جو مہاجرین وانصار پر تبرا کرے گا۔ اس لیے مومنین کو یہ دعا کرنے کی تعلیم دی گئی اس آیت میں پہلے اپنی ذات کے لیے دعا ہے اس سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ دعا کا اصل اصول یہ ہے کہ پہلے اپنی ذات کے لیے اور بعد میں مرنے والوں کے لیے یعنی ہر صورت میں زندوں کا حق مردوں پر مقدم ہے یہی اصول نماز جنازہ کی صورت میں اختیار کیا گیا ہے اور یہ دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ میں صرف وہی دعا تحریر کروں گا جو بریلوی حضرات نماز جنازہ میں پڑھتے ہیں جس کو قادری صاحب نے مروجہ ایصال ثواب کی دلیل بنایا ہے دعا پر غور فرمائیں۔
اللهم اغفر لحينا و ميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا كبيرنا وذكرنا وانثانا اللهم من احيته منا فاحيه على الاسلام من توفيته منافتوفه على الايمان
اے اللہ ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں ہمارے موجود لوگوں ہمارے غائب لوگ ہمارے چھوٹوں ، ہمارے بڑوں ہماری عورتوں کی مغفرت فرما اے اللہ آپ ہم سے جسے زندہ رکھیں اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے ہم میں سے وفات دیں اسے ایمان پر وفات دینا۔
قارئین محترم یہ الفاظ خود اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ دعا میں زندہ اور مردہ دونوں ہی شریک ہیں اور دعا میں مردوں پر زندوں کا حق مقدم ہے۔ اگر دعا اور ایصال ثواب دونوں ایک چیز ہیں تو سب سے پہلے زندوں کے لیے ایصال ثواب کیجئے۔ بقول قادری صاحب کے کہ دعا ایصال ثواب ہے اور سب سے پہلے یہ علماء حضرات اپنے لیے ایصال ثواب کی غرض سے قل خوانی فاتحہ خوانی کرائیں اپنا ساتہ، چہلم، برسی وغیرہ کرائیں اور دوسرے لوگوں کے لیے دیگوں کا انتظام کریں اور جو کھانا فوت شدگان کے گھر مولوی حضرات پہلے دن دوسرے یا تیسرے دن کا ساتہ کے دن قل خوانی پر طرح طرح کے کھانوں سے دستر خوان مزین ہوتے میں یہ سارا کام ایصال ثواب کے نام پر ہوتا ہے اس بارے میں بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ بھی پڑھ لیں۔
احمد رضا سے کیا گیا سوال
سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر بلادہند میں یہ رسم ہے کہ میت کے روز وفات سے اس کے اعزہ اقارب واحباب کی عورات اس کے یہاں جمع ہوتی ہیں اس اہتمام کے ساتھ جو شادی میں کیا جاتا ہے پھر کچھ دوسرے دن اکثر تیسرے دن واپس آتی ہیں بعض چالیسویں تک بیٹھی ہیں اس مدت اقامت میں عورات کے کھانے پینے پان چھالیاں کا اہتمام اہل میت کرتے ہیں۔ جس کے باعث ایک صرف کثیر کے زیر بار ہوتے ہیں اگر اس وقت ان کا ہاتھ خالی ہو تو قرض لیتے ہیں یوں نہ ملے تو سودی نکلواتے ہیں اگر نہ کریں تو مطعون و بدنام ہوتے ہیں یہ شرعاً جائز ہے یا کیا:
احمد رضا خان بریلوی کا جواب
سبحان اللہ اے مسلمان یہ پوچھتا ہے کیا پوچھ کہ یہ ناپاک رسم کتنے قبیح اور شدید گناہوں سخت و شنیع خرابیوں پر مشتمل ہے۔
اولا یہ دعوت خود نا جائز و بدعت شنیعہ وقبیحہ ہے امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں با سند صحیح حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كان نعد الاجتماع الى اهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة
ہم گروہ صحابہ رضی اللہ عنہم اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت شمار کرتے تھے۔
جس کی حرمت پر متواتر حدیثیں ناطق امام محقق على الاطلاق فتح القدیر شرح ھدایہ میں فرماتے ہیں:
يكره اتخاذ الضيافة من الطعام اهل الميت لانه شرعت فى السرور لا فى الشرور وهى بدعة مستقبحة
اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنا منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بدعت شنیعہ ہے ۔
اسی طرح علامہ شرنبالالی نے مراقی الفلاح میں فرمایا:
ولــفــظ يـكـره الضيافة من اهل الميت لانها شرعت فى السرور لا فى الشرور وهى بدعة مستقبحة
فتاوی خلاصه، فتاوی سراجیه و فتاوی ظہریہ وفتاوی تا تارخانیہ اور ظہیریہ سے خزانیہ المفتین کتاب الکراہیہ اور تاتارخانیہ سے فتاویٰ ہندیہ میں بالفظ متقاربہ ہے :
ولــلــفــظ للسراجية يباح اتخاذ الضيافة عند ثلثة ايام فى المصية ذادفى الخلاصة لان الضيافة تخذ عند السرور
غمی میں تیسرے دن کی دعوت جائز نہیں کہ دعوت تو خوشی میں ہوتی ہے فتاویٰ امام قاضی خان کتاب میں ہے۔
يكره اتخاذ الضيافة فى ايام المصية لانها ايام تاسف فلا يليق بها مايكون للسرور
یعنی غمی میں ضیافت ممنوع ہے کہ یہ افسوس کے دن ہیں تو جو خوشی میں ہوتا ہے وہ ان کے لائق نہیں۔
تبیین الحقائق امام ذیلعی میں ہے:
لا باس بالحلوس المصية الى ثلث من غير ارتكاب محظور من فرش البسط والا طعمة من اهل الميت
مصیبت کے لیے تین دن بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ کسی امر ممنوع کا ارتکاب نہ کیا جائے مکلف فرش بچھانے اور میت والوں کی طرف سے کھانے ۔
امام بزازی وجیز میں فرماتے ہیں:
يكره اتخاذ الطعام فى اليوم الاول والثالث وبعد الاسبوع
یعنی میت کے پہلے یا تیسرے دن یا ہفتہ کے بعد جو کھانے تیار کرائے جاتے ہیں سب مکروہ و ممنوع ہیں۔
علامہ شامی ردالمختار میں فرماتے ہیں:
اطال ذالك فى المعراج وقال هذه الامغال كلها المسعة والرياء فيخترز عنها
یعنی معراج الدرایہ شرح ہدایہ نے اس مسئلہ میں بہت طویل کلام کیا ہے اور فرمایا کہ یہ سب ناموری اور دکھاوے کے کام ہیں ان سے احتراز کیا جائے ۔
جامع الرموز آخر الکراہتہ میں ہے:
يكره الجلوس المصيبة ثلثة ايام او اقل فى المسجد ويكره اتخاذ الضيافة فى هذه الايام وكذا كلها كما فى خيرة الفتاوى
یعنی تین دن یا کم تعزیت لینے کے لیے مسجد میں بیٹھنا منع ہے اور ان دنوں میں ضیافت بھی ممنوع اور اس کا کھانا بھی منع ہے جیسا کہ خیرۃ الفتاوی میں ہے تصریح کی فتاویٰ القروی اور واقعات المفتین میں ہے:
يكره اتخاذ الضيافة ثلثه ايام واكلها الانها مشروعة للسرور
تین دن ضیافت اور اس کا کھانا مکروہ ہے کہ دعوت تو خوشی میں ہوتی ہے ۔
کشف العظا میں ہے ضیافت نمودن اہل میت اہل تعزیت روانچتن طعام برائے آنہا مکوه است با تفاق روایات چه ایشان رالسبب اشتعال بمصیبت استعداد دو تهیه آن و دشوار است اسی میں ہے پس انچہ متعارف شده ازپختن اہل مصیبت طعام اور سوم قسمت نمودن آں میاں اہل تعزیت قرآن غیر مباح و نا مشروع است و تصریح کرده بلالں در خزانہ چہ شرعیت ضیافت نزد سرورست نہ نز دشرورد ہوالمشہور عند الجمہور۔
ثانیا غالبا ورثہ میں کوئی یتیم یا اور بچہ نابالغ ہوتا ہے یا بعض ورثا موجود نہیں ہوتے نہ ان سے اس کی اجازت لی جاتی ہے جب تو یہ امر سخت شدید پر مضمن ہوتا ہے اللہ عز وجل فرماتا ہے۔
ان الذين يأكلون أموال اليى ظلما إنما يأكلون فى بطونهم نارا وسيصلون سعيراة (سورۃ النساء :10 )
بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق کھاتے ہیں بلاشبہ وہ اپنے پیٹ میں انگارے بھرتے ہیں اور قریب ہے کہ جہنم کے گہراؤ میں جائیں گے۔
مال غیر میں بے اذن غیر تصرف خود ناجائز ہے۔
قال اللہ تعالیٰ : لاتاكلوا اموالكم بينكم بالباطل(سورۃ النساء: 29)
خوصوصاً نابالغ کا مال ضائع کرنا جس کا اختیار نہ خود سے نہ اس کے باپ نہ اس کے وصی کو۔
لان الولالية للنظر لا للضرر على الخصوص اگر ان میں کوئی یتیم ہوا تو آفت سخت تر ہے۔ والعياذ بالله رب العالمين
ہاں اگر محتاجوں کے دینے کو کھانا پکوائیں تو حرج نہیں بلکہ خوب ہے بشرطیکہ یہ کوئی عاقل بالغ اپنے مال خاص سے لے یا ترکہ سے کریں تو سب وارث موجود بالغ و نابالغ راضی ہوں خانیہ و بزازیہ و تاتارخانیہ و ہندیہ میں ہے۔
ثالثاً یہ عورتیں جمع ہوتی ہیں افعال منکرہ کرتی ہیں۔ مثلا چلا کر رونا پیٹنا بناوٹ سے منہ ڈھانکنا الی غیر ذلک اور یہ سب نیاحت ہے اور نیاحت حرام ہے۔ ایسے مجمع کے لیے میت کے عزیزوں دوستوں کو بھی جائز نہیں کہ کھانا بھیجیں کہ گناہ کی امداد ہوگی۔
قال اللہ تعالیٰ : وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪(سورۃ المائدۃ: 2)
نہ کہ اہل میت کا اہتمام طعام کرنا کہ سرے سے ناجائز ہے تو اس مجمع ناجائز کے لیے ناجائز تر ہوگا۔
کشف العظا میں ہے ساختیں طعام در دور ثانی وثالث برائے اہل میت اگر نوحہ گراں جمع باشند مکروہ است زیرا کہ اعانت ست الیش ندا بر گناہ رابعا اکثر لوگوں کو اس رسم شنیع کے باعث اپنی طاقت سے زیادہ تکلیف کرنا پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ میت والے بیچارے اپنے غم کو بھول کر اس آفت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اس میلہ کے لیے کھانا پان چھالیاں کہاں سے لائیں اور بارھا ضرورت قرض لینے کی پڑتی ہے ایسا تکلف شرع کو کسی امر مباح کے لیے بھی زنہار پسند نہیں نہ کہ ایک رسم ممنوع کے لیے پھر اس کے باعث جو دقتیں پڑتی ہیں۔
خود ظاہر ہیں پھر اگر قرض سودی ملا تو حرام خالص ہو گیا اور معاذ اللہ لعنت الہی سے پورا حصہ ملا کر بے ضرورت شرعیہ سود دینا بھی سود لینے کے مثل باعث لعنت ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں فرمایا غرض اس رسم کی شناعت و ممانعت میں شک نہیں اللہ عز وجل مسلمانوں کو توفیق بخشے کہ قطعاً ایسی رسم شنیعہ جن سے ان کے دین و دنیا کا ضرر ہو ترک کر دیں اور لعن بیہودہ کا لحاظ نہ کریں۔
(احکام شریعت صفحہ 308 تا 311 پروگریسو بکس اردو بازار لاہور )
کیا بریلوی عوام کا اپنے امام احمد رضا بریلوی عرف اعلحضرت کے فتوے پر عمل ہے؟
کیا بریلوی علماء کا اپنے امام کے فتوے پر عمل ہے دوسرے دن قل خوانی میں مولوی حضرات شریک ہو کر دعوت نہیں اڑاتے طرح طرح کے پھلوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے ۔ کچھ علاقوں میں تیسرے دن میت کے کپڑے دھولاتے ہیں اور اہل میت کھانے کا انتظام کرتے ہیں کیا مولوی حضرات وہاں جا کر ختم پڑھ کر دعوت کھا کر اہل میت سے پیسے وغیرہ نہیں لیتے ؟ کیا اس دعوت میں غریب امیر سب شریک ہوتے ہیں کہ نہیں کیا احمد رضا خان بریلوی کے فتوے کے مطابق حرام نہیں اگر حرام ہے مکروہ ہے ناجائز ہے تو ہمارے مولوی حضرات جان بوجھ کر اس فعل حرام کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں فقہ حنفی کی تمام فقہ کی کتب میں میت کے گھر جمع ہو کر دعوت کھانے کو حرام نہیں کہا گیا؟ پھر تم کیسے حنفی ہونے کا دعویدار ہو۔
قرآن کی روشنی میں ایصال ثواب کا تصور
میرے بھائیو! اصل بات تو یہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمائی ہے:
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى (سورۃ النجم: 38)
یعنی کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى(سورۃ النجم: 39)
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
وَ اَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى(سورۃ النجم: 40)
اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی۔
ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰى(سورۃ النجم: 41)
پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (سورۃ الجاثیۃ: 15)
جو کوئی عمل نیک کرے گا تو اپنے لیے اور جو بُرے کرے گا تو ان کا ضرر اسی کو ہوگا پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔
یہ جان لینا چاہیے کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بتایا ہے کہ انسان کو وہی ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی اور دوسری آیت مبارکہ میں یہ قانون و دستور بتایا کہ جس شخص نے بھی نیکی کی اس کا بدلہ اسے ہی ملے گا اور اس کی نیکی اپنی ذات کے لیے ہے اس مضمون کی قرآن مجید میں بہت سی آیات موجود ہیں۔
اب بھی اگر کسی کے ذہن میں کسی قسم کا اشکال ہے تو اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالَكُمْ (سورۃ البقرۃ: 139)
اور ہم کو ہمارا کیا ہوا ملے گا اور تم کو تمہارا کیا ہوا ملے گا۔
قارئین محترم ! ہمارا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ہمارے اعمال ہمارے کام آئیں گے اور مرنے والوں کے اعمال مرنے والوں کے کام آئیں گے قرآن مجید کتنے واضح الفاظ میں وضاحت کرتا ہے مسلمانوں کو سمجھ نہیں آتی اس لیے کہ وہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے مولوی حضرات ان کو کہتے ہیں کہ قرآن سمجھنے کے لیے 18 علوم سیکھنے کی ضرورت ہے یہ بہت مشکل ہے مگر کلام اللہ کا سب سے بڑا حسن تو یہی ہے کہ اس کا کوئی جملہ کوئی لفظ اور کوئی حرف بے معنی اور بے مقصد نہیں ہے کاش کوئی قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے اس کی تلاوت بھی کی تو وہ بھی اس طرح کہ روانی میں تار برقی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور سمجھنے کے معاملے میں یہ مفروضہ قائم کر لیا گیا کہ اسے کوئی پہنچا ہوا بزرگ ہی سمجھ سکتا ہے کیونکہ قرآن کے ظاہری معنی مقصود نہیں بلکہ اس کے باطنی معنی مقصود ہیں اور وہ خاص خاص افراد ہی کو معلوم ہو سکتے ہیں ور نہ ہر شخص کے لیے مشکل ہے اور قرآن تو یہ دعویٰ کرتا ہے:
وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (سورۃ القمر: 22)
اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔
اگر قرآن کو سمجھنا اتنا ہی دشوار تھا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے یہ مطالبہ کیوں کیا؟
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (سورۃ محمد: 24)
تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں۔
اب تو قرآن کو عمل و اصلاح عقیدہ کے لیے کوئی نہیں پڑھتا اور نہ ہی سمجھنے کی کوئی کوشش کرتا ہے جیسے اس کے سمجھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہی اب تو قرآن صرف چند مقاصد کے لیے رہ گیا ہے۔ جھوٹی قسمیں کھانے کے لیے تعویز گنڈے کرنے فال نکالنے اور مردوں کو ایصال ثواب کرنے کے لیے ہے بلکہ بہت سے ہمارے مسلمان بھائی جو کہ اسلام کے پکے دعویدار صرف قرآن خوانی کے وقت اسے کھول کر دیکھتے ہیں۔ حالانکہ اس قرآن خوانی کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود نہیں پورے دور نبوی بلکہ قرون ثلاثہ کو دیکھ لیجئے کہیں بھی اس کا وجود نظر نہ آئے گا اور نہ ہی کسی امام نے یہ کام انجام دیا نہ حکم دیا۔
گویا کہ وہ حضرات جن کا نام تمام امت سے بلند و بالا ہو وہ تو اس نعمت سے محروم رہیں اگر اس قرآن خوانی کے بغیر ان کی اور ان کے مردوں کی نجات ممکن تھی تو ہماری اور آپ کی نجات بھی اس کے بغیر ممکن ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن مجید کو زندگی میں سمجھ کر پڑھتے تھے اور قرآن کے مطابق زندگی گزارتے تھے مرنے کے بعد تو انسان قرآن پر عمل نہیں کر سکتا وقت گزر جاتا ہے ۔ میرے بھائی یہ نہیں ہوگا کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے اپنی محنت ومزدوری دوسرے کو دے دے بلکہ اپنے عزیز واقارب اور اپنے دوست احباب سے بھی دور بھاگے گا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿٣٤﴾ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ﴿٣٥﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴿٣٦﴾ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ(سورۃ عبس: 34 – 37)
جس دن آدمی اپنے بھائی اپنی ماں اپنے باپ اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے بھاگے گا ان میں سے ہر شخص اپنی ہی حالت میں سرگرداں ہوگا۔
حتی کہ انسان اپنی زوجہ سے دور بھاگے گا کہ کہیں یہ حق زوجیت جتاتے ہوئے میری نیکیوں کا مطالبہ نہ کر دے اور ماں باپ سے بھی دور بھاگے گا کہیں پرورش اور تربیت کے صلہ کا مطالبہ نہ کر دیں کہیں ماں یہ دعویٰ نہ کر بیٹھے اگر تو نے مجھے اپنے اعمال کا ثواب نہ دیا تو میں دودھ نہ بخشوں گی اور بیٹے کہیں اولاد ہونے کا حق جتانا نہ شروع کر دے الغرض اتنے قریبی رشتے والوں سے انسان دور بھاگے گا تو کوئی مولوی کوئی دوسرا بزرگ اپنے مریدوں اور پیروکار کو دیکھ کر کیسے ٹھہرے گا اور اپنے نیک اعمال اُس کو کیسے دے سکے گا۔ ہر بندہ اپنے اعمال کا جواب خود دے گا ۔ کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا ہر شخص کو زندگی میں اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیے۔
اگر کوئی شخص رضا الہی کے حصول کو ترک کر کے اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں کو چھوڑ کر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ کر اپنے مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہوئے خود ساختہ رسومات جو کتاب وسنت سے ثابت نہیں مثلا تیجہ، دسواں ، چالیسواں ، برسیاں ، کونڈے وغیرہ وہ اس کے ہرگز کام نہ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (سورۃ محمد: 33)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سورۃ الحشر: 7)
جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
رب کی بارگاہ میں وہی کام مقبول ہوں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہونگے یہی ہماری دعوت اور قرآن وسنت کا سچا پیغام ہے۔ بنی اسرائیل کا خیال تھا کہ ہم بڑی لاڈلی قوم ہیں ہم نبیوں علیہم السلام اور رسولوں علیہم السلام کی اولاد ہیں ان کی وجہ سے ہماری بخشش تو ہو ہی جائے گی مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (سورۃ البقرۃ: 48)
اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم کن کن بستیوں پر بھروسہ کر کے بیٹھے ہیں اور کن کی نسبت کو بغیر نیک اعمال کے اپنے لیے باعث نجات سمجھ بیٹھے ہیں کن کے کیے ہوئے اعمال پر ہمیں فخر ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کے کام ان کی اپنی نیکی اور اس کے نیک اعمال آئیں گے۔
ہرانسان اپنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا خواہ وہ اعمال خیر ہوں یا شر انسان کو صرف اس کے اعمال کی جزا ملے گی کسی کے عمل کا دوسرے کے عمل سے کوئی واسطہ نہ ہوگا اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اعلان کا حکم دیا جا رہا ہے:
فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْۚ-اَنْتُمْ بَرِیْٓــٴُـوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ(سورۃ یونس: 41)
تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل تم اس سے بری ہو جو میں کرتا ہوں اور میں اس سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو۔ ہر انسان کو اسی کا بدلہ ملے گا جو وہ خود کرتا تھا اپنی کمائی ہی اُس کے کام آئے گی۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (سورۃ الصافات: 39)
اور تمہیں صرف اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ(سورۃ الطور: 16)
تمہیں صرف اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ(سورۃ المدثر: 38)
ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے۔
سورہ یٰسین میں ارشاد فرمایا:
فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ(سورۃ یس: 54)
پس آج کسی جان پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور نہ تمہیں اس کے سوا کوئی بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے۔
حدیث کی روشنی میں ایصال ثواب کا تصور
اوپر بیان کردہ تمام آیات طیبات سے واضح ہو گیا کہ ہر انسان کو اپنے کیے کا ہی بدلہ ملے گا مگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وإذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أوعلم ينتفع به، أوولد صالح يدعو له
(مسلم، الوصیۃ ما یلحق الإنسان من الثواب 1631)
جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے صدقہ جاریہ علم نافع اور صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے ۔
اس حدیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد صرف تین چیزوں کا ثواب اس کے لیے جاری رہتا ہے ان میں سے ایک نیک اولاد ہے جو ماں باپ کے مرنے کے بعد بھی ان کے لیے دعا کرتی رہے۔ اس لیے اولاد کو والدین کی موت کے بعد ان کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہنا چاہیے۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ مرنے کے بعد انسان کو صرف تین ذرائع سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ مرنے والے کا عمل موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہے لیکن چونکہ ان امور کا وہی سبب تھا یعنی اولاد کے نیک بننے میں اس کی کوشش کو دخل تھا علم کو پھیلانے میں کہ لوگ اس سے علم حاصل کریں یا کتاب لکھنے میں جو اس کی موت کے بعد باقی رہے اس لیے ان چیزوں کا اجر بھی باقی رکھا گیا۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
يتبع الميت ثلاثة اهله وعمله وماله فيرجع اثنان ويبقى واحد
(مسلم و بخاری)
میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں گھر والے عمل ، اور مال پھر دو چیزیں واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک ہی چیز اس کے ساتھ باقی رہتی ہے گھر والے اور مال واپس آجاتے ہیں اور صرف عمل اس کے ساتھ رہتا ہے۔
یہ حدیث مبارکہ وضاحت کے ساتھ ثابت کر رہی ہے کہ مرنے والے کے ساتھ جانے والی چیز اس کا ذاتی عمل ہے بقیہ چیزیں پیچھے رہ جائیں گی۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ (سورۃ البقرۃ: 286)
جو نیکی کرے وہ اس کے لیے جو برائی کرے وہ اس پر ہے۔
جو ام سعد کے لیے ہے کنواں والی روایت مرسل ضعیف ہے اس کی کوئی سند صحیح نہیں اگر یہ روایت درست بھی ہو تو پھر بھی کسی مخصوص رسم کے تحت حلوے مانڈے کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ عام طور پر رفاء عامہ کے کاموں کا ثبوت ہوگا۔ جس سے کسی کو اختلاف نہیں بالفرض واقعہ ایسے ہی ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک لاکھ بلکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ انہوں نے اپنے ماں باپ کے نام پر کنویں کیوں نہیں بنوائے صرف حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ہی کیوں بنوایا اصل بات یہ ہے کہ یہ روایت قل، ساتہ ، چہلم، گیارویں، برsی جشن عید میلاد النبی کی دلیل نہیں بن سکتی کیوں کہ اللہ نے قرآن مجید میں واضح ارشاد فرمایا:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا (سورۃ فصلت: 46)
جو شخص نیک کام کرے گا وہ اپنے نفع کے لیے جو برا کام کرے گا اس کا وبال بھی اس پر ہے۔
بریلوی حضرات کے محبوب محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کہ جمع ہو کر میت کے لیے قرآن خوانی کرنا قبر پر یا قبر کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت نہیں تھی یہ سب بدعت اور مکروہ ہے۔ (شرح سفر السعادت صفحہ 273)
حج بدل سے مروجہ ایصال ثواب پر بریلوی قیاس اور اس کا جواب
قادری صاحب نے حج بدل سے مردے کا ایصال ثواب ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے تو کیا قادری صاحب زندہ کو بھی ایصال ثواب کرنا جائز سمجھتے ہیں اگر ان کے نزدیک جائز ہے تو پھر پہلے مولوی حضرات کو دیکھیں پکا کر اپنے ایصال ثواب کا مسئلہ حل کرنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے وہ ہمارے نزدیک جائز ہے بشرط کہ حدیث صحیح ہو حج کی نیابت جائز ہے اور روزہ کی بھی اس بات کا تعلق مروجہ ایصال ثواب سے نہیں ہے سنت سے جتنا عمل ثابت ہے اتنا ہی کرنا چاہیے۔ بعض حضرات نیابت اور اہداء میں فرق نہیں کرتے۔
حالانکہ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے لیکن کچھ حضرات ایصال ثواب کے ثبوت میں حج بدل نیز روزہ اور صدقہ والی احادیث کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ قادری صاحب نے کیا ہے نیابت میں عامل اپنے آپ کو دوسرے شخص کے قائم مقام قرار دیتا ہے مثلا حج میں یوں کہتا ہے کہ لبيك عن فلان اے اللہ میں فلاں شخص کی طرف سے حاضر ہوں یا دل میں ارادہ کرے کہ میں فلاں کی طرف سے حج کر رہا ہوں اور اہداء ثواب کی صورت یہ ہے کہ حج اپنی طرف سے کرنے اور بعد میں کہے یا رب میرے اس حج کا ثواب فلاں شخص کو دے پہلی شکل تو حدیث سے ثابت اور منصوص ہے اور دوسری کی دلیل قرآن وسنت سے ثابت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ثواب اللہ کا انعام ہے۔
عامل کو اس میں تصرف کا کوئی اختیار نہیں اگر ہم کسی اللہ کے نافرمان کو اپنی طرف سے عذاب بھیجنا چاہیں تو نہیں بھیج سکتے کہ دونوں چیزوں کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔ لہذا اپنے عمل کے ثواب کو کسی دوسرے کے لیے ہدیہ اور ہبہ کرنے کا عامل کو حق نہیں۔
وہی چیز انسان کسی کو گفٹ کر سکتا ہے جس پر انسان کا اپنا کنٹرول ہو۔ وگرنہ کیسے دے سکتا ہے اسی طرح یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کا ثواب امت مرحومہ کو پہنچایا تو یہ قیاس بھی بے محل اور غلط ہے اس لیے کہ اول قربانی ایک مالی صدقہ ہے جس میں نیابت جائز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت امت کے لیے ایسی ہے جیسے گھر والوں کے لیے ولی کی جس طرح ایک مرد اپنے پورے گھر والوں کی طرف سے قربانی کر سکتا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اپنے گھر والوں کی طرف سے اور امت کی طرف سے قربانی فرمائی اس کا حق سب سے زیادہ آپ ہی کو پہنچتا تھا اس حدیث سے اہداء ثواب پر استدلال کرنا غلط اور بے محل ہے کیونکہ اس سے نیابت ثابت ہوتی ہے نہ کہ اہداء کیونکہ اہداء اور نیابت دو الگ چیزیں ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی وصیت فرمائی تھی اس لیے انہوں نے وصیت پوری کرتے ہوئے قربانی فرمائی ویسے تو دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس بھی مال و متاع کی کثرت تھی مگر کسی نے بھی آپ کی طرف سے قربانی نہیں کی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی تھی جو چیز سنت سے ثابت ہے پر عمل کرنا حق اور باعث نجات ہے جو عمل قرآن وسنت سے ثابت نہیں وہ بدعت ہے جو گمراہی ہے اور دخول جہنم کا باعث ہے اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو سنت پر عمل پیرا ہونے اور بدعات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ والی روایت جو قادری صاحب نے ذکر کی ہے یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اس کے ایک راوی شریک القاضی مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے دوسرا ابوالحسناء راوی مجہول ہے دیکھئے۔ ( تقریب التہذیب 18052 آثار السنن ص:399 تحت حدیث 784 )
امام ترمذی نے اس روایت کو غریب لکھا ہے جب یہ ثابت ہو گیا کہ روایت مذکورہ ضعیف ہے تو اس سے دلیل پکڑنا درست نہیں ہے۔
ہمارے انڈیا پاکستان میں ایک رواج یہ بھی ہے کہ اگر کوئی فوت ہو جائے تو لوگ جا کر اس کے لیے فاتحہ پڑھتے ہیں کہتے ہیں کہ فاتحہ میت کے لیے دعا ہے۔
حالانکہ پوری سورت فاتحہ کا ترجمہ پڑھ لیں مگرمیت کے لیے دعا کا ایک حرف بھی موجود نہیں قلت تدبر کی وجہ سے ہم نے فاتحہ کو میت کے لیے دعا سمجھ لیا لیکن یہ سنت سے ثابت ہی نہیں ہے۔
چہلم و گیارھویں جیسی بدعات کے جواز پر بریلوی منطق
قادری صاحب مزید لکھتے ہیں کہ جہاں تک تعلق ہے کہ یہ کہنا کہ سرکار دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں چہلم یا گیارویں شریف کی اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ الفاظ عربی کے نہیں جس طرح ہم نماز ظہر کو پیشی کے نام سے جانتے ہیں عصر کو ڈیگر اور اسی طرح دوسری نمازوں کے بھی علاقائی نام رکھے گئے ہیں اب کوئی یہ کہے میں پیشی نہیں پڑھوں گا۔
اس لیے کہ حدیث شریف میں اس کا ذکر نہیں آیا اس کا ہم یہی جواب دیں گے کہ تم نام کے پیچھے نہ جاؤ دیکھو اس میں کام کیا ہوتا ہے ظاہر ہے اس میں نماز ظہر ادا کی جاتی ہے اور یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے لہذا نام رکھ لینے سے کوئی کام غلط نہیں ہو جاتا یہ نام تو ہم نے سہولت کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ایصال ثواب کے بہت سے مواقع ہیں۔ لہذا نام سے پتہ چل جائے کہ چہلم کا ختم یعنی کسی بندے کو فوت ہوئے تقریباً سوا مہینہ گزر گیا ہے برسی یعنی ایک سال گزر گیا ہے گیارھویں شریف یعنی غوث اعظم کے ایصال ثواب کے لیے محفل تو نام رکھ دینے سے کوئی کام غلط نہیں ہو جاتا ان سب کی اصل تو ایصال ثواب ہے جو کہ ثابت ہے۔ (شرک کیا ہے مع بدعت حقیقت صفحه 61)
الجواب :
حقیقت تو یہ ہے کہ بدعت کے حامی بدعت کو ثابت کرنے کے لیے بہت سارے چور دروازے نکالتے ہیں اور ہیرا پھیری سے کام لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ خود ہی کہتے ہیں کہ گیارویں غوث اعظم کے ایصال ثواب کے لیے ہے اس کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے جبکہ جس بزرگ کے نام پر یہ کام کیا جاتا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سینکڑوں سال بعد پیدا ہوا اور ایک دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ظہر کو پیشی کہتے ہیں عصر کو ڈیگر یہ نام علاقہ کے اہل زبان کے رکھے ہیں مگر پیشی اور ڈیگر کی اصل ظہر اور عصر کا وجود تو ہے اسی طرح گیارہویں اور چہلم کا اصل نام کیا تھا جواب دیں۔
ظہر عصر نمازیں پڑھنے کا وقت طریقہ بتایا گیا ہے ، چہلم، گیارہویں کا وقت اور طریقہ کس قرآن کی آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بتایا گیا ہے ان کے عربی میں کیا نام تھے جن کو آپ نے اپنی سہولت کے لیے بدل دیا ہے کہتے ہیں گیارہویں غوث اعظم کے ایصال ثواب کی محفل ہے اگر محض ثواب پہنچانا ہے تو پھر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی شخصیت کا تعین کس لیے کیا جاتا ہے؟ پھر ہر ماہ کی گیارہ تاریخ مقرر کرنے میں کیا راز ہے؟ کیا ایصال ثواب کے لیے پوری امت میں اور کوئی شخصیت نظر نہیں آئی؟
نعوذ باللہ اگر ان کو گناہ گار سمجھ کر ان کو ثواب پہنچانے کی فکر میں ہو تو پھر ان کی انتہائی بے ادبی وگستاخی ہے وہ تو اللہ کے نیک بندے تھے ۔ اگر ان کو نیک سمجھ کر انہیں ایصال ثواب کا مستحق سمجھ لیا گیا ہے تو پھر ان سے بڑھ کر بھی تو نیک ہستیاں امت میں موجود ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ اور تبع تابعین رحمہم اللہ میں کبھی ان کو بھی گیارہویں کے نام یا کسی اور نام سے ایصال ثواب کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ یہ پتہ لگ جائے کہ چہلم کسی بندے کو فوت ہوئے سوا مہینہ گزر گیا سوچنے کی بات ہے کسی نے پتہ کر کے کیا کرنا ہے ہاں مولوی حضرات کو پتہ ضرور لگنا چاہیے تا کہ حلوے مانڈے مرغ بریانی پلاؤ کھیر وغیرہ کی ان کو خوشخبری مل جائے کہ یہ کھانے کا کام ہے برسی کا پتہ چل جائے کہ سال گزر گیا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں لوگوں کو چہلم برسی ساتہ قل جمعرات کے بغیر کیسے پتہ چلتا تھا یا ان کو یہ پتہ کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی ؟
مسنون اور شرعی اصول کا تقاضا تو یہ ہے کہ مرنے والے کے گھر کھانا پکا کر بھیجا جائے جس طرح حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیوں کہ ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس نے ان کو مشغول کر دیا۔ (سنن ابوداود : 3126، ترمذی مع تحفۃ ص 34/ ج 2)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مرنے والے کے وارثوں کے گھر کھانا بھیجنا مسنون طریقہ ہے مگر آج معاملہ اس حدیث کے بالکل الٹ ہے وہ یہ کہ جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو دفن کرنے کے بعد عزیز واقارب دوست احباب پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ رسم کب ہوگی جس پر میت کا وارث بیچارہ اگر غریب ہے تو پریشانی کے سمندر میں ایک بار غوطہ زن ہو جاتا ہے سوچنے لگتا ہے کہ اب کس سے ادھار لے کر یہ کام سرانجام دوں پھر وہ اگلے دن کی ان کو تاریخ دیتا ہے یا ایک دن بعد اس کھانے میں غریب کم اور امیر لوگ پورے اہتمام کے ساتھ شرکت کرتے ہیں پر تکلف دعوت ہوتی ہے۔ رنگا رنگ کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں شادی کا سماں ہوتا ہے میت کا غم بھول جاتا ہے۔ حالانکہ میت کے گھر کھانا کھانے کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نظریہ یہ تھا کہ : حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میت کے گھر جمع ہونے کو اور میت کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔ (مسنداحمد 204/2)
یاد رہے کہ میت والے گھر نوحہ ایسی چیز ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔ فقہ حنفی میں بھی کھانا تیار کرنا منع ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ تین دن تک میت کے گھر کھانا تیار کرنا مکروہ ہے۔ (عالمگیری ج ص 127)
علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا تھا۔
وضع میں تم نصاریٰ ہو تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود