الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد :
اہل سنت والجماعت کا اہل بدعت کے بارے میں موقف
اسلام کو اپنے آغاز ہی سے ایسے دشمنوں سے واسطہ پڑا جو اس کی مخالفت میں کسی قسم کی کسر اٹھا نہ رکھنے کے لیے پر عزم تھے ، ابتداء جب انہوں نے جنگ کے میدانوں میں مسلمانوں کو نا قابل شکست پایا تو انہوں نے اس کی بیخ کنی کے لیے سازشوں اور مکر وفریب کے نت نئے جال بنٌنے شروع کر دیے، یہیں سے مسلمانوں میں اختلافات کا زہر پھیلا، دین وحدت ٹکڑوں میں بٹنا شروع ہوا۔ تاریخ میں عبد اللہ بن سبا یہودی کا نام انہی سازشیوں کے سرخیل کے طور پر جانا جاتا ہے، جنہوں نے سیدنا علیؓ کی شان میں ناحق غلو کیا اور مسلمانوں کو پہلی بار دو مخالف صفوں میں لاکھڑا کیا جن میں سے ایک اہل السنۃ والجماعۃ ، جبکہ دوسرا روافض کا گروہ کہلایا۔ بعد میں جب خوارج، معتزلہ، قدریہ اور دیگر گمراہ فرقوں کا ظہور ہوا تو اہل السنہ والجماعہ کے مقابلے میں ان تمام فرقوں کا مجموعی نام مبتدعین (یعنی بدعتی گروہ) پڑا۔ امت مسلمہ میں تفریق کے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے سلف صالحین نے اہل بدعت سے دور رہنے کی سخت تلقین کی ہے اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان سے تعلقات استوار کرنے اور انہیں اپنا خیر خواہ سمجھنے والے پر شدید تنقید کی۔
ایسے لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی احادیث سنانا اور ان کو دینی مسائل بتانا بھی روانہ رکھا۔
(دیکھئے سنن الدارمی: ٤١٢ ، الشريعة للآجري : ص ٩٦٣ ، رقم: ٢٠٤٦، ٢٠٤٧)
ہم اس مختصر مضمون میں ان شاء اللہ اہل السنۃ والجماعۃ کے اکابر کے اقوال وکردار کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے جو انہوں نے اہل بدعت کے ساتھ روا رکھا اور جس کی انہوں نے امت کو تعلیم دی۔
◈ اہل بدعت سے علیحدگی قرآن وسنت کی روشنی میں:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ﴿١٤٠﴾
(النساء: ١٤٠)
❀ امام قرطبی فرماتے ہیں:
” اس آیت میں اہل بدعت کی مجالس اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ اور ان کی مجالس میں بیٹھنے کو انہیں میں شمار کیا جارہا ہے۔ اور ان لوگوں کو برے انجام سے ڈرایا جارہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ اگر وہ باز نہ آئے تو انہیں بھی اہل بدعت ہی میں شمار کیا جائے گا۔‘‘
اس بات پر اہل السنۃ والجماعۃ کی ایک جماعت متفق ہے کہ اس آیت کا موجب ہر وہ شخص ہے جو اہل بدعت کی مجالس میں بیٹھے، یا ان کے ساتھ رہ و رسم بڑھائے یا ان کے ساتھ رشتہ داریاں بناتا پھرے۔
(تفسير القرطبي ١٤٢/٧)
❀ امام قرطبی مزید فرماتے ہیں :
”جب گناہگاروں سے علیحدگی ثابت ہے تو پھر اہل بدعات وخرافات کے حامل لوگ تو بالا ولی علیحدگی کے حقدار ہیں ۔“ (ایضا)
❀ امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي هذه الآية، الدلالة الواضحة على النهي عن مجالسة أهل الباطل من كل نوع، من المبتدعة والفسقة، عند خوضهم في باطلهم
يہ آیت واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ کسی بھی قسم کے باطل پرستوں کے ساتھ مجالست اختیار کرنا منع ہے، چاہے و بدعتی ہوں یا دیگر فاسق لوگ جبکہ وہ اپنے باطل میں مشغول ہوں ۔
(تفسير طبري ٢٢١/٤ طـ دار الحديث القاهرة)
❀ قرآن کریم میں دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿١١٣﴾
(هود: ۱۱۳)
’’اور تم ان لوگوں کی طرف مت جھکو جنہوں نے ظلم کیا تمہیں آگ پکڑ لے گی اور تمہارا اللہ کے سوا اور کوئی مددگار نہیں ، پھر نہ تم مدد کیے جاؤ گے۔“
❀ امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
”اس آیت کے مفہوم میں صحیح تربات یہی ہے کہ یہ آیت اہل کفر و معاصی اور اہل بدعت سے علیحدگی پر دلالت کرتی ہے، اور جب ان کی صحبت، محبت کی وجہ سے اختیار کی جائے تو یہ صحبت بذات خود کفر اور نافرمانی بن جاتی ہے، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
عن المرء لا تسئل و سل عن قرينه فكل قرين بالمقارن يقتدى
’’آدمی کے بارے میں نہ پوچھ اس کے دوست کے بارے میں پوچھ ، کیونکہ ہر دوست اپنے دوست کی پیروی کرتا ہے۔ ہاں اگر ان کی صحبت انتہائی ضرورت کے باعث ہو تو یہ ایک اضطراری صورت ہونے کی وجہ سے متسثنٰی ہے“۔
(تفسیر قرطبي ۱۰۸/۹)
قرآن کریم میں اور بھی کئی آیات ہیں جن سے استدلال کرتے ہوئے مفسرین کرام نے اہل بدعت سے اجتناب ہی کا حکم دیا ہے۔
(دیکھئے الانعام : ٦٨ ، الكهف: ١٠٣، ١٠٤ ، المجادلة: ٢٢)
❀ اسی طرح احادیث نبویہ میں بدعت اور اہل بدعت سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور خلاف ورزی کرنے کی صورت میں سخت سزا کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔ جیسا کہ سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرِ إِلَى ثَوْرٍ ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثًا أَوْ آوَى فِيْهَا مُحْدِثًا ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَ الْمَلائِكَةِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلُ .
”مدینہ کا عیر سے لے کر ثور تک کا علاقہ حرم ہے، پس جس نے اس شہر کے اندر دین میں کوئی بدعت اختیار کی یا کسی بدعتی شخص کو پناہ دی تو اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی ، اور تمام لوگوں کی لعنت ہے (قیامت کے دن) اس سے کوئی فدیہ یا متبادل چیز قبول نہ کی جائے گی ۔
(صحیح البخاري : ٦٧٥٥ ، صحيح مسلم : ١٣٧٠)
ذرا غور کیجیے کہ مدینہ جو شریعت اسلامہ کا منبع و مرکز ہے، وہاں اسلامی تعلیمات میں دخل اندازی کرنے پر اس قدر سخت الفاظ میں تنبیہ کی جارہی ہے تو کیا دیگر مقامات پر بدعت کے فتنوں اور بدعتیوں کے ساتھ مراسم کا نتیجہ ہلاکت خیز نہ ہوگا؟
❀ اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَنْ وَقَرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدَمِ الْإِسْلَامِ۔
’’جس نے کسی بدعتی کی تو قیر (عزت) کی تو گویا اس نے اسلام کو گرانے میں اس کی مدد کی ۔ “
(الشرعة للآجري : ٩٦٢ ح ٢٠٤٠ وسنده حسن)
❀ امام شاطبی رحمہ اللہ مختلف دلائل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ان تمام آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ بدعتی کی طرف چل کر جانا، اس کی تو قیر کرنا یہ سب کچھ اس کی بدعت کے باعث اس کی تعظیم ہی شمار ہوگا، حالانکہ شریعت نے ہمیں اس (بدعتی) کی اہانت و تذلیل اور زجر و توبیخ کا حکم دیا ہے ۔ “
(الاعتصام للشاطبي ١/ ١٥١)
❀ امام شاطبی مزید لکھتے ہیں:
وَ عَلَى كُلِّ حَالٍ فَتَحْيَا الْبِدَعُ ، وَتموتُ السُّنَنُ، وَهُوَ هَدْمُ الْإِسْلامِ بِعَيْنِهِ.
ہر حال میں بدعات کا پر چار ہوگا اور سنتیں فوت ہو جائیں گی اور یہ عین اسلام کو گرانا ہے۔( ایضا)
◈ سلف صالحین کا موقف :
ائمہ کرام نے سختی کے ساتھ اہل بدعت و ضلالت سے دور رہنے اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے حتی کہ ان کی بات کی طرف دھیان کرنا بھی ان کے ہاں معتوب ٹھہرتا ہے۔
❀ امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذا لقيت صاحب بدعة في طريق فخذ في غيره۔
’’جب راستے میں تمہار ا سامنی کسی بدعتی کے ساتھ ہو جائے تو تم اپنا راستہ بدل لو۔ ‘‘
(الشرعة للآجري : ٩٦٢ ح ٢٠٤٢ ، كتاب البدع لابن وضاح : ۹۳ وسندہ حسن)
❀ امام فضیل فرماتے ہیں:
إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةَ يَطْلِبُونَ حِلَقَ الذِكْرِ ، فَانْظُرْ مَعَ مَنْ يَكُوقِنُ مَجْلِسُكَ ، لا يَكُونُ مَعَ صَاحِبٍ بِدْعَةٍ ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ ، وَ عَلامَةُ النِّفَاقِ أَنْ يَقُوْمَ الرَّجُلُ وَ يَقْعُدَ مَعَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ .
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ذکر کے حلقوں کی تلاش میں رہتے ہیں، لہذا تم دیکھ لو کہ تم کس کے ساتھ بیٹھتے ہو تمھاری مجلسیں کسی بدعتی کے ساتھ نہ جمیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہیں دیکھتا اور نفاق کی علامت یہ بھی ہے کہ آدمی کا اٹھنا بیٹھنا بدعتی کے ساتھ ہو۔‘‘
(الطيوريات لأبيطاهر السلفي ٢ / ٣١٨ ح ٢٥٨ وسنده حسن ، حلية الأولياء ٨ وسنده صحيح ١٠٤)