اہل بدعت اپنی ایجاد کردہ بدعات کو تقویت دینے کے لیے، بلکہ انھیں دین کا حصہ ثابت کرنے کے لیے چند شبہات پیش کرتے ہیں، جن کا ازالہ انتہائی ضروری ہے تا کہ سادہ لوح عوام ان خبیث لوگوں کی خباثت سے محفوظ رہ سکیں۔
پہلا شبہ:
بدعت سنت حسنہ ہے، جس کے شروع کرنے والے کو ماجور قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سید نا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
﴿مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلامِ سُنَّةً حَسَنَةٌ فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجُوْرِهِمْ شَيْءٌ، وَ مَنْ سَنَّ فِى الْإِسْلَامِ سُنَّةَ سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ﴾
صحیح مسلم ، کتاب العلم ، رقم : 6800 .
” جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خودا سے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے ان لوگوں کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو، اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جنھوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔”
ازالہ :
اسلام مکمل بھی ہے اور محفوظ بھی ہے۔ اسلام میں اگر کسی نے قرآن و سنت کے طریقے کو اپنا یا متروکہ سنت کو دوبارہ شروع کیا یہ حدیث اس کے لیے خوشخبری ہے اور جس نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ یا بدعت اختیار کی اُس کے لیے وعید ہے۔
دوسری بات یہ حدیث کا ٹکڑا ہے مکمل حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قبیلہ مضر کے لوگوں کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو صدقہ کی ترغیب دی، صحابہ کرام نے اتنا صدقہ کیا کہ سب سے پہلے ایک انصاری صحابی ایک تھیلی لائے جس کی وجہ سے اُن کے ہاتھ تھک گئے ، اس کے بعد یکے بعد دیگرے غلے اور کپڑوں کے دو ڈھیر لگ گئے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث مبارک ارشاد فرمائی تھی ۔ لہذا اس کو بدعت ایجاد کرنے کے لیے دلیل بنانا جہالت، شریعت اسلامیہ سے ناواقفیت کے علاوہ کچھ نہیں۔
دوسرا شبہ:
بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم اور مزید سیدنا عمر بن خطابؓ کا لوگوں کو ایک امام کے پیچھے تراویح پر جمع کرنا اور علیحدہ علیحدہ ائمہ کے پیچھے تراویح کو بدعت حسنہ قرار دینا اس امر کی دلیل ہے کہ بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے اور مذمت تو بدعت سیئہ کی ہے نہ کہ حسنہ کی۔
ازالہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں باجماعت تراویح پڑھانا، صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ لہذا اسے بدعت کہنا جہالت پر مبنی ہے۔ اور اگر سیّدنا عمر بن خطابؓ نے لوگوں کو ایک امام پر جمع کیا تو وہ بھی قابل تعریف اور قابل عمل بات ہے۔ انھوں نے شریعت اسلامیہ میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی تھی، بلکہ سنت ہی سے با جماعت نماز پڑھنا ثابت تھی ، اسی سنت کا احیاء کیا تھا تاکہ مسجد میں زیادہ جماعتوں کے بجائے ایک جماعت کروائی جائے، اور یہی سنت طریقہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
﴿عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ .﴾
مسند أحمد: 127/4 ، سنن ابوداؤد : 13/5 – 15 ، سنن ترمذی، رقم : 2671 – محدث البانی نے اسے ” صحیح “ کہا ہے۔
تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔“ پس سیدنا عمر بن خطابؓ کا باجماعت تراویح پڑھنے کا حکم دینا اور صحابہ کرامؓ کا اجماع ہو جانا ہمارے لیے حجت ہے۔
بعض لوگ سید نا عمر بن خطابؓ کے ” قول نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ “ سے دھوکہ دیتے ہیں، کہ بدعت اچھی بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ جس عمل کی نص قرآن وسنت میں موجود ہو، وہ بدعت کیسے ہو سکتی ہے، سیدنا عمر ؓکے یہ الفاظ لغوی طور پرتھے نہ کہ شرعی بدعت کے معنی میں کیونکہ شریعت میں بدعت سیئہ ہی ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے:
﴿وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ﴾
صحیح مسلم، کتاب الجمعة، رقم : 2005.
”اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
اور سیّدنا عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں:
﴿وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَاِنْ رَآهَا النَّاسُ حَسَنَةً .﴾
شرح السنة للمروزي ، ص : 85 .
”ہر بدعت گمراہی ہے، اگر چہ لوگ اس کو اچھا تصور کریں۔“
اس اثر کی روشنی میں بدعت کی تقسیم سیئہ اور حسنہ کے لحاظ سے کرنا قطعی درست نہیں ہے۔
تیسرا شبہ:
بدعتی لوگ قرآن مجید کے جمع کو بھی بدعت حسنہ کہہ کر بدعت کی ترویج کرنا چاہتے ہیں۔
ازاله:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ:
﴿لا تَكْتُبُوا عَنِّى غَيْرَ الْقُرْآن .﴾
صحیح مسلم: 2298/4 .
”میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے راشدین کے طریقے کو اپنانے کا حکم فرمایا ہے، لہذا انھوں نے قرآن مجید کو کتابی شکل میں جمع فرمایا اور اس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ اور ہم پر فرض ہے کہ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کے اجماع پر عمل کریں ، لہذا جمع قرآن کو بدعت قرار دینا کسی لحاظ سے بھی صحیح نہیں اور نہ ہی اس کو دلیل بنا کر دین اسلام میں نئی نئی بدعات وخرافات ایجاد کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔