رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن فرمایا:
لا عطين هذه الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه، يحب الله ورسوله ويحبه الله رسوله [صحيح البخاري:۲۹۴۲ و صحيح مسلم: ۳۴؍۲۴۰۶ ]
”میں کل ضرور اس آدمی کو یہ جھنڈا دوں گا، جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا ۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔جب صبح ہوئی تو سارے لوگ سویرے سویرے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، ہر آدمی یہ چاہتا تھا کہ جھنڈا اسے ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا: یا رسول اللہ !وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہیں۔ آپ نے فرمایا: انہیں بلا لاؤ۔ جب (سیدنا ) علی (رضی اللہ عنہ) آئے تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک ڈالا تو وہ (فوراً) اس طرح ٹھیک ہو گئے جیسے کبھی بیمار ہی نہیں تھے۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے (سیدنا) علی (رضی اللہ عنہ) کو جھنڈا دیا اور فرمایا: اللہ کی قسم اگر تیری وجہ سے ایک آدمی بھی ہدایت پر آجائے تو تیرے لئے یہ مالِ غنیمت کے سرخ انٹوں سے بہتر ہے۔ “
اللہ تعالیٰ نے غزوہ خیبر میں سیدنا علی رضی اللہ وعنہ کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا کتنا بلند مقام ہے کہ اللہ اور رسول ان سے محبت کرتے ہیں۔ مشہور جلیل القدر صحابی اور فاتح قادسیہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا:
انت مني بمنزلة هارون من موسي، الا انه لانبي بعدي [البخاري:۳۷۰۶ و مسلم : ۳۰؍۲۴۰۴ ]
”تیری میرے ساتھ وہی منزلت ہے جو ہارون کی موسی (علیہما السلام) سے ہے إلا یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ “
اس حدیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن یاد رہے کہ اس کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اس ذات (اللہ) کی قسم ہے جس نے دانہ پھاڑا(فصل اگائی) اور مخلوقات پیدا کیں، میرے ساتھ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ میرے (علی رضی اللہ عنہ کے ) ساتھ محبت صرف مومن ہی کرے گا اور (مجھ سے ) بغض صرف منافق ہی رکھے گا۔ [مسلم: ۱۳۱؍۷٨ ]
معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مومنین محبت کرتے ہیں اور بغض کرنے والے منافق ہیں۔ تمام اہلِ سنت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور پیار کرتے ہیں۔یاد رہے کہ محبت کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آدمی آپ رضی اللہ عنہ کا درجہ بڑھا کر مشکل کشا اور حاجت روا بنا دے یا آپ کے عظیم الشان ساتھیوں اور صحابہ کرام کو برا کہنا شروع کردے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں خوب فرمایا کہ :
”میرے بارے میں دو (قسم کے ) شخص ہلاک ہو جائیں گے (۱) غالی(اور محبت میں ناجائز) افراط کرنے والا، اور (۲) بغض کرنے والا حجت باز ۔“ [فضائل الصحابه للامام احمد ۲؍٥۷۱ح۹۶۴واسناده حسن؍الحديث :۴ص۱۵ ]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ :
”ایک قوم (لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ (اندھا دھند) محبت کرے گی حتی کہ وہ میری (افراط والی) محبت کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہو گی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض رکھے گی حتی کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہو گی۔“ [فضائل الصحابه۲؍۵۶۵ح۹۵۲و إسناده صحيح، وكتاب السنة لابن ابي عاصم: ۹۸۳ و سنده صحيح؍ الحديث:۴ص۱۵ ]
نوٹ: چونکہ ان دونوں اقوال کا تعلق غیب سے ہے لہذا یہ دونوں اقوال حکماً مرفوع ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ باتیں بتائی ہوں گی۔ واللہ اعلم معلوم ہوا کہ دو قسم کے گروہ ہلاک ہو جائیں گے۔
◈ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اندھا دھند محبت کر کے آپ کو خدا، مشکل کشا اور حاجت روا وغیرہ سمجھنے والے یا دوسرے صحابہ کرام کو برا کہنے والے لوگ مثلاً غالی قسم کے روا فض وغیرہ
◈ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے لوگ مثلاً خوارج و نواصب وغیرہ
تنبیہ: حکیم فیض عالم صدیقی(ناصبی) وغیرہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جو گستاخیاں کی ہیں ان سے تمام اہل حدیث بری الذمہ ہیں۔ اہل حدیث کا ناصبیوں اور رافضیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہل حدیث کا راستہ کتاب و سنت والا راستہ ہے اور یہی اہل سنت ہیں۔ و الحمد للہ
سیدنا امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں وفات پائی کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد(بن ابی وقاص) اور عبدالرحمن (بن عوف رضی اللہ عنہم اجمعین) سے راضی تھے۔ [ البخاري: ۳۷۰۰ ]
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
جب آیت ﴿نَدْعُ اَبْنَآ ئَنَا وَ اَبْنَا ئَكُمْ ﴾ [آل عمران: ۶۱] ہم اپنی اولاد لے آئیں اور تم اپنی اولاد لے آؤ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم) کو بلایا۔
پھر فرمایا: اللهم هولاء اهلي [صحيح مسلم: ۳۲؍۲۴۰۴و دارالسلام:۶۲۲۰ ]
”اے اللہ! یہ میرے اہل (یعنی اہلِ بیت ) ہیں۔ “
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کے نیچے فاطمہ، حسن، حسین اور علی (رضی اللہ عنہم) کو داخل کر کے فرمایا ۔
﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ كُمْ تَطْهِيْراً﴾ [الاحزاب:۳۳]
”اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اے اہلِ بیت تم سے نجاست دور کر دے اور خوب پاک و طاہر کر دے۔“ [صحيح مسلم:۲۴۲۴ ]
ان صحیح احادیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہے۔ یاد رہے کہ امہات المومنین بھی اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
نساء ه من أهل بيته [صحيح مسلم:۲۴۰۸و دارالسلام :۶۲۲۵]
”آپ کی بیویاں آپ کے اہلِ بیت سے ہیں۔“
عمومِ قرآن بھی اسی کا مؤید ہے۔