اگر نمازی بھول کر پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : اگر نمازی بھول کر پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے اور اسے حالت قیام میں یاد آ جائے کہ میں پانچویں رکعت میں کھڑا ہوں تو کیا اس وقت بیٹھ جائے یا باقی رکعت ادا کر کے بیٹے پھر سلام پھیرے ؟ احناف کا موقف تو معلوم ہے کہ جیسے ہی یاد آ جائے فوراً حالت تشہد میں واپس آ جائے خواہ کسی حالت میں ہو، براہ کرم صحیح راہ نمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
جواب : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعات پڑھی تو آپ سے کہا گیا : ”کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ کیا ؟“ صحابی نے کہا: ”آپ نے پانچ رکعات نماز پڑھی ہے “۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سہو کے سجدے کیے۔“ [صحيح البخاري، كتاب السهو : باب اذا صلى خمسا 1226، صحيح مسلم، كتاب المساجد، مواضع الصلاة : باب السهو فى الصلاة 572، أبوداؤد 1019]
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ :
”اس حدیث میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور سلف و خلف رحمۃ اللہ علیہم کے مذہب کی دلیل ہے کہ جس آدمی نے اپنی نماز میں بھول کر ایک رکعت زائد کر دی اس کی نماز باطل نہیں ہوتی۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اہل کوفہ نے کہا: ”جب بھول کر ایک رکعت زائد کر دے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے، اس پر نماز کا اعادہ لازم ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مزید کہا: اگر چوتھی رکعت میں تشہد بیٹھا پھر پانچویں زائد کر دی تو وہ ساتھ چھٹی رکعت ملا کر انہیں جفت کر دے اور یہ دو رکعت نفل ہو جائیں گی، اس پر بنا کرتے ہوئے، اس لیے کہ سلام واجب نہیں ہے اور ہر اس عمل کے ساتھ نماز سے نکل سکتا ہے جو نماز کے منافی ہو اور ایک رکعت اکیلی نماز نہیں ہوتی اور اگر چوتھی رکعت میں تشہد کے لیے نہیں بیٹھا
تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے اس لیے کہ بقدر تشہد بیٹھنا واجب ہے جس کی ادائیگی اس نے نہیں کی یہاں تک کہ پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا۔“ لیکن مذکورہ بالا حدیث ان تمام باتوں کو رد کرتی ہے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانچویں رکعت سے نہ واپس پلٹے ہیں اور نہ ساتھ ایک اور رکعت ملا کر اسے جفت کیا ہے۔“ [ شرح صحيح مسلم : 55/5۔ مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت]
امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”اہل علم نے اس باب میں اختلاف کیا ہے، اس حدیث کے ظاہری معنی کے مطابق محدثین کی ایک جماعت کا قول ہے جن میں سے علقمہ، حسن بصری، عطاء نخعی، زہری، مالک، اوزاعی، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ ہیں“۔ سفیان ثوری نے کہا ہے : ”اگر نمازی چوتھی رکعت میں نہیں بیٹھا تو مجھے زیادہ پسند ہے کہ وہ اعادہ کرے “۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: ”اگر چوتھی رکعت میں بقدر تشہد نہیں بیٹھا اور پانچویں کا سجدہ کر لیا تو اس کی نماز فاسد ہے اس پر لازم ہے کہ نماز نئے سرے سے ادا کرے اور اگر چوتھی رکعت میں بقدر تشہد بیٹھا ہے تو اس کی نماز ظہر مکمل ہو گئی اور پانچویں رکعت نفل ہے، وہ اس کے ساتھ ایک اور رکعت ملا لے پھر تشہد بیٹھے اور سلام پھیر دے اور سہو کے دو سجدے کر لے۔ تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ “
امام خطابی فرماتے ہیں : ”سنت کی پیروی اولیٰ ہے۔ “
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی سند اتنی عمدہ ہے کہ اہلِ کوفہ کے ہاں اس سے زیادہ عمدہ کوئی سند نہیں۔ جو شخص ظاہر حدیث کی طرف گیا ہے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت لازمی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی رکعت میں تشہد کیا یا نہیں کیا۔ اگر آپ نے چوتھی رکعت میں تشہد نہیں کیا تو آپ نے نماز نئے سرے سے ادا نہیں کی بلکہ اس نماز کو شمار کیا اور سہو کے دو سجدے کیے، ہر دو صورتوں میں اہلِ کوفہ کی بات میں فساد و خرابی داخل ہو جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : [تحفة الاحوذي : 425/2، 426، نيل الاوطار، ابواب سجود السهو : ص/569 ]
مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص بھول کر چار رکعات والی نماز میں پانچویں کا اضافہ کر بیٹھے تو وہ سجدہ سہو کر لے تو اس کی نماز درست ہو جاتی ہے۔ اضافہ کا موقف بلا دلیل ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: