اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

نماز میں "وَلَا الضَّالِّينَ” کے بعد آمین کہنا سنت ہے۔ اس بارے میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مقتدی بھی امام کے ساتھ بلند آواز سے آمین کہے یا نہیں؟ جمہور ائمہ اہلِ حدیث کے نزدیک مقتدی امام کے پیچھے جہری نمازوں میں آمین بالجہر کہے گا۔ اس پر نصوصِ مرفوعہ، آثارِ صحابہ اور تعاملِ تابعین دلالت کرتے ہیں۔ البتہ شیخ ناصر الدین البانیؒ نے ابتدا میں ایک شاذ اور سطحی قول اختیار کیا کہ مقتدی آمین بلند آواز سے نہ کہے، لیکن بعد میں انہوں نے اس سے رجوع کر لیا اور مقتدی کے جہری آمین کہنے کو ہی راجح قرار دیا۔

علامہ ناصر الدین البانی کا شاذ قول

انہوں نے ابتدا میں کہا:

عربی متن:
وأما جهر المقتدين بالتأمين وراء الإمام، فلا نعلم فيه حديثا مرفوعا صحيحا يجب المصير إليه.
(السلسلة الصحيحة 2/163)

ترجمہ:
جہاں تک امام کے پیچھے مقتدیوں کے بلند آواز سے آمین کہنے کا تعلق ہے تو ہمیں اس بارے میں کوئی صحیح مرفوع حدیث معلوم نہیں جو اس پر عمل کو لازم کرے۔

یعنی البانیؒ کے نزدیک ابتدا میں صرف امام آمین بالجہر کہے، مقتدی نہیں۔

البانیؒ کا رجوع

بعد میں انہوں نے اس قول سے رجوع کرتے ہوئے فرمایا:

عربی متن:
فالراجح عندنا بعد أن كنا اخترنا الإسرار بالتأمين من المقتدين، ترجح عندي أن الأقرب إلى الصواب أن المقتدين يجهرون أيضاً مع الإمام.
(الأثر، موقع البانی آرکائیو)

ترجمہ:
جب ہم نے مقتدیوں کے آمین کو آہستہ کہنے کا فتویٰ دیا تھا، اب میرے نزدیک حق کے قریب تر یہی ہے کہ مقتدی بھی امام کے ساتھ بلند آواز سے آمین کہیں۔

📍 اس سے واضح ہوا کہ البانیؒ نے خود اپنے پرانے فتویٰ کو غلط قرار دیا اور جمہور اہلِ حدیث کے قول کو اختیار کیا۔

جمہور اہلِ حدیث علماء کے دلائل اور اقوال

➊ سید نذیر حسین دہلویؒ

انہوں نے فرمایا:
عربی متن:
"فثبت للإمام فثبت للمنفرد، وبقي حكم المقتدي، فأقول: المقتدي أيضاً يقول آمين بالجهر، وهو مستنبط من الحديث المرفوع. … وظاهر ہے کہ جب آمین بالجہر نہ کہی جائے اور یہود کے کانوں تک آواز نہ پہنچے تو حسد کی صورت کیسے پیدا ہوگی؟”
(فتاویٰ نزیریہ 1/435)

ترجمہ:
امام کے لئے جہری آمین ثابت ہوئی تو منفرد کے لئے بھی، اور مقتدی کے لئے بھی یہ حکم مرفوع حدیث سے مستنبط ہے۔ ظاہر ہے اگر مقتدی آمین بالجہر نہ کہے تو یہود کو حسد کیسے ہوگا؟

➋ شیخ زبیر علی زئیؒ

انہوں نے اپنی معروف کتاب میں صراحت کی:
"ابوہریرہؓ کا یہ فرمان: والذي نفسي بيده إني لأشبهكم صلاة برسول الله ﷺ (بخاری) اس بات کی دلیل ہے کہ امام اور مقتدی سب آمین بالجہر کہتے تھے۔”
(القول المتین فی الجہر بالتأمین، ص 25)

➌ ثناء اللہ امرتسریؒ

انہوں نے لکھا:
"آمین بالجہر ایسا فعل ہے جو صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک امت کے بہت سے فرقوں میں سنت مانا گیا۔ ہندوستان میں جامع مسجد میں مقتدی آمین بالجہر کہتے ہیں اور کوئی نہیں روکتا، چاہے مقتدی اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔”
(فتاویٰ ثنائیہ 1/454)

➍ حافظ عبداللہ محدث غازی پوریؒ

انہوں نے فرمایا:
"امام اور مقتدی دونوں کے آمین بالجہر کی دلیل وہ ہے جو امام مسلم نے ابوہریرہؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہوگئی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ اس سے ثابت ہے کہ آہستہ آمین کہنے پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔”
(مجموعہ فتاویٰ غازی پوری، ص 168)

➎ عبید اللہ مبارکپوریؒ

انہوں نے لکھا:
"امام اور مقتدی کو آمین اتنی بلند آواز سے کہنا چاہئے کہ صف کے لوگ سن لیں، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی آمین کی آواز سے مسجد گونج جاتی تھی، اور آثارِ صحابہ میں ہے کہ مقتدی بھی اتنی اونچی آمین کہتے تھے کہ مسجد گونجتی تھی۔”
(فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری 1/244)

➏ خطیب الہند محمد جوناگڑھیؒ

انہوں نے کہا:
"ابن زبیرؓ اور ان کے بعد کے ائمہ کو آمین کہتے ہوئے سنا گیا اور ان کے مقتدی بھی اتنی بلند آواز سے آمین کہتے کہ مسجد ہل جاتی۔ پس یہ سیکڑوں صحابہ اور تابعین کا عمل ہے۔”
(دلائل محمدی، ص 150)

➐ رئیس ندویؒ

انہوں نے لکھا:
"ہم کہتے ہیں کہ جہری نمازوں میں امام و مقتدی کا آمین بالجہر کرنا متواتر احادیث سے ثابت ہے، اور تمام خلفاء راشدین و صحابہ کا اسی پر عمل تھا۔”
(مقالات رئیس ندوی، ص 609)

➑ بدیع الدین شاہ الراشدیؒ

انہوں نے فرمایا:
"حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آمین بالجہر کہتے تھے، اور اگر یہ جہری نہ ہوتی تو یہودی حسد کیوں کرتے؟”
(مقالات راشدیہ 2/144)

➒ دیگر علماء

  • عبدالرؤف بن عبدالحنانؒ: جہری نمازوں میں مقتدی بھی امام کے ساتھ آمین بالجہر کہے، یہی سنت ہے۔ (القول المقبول، ص 356)

  • محمد داؤد ارشدؒ: "آمین بالجہر پر صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے، اور کسی صحابی سے آمین خفیہ کہنا ثابت نہیں۔”

📍 خلاصہ:

  • مرفوع احادیث، آثار صحابہ اور تابعین سب سے جہری آمین ثابت ہے۔

  • جمہور اہلِ حدیث ائمہ کا یہی فتویٰ ہے کہ امام کے ساتھ مقتدی بھی بلند آواز سے آمین کہے۔

  • شیخ البانیؒ کا پرانا فتویٰ شاذ اور مردود تھا، جس سے انہوں نے رجوع کر لیا۔

🔴 نتیجہ:

نمازِ جہریہ میں مقتدی کا امام کے ساتھ بلند آواز سے آمین کہنا ہی سنت ہے، اسی پر صحابہ کرامؓ، تابعین، ائمہ اور جمہور اہلِ حدیث کا اجماع ہے، اور مخالف قول شاذ اور ناقابلِ قبول ہے۔

اہم حوالوں کے سکین

اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 01 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 02 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 03 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 04 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 05 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 06 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 07 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 08 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 09 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 10 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 11 اُونچی آواز سے آمین پر علامہ البانی کا شاز قول اور اس سے رجوع – 12

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے