عن أنس رضى الله عنه قال : كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ينامون، ثم يقومون فيصلون ولا يتوضرون [اخرجه مسلم]
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سو جاتے تھے پھر اٹھتے نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے ۔ مسلم
تحقیق و تخریج: مسلم: 3746 اس حدیث میں سونے سے مراد اونگھتا ہے اور جگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا البتہ گہری نیند سو جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
وفي رواية عند أحمد بن عبيد: ((ينامون، ثم يقومون فيصلون ولا يتوضرون على عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ))
احمد بن عبید کے حوالے سے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں صحابہ سو جاتے پھر اٹھتے نماز پڑھتے اور وضوء نہیں کیا کرتے تھے ۔ مسلم
تحقيق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ البیهقی: 1/ 120 ۔ احمد بن عبید صفار بہ کے حوالے سے ۔
وفي رواية عند البيهقي: ((لقد رأيت أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يوقظون للصلاة حتى إني لأسمع لأحدهم غطيطا، ثم يقومون فيصلون ولا يتوضرون ))
قال ابن المبارك : هذا عندنا وهم جلوس
بیہقی کے نزدیک ایک روایت میں ہے ”میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ نماز کے لیے بیدار کیے جاتے ، یہاں تک کہ میں ان میں سے کسی ایک کے خراٹے سنتا پھر وہ کھڑے ہوتے نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے ۔ عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: ہمارا خیال ہے وہ بیٹھے ہوئے تھے ۔“
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ الدارقطنی: 1/ 131 130 ، (حدیث صحیح ہے) البیهقی: 1/ 120 ۔
فوائد:
➊ اونگھنے سے وضوء نہیں ٹوٹتا گہری نیند میں وضوء لازمی ہے ۔
➋ گویا اونگھنے کے بعد نماز پڑھنی بھی درست ہے ۔ یہ ثابت بھی ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو اصحاب یا صحابہ کہنا درست ہے ۔
➌ وہ نیند جس سے وضوء لازم ہو جاتا ہے وہ معمول کی نیند مراد ہے ۔ بیٹھ کر بغیر ٹیک تکیہ کے اگر خراٹے بھی آنے شروع ہو جائیں تو وضو کرنا لازم نہیں ہاں احتیاطاً شک کی موجودگی میں وضو دوبارہ کیا جا سکتا ہے ۔ تکیہ یا ٹیک سے نیند آئے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ اس سے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سو جاتے تھے پھر اٹھتے نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے ۔ مسلم
تحقیق و تخریج: مسلم: 3746 اس حدیث میں سونے سے مراد اونگھتا ہے اور جگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا البتہ گہری نیند سو جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
وفي رواية عند أحمد بن عبيد: ((ينامون، ثم يقومون فيصلون ولا يتوضرون على عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ))
احمد بن عبید کے حوالے سے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں صحابہ سو جاتے پھر اٹھتے نماز پڑھتے اور وضوء نہیں کیا کرتے تھے ۔ مسلم
تحقيق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ البیهقی: 1/ 120 ۔ احمد بن عبید صفار بہ کے حوالے سے ۔
وفي رواية عند البيهقي: ((لقد رأيت أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يوقظون للصلاة حتى إني لأسمع لأحدهم غطيطا، ثم يقومون فيصلون ولا يتوضرون ))
قال ابن المبارك : هذا عندنا وهم جلوس
بیہقی کے نزدیک ایک روایت میں ہے ”میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ نماز کے لیے بیدار کیے جاتے ، یہاں تک کہ میں ان میں سے کسی ایک کے خراٹے سنتا پھر وہ کھڑے ہوتے نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے ۔ عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: ہمارا خیال ہے وہ بیٹھے ہوئے تھے ۔“
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ الدارقطنی: 1/ 131 130 ، (حدیث صحیح ہے) البیهقی: 1/ 120 ۔
فوائد:
➊ اونگھنے سے وضوء نہیں ٹوٹتا گہری نیند میں وضوء لازمی ہے ۔
➋ گویا اونگھنے کے بعد نماز پڑھنی بھی درست ہے ۔ یہ ثابت بھی ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو اصحاب یا صحابہ کہنا درست ہے ۔
➌ وہ نیند جس سے وضوء لازم ہو جاتا ہے وہ معمول کی نیند مراد ہے ۔ بیٹھ کر بغیر ٹیک تکیہ کے اگر خراٹے بھی آنے شروع ہو جائیں تو وضو کرنا لازم نہیں ہاں احتیاطاً شک کی موجودگی میں وضو دوبارہ کیا جا سکتا ہے ۔ تکیہ یا ٹیک سے نیند آئے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ اس سے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]