اسلا م میں فرقہ بندی کی سخت ممانعت ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا۪﴾ [آل عمران: 103 ]
”اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ سب لوگ اگر مل کر اللہ کی رسی (قرآن وحدیث) کو مضبوطی سے تھام لیں تو فرقہ بندی کی لعنت سے ان کو ہمیشہ کےلئے نجات مل جائے گی۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ اس امت میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں کہ جو لوگ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اُمتِ مسلمہ کو ٹکڑیوں میں تقسیم کردینے کا سبب بنے ہیں۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص نفسانی خواہشات کو چھوڑ کر صرف قرآن و حدیث کی پیروی کرے تو اس نے صراطِ مستقیم اور منزلِ مقصود کو پالیا۔ اللہ تعالیٰ اس امت کو امتِ واحدۃ دیکھنا چاہتا ہے لیکن لوگ اس امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً ۫ۖ وَّ اَنَا رَبُّكُمۡ فَاعۡبُدُوۡنِ 92 وَ تَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَهُمۡ بَيۡنَهُمۡ ؕ كُلٌّ اِلَيۡنَا رٰجِعُوۡنَ ﴾ [الانبيآء :92،93 ]
”یہ تمہاری امّت (حقیقت میں) ایک ہی امّت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو (مگر) لوگوں نے آپس میں دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا۔ سب ہماری ہی طرف پلٹنے والے ہیں۔“
دوسرے مقام پر اللہ کا فرمان ہے :
﴿اِنَّ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَ كَانُوۡا شِيَعًا لَّسۡتَ مِنۡهُمۡ فِيۡ شَيۡءٍ ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُهُمۡ اِلَي اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ ﴾ [الانعام : 159 ]
”جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور فرقہ فرقہ بن گئے ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ تو بس اللہ کے سپرد ہے وہی ان کو بتائے گا جوکچھ وہ کرتے رہے تھے ۔ “
اختلافات اور فرقہ بندیوں کی طویل تاریخ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اگر امتِ مسلمہ کو بھی اس فرقہ بندی سے دور رہنا ہے تو اسے قرآن وحدیث کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔ یاد رکھئے کہ اتحاد و اتفاق میں برکت ہے جبکہ اختلاف و انتشار اور فرقہ بندی اس امت کے لئے لعنت اور ذلت کا سبب ہے اور ایسا کرنے والوں کے لئے آخرت میں ذلت کا عذاب موجود ہے ۔ مذکورہ آیت میں جن لوگوں کا ذکر کیاگیا ہے ان سے بدعتی فرقے اور اصحاب الاہواء مراد ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُلۡ هُوَ الۡقَادِرُ عَلٰۤي اَنۡ يَّبۡعَثَ عَلَيۡكُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِكُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِكُمۡ اَوۡ يَلۡبِسَكُمۡ شِيَعًا وَّ يُذِيۡقَ بَعۡضَكُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ؕ اُنۡظُرۡ كَيۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَفۡقَهُوۡنَ﴾ [الانعام :65 ]
”(اے رسول ) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اُوپر سے عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں فرقہ فرقہ بنا کر ایک دوسرے سے اُلجھا دے اور آپس کی لڑائی کا مزا چکھائے (اے رسول) آپ دیکھئے ہم (کس کس طرح الفاظ) بدل بدل کر اپنی آیتوں کوبیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھ جائیں ۔ “
محترم قارئین ! فرقہ بندی کی تاریخ دیکھ لیجیئے ، یہی چیز نمایاں طور پر سامنے آئے گی کہ جب شخصیات کے نام پر دبستانِ فکر معرضِ وجود میں آئے تو اطاعت و عقیدت کے مرکز و محور (قرآن و حدیث) تبدیل ہوگئے۔ اپنی اپنی شخصیات اور ان کے اقوال و افکار اولین حیثیت کے اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے فرمودات ثانوی حیثیت کے حامل قرار پائے ۔ اور یہیں سے امتِ مسلمہ کے افتراق کے المیے کا آغاز ہوا، جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور نہایت مستحکم ہوگیا۔
فتنہ کے موجودہ دور میں ہر مقام پر نئی نئی جماعتیں معرضِ وجود میں آرہی ہیں۔ اگر جماعت سازی قرآن و حدیث سے ثابت ہوتی تو یہ ایک مستحسن عمل ہوتا لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز نئے نئے فرقوں کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ہم قرآن وحدیث کے محکم دلائل کی روشنی میں اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ حزبیت (تنظیم سازی) ایک خلافِ شریعت عمل اور تمام مفاسد کی جڑ ہے ۔ حزبیت اور گروہ بندی اسلام کے خلاف ایک خطرناک سازش سے کم نہیں۔ ایسی جماعتیں عصبیت کا شکار ہوجاتی ہیں اور ان کے ہاں محبت کی بنیاد جماعتی عصبیت ہوتی ہے اور لوگوں کو بھی صرف جماعتی عصبیت کے ترازو میں تولا جاتا ہے اور جو شخص امیر کا جس قدر فرمان بردار ہوتا ہے اسے اس کی فرمانبرداری کے مطابق ہی جماعت میں مقام ملتا ہے حالانکہ ان امراء کی اطاعت نہ فرض ہے نہ سنت اور نہ مستحب ۔ اس لئے یہ گروہ اور فرقے اللہ تعالیٰ کی توحید کے مقابلے میں بُت ہیں۔ چنانچہ آج جو کام ہورہا ہے وہ تنظیموں کی خاطر ہے ۔ اللہ کی رضا کی خاطر نہیں۔ ﴿اِلّا من رحم ربك﴾ افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ” دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔ [الترمذي: 2376 وهو حسن ]
اگر مال اور عہدہ کی محبت کے بجائے اللہ کا خوف ہوگا تو تنظیمیں نہیں بن سکتیں ۔ الحاصل موجودہ کاغذی اور نظام امارت والی جماعتوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ یہ عصرِ حاضر کا بہت بڑا فتنہ ہے۔ یہ معاملہ شرعی اعتبار سے بڑا نقصان دہ اور خطرناک ہے ۔ اس سے عقیدہ الولاء و البراء مجروح ہوتا ہے۔ جس طرح حنفیت ، شافعیت ، مالکیت اور حنبلیت امت کو تقسیم کررہی ہے ۔ اسی طرح حزبیت کے بھی اہلِ علم نے متعدد شرعی نقصانات لکھے ہیں۔ لہذا جماعتی تعصب سے اپنے آپ کو بالاتر رکھ کر دوسرے صحیح العقیدہ بھائیوں سے بھرپور شرعی محبت کی جائے ۔