انسان با اختیار ہے یا مجبور؟
سوال: کیا انسان با اختیار ہے یا مجبور محض؟
جواب: ہمارا کہنا ہے کہ انسان با اختیار بھی ہے اور مجبور محض بھی اور یہ اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کی تقدیر میں لکھ دیا کہ اس سے کیا کچھ ہونے والا ہے اور وہ کیا کرنے والا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قدرت و استطاعت بھی دی ہے جس کے ذریعہ وہ کام انجام دیتا ہے اسے اختیار بھی بخشا ہے جس کی وجہ سے اس کو ثواب ملتا ہے یا سزا ملتی ہے ۔ اللہ عز وجل اس پر قادر ہے کہ انسان کو راہ ہدایت کی طرف پھیر دے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ 36 وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّضِلٍّ﴾ [الزمر: 37-36]
اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اس کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ، اور جسے وہ ہدایت دے اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہیں ۔“
اور حدیث میں آتا ہے:
اعملوا فكل ميسر لما خلق له [صحيح مسلم كتاب انقدر باب ا ح 2647]
”تم عمل کرو اس لیے کہ ہر شخص کے لیے وہ چیز آسان بنا دی گئی ہے جس کی خاطر وہ پیدا کیا گیا ہے ۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی:
﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ 5 وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ 6 فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ﴾ [الليل: 5-7]
”تو جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کی تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے ۔“
جو اس نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا اور وہ عطا (اللہ کی راہ میں خرچ) تقویٰ اور تصدیق سے عبارت ہے اور یہ بھی بتایا کہ اللہ پاک ہی نے اس کے لیے اس راستے کو آسان کیا ہے یعنی اس راستے پر چلنے میں اعانت کی اور قوت بھی بخشی ، اگر وہ چاہتا تو گمراہ بھی کر سکتا تھا اور اس پر اس قوت کو مسلط کر دیتا جو اس کو راہ حق سے پھیر دیتی ۔ پس یہ وہی ذات ہے ، جسے چاہے وہ ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کر دے ۔
اہل السنت والجماعت کا مسلک ہے کہ انسان سے جو گناہ اور شرعی احکام کی خلاف ورزی سرزد ہوتی ہے وہ تمام اللہ کی مشیت اور ارادے سے ہوتی ہے ۔
”ارادہ کونیہ قدریہ“ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان گناہوں اور خلاف ورزیوں کا خالق و موجد ہے ، اس کے باوجود وہ ذات ان گناہوں سے ناگواری د ناپسندیدگی کا اظہار کرتی ہے اور گناہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا ۔ یہی نہیں بلکہ خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا بھی دے گا ۔ البتہ ان گناہوں اور خطاؤں کی نسبت بندے کی طرف کی جاتی ہے کیوں کہ وہ ان گناہوں کا مرتکب ہے اور بندے کو گناہ گار ، کافر ، فاجر اور فاسق کہا جاتا ہے باوجود یکہ اللہ تعالیٰ نے ہی ان گناہوں کو بندے کے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ہدایت کی دولت سے نواز دیتا ۔ اللہ کی مخلوق اور احکام کی حکمتوں کو وہی جانتا ہے کیوں کہ اس کی بادشاہی میں اس کی مرضی کے خلاف کوئی چیز نہیں ہو سکتی ۔
معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بندوں کے افعال میں کوئی دخل نہیں بلکہ ان کے نزدیک بندہ خود ہی راہ حق سے بھٹکتا ہے اور پھر خود ہی راہ حق پر گامزن ہو جاتا ہے ۔ سو معتزلہ کے اعتقاد کا نتیجہ ہے کہ بندے کی طاقت رب کی قدرت سے زیادہ طاقت ور ہے ۔
جبریہ بالکل معتزلہ کے مخالف ہیں ، اور انہوں نے رب کی قدرت ثابت کرنے میں مبالغہ سے کام لیا ہے اور بندہ سے قدرت و اختیار کو بالکل ختم کر دیا ہے اور نتیجتا بندے کو ایسا مجبور و مقہور بنا دیا ہے کہ اس کے اندر نہ تو حرکت کی طاقت ہے اور نہ ہی اسے کوئی اختیار حاصل ہے ۔
اہل السنت والجماعت نے اس سلسلے میں راہ اعتدال اختیار کی ہے ، اور ان کا کہنا ہے کہ بندوں کو اپنے اعمال پر اختیار حاصل ہے ، اور انہیں اپنے اعمال و افعال کے انجام دینے میں اپنے ارادے کے استعمال کرنے پر بھی اختیار حاصل ہے ، اور باری تعالیٰ بندوں کے اعمال اور ان کے ارادے کا خالق ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے احکام کا باطل ہونا لازم نہ آئے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فعل کی نفی نہیں ہوتی اور نہ ہی تمام چیزوں پر اس کی قدرت کی نفی ہوتی ہے ۔