یہ مضمون اس دعوے کی علمی جانچ ہے کہ امام یحییٰ بن معینؒ نے امام ابو حنیفہؒ کی صریح توثیق کی ہے۔ ہم اس موضوع پر پیش کیے جانے والے حوالہ جات (روایاتِ ابنِ عبدالبر، تاریخ ابنِ معین بروایۃ ابنِ محرز، منقولاتِ خطیب، کامل لابن عدی وغیرہ) کو سنداً و متنًا پرکھیں گے: رواۃ کی عدالت/ضبط، اتصال/انقطاع، مجہول/منکر کی نشاندہی، اور اصطلاحات جیسے «ثِقَة»، «لا بأس بہ»، «أوثق» کے دقیق مفاہیم واضح کریں گے—خصوصاً توثیقِ نسبی بمقابلہ مطلق توثیق۔ ساتھ ہی حنفی حضرات کے اعتراضات کو ایک ایک کر کے نقل کر کے اُن کے دلائل، ترجمہ اور توضیح کے ساتھ مدلّل جواب دیں گے، تاکہ قاری اصولِ حدیث کے معیار پر نتیجہ خود دیکھ سکے۔
[نوٹ: یہ مضمون بھی ملاحظہ کریں: امام یحییٰ بن معین کی ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب پر جرح مع سکین]
① ابن عبدالبر کی روایت اور اس کی حقیقت
حنفی حضرات سب سے پہلی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ امام ابن عبدالبرؒ نے اپنی کتاب الانتقاء وغیرہ میں ایک سند صحیح کے ساتھ امام یحییٰ بن معین سے ابو حنیفہ کی توثیق نقل کی ہے۔ ان کے بقول اس روایت میں ابن معین نے فرمایا:
اصل روایت
عربی عبارت:
قَالَ سُئِلَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ فَقَالَ: ثِقَةٌ، مَا سَمِعْتُ أَحَدًا ضَعَّفَهُ، هَذَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ يَكْتُبُ إِلَيْهِ أَنْ يُحَدِّثَ وَيَأْمُرُهُ، وَشُعْبَةُ شُعْبَةُ.
ترجمہ:
ابن دورقی کہتے ہیں: میں نے خود سنا کہ یحییٰ بن معین سے ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ”وہ ثقہ ہیں۔ میں نے کسی کو نہیں سنا کہ انہوں نے ابو حنیفہ کو ضعیف کہا ہو۔ یہ تو شعبہ بن حجاج ہیں جو ان کو خط لکھتے تھے کہ وہ حدیث بیان کریں اور انہیں حکم دیتے تھے، اور شعبہ تو شعبہ ہیں!“
حوالہ:
📕 الانتقاء لابن عبدالبر، و سیر أعلام النبلاء للذہبی (12/467)
سند کا تجزیہ
یہ روایت درج ذیل سند سے منقول ہے:
-
حکم بن منذر → ابو یعقوب یوسف بن احمد بن یوسف بن الدخیل → احمد بن الحسن المقری → عبد الله بن أحمد الدورقي → یحییٰ بن معین۔
1. حکم بن منذر القرطبی
-
یہ راوی مجہول العین ہے۔ صرف ابن عبدالبر نے اس سے روایت کی ہے۔ اصول کے مطابق کسی راوی کی جہالت العین رفع کرنے کے لئے کم از کم دو ثقہ محدثین کی روایت ہونا ضروری ہے۔
2. یوسف بن احمد بن یوسف بن الدخیل (ابو یعقوب المکی)
-
یہ مجہول الحال ہے۔ نہ کتب رجال میں اس کی توثیق ملتی ہے نہ کوئی جرح۔ ابو الوفاء الافغانی نے اس کے حالات ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن آخرکار اعتراف کیا:
لم أجد له ترجمة في كتب الرجال ولا في الطبقات.
یعنی ”میں اس کے حالات نہ اسماء الرجال کی کتابوں میں ڈھونڈ سکا نہ طبقات میں۔“
3. احمد بن الحسن المقری
-
اس کے بارے میں ائمہ نے سخت جرح کی ہے:
-
خطیب بغدادی: منكر الحديث (منکر الحدیث)
-
دارقطنی: ليس بثقة (ثقہ نہیں)
-
ذہبی: اسے ضعفاء و متروکین میں شمار کیا ہے۔
-
وضاحت
یہاں تین کمزوریاں ہیں:
-
پہلا راوی (حکم بن منذر) مجہول العین۔
-
دوسرا راوی (ابن الدخیل) مجہول الحال۔
-
تیسرا راوی (احمد بن الحسن) منکر الحدیث و غیر ثقہ۔
ایسی سند کو محدثین کے ہاں "صحیح” یا "حجت” کہنا علمی خیانت ہے۔ لہٰذا اس روایت سے امام ابن معین کی طرف سے ابو حنیفہ کی توثیق ہرگز ثابت نہیں ہوتی۔
نتیجہ:
ابن عبدالبر کے ذریعے منقول یہ روایت سنداً ضعیف اور ناقابلِ احتجاج ہے۔ اس لئے امام یحییٰ بن معین سے ابو حنیفہ کی مطلق توثیق ثابت کرنے کے لئے اسے دلیل بنانا درست نہیں۔
② ابن محرز کے واسطے سے منقول اقوال اور ان کی حیثیت
حنفی حضرات دوسری بڑی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معینؒ کے شاگرد ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز نے اپنی کتاب معرفة الرجال میں ابو حنیفہ کے بارے میں توثیق نقل کی ہے۔ ان کے بقول یہ روایت صریح ہے کہ:
اصل روایت
عربی عبارت:
سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ لَا بَأْسَ بِهِ، وَكَانَ لَا يَكْذِبُ.
وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مَرَّةً أُخْرَى: أَبُو حَنِيفَةَ عِنْدَنَا مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ، وَلَمْ يُتَّهَمْ بِالْكَذِبِ.
ترجمہ:
ابو العباس ابن محرز کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے ہوئے سنا کہ: ”ابو حنیفہ لا بأس بہ تھے اور جھوٹ نہیں بولتے تھے۔“
اور ایک مرتبہ میں نے ان سے یہ بھی سنا کہ: ”ابو حنیفہ ہمارے نزدیک اہلِ صدق میں سے ہیں اور ان پر جھوٹ کا الزام نہیں لگایا گیا۔“
حوالہ:
📕 معرفة الرجال لابن معين (رواية ابن محرز)
سند کا تجزیہ
تاریخ ابن معین بروایۃ ابن محرز کی مکمل سند یوں ہے:
ابو عمر محمد بن عباس بن محمد الخزاز → ابو العباس احمد بن محمد الفزاری → ابو الفضل جعفر بن دستوریة الفسوی → ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز → یحییٰ بن معین۔
1. ابو الفضل جعفر بن دستوریة الفسوی
-
اس راوی کی توثیق معتبر کتبِ رجال میں نہیں ملتی۔ اس لئے یہ مجہول الحال ہے۔
2. ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز
-
یہ ابن معین کا شاگرد ہے، مگر اس پر بھی ائمہ نے صراحتاً توثیق نہیں کی۔
-
بعض نے اسے ثقہ کہا ہے، لیکن جمہور نے اسے غیر معروف (مستور) مانا ہے۔
-
امام ابو حاتم رازی سے منقول ہے کہ وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں، لیکن خود ابو حاتم کا اصول یہ تھا:
إذا كتبت فقمّش، وإذا حدثت ففتش
(جب لکھو تو ہر ایک سے لکھ لو، لیکن جب روایت کرو تو تحقیق کے بعد ہی روایت کرو)
اس لئے محض ابو حاتم کی روایت لینا ابن محرز کی عدالت کے لئے کافی نہیں۔
وضاحت
-
ابن محرز کی یہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ اس میں جعفر بن دستوریة الفسوی مجہول ہے۔
-
الفاظ "لا بأس بہ” محدثین کی اصطلاح میں ادنیٰ درجہ کی توثیق ہیں، جو بعض اوقات "ضعیف نہیں” کے معنی میں آتے ہیں، نہ کہ "ثقہ ثبت” کے درجے میں۔
-
الفاظ "اہل الصدق” صرف اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ پر جھوٹ کا الزام نہیں، لیکن یہ الفاظ ان کی حدیثی قوت یا ضبط کی صریح توثیق نہیں بنتے۔
📍 نتیجہ:
ابن محرز کے واسطے سے منقول یہ روایت سنداً کمزور ہے، اور اس میں موجود الفاظ ثقہ ثبت کے درجے کی صریح توثیق نہیں۔ لہٰذا اسے دلیل بنا کر یہ کہنا کہ امام ابن معین نے ابو حنیفہ کو اعلیٰ درجہ کے محدث مانا، علمی اصولوں کے خلاف ہے۔
③ ابو یوسف اور ابو حنیفہ کے تقابل میں ابن معین کے اقوال
حنفی حضرات تیسری دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معینؒ نے ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد قاضی ابو یوسف کا تقابل کرتے ہوئے ابو حنیفہ کے بارے میں توثیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابن معین نے ابو یوسف کو ابو حنیفہ سے "اَوثق” قرار دیا، جس سے ابو حنیفہ کی ثقاہت بھی لازم آتی ہے۔
اصل روایت
عربی عبارت:
وَسَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ عَنْ أَبِي يُوسُفَ وَأَبِي حَنِيفَةَ فَقَالَ: كَانَ أَبُو يُوسُفَ أَوْثَقَ مِنْهُ فِي الْحَدِيثِ.
📕 (تاریخ بغداد 13/449)
ترجمہ:
جعفر بن أبي عثمان کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن معین سے ابو یوسف اور ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے فرمایا: ”حدیث کے معاملے میں ابو یوسف، ابو حنیفہ سے زیادہ اوثق ہیں۔“
اعتراضِ حنفی حضرات
حنفی حضرات کہتے ہیں: چونکہ "أوثق” کا مطلب "زیادہ ثقہ” ہے، لہٰذا اس کے معنی یہ ہوئے کہ دونوں ثقہ ہیں، مگر ابو یوسف درجے میں ابو حنیفہ سے بڑھ کر ہیں۔
جواب و وضاحت
➊ "أوثق” ہمیشہ "زیادہ ثقہ” کے معنی میں نہیں
ائمہ محدثین کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ "أوثق” کا مطلب بعض اوقات "کم ضعیف” بھی ہوتا ہے، خصوصاً جب دونوں رواۃ پر جرح موجود ہو۔
مثالیں:
-
یحییٰ بن معین نے کہا:
أسد بن عمرو أوثق من نوح بن دراج
(اسد بن عمرو، نوح بن دراج سے اوثق ہے)
📕 (الجرح والتعدیل 2/337)حالانکہ خود ابن معین نے نوح بن دراج کو "کذاب” کہا ہے (📕 الجرح والتعدیل 8/484)۔ اس سے معلوم ہوا کہ "أوثق” یہاں "کم جھوٹا” یا "کم ضعیف” کے معنی میں ہے، نہ کہ دونوں کو ثقہ ماننے کے۔
-
ایک اور مقام پر فرمایا:
سعيد أوثق والعلاء ضعيف
(سعید اوثق ہے، اور علاء ضعیف ہے)
📕 (تاریخ ابن معین، روایة عثمان الدارمی، رقم 624)یہاں بھی "أوثق” کا مطلب "ثقہ” نہیں بلکہ دوسرے سے کمزور نہ ہونا ہے۔
➋ ابن معین کی عبارات اہل الرائے کے بارے میں
امام ابن معین نے اکثر اصحاب الرائے (ابو حنیفہ کے شاگردوں) پر سخت جرح کی:
-
محمد بن الحسن الشیبانی: جہمی کذاب
-
حسن بن زیاد لؤلؤی: کذاب
-
یوسف بن خالد السمتی: زندیق، کذاب
-
نوح بن أبی مریم: غیر ثقہ
-
ابو مطیع البلخی: لیس بشیء
-
اسد بن عمرو: کذوب
یہ سب اقوال ابن معین کے اپنے الفاظ ہیں۔ (تفصیل: تاریخ ابن معین)
ایسے ماحول میں جب وہ ابو یوسف کو "أوثق” کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے دیگر اصحاب الرائے کی نسبت حدیث میں بہتر تھے، لیکن اس سے مطلق ثقاہت مراد لینا درست نہیں۔
➌ ابو حنیفہ کا مقام اس قول سے
چونکہ ابن معین نے ابو یوسف کو بھی ضعیف کہا ہے، تو ابو یوسف کا "أوثق” ہونا صرف "ابو حنیفہ سے کم ضعیف” کے معنی میں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابو حنیفہ کو وہ ثقہ مانتے تھے۔
📍 نتیجہ:
ابن معین کے اس قول سے ابو حنیفہ کی مطلق توثیق ثابت نہیں ہوتی، بلکہ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ ابن معین کے نزدیک ابو یوسف حدیث میں ابو حنیفہ سے کم ضعیف تھے۔ "أوثق” کو مطلق توثیق سمجھنا اصولی مغالطہ ہے۔
④ ابو یوسف کے بارے میں ابن معین اور امام احمد کے اقوال
حنفی حضرات یہ بھی دلیل لاتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معین اور امام احمد بن حنبل نے قاضی ابو یوسف کی ثقاہت پر کلمات کہے ہیں۔ ان کے بقول چونکہ ابو یوسف ابو حنیفہ کے شاگرد تھے، اس لئے ابو حنیفہ کی بھی توثیق لازم آتی ہے۔
روایت ابن معین سے
عربی عبارت:
لَيْسَ فِي أَصْحَابِ الرَّأْيِ أَحَدٌ أَكْثَرُ حَدِيثًا وَلَا أَثْبَتُ مِنْ أَبِي يُوسُفَ.
📕 (الکامل لابن عدی 8/466)
ترجمہ:
ابن عدی روایت کرتے ہیں: میں نے ابراہیم بن أبی داود سے سنا، وہ کہتے تھے: میں نے یحییٰ بن معین کو فرماتے ہوئے سنا: ”اصحاب الرائے میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو ابو یوسف سے زیادہ حدیث بیان کرتا ہو اور حدیث میں زیادہ ثابت ہو۔“
وضاحت
یہ کلام اصحاب الرائے کے باہمی تقابل کے بارے میں ہے، نہ کہ اہل الحدیث کے ساتھ موازنہ۔ یعنی ابن معین نے کہا کہ جتنے بھی اصحاب الرائے (فقہائے کوفہ کے مقلدین) تھے، ان میں ابو یوسف حدیث میں نسبتاً زیادہ مضبوط تھے۔
لیکن باقی اقوال ابن معین کی وضاحت کرتے ہیں:
-
ابو حنیفہ: کان یضعف فی الحدیث (حدیث میں ضعیف تھے)
-
محمد بن الحسن: جہمی کذاب
-
حسن بن زیاد لؤلؤی: کذاب
-
نوح بن أبی مریم: لیس بثقة
-
یوسف بن خالد السمتی: کذاب، خبیث زندیق
-
ابو مطیع البلخی: لیس بشیء
-
اسد بن عمرو: کذوب
📕 (تاریخ ابن معین، الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، دیگر کتب)
ایسے پس منظر میں ابو یوسف کا "أثبت” یا "أکثر حدیثاً” ہونا صرف تقابلی جملہ ہے، یعنی باقی اصحاب الرائے کے مقابلے میں بہتر تھے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اہل الحدیث کے معیار پر بھی ثقہ ہوں۔
روایت امام احمد سے
عربی عبارت:
سَأَلْتُ أَبِي عَنْ أَبِي يُوسُفَ فَقَالَ: صَدُوقٌ، وَلَكِنْ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ، لَا يُنْبَغِي أَنْ يُرْوَى عَنْهُ شَيْءٌ.
📕 (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم 9/170)
ترجمہ:
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں: میں نے اپنے والد (امام احمد) سے ابو یوسف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ”وہ صدوق ہیں، لیکن چونکہ ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے ہیں، اس لئے ان سے روایت نہیں کرنی چاہئے۔“
وضاحت
امام احمد نے ابو یوسف کو صدوق کہا، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ چونکہ وہ ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں، اس لئے ان سے روایت نہیں لی جائے۔ یعنی وہ شخصی طور پر جھوٹا نہیں، لیکن علمی معیار پر ان کی روایت اہل الحدیث کے نزدیک حجت نہیں۔
اسی لئے امام احمد نے واضح کیا:
ضعیف الحدیث أقوی من رأی أبی حنیفہ
📕 (المحلی بالآثار 1/31)
ترجمہ: "ایک ضعیف حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے زیادہ قوی ہے۔”
📍 نتیجہ:
-
ابن معین کے نزدیک ابو یوسف اصحاب الرائے میں نسبتاً بہتر تھے، لیکن یہ ان کی مطلق ثقاہت نہیں۔
-
امام احمد نے انہیں صدوق کہا، لیکن ساتھ ہی تنبیہ کی کہ ان سے روایت نہیں لینی۔
-
اس سے ابو حنیفہ کی توثیق ثابت نہیں ہوتی، بلکہ یہ واضح ہوتا ہے کہ اہل الحدیث ائمہ کے نزدیک ابو یوسف و ابو حنیفہ کی روایات قابلِ اعتماد نہ تھیں۔
⑤ ابن معین سے مروی دیگر اقوال، ابو حنیفہ اور امام شافعی پر کلام
حنفی حضرات یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معینؒ سے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے بارے میں مختلف اقوال ملتے ہیں، اور بعض میں ان کے نزدیک ان دونوں کو مدح و توثیق دی گئی ہے۔ لیکن جب ان روایات کو سند اور سیاق کے ساتھ پرکھا جائے تو حقیقت بالکل مختلف نکلتی ہے۔
1. ابو حنیفہ کے بارے میں قول
عربی عبارت:
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
📕 (تاریخ ابن معین، روایة الدوری)
ترجمہ:
یحییٰ بن معین نے کہا: ”ابو حنیفہ حدیث میں ضعیف تھے۔“
وضاحت:
یہ صریح جرح ہے، اور اس سے ابو حنیفہ پر مطلق ضعف کی وضاحت ہوتی ہے۔ پس یہ کہنا کہ ابن معین نے ہمیشہ ان کی توثیق کی، درست نہیں۔
2. ابو یوسف کے بارے میں قول
عربی عبارت:
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: أَبُو يُوسُفَ لَا يُكْتَبُ حَدِيثُهُ.
📕 (الکامل لابن عدی)
ترجمہ:
یحییٰ بن معین نے کہا: ”ابو یوسف کی حدیث نہیں لکھی جائے۔“
وضاحت:
یہ جرح ہے جو ابو یوسف کے بارے میں ابن معین کی پہلی عبارات (أوثق فی الحدیث) کے ساتھ جمع کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کے دیگر اصحاب الرائے میں نسبتی طور پر بہتر تھے، مگر پھر بھی اہل الحدیث کے معیار پر حجت نہ تھے۔
3. امام شافعی کے بارے میں قول (جرح)
عربی عبارت:
قِيلَ لِيَحْيَى بْنِ مَعِينٍ: أَيَرَى الرَّجُلُ أَنْ يَنْظُرَ فِي شَيْءٍ مِنَ الرَّأْيِ؟ فَقَالَ: أَيُّ رَأْيٍ؟ قِيلَ: رَأْيُ الشَّافِعِيِّ وَأَبِي حَنِيفَةَ. فَقَالَ: مَا أَرَى لِمُسْلِمٍ أَنْ يَنْظُرَ فِي رَأْيِ الشَّافِعِيِّ.
📕 (سؤالات ابن الجنید، ص 92)
ترجمہ:
ابن جنید کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا: کیا کوئی آدمی رائے میں نظر کرے؟ انہوں نے کہا: کس کی رائے؟ میں نے کہا: شافعی اور ابو حنیفہ کی۔ تو انہوں نے کہا: ”میں مسلمان کے لئے نہیں دیکھتا کہ وہ شافعی کی رائے میں غور کرے۔“
وضاحت:
یہ جرح فقہی رائے پر ہے، نہ کہ امام شافعی کی ثقاہت یا صداقت پر۔
4. امام شافعی کے بارے میں قول (تعدیل)
عربی عبارت:
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: الشَّافِعِيُّ صَدُوقٌ لَا بَأْسَ بِهِ.
📕 (الکامل لابن عدی)
ترجمہ:
یحییٰ بن معین نے کہا: ”شافعی صدوق ہیں، ان میں کوئی حرج نہیں۔“
وضاحت:
یہ صریح توثیق ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابن معین کی شافعی پر جرح رائے کے باب میں تھی، نہ کہ ان کی عدالت و صداقت میں۔
خلاصہ
-
ابو حنیفہ کے بارے میں ابن معین کے اقوال میں جرح بھی موجود ہے (یضعف فی الحدیث)۔
-
ابو یوسف کے بارے میں بھی انہوں نے صراحت کی کہ ان کی حدیث نہیں لکھی جاتی۔
-
امام شافعی کے بارے میں ان کی جرح فقہی رائے پر تھی، لیکن ان کی عدالت پر انہوں نے صدوق اور لا بأس بہ کہا۔
📍 نتیجہ:
ابن معین کے اقوال سے ابو حنیفہ کی مطلق توثیق ہرگز ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ زیادہ تر مقامات پر وہ ان کی حدیثی حیثیت کو کمزور قرار دیتے ہیں۔
پورے مضمون کا خلاصہ
-
امام یحییٰ بن معین سے ابو حنیفہ کی توثیق پر جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں وہ سندی طور پر ضعیف ہیں۔
-
جہاں "اَوثق” یا "لا بأس بہ” جیسے الفاظ آئے ہیں، وہ مطلق ثقاہت کے معنی میں نہیں بلکہ نسبتی یا صرف جھوٹ کی نفی کے معنی میں ہیں۔
-
صریح اقوال میں ابن معین نے ابو حنیفہ کو "حدیث میں ضعیف” کہا ہے، اور ان کے شاگرد ابو یوسف کے بارے میں بھی سخت جرح کی ہے۔
-
لہٰذا یہ کہنا کہ امام ابن معین نے ابو حنیفہ کو ثقہ مانا، اصولِ حدیث اور اقوالِ محدثین کے خلاف ہے۔
🔴 حاصل کلام:
امام یحییٰ بن معینؒ اہلِ حدیث کے امام اور جرح و تعدیل کے ستون تھے۔ ان کی طرف سے ابو حنیفہ کی توثیق کا دعویٰ حنفی حضرات کا ایک بڑا مغالطہ ہے، جو ضعیف اسانید اور مجہول راویوں کے سہارے کھڑا کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن معین کے نزدیک ابو حنیفہ حدیث میں ضعیف تھے، اور یہ بات جمہور محدثین کے اتفاق کے عین مطابق ہے۔
اہم حوالوں کے سکین