امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک اہم علمی مسئلہ یہ ہے کہ امام یحییٰ بن سعید القطان (متوفی 198ھ)، جو علمِ جرح و تعدیل کے ممتاز ترین ائمہ میں سے ہیں اور جن کو حافظ ذہبی نے "امیر المومنین فی الحدیث” کا لقب دیا ہے، کیا وہ واقعی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد تھے یا فقہ حنفی سے وابستہ تھے؟ زیرِ نظر مضمون میں اس مسئلے کا علمی و تحقیقی جائزہ لیا جائے گا۔ مخالفین کی جانب سے پیش کردہ تمام دلائل کو تفصیلاً نقل کرنے کے بعد ان کا تحقیقی تجزیہ پیش کیا جائے گا۔

فریق مخالف کی طرف سے پیش کردہ دلائل اور ان کا تحقیقی جائزہ

پہلی دلیل:

وكان في الفروع على مذهب أبي حنيفة – فيما بلغنا – إذا لم يجد النص۔ (سير أعلام النبلاء، رقم: 1366)

اردو ترجمہ: ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ امام یحییٰ بن سعید القطان جب کسی مسئلے میں نص (قرآن یا حدیث کی واضح دلیل) نہ پاتے تو وہ امام ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق فروعی مسائل میں فتویٰ دیتے تھے۔

اس دلیل کا تحقیقی و علمی تجزیہ:

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس بات کو "فیما بلغنا” کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے جو کہ صیغہ تمریض (ضعیف اور غیر یقینی بیان) ہے۔ علم حدیث کے اصول کے مطابق صیغہ تمریض والا قول انتہائی ضعیف اور ناقابلِ قبول ہوتا ہے۔ اس بارے میں محدثین کرام کی رائے ملاحظہ فرمائیں:

  • امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَإِنَّمَا يُقَالُ… بَلَغَنَا عَنْهُ… مِنْ صِيغِ التَّمْرِيضِ… وَصِيَغُ التَّمْرِيضِ لِمَا سِوَاهُمَا۔ (المجموع شرح المهذب، نووی)

ترجمہ: بلغنا وغیرہ جیسے صیغے ضعیف و غیر معتبر روایات کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

  • ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں: قَول الرَّاوِي: بَلغنِي، يُسمى مغضلا عِنْد أَصْحَاب الحَدِيث… من أَقسَام الْمَرْدُود۔ (شرح نخبة الفكر، ملا علی قاری)

ترجمہ: راوی کا قول "بلغنی” محدثین کے نزدیک "معضل” ہے جو کہ مردود حدیث کی ایک قسم ہے۔

نتیجہ:

اس پہلی دلیل کا مرکزی نکتہ "بلغنا” جیسا مجہول اور ضعیف صیغہ ہے، جس کی بنا پر اس روایت کو علمی و تحقیقی طور پر رد کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اس روایت کی بنیاد پر امام یحییٰ بن سعید القطان کو امام ابو حنیفہ کا مقلد قرار دینا بے بنیاد ہے۔

دوسری دلیل:

امام صیمری حنفی نے نقل فرمایا:

أخبرنا عمر بن إبراهيم قال أنبأ مكرم قال أنبأ علي بن الحسين بن حبان عن أبيه قال سمعت يحيى بن معين قال ما رأيت أفضل من وكيع بن الجراح قيل له ولا ابن المبارك قال قد كان لابن المبارك فضل ولكن ما رأيت أفضل من وكيع كان يستقبل القبلة ويحفظ حديثه ويقوم الليل ويسرد الصوم ويفتي بقول أبي حنيفة وكان قد سمع منه شيئا كثيرا قال يحيى بن معين وكان يحيى بن سعيد القطان يفتي بقول أبي حنيفة أيضا
(أخبار أبي حنيفة وأصحابه، للصيمري)

ترجمہ:
یحییٰ بن معین نے کہا:
"میں نے وکیع سے افضل کسی کو نہیں دیکھا۔ پوچھا گیا: ابن المبارک بھی نہیں؟ کہا: ابن المبارک کی بھی فضیلت تھی لیکن وکیع سے افضل کسی کو نہیں پایا۔ وہ قبلہ رخ بیٹھتے، حدیث یاد رکھتے، رات قیام کرتے، مسلسل روزے رکھتے اور ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے، ان سے بہت کچھ سنا بھی تھا۔”
یحییٰ بن معین نے یہ بھی فرمایا:
"یحییٰ بن سعید القطان بھی ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے۔”

اس دلیل کا تحقیقی و علمی تجزیہ:

یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے انتہائی ضعیف اور مردود ہے۔ اس کی سند کا مرکزی راوی علی بن الحسین بن حبان کا والد حسین بن حبان بن عمار ابو علی ہے جو مجہول العین ہے۔

مجہول العین کا حکم:

کسی راوی کے مجہول العین ہونے کا مطلب ہے کہ اس سے صرف ایک ہی راوی نے روایت کی ہو۔ ایسے راوی کی روایت محدثین کے نزدیک بالکل ناقابلِ قبول ہوتی ہے۔

  • حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

فإن سمي وانفرد واحد عنه فمجهول العين
"اگر راوی کا نام تو مذکور ہو لیکن اس سے صرف ایک ہی راوی روایت کرے تو وہ مجہول العین ہوتا ہے۔”
(نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر، ابن حجر عسقلانی)

اس روایت میں مذکور حسین بن حبان بن عمار سے صرف ان کے بیٹے علی بن حسین بن حبان نے روایت کی ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا شاگرد اس سے روایت نہیں کرتا۔

اس روایت کا دیگر صحیح روایات سے تعارض:

اس ضعیف روایت کے مقابلے میں یحییٰ بن معین کی ایک صحیح سند سے مروی روایت بھی موجود ہے جس میں واضح طور پر انہوں نے وکیع اور ابن المبارک میں سے کسی کو بھی دوسرے پر فضیلت نہیں دی۔

حافظ ابن عساکر روایت کرتے ہیں:

قلت ليحيى بن معين: فابن المبارك أعجب إليك أو وكيع؟ فلم يفضل
"میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا: آپ کے نزدیک ابن مبارک زیادہ بہتر ہیں یا وکیع؟
انہوں نے کسی کو بھی فضیلت نہیں دی۔”
(تاريخ دمشق لابن عساكر، ج: 63، ص: 341)

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے:

  • محمد بن خیرون (ثقہ)

  • احمد بن حمدون الاشنانی (ثقہ)

  • احمد بن محمد بن عبدوس الطرائفی (صدوق)

  • عثمان بن سعید الدارمی (ثقہ حافظ)

لہٰذا ایک صحیح السند روایت کے ہوتے ہوئے صیمری کی ضعیف روایت بالکل قابلِ اعتماد نہیں۔

خلاصۂ کلام:

  • صیمری کی روایت کا راوی (حسین بن حبان بن عمار) مجہول العین ہے۔

  • یحییٰ بن معین کی صحیح روایت اس کی مکمل نفی کرتی ہے۔

لہٰذا اس دوسری دلیل کی بنیاد بھی انتہائی کمزور اور مردود ہے اور اس کی بنیاد پر امام یحییٰ بن سعید القطان کو حنفی کہنا علمی خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔

تیسری دلیل:

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:

سمعت يحيى بن معين يقول سمعت يحيى بن سعيد يقول لا والله لا نكذب الله إنا ربنا سمعنا الكلمة الحسنة فنأخذ بها قال يحيى بن معين يعنى من رأى أبي حنيفة
(معرفة الرجال عن يحيى بن معين، رواية أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز)

ترجمہ:
"میں نے یحییٰ بن سعید القطان کو کہتے سنا: اللہ کی قسم! ہم اللہ کی بارگاہ میں غلط بیانی نہیں کرتے۔ جب کبھی کوئی اچھی بات سنتے ہیں تو اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں: ان کی مراد ابو حنیفہ کی رائے تھی۔”

اس دلیل کا تحقیقی و علمی تجزیہ:

اس روایت کی سند ضعیف اور ناقابلِ اعتماد ہے۔ ذیل میں سند کا مکمل جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

سند کا تحقیقی جائزہ:

یہ روایت احمد بن محمد بن القاسم بن محرز کی سند سے مروی ہے۔ اس سند کے دو مرکزی راوی مجہول ہیں:

  1. ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز
    یہ راوی مجہول الحال ہے۔ محدثین کے ہاں اس کی کوئی توثیق نہیں ملتی، اور نہ ہی اس کی ثقاہت ثابت ہے۔

  2. ابو الفضل جعفر بن درستویہ بن المرزبان الفسوی
    یہ راوی مجہول العین ہے کیونکہ اس سے صرف ایک ہی راوی روایت کرتا ہے۔ محدثین کے نزدیک ایسا راوی ناقابل قبول ہے۔

  • حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

فإن سمي وانفرد واحد عنه فمجهول العين، أو اثنان فأكثر ولم يوثق فمجهول الحال
(نخبۃ الفکر لابن حجر عسقلانی)

نتیجہ سند:

سند میں مجہول الحال اور مجہول العین راویوں کی موجودگی کے باعث یہ روایت ضعیف اور مردود ہے۔

روایت کا متن بھی تقلید ثابت نہیں کرتا:

واضح رہے کہ اس روایت کے متن میں بھی کہیں امام یحییٰ بن سعید القطان کے ابو حنیفہ کی تقلید کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ صرف اتنا کہا گیا ہے کہ کبھی کبھار ابو حنیفہ کی کوئی بات اگر اچھی لگتی تو وہ اسے اختیار کر لیتے تھے، جو فقہی تعامل کے اعتبار سے تقلید کے زمرے میں نہیں آتا۔

امام یحییٰ بن سعید القطان خود ابو حنیفہ کی حدیثی حیثیت کے متعلق فرماتے ہیں:

لم يكن صاحب حديث
"ابو حنیفہ صاحب الحدیث نہیں تھے۔”
(تاریخ بغداد)

اور یہ قول امام علی بن مدینی کی روایت سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔

خلاصۂ کلام:

  • یہ روایت سند کے اعتبار سے سخت ضعیف ہے (دو راوی مجہول ہیں)۔

  • روایت کا متن تقلید کو ثابت نہیں کرتا بلکہ محض کسی ایک قول کو کبھی کبھار اختیار کرنے کا ذکر ہے۔

  • امام یحییٰ بن سعید القطان کا اپنا واضح موقف ابو حنیفہ کی حدیثی حیثیت کے خلاف ہے۔

لہٰذا اس تیسری دلیل کو بھی علمی و تحقیقی اعتبار سے رد کیا جاتا ہے۔

چوتھی دلیل:

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:

سَمِعتُ يحيى يقول قال يحيى بن سعيد القطان لا نكذب الله ربما رأينا الشيء من رأي أبي حنيفة فاستحسناه فقلنا به

(تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 2530)

ترجمہ:
"میں نے یحییٰ بن سعید القطان کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ کی قسم! ہم اللہ کے بارے میں غلط بیانی نہیں کرتے۔ کبھی کبھی ابو حنیفہ کی کوئی رائے ہمیں اچھی لگتی تو ہم اسے اختیار کر لیتے تھے۔”

اس دلیل کا تحقیقی و علمی تجزیہ:

اس روایت میں واضح طور پر "ربما” (کبھی کبھار) کا لفظ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام یحییٰ بن سعید القطان صرف کبھی کبھار کسی ایک آدھ مسئلے میں ابو حنیفہ کی رائے کو درست سمجھ کر اختیار کرتے تھے، جو کہ تقلید کی دلیل ہرگز نہیں بنتی۔

تقلید کا مطلب ہے:

"کسی امام کی بات کو بغیر دلیل کے محض اس کے قول ہونے کی وجہ سے اختیار کرنا۔”

یہاں امام القطان، ابو حنیفہ کی رائے کو دلیل کی بنیاد پر (استحسان) قبول کر رہے ہیں نہ کہ اندھی تقلید کے طور پر۔

امام یحییٰ بن سعید القطان کا منہج اور تعامل:

خود امام یحییٰ بن سعید القطان نے ابو حنیفہ پر متعدد جرحات کی ہیں اور واضح طور پر ان کے حدیثی مقام پر کلام کیا ہے۔

  • امام یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں:

لم يكن صاحب حديث
"ابو حنیفہ صاحبِ حدیث نہیں تھے۔”
(تاریخ بغداد، سند صحیح)

یہ صراحت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام یحییٰ بن سعید القطان کا ابو حنیفہ کے متعلق رویہ ایک ناقد کا تھا نہ کہ مقلد کا۔

مزید یہ کہ امام یحییٰ بن معین سے منقول ہے کہ امام یحییٰ بن سعید القطان بعض اوقات ایسے لوگوں سے بھی روایت کر لیتے تھے جن کو وہ خود ضعیف سمجھتے تھے۔

  • امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:

كان يحيى بن سعيد يروي عن قوم وما كانوا يساوون عنده شيئا
"یحییٰ بن سعید بعض ایسے لوگوں سے بھی روایت کر لیتے جن کی کوئی حیثیت ان کی نظر میں نہیں ہوتی تھی۔”
(تاريخ ابن معين، رواية الدوري)

یعنی امام یحییٰ بن سعید القطان کا اصول یہ تھا کہ وہ ہر ایک سے اچھی بات لے لیتے اور ضعیف راویوں سے بھی روایت قبول کر لیتے۔ اس بنیاد پر کسی کو مقلد قرار دینا علمی اعتبار سے سراسر غلط ہے۔

خلاصۂ کلام:

  • اس روایت میں امام یحییٰ بن سعید القطان کا کبھی کبھار ابو حنیفہ کی رائے اختیار کرنے کا ذکر ہے۔

  • روایت کے الفاظ خود تقلید کی نفی کرتے ہیں (ربما – کبھی کبھار)۔

  • امام القطان نے ابو حنیفہ پر جرح بھی کر رکھی ہے، جو تقلید کے منافی ہے۔

  • امام القطان کا عمومی منہج یہ تھا کہ وہ ہر شخص سے صحیح بات لے لیتے تھے، یہ تقلید نہیں بلکہ تحقیقی روش ہے۔

لہٰذا اس چوتھی دلیل کو بھی علمی اور تحقیقی اعتبار سے رد کیا جاتا ہے۔

پانچویں دلیل:

امام ابن عبدالبر نے صحیح سند سے نقل کیا:

نا عبد الوارث قال نا قاسم قال نا أبو بكر أحمد بن زهير بن أبي خيثمة قال نا يحيى بن معين قال سمعت رجلا سأل يحيى بن سعيد القطان عن أبي حنيفة فما تزين عند من كان عنده أن يذكره بغير ما هو عليه وقال والله إنا إذا استحسنا من قوله الشيء أخذناه
(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء، لابن عبدالبر)

ترجمہ:
"یحییٰ بن معین کہتے ہیں: میں نے ایک شخص کو یحییٰ بن سعید القطان سے ابو حنیفہ کے متعلق سوال کرتے سنا۔ انہوں نے فرمایا: جو کچھ ابو حنیفہ کے بارے میں حقیقت ہے اسی کے مطابق بیان کرنا مناسب ہے۔ اللہ کی قسم! جب ہمیں ان کا کوئی قول اچھا لگتا ہے تو ہم اسے لے لیتے ہیں۔”

اس دلیل کا تحقیقی و علمی تجزیہ:

ابن عبدالبر نے اس روایت کی وضاحت اسی کتاب میں ایک دوسری روایت کے ذریعے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ امام یحییٰ بن سعید القطان سے منقول ہے:

أرأيتم إن عبنا على أبي حنيفة شيئا وأنكرنا بعض قوله أتريدون أن نترك ما نستحسن من قوله الذي يوافقنا عليه
(الانتقاء، ابن عبدالبر)

ترجمہ:
"کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اگر ہم ابو حنیفہ پر کسی بات کی وجہ سے تنقید کرتے ہیں یا ان کے بعض اقوال کا انکار کرتے ہیں تو کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم ان کے اس قول کو بھی چھوڑ دیں جس میں ان کی بات ہماری رائے کے مطابق (موافق) ہو؟”

یہ روایت امام یحییٰ بن سعید القطان کے اس موقف کی واضح ترین تشریح کرتی ہے۔ وہ ابو حنیفہ کے صرف ان اقوال کو قبول کرتے تھے جن میں ان کی اپنی رائے کے ساتھ موافقت ہوتی۔ اسے تقلید نہیں، بلکہ علمی موافقت کہا جاتا ہے۔

تقلید اور موافقت میں واضح فرق:

 

  • تقلید:

    کسی امام یا شخصیت کی بات کو محض ان کی رائے ہونے کی وجہ سے بغیر دلیل کے قبول کرنا تقلید کہلاتا ہے۔

  • موافقت:

    کسی کے قول کو دلیل کی بنیاد پر درست سمجھ کر اختیار کرنا، موافقت ہے۔ امام یحییٰ بن سعید القطان کا واضح موقف موافقت ہے، نہ کہ تقلید۔

خود امام یحییٰ بن سعید القطان کا ابو حنیفہ پر تنقیدی موقف:

امام القطان نے ابو حنیفہ کے حدیثی مقام کے متعلق واضح جرح فرمائی ہے:

لم يكن صاحب حديث
"ابو حنیفہ صاحب حدیث نہیں تھے۔”
(تاریخ بغداد، سند صحیح)

یہ واضح جرح تقلید کے موقف کے سراسر منافی ہے۔ کیونکہ مقلد کسی بھی صورت میں اپنے امام پر اس طرح کی جرح نہیں کر سکتا۔

خلاصۂ کلام:

  • اس روایت کا حقیقی مفہوم تقلید نہیں بلکہ موافقت ہے۔

  • ابن عبدالبر کی دوسری روایت کے ذریعے اس کی مکمل وضاحت ہو گئی ہے۔

  • امام یحییٰ بن سعید القطان کا ابو حنیفہ پر شدید تنقیدی موقف تقلید کے منافی ہے۔

لہٰذا اس پانچویں دلیل کو بھی علمی و تحقیقی اعتبار سے رد کیا جاتا ہے۔

پوری تحقیق کا نتیجہ:

پہلی دلیل:

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی عبارت صیغہ تمریض "بلغنا” سے مروی ہے، جو کہ ضعیف اور غیر معتبر ہے۔

دوسری دلیل:

صیمری کی روایت میں مرکزی راوی (حسین بن حبان بن عمار) مجہول العین ہے، اور صحیح روایت سے اس کا تعارض ہے۔

تیسری دلیل:

روایت کی سند میں دو راوی مجہول ہیں، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ متن بھی تقلید کی تائید نہیں کرتا۔

چوتھی دلیل:

روایت کے متن میں "ربما” (کبھی کبھار) کا لفظ موجود ہے جو تقلید کی واضح نفی کرتا ہے۔ یہ امام القطان کا عام تحقیقی طرز عمل تھا۔

پانچویں دلیل:

ابن عبدالبر کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ امام القطان ابو حنیفہ کی صرف وہ بات لیتے تھے جس میں ان کی اپنی رائے سے موافقت ہو، یہ تقلید نہیں بلکہ علمی موافقت ہے۔

✅ امام یحییٰ بن سعید القطان کا واضح موقف امام ابو حنیفہ کی حدیثی حیثیت کے متعلق تنقیدی تھا:

  • وہ فرماتے ہیں:

    "ابو حنیفہ صاحبِ حدیث نہیں تھے۔” (تاریخ بغداد)

✅ امام یحییٰ بن سعید القطان کسی بھی فقہی رائے کو دلیل کی بنیاد پر قبول کرتے تھے، نہ کہ محض تقلیداً۔

✅ امام القطان کا منہج و طریقۂ کار "تحقیقی و علمی موافقت” پر مبنی تھا، جو تقلید سے مکمل طور پر مختلف ہے۔

✅ پیش کردہ تمام دلائل اپنی سند اور متن کے اعتبار سے کمزور اور مردود ہیں۔

امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کو امام ابو حنیفہ کا مقلد کہنا علمی لحاظ سے غلط اور تحقیقی طور پر بے بنیاد ہے۔

اہم حوالاجات کے سکرین شاٹس

امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 01 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 02 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 03 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 04 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 05 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 06 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 07 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 08 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 09 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 10 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 11 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 12 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 13 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 14 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 15 امام یحییٰ بن سعید القطان پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 16

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے