اس تحقیقی مضمون میں ہم ایک مشہور اعتراض کا جائزہ لیں گے جو بعض حنفی حضرات امام مالک رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امام مالک کے نزدیک رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مکروہ اور خلافِ اولیٰ ہے، اور اس کے ثبوت میں المدونة الكبرى کی ایک روایت پیش کرتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت امام مالک کے مشہور شاگرد ابن القاسم العتقی کی منفرد اور شاذ نقل ہے، جبکہ امام مالک کے دوسرے ثقہ اور اجل شاگردوں (ابن وہب، اشہب، اسماعیل بن ابی اویس) نے بالکل اس کے برعکس امام مالک سے رفع یدین کے ثبوت کو نقل کیا ہے۔
اس تحقیق کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ:
-
امام مالک کا عمل اور آخری قول رفع یدین کے ثبوت پر ہے۔
-
ابن القاسم کی روایت جمہور محدثین اور اصولِ حدیث کے مطابق شاذ اور مردود ہے۔
-
اگر ابن القاسم کی روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس سے خود موطا امام مالک کی احادیث بھی ضعیف قرار پائیں گی، جو سراسر غلط اور مردود بات ہے۔
❖ اعتراض (المدونة الكبرى سے نقل)
قال الإمام مالك:
«لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل».
قال ابن القاسم:
«كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام».
(المدونة الكبرى 1/107 – دار الفكر بيروت)
📌 ترجمہ:
امام مالک نے فرمایا: میں نماز کی تکبیرات میں رفع یدین کو نہیں جانتا، نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹھتے وقت، مگر صرف شروع کی تکبیر میں، اور اس میں مرد و عورت برابر ہیں۔
ابن القاسم نے کہا: رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ میں قوی ہے، باقی سب جگہ ضعیف ہے۔
📌 حنفیوں کا استدلال:
یہ روایت پیش کر کے وہ کہتے ہیں کہ امام مالک بھی رکوع والے رفع یدین کو "ضعیف” کہتے تھے، لہٰذا مالکیہ کے نزدیک بھی یہ عمل مکروہ ہے۔
امام مالک کے ثقہ شاگردوں سے رفع یدین کا ثبوت
اب ہم دیکھتے ہیں کہ امام مالک کے ثقہ اور اجل شاگردوں نے ان سے رفع یدین کے بارے میں کیا نقل کیا۔ یہ روایات صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہیں اور ان کا تقابل کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ابن القاسم کی روایت شاذ اور مردود ہے۔
① اسماعیل بن ابی اویس الاصبحی (امام مالک کے بھانجے اور شاگرد):
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يَرَى رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلاَةِ.
(الجامع الكبير – سنن الترمذي)
📌 ترجمہ:
اسماعیل بن ابی اویس کہتے ہیں: امام مالک بن انس نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔
② عبداللہ بن وہب القرشی المصری (امام مالک کے اجل شاگرد):
قال ابن وهب:
«رَأَيْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ، أَوْ قَالَ: كُلَّمَا خَفَضَ، وَلَمْ تَزَلْ تِلْكَ صِفَتُهُ حَتَّى مَاتَ».
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)
📌 ترجمہ:
ابن وہب کہتے ہیں: میں نے امام مالک کو دیکھا کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ہمیشہ رفع یدین کرتے تھے، اور یہ ان کی عادت رہی یہاں تک کہ ان کا وصال ہو گیا۔
③ اشہب بن عبدالعزیز المصری (ثقہ شاگرد):
قال أشهب:
«صَحِبْتُ مَالِكًا قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ، فَمَا مَاتَ إِلَّا وَهُوَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ الإِحْرَامِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ».
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)
📌 ترجمہ:
اشہب کہتے ہیں: وفات سے ایک سال پہلے تک میں امام مالک کے ساتھ رہا، اور وہ ہمیشہ نماز میں رفع یدین کرتے تھے، یعنی تکبیر تحریمہ، رکوع میں جاتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت۔
🔎 ان تین ثقہ شاگردوں کی گواہی سے یہ بالکل واضح ہے کہ امام مالک کا آخری عمل اور فتویٰ رفع یدین پر تھا، اور ابن القاسم کی نفی والی روایت شاذ ہے۔
ائمہ و محدثین کی گواہی: امام مالک کا آخری عمل رفع یدین تھا
امام مالک کے اجل شاگردوں کے علاوہ، متعدد محدثین و فقہاء نے بھی واضح لکھا ہے کہ امام مالک وفات تک رفع یدین کرتے رہے اور اسی پر ان کا فتویٰ تھا۔
① ابن عبدالبر المالکی (متوفی 463ھ):
وَرَوَى ابْنُ وَهْبٍ وَالْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ وَأَشْهَبُ وَأَبُو الْمُصْعَبِ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ هَذَا إِلَى أَنْ مَاتَ، فَاللَّهُ أَعْلَمُ.
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 20/76)
📌 ترجمہ:
ابن وہب، ولید بن مسلم، سعید بن ابی مریم، اشہب اور ابو مصعب سب نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ وہ سیدنا ابن عمر کی حدیث کے مطابق رفع یدین کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔
② ابوبکر بن العربی المالکی (متوفی 543ھ):
والصحيح أنها ترفع في ثلاثة مواضع لحديث ابن عمر المشهور في الموطأ، ومتابعة كبار الصحابة له في ذلك…
(عارضة الأحوذي شرح الترمذي 2/197)
📌 ترجمہ:
صحیح بات یہ ہے کہ تین مقامات پر رفع یدین کیا جائے: تکبیر تحریمہ، رکوع جاتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت۔ یہ امام مالک کا صحیح قول ہے جیسا کہ موطا کی مشہور حدیث میں ابن عمر سے ثابت ہے اور بڑے بڑے صحابہ نے اس پر عمل کیا ہے۔
③ ابن الجوزی (متوفی 597ھ):
واتَّفَقَ على الْعَمَلِ بِهَا مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَل.
(الموضوعات 1/274)
📌 ترجمہ:
اس سنت (رفع یدین) پر امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا اجماع ہے۔
④ امام نووی (متوفی 676ھ):
وجمهور العلماء من الصحابة رضي الله عنهم فمن بَعْدَهمْ يُسْتَحَبُّ رَفْعُهُمَا أَيْضًا عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ، وَهُوَ رِوَايَةٌ عَنْ مَالِكٍ.
(المنهاج شرح صحيح مسلم 4/95)
📌 ترجمہ:
جمہور صحابہ اور ان کے بعد کے علماء کے نزدیک رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی رفع یدین مستحب ہے، اور یہ امام مالک سے بھی روایت کیا گیا ہے۔
🔎 ان نصوص سے واضح ہے کہ امام مالک کا آخری عمل اور ان کے شاگردوں کا اجماعی بیان یہی ہے کہ وہ رفع یدین کرتے تھے اور اس پر فتویٰ دیتے تھے۔
موطأ امام مالک کا مقام اور ابن القاسم کی روایت کا شاذ ہونا
امام مالک کی طرف منسوب ابن القاسم کی منفرد روایت کو پرکھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے موطأ امام مالک کے مقام اور مرتبہ کو سمجھا جائے۔
① امام شافعی (متوفی 204ھ):
ما في الأرض كتابٌ بعد كتاب الله أصحّ من موطأ مالك.
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 1/27)
📌 ترجمہ:
زمین پر اللہ کی کتاب کے بعد کوئی کتاب موطأ امام مالک سے زیادہ صحیح نہیں۔
② یعقوب الفسوی (متوفی 277ھ):
إن مالك بن أنس لم يضع في الموطأ إسنادًا إلا وهو ثقة.
(المعرفة والتاريخ 1/471)
📌 ترجمہ:
امام مالک نے موطا میں کوئی ایسی سند نہیں رکھی جس کے راوی ثقہ نہ ہوں۔
③ امام مسلم بن حجاج (متوفی 261ھ):
قَالَ مَالِكٌ: هَلْ رَأَيْتَهُ فِي كُتُبِي؟ قُلْتُ: لَا. قَالَ: لَوْ كَانَ ثِقَةً لَرَأَيْتَهُ فِي كُتُبِي.
(صحيح مسلم 1/15)
📌 ترجمہ:
امام مالک نے فرمایا: کیا تم نے اس (راوی) کا نام میری کتاب میں دیکھا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: اگر وہ ثقہ ہوتا تو تم میری کتاب میں دیکھتے۔
④ ابن حبان (متوفی 354ھ):
وكان مالك رحمه الله أول من انتقى الرجال بالمدينة وأعرض عمن ليس بثقة، ولم يكن يروي إلا ما صح.
(الثقات 7/570)
📌 ترجمہ:
امام مالک مدینہ میں پہلے فقیہ ہیں جنہوں نے رجال میں انتخاب کیا اور غیر ثقہ سے روایت لینا چھوڑ دیا، وہ صرف صحیح احادیث روایت کرتے تھے۔
⑤ عینی حنفی (متوفی 855ھ):
عادة مالك أن لا يروي حديثًا في موطئه إلا وهو يعمل به.
(البناية شرح الهداية 2/300)
📌 ترجمہ:
امام مالک کی عادت تھی کہ وہ موطا میں وہی حدیث روایت کرتے تھے جس پر خود عمل کرتے تھے۔
🔎 نتیجہ:
-
اگر ابن القاسم کی مدونہ والی روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امام مالک نے اپنی ہی کتاب موطأ میں ضعیف احادیث درج کر دی ہیں — حالانکہ خود امام مالک کی تصریحات اس کے برخلاف ہیں۔
-
اس لئے اصولِ حدیث کے مطابق ابن القاسم کی روایت شاذ اور مردود ہے، کیونکہ ثقہ و اجل شاگردوں کی صحیح روایات اور خود امام مالک کا عمل اس کے خلاف ہے۔
ابن القاسم اور ابن وہب کا تقابلی مقام
ابن القاسم اور ابن وہب دونوں امام مالک کے شاگرد ہیں، لیکن محدثین نے دونوں کے مرتبے میں واضح فرق بیان کیا ہے۔
① حافظ ذہبی (متوفی 748ھ):
وقال يحيى بن بكير: ابن وهب أفقه من ابن القاسم.
(ميزان الاعتدال 2/504)
📌 ترجمہ:
یحییٰ بن بکیر نے کہا: ابن وہب، ابن القاسم سے زیادہ فقیہ اور ثقہ تھے۔
② ابن فرحون (متوفی 799ھ):
وقال محمد بن عبد الحكم: هو أثبت الناس في مالك، وهو أفقه من ابن القاسم، إلا أنه كان يمنعه الورع من الفتيا.
(الديباج المذهب ص 293)
📌 ترجمہ:
محمد بن عبداللہ الحکم نے کہا: ابن وہب امام مالک سے روایت کرنے میں سب سے زیادہ ثابت (ثقہ) تھے، اور ابن القاسم سے زیادہ فقیہ تھے۔ ہاں! فتویٰ دینے میں ان کی ورع مانع ہوتی تھی۔
③ ابو زرعہ الرازی (متوفی 264ھ):
سمعت ابن بكير يقول: ابن وهب أفقه من ابن القاسم.
(الجرح والتعديل 5/71)
📌 ترجمہ:
ابن بکیر کہتے ہیں: ابن وہب، ابن القاسم سے زیادہ فقیہ تھے۔
📌 خلاصہ و نتیجہ
-
امام مالک سے رفع یدین کے اثبات کی روایات ثقہ اور اجل شاگردوں (ابن وہب، اشہب، ابن ابی اویس) سے صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں۔
-
ابن القاسم کی منفرد روایت ان سب کے خلاف ہے، لہذا یہ شاذ اور مردود ہے۔
-
خود اصولِ محدثین کے مطابق، اگر ایک راوی ثقہ اور اوثق ہو (ابن وہب) تو اس کے مقابل دوسرے راوی (ابن القاسم) کی منفرد روایت ناقابلِ حجت ہوتی ہے۔
-
نتیجتاً امام مالک کا آخری عمل اور فتویٰ یہی تھا کہ وہ نماز میں رکوع جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔
اہم حوالاجات کے سکین