وَعَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَفِي رِوَايَةٍ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، اجْعَلْنِي إِمَامَ قَوْمِي قَالَ: أَنْتَ إِمَامُهُمْ، وَاقْتَدِ بِأَضْعُفِهِمْ، وَاتَّخِذُ مُؤَدِّنَا لَا يَأْخُذُ عَلَى الْآذَانِ أَجْرًا
مطرف بن عبداللہ نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک روایت میں ہے کہ عثمان بن ابی العاص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میری قوم کا امام بنا دیں آپ نے فرمایا : ”آپ ان کے امام ہیں اور ان کے کمزوروں کے مطابق نماز پڑھائیں ، آپ ایک ایسا موذن بھی مقرر کر لیں جو اذان پر اجرت نہ لے ۔“ [ابوداؤد ۔]
تحقیق و تخریج : یہ حدیث صحیح ہے ۔
مسند امام احمد بن حنبل : 4/ 217،21 ، ابوداؤد : 531 ، نسائی : 23/2 ، بیهقی : 429/1 ، مستدرك حاكم : 1/ 201،199 ، حاکم نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے ۔
فوائد :
➊ منصب امامت کی خواہش کرنا جرم نہیں ہے لیکن مقصود اصلاح کرنا ہو یا دوسروں کی نسبت واقعی خود کو زیادہ مستحق سمجھتا ہو ۔ علاوہ ازیں کسی منصب کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔
➋ امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ضعیفوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز پڑھائے ۔
➌ ہر قوم ، ہر قبیلہ یا ہر مسجد میں الگ الگ امام مقرر کرنا درست ہے ۔
➍ مؤذن ایسا تلاش کرنا چاہیے جو معاوضہ لینے کے بغیر اذان کہہ سکتا ہو ۔
➎ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ امام مؤذن کا چناؤ یا انتخاب کر سکتا ہے اسی طرح جو بھی صاحب عقل صاحب رائے مسجد کے امور کو سر انجام دیتا ہے ۔ ایک منتظم اعلیٰ امام مسجد کو مؤذن مقرر کرنے کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے ۔
مطرف بن عبداللہ نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک روایت میں ہے کہ عثمان بن ابی العاص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میری قوم کا امام بنا دیں آپ نے فرمایا : ”آپ ان کے امام ہیں اور ان کے کمزوروں کے مطابق نماز پڑھائیں ، آپ ایک ایسا موذن بھی مقرر کر لیں جو اذان پر اجرت نہ لے ۔“ [ابوداؤد ۔]
تحقیق و تخریج : یہ حدیث صحیح ہے ۔
مسند امام احمد بن حنبل : 4/ 217،21 ، ابوداؤد : 531 ، نسائی : 23/2 ، بیهقی : 429/1 ، مستدرك حاكم : 1/ 201،199 ، حاکم نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے ۔
فوائد :
➊ منصب امامت کی خواہش کرنا جرم نہیں ہے لیکن مقصود اصلاح کرنا ہو یا دوسروں کی نسبت واقعی خود کو زیادہ مستحق سمجھتا ہو ۔ علاوہ ازیں کسی منصب کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔
➋ امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ضعیفوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز پڑھائے ۔
➌ ہر قوم ، ہر قبیلہ یا ہر مسجد میں الگ الگ امام مقرر کرنا درست ہے ۔
➍ مؤذن ایسا تلاش کرنا چاہیے جو معاوضہ لینے کے بغیر اذان کہہ سکتا ہو ۔
➎ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ امام مؤذن کا چناؤ یا انتخاب کر سکتا ہے اسی طرح جو بھی صاحب عقل صاحب رائے مسجد کے امور کو سر انجام دیتا ہے ۔ ایک منتظم اعلیٰ امام مسجد کو مؤذن مقرر کرنے کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]