داخلی تنقید اور خارجی تنقید
امام غزالی نے معتزلین اور ملحدین کے مفروضات کے رد کے لیے “داخلی تنقید”(internal criticism)کا طریقہ اپنایا۔ اس طریقے کے تحت کسی نظریے کو خود اس کے اپنے اصولوں اور پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس،"خارجی تنقید” (external criticism)کسی نظریے کو کسی دوسرے نظریاتی فریم ورک کے اصولوں پر جانچنے کا نام ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم مغربی نظریات کو قرآن و سنت کے معیار پر پرکھیں تو یہ خارجی تنقید کہلائے گا۔
داخلی تنقید کے پہلو
داخلی تنقید کے ذریعے درج ذیل طریقوں سے کسی نظریے کی خامیاں ظاہر کی جاتی ہیں:
- مفروضات میں تضاد کا انکشاف: یہ دکھانا کہ نظریے کے اپنے اصولوں میں ہی تضاد موجود ہے۔
- نتائج میں عدم مطابقت: یہ ثابت کرنا کہ نظریے کے طے شدہ اصول مطلوبہ نتائج تک نہیں پہنچاتے۔
- لغویت کا اظہار: نظریے کے مفروضات کی بے معنویت کو نمایاں کرنا۔
امام غزالی نے اپنی مشہور کتاب"تہافت الفلاسفہ”میں داخلی تنقید کے اسی منہج کو فلسفیانہ مفروضات کے رد کے لیے کامیابی سے استعمال کیا۔ امام غزالی سے پہلے اعتزال اور فلسفہ کے خلاف اس انداز کو کسی نے اس قدر منظم طور پر نہیں اپنایا تھا۔
الحاد کے رد میں داخلی تنقید کی اہمیت
امام غزالی وضاحت کرتے ہیں کہ الحاد جیسے نظریات کو مذہبی معیارات پر جانچنا درست نہیں ہوتا کیونکہ مذہب اور الحاد کے علمی تناظر (مفروضات، مقاصد، اور طریقہ استدلال) میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔ لہذا، الحاد کا مؤثر رد صرف داخلی تنقید کے ذریعے ممکن ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ الحادی مفروضات کو مذہبی نصوص سے رد کرنے کی کوشش کرنا نہ صرف غیر مؤثر ہے بلکہ مذہب کے کمزور دفاع کا سبب بنتا ہے اور نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔
بحث کے قابل افراد کی اقسام
امام غزالی اپنی کتاب"ایہا الولد”میں وضاحت کرتے ہیں کہ ہر شخص سے بحث کرنا درست نہیں۔ وہ جاہل لوگوں کو بیماروں سے تشبیہ دیتے ہیں اور ان کی چار اقسام بیان کرتے ہیں:
- حاسد سوال کرنے والا:
- یہ وہ شخص ہے جو حسد کی بنیاد پر سوال یا اعتراض کرتا ہے۔
- حسد ایک لاعلاج بیماری ہے، اور جواب دینے سے یہ آگ مزید بھڑکتی ہے۔
- ایسے شخص کو نظر انداز کرنا بہتر ہے۔
- احمق سوال کرنے والا:
- یہ وہ شخص ہے جو علم حاصل کرنے میں محنت نہیں کرتا اور بغیر سمجھ کے بڑے علماء پر اعتراض کرتا ہے۔
- اس کے اعتراضات اس کی نادانی کا ثبوت ہوتے ہیں۔
- ایسے فرد کو جواب دینا وقت کا ضیاع ہے۔
- بے صبرا اور بے عقل:
- یہ وہ شخص ہے جو علماء کی باتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اپنی محدود عقل پر بھروسہ کرتا ہے۔
- اس کے سوالات کے جواب دینا ضروری نہیں۔
- حق کے متلاشی:
- یہ وہ شخص ہے جو راہِ حق کا طالب ہو، حسد اور دنیاوی خواہشات سے پاک ہو، اور سوالات خلوص نیت سے کرے۔
- ایسے شخص کے سوالات کے جواب دینا واجب ہے۔
ایمان اور عقلی دلائل کا تعلق
امام غزالی فرماتے ہیں کہ ایمان محض عقلی دلائل اور علم کلام پر منحصر نہیں ہوتا۔ ایمان ایک نور ہے جو اللہ اپنے بندے کے دل میں القا کرتا ہے، اور یہ مختلف طریقوں سے ممکن ہوتا ہے:
- باطنی تنبیہہ کے ذریعے۔
- خواب کے ذریعے۔
- نیک لوگوں کی صحبت سے۔
اگرچہ عقلی دلائل بعض افراد کے لیے ایمان کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن ایمان کے حصول کو صرف ان دلائل تک محدود سمجھنا درست نہیں۔ امام غزالی اپنی کتاب"التفرقۃ بین الاسلام و الزندقۃ”میں بیان کرتے ہیں کہ:
- علم کلام کا جدلی انداز ایمان کے حق میں ہمیشہ مفید نہیں ہوتا۔
- کلامی دلیل سے حاصل ہونے والا ایمان کمزور ہوتا ہے اور ہر نئے شبہے سے متزلزل ہو سکتا ہے۔
- محکم ایمان عبادت، ذکر الٰہی، اور دنیاوی رغبت سے کنارہ کشی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
عقل، نبوت، اور مابعدالطبعیات
امام غزالی وضاحت کرتے ہیں کہ عقل مابعدالطبعیاتی امور(خدا، آخرت وغیرہ)
کے بارے میں قطعی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ عقل نہ تو ان حقائق کو مکمل طور پر ثابت کر سکتی ہے اور نہ ہی رد کر سکتی ہے۔ ان حقائق کا ادراک صرف"وحی”کے ذریعے ممکن ہے۔
عقل اور نبوت کا تعلق
- عقل نبی کے کردار اور معجزات کی روشنی میں نبی کی صداقت کی گواہی دیتی ہے۔
- نبی کی صداقت ثابت ہونے کے بعد، عقل ان تمام باتوں کو تسلیم کر لیتی ہے جو نبی بیان کرتے ہیں، کیونکہ ان حقائق تک عقل کی رسائی ممکن نہیں۔
امام غزالی اپنی کتاب"المستصفی”میں بیان کرتے ہیں:
"عقل نبی کی صداقت کی رہنمائی کرتی ہے، پھر خود کو علیحدہ کر لیتی ہے اور اعتراف کرتی ہے کہ نبی جو کچھ فرماتے ہیں وہ قابل قبول ہے کیونکہ عقل ان امور کے بارے میں فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔”