امام شعبة بن الحجاج پر تدلیس کا الزام: تعریفِ تدلیس، اصولِ نقد، اور پیش کردہ تین مثالوں کا علمی جواب
امام شعبة بن الحجاج (متوفی 160ھ) اہلِ حدیث کے نزدیک جلالتِ شان کے حامل ہیں اور تدلیس کے باب میں انتہائی سخت موقف کے لیے معروف ہیں۔ بعض افراد نے چند نقول اور علل کی بعض عبارات سے غلط نتیجہ نکال کر امام شعبة پر تدلیس کا الزام لگایا۔ یہ الزام اسی وقت درست مانا جا سکتا ہے جب پیش کردہ مثالیں تدلیس کی تعریف پر پوری اتریں، اور یہ بھی ثابت ہو کہ یہ عمل امام شعبة ہی سے صادر ہوا، نہ کہ راوی/ناسخ/شاگرد کی غلطی سے۔
01- تدلیس کی بنیادی تعریف اور محل
اہلِ مصطلح کے ہاں (خلاصہ کے طور پر) تدلیس الاسناد کا مدار اس پر ہے کہ:
◈ راوی اپنے کسی ایسے شیخ سے (جس سے اس کا لقاء و سماع ثابت ہو) “عن” وغیرہ کے محتمل صیغے سے روایت کرے،
◈ مگر وہ خاص حدیث اس نے اس شیخ سے براہِ راست نہ سنی ہو، بلکہ درمیان میں کوئی واسطہ ہو،
◈ اور وہ واسطہ گرا کر سامع کو اس بات کے وہم میں ڈال دے کہ شاید یہ حدیث اسی شیخ سے براہِ راست سنی گئی ہے۔
لہذا محض یہ کہ “عن” آ گیا، یا سند میں اختلاف آ گیا، یا کسی روایت میں رفع و وقف کا اختلاف ہوا، یہ سب چیزیں بذاتِ خود “تدلیس” نہیں بن جاتیں، جب تک اوپر والا معیار پورا نہ ہو۔
02- امام شعبة کا تدلیس کے بارے میں موقف
امام شعبة سے تدلیس کی سخت مذمت متعدد طرق سے منقول ہے، مثلاً:
قال شعبة بن الحجاج: التدليس أخو الكذب.
اور یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے تدلیس کو نہایت شدید جرم قرار دیا۔
یہ اقوال اپنے محل میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ امام شعبة کا مزاج تدلیس کے باب میں تشدد اور احتیاط کا تھا۔ اب کسی الزام کو ثابت کرنے کے لیے محض یہ کافی نہیں کہ “کسی سند میں اختلاف آگیا” یا “کسی شاگرد نے ایک راوی ساقط کر دیا”، بلکہ دیکھنا ہوگا کہ قصور کس کا ہے۔
03- اعتراض نمبر 1 کا جواب
اعتراض کا خلاصہ
عبد الله بن أحمد نے “العلل ومعرفة الرجال” میں نقل کیا کہ ایک روایت بعض طریق میں:
غندر عن شعبة عن حماد عن إبراهيم
کے ساتھ آئی، پھر امام احمد نے فرمایا کہ یہ اس طرح نہیں کہ شعبة نے یہ حماد سے سنی ہو، بلکہ ان کے پاس موجود نسخے میں “عن عبد الخالق أو الهيثم” وغیرہ کا ذکر تھا، اور “عن حماد” والی صورت درست نہیں۔
اس سے معترض نے یہ نتیجہ نکالا کہ امام شعبة نے اپنے اور حماد کے درمیان واسطہ گرا دیا، لہذا یہ تدلیس ہے۔
علمی جواب
یہ نتیجہ کئی وجوہ سے درست نہیں:
1. یہاں امام احمد کا کلام تدلیس کی تصریح نہیں، بلکہ اختلافِ نسخہ/اختلافِ طریق کی نشاندہی ہے۔
امام احمد یہ بتا رہے ہیں کہ “عن حماد” والی صورت ان کے نزدیک محفوظ نہیں، اور صحیح روایت میں شعبة اور حماد کے درمیان دوسرا نام موجود ہے۔
2. اگر کسی سند میں “عن حماد” کا آ جانا غلط ہے، تو اس غلطی کا محل اکثر اوقات غندر کے طریق کی روایت یا نقلِ نسخہ ہوتا ہے، نہ یہ کہ لازماً امام شعبة نے جان بوجھ کر کچھ گرایا۔
تدلیس تب ہوتی جب یہ ثابت ہو کہ امام شعبة نے خود “عن حماد” کہہ کر واسطہ قصداً ساقط کیا، جبکہ حقیقت میں انہوں نے یہ بات کسی اور کے ذریعے حماد سے لی تھی۔ یہاں یہ ثابت نہیں، بلکہ کلام سے الٹا یہی نکلتا ہے کہ “عن حماد” والی روایت میں سقط/وہم ہوا اور امام احمد اسے درست کر رہے ہیں۔
3. اگر صحیح صورت میں واقعی “عبد الخالق” یا “الهيثم” وغیرہ واسطہ ہے، تو پھر امام شعبة کی طرف تدلیس منسوب کرنا تب بنتا جب امام شعبة نے اسی واسطے کو چھپا کر حماد سے “عن” کے ساتھ روایت کی ہو۔ یہاں محلِ نزاع یہ نہیں، بلکہ محلِ نزاع یہ ہے کہ “عن حماد” والی صورت سرے سے محفوظ نہیں۔
نتیجہ: یہ مثال امام شعبة کی تدلیس نہیں، بلکہ روایت کے محفوظ/غیر محفوظ ہونے اور نقل کے اختلاف کا مسئلہ ہے۔
04- اعتراض نمبر 2 کا جواب
اعتراض کا خلاصہ
حافظ ابن حجر نے نقل کیا کہ “السدي” کے طریق سے ایک اثر میں اسرائیل اسے مرفوع بیان کرتا تھا، اور امام شعبة نے اسے عمداً موقوف بیان کیا۔ معترض نے اسے “تدلیس” قرار دے دیا۔
علمی جواب
یہ بات اصولاً “تدلیس” کی تعریف میں داخل ہی نہیں:
1. رفع و وقف کا اختلاف “تدلیس الاسناد” نہیں ہوتا۔
تدلیس کا محل واسطہ چھپانا ہے۔ یہاں بحث یہ ہے کہ روایت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مرفوع کیا جائے یا صحابی پر موقوف رکھا جائے۔ یہ باب “علل” اور “ترجیح” سے متعلق ہے، نہ کہ تدلیس سے۔
2. امام شعبة کا “عمداً أدعه” کہنا تدلیس نہیں بلکہ احتیاط اور ترجیح ہے۔
اہلِ نقد کے ہاں یہ معروف ہے کہ اگر کسی خبر کے مرفوع ہونے میں احتمال ہو اور کسی ثقہ کے یہاں وہ موقوف محفوظ ہو، تو بعض ائمہ “وقف” کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ “سند چھپانا” نہیں، بلکہ “نسبت میں احتیاط” ہے۔
3. اگر معترض کا دعوی یہ ہے کہ “شعبة نے مرفوع کو موقوف بنا کر دھوکہ دیا”، تو یہ تدلیس نہیں بلکہ رفع/وقف کے باب میں دعویِ خطا ہے، اور اس کا فیصلہ “محفوظ/شاذ” کے اصول پر ہوگا، نہ “تدلیس” کے اصول پر۔
نتیجہ: اس مثال سے امام شعبة پر تدلیس ثابت نہیں ہوتی۔
05- اعتراض نمبر 3 کا جواب
اعتراض کا خلاصہ
دارقطنی کی “العلل” میں ایک سند میں اختلاف ہے:
◈ ایک طریق میں آیا: روح بن عبادة عن شعبة عن أبي الفيض عن معاوية
◈ اور کئی طرق میں آیا: شعبة قال: حدثني رجل من بني عذرة عن أبي الفيض عن معاوية
امام دارقطنی نے روح بن عبادة کو “وهم” کا حکم دیا اور “رجل من بني عذرة” والی صورت کو راجح بتایا۔ معترض نے کہا کہ یہ دراصل امام شعبة کی تدلیس ہے کیونکہ بعض طرق میں وہ “رجل” ساقط ہو گیا۔
علمی جواب
یہ اعتراض بھی اصولی طور پر غلط ہے:
1. امام دارقطنی نے علت واضح کر دی کہ غلطی “روح” کی ہے، اور صحیح یہ ہے کہ شعبة کے اور أبي الفيض کے درمیان “رجل من بني عذرة” موجود ہے۔
یعنی خود امام دارقطنی کے فیصلے کے مطابق امام شعبة نے اس مقام پر واسطہ چھپایا نہیں بلکہ صحیح روایت میں واسطہ بتایا ہے: حدثني رجل من بني عذرة
2. اگر کسی شاگرد (یہاں روح) نے اپنے نقل میں ایک راوی ساقط کر دیا تو یہ “وہم/سقط” اسی ناقل کی طرف لوٹتا ہے، نہ کہ امام شعبة کی طرف۔
امام شعبة پر تدلیس تب بنتی جب یہ ثابت ہو کہ امام شعبة نے خود “عن أبي الفيض” کہہ کر “رجل” قصداً گرا دیا، جبکہ حقیقت میں انہوں نے وہ حدیث اسی “رجل” کے ذریعے لی تھی۔ دارقطنی کے بیان سے تو الٹا ثابت ہے کہ محفوظ صورت میں شعبة نے “رجل” کا ذکر کیا۔
3. بعض متاخر طرق میں اگر کسی کمزور یا غیر مضبوط طریق سے “رجل” ساقط آ گیا ہو تو یہ دارقطنی کے راجح فیصلے کے مقابلے میں حجت نہیں بنتا، کیونکہ دارقطنی نے متعدد طرق کے تقابل سے “محفوظ” متعین کیا ہے، اور علل کا یہی منہج ہے۔
نتیجہ: یہ مثال امام شعبة کے “تدلیس” کی نہیں، بلکہ ایک شاگرد/ناقِل کے “وہم” اور “سقط” کی مثال ہے، جس کی تصریح امام دارقطنی نے خود کر دی۔
06- خلاصہ نتیجہ
◈امام شعبة کے تدلیس کے خلاف سخت اقوال مشہور ہیں، اور ان کا منہج عمومی طور پر “تحری” اور “احتیاط” ہے۔
◈ پیش کردہ مثال نمبر 1 دراصل اختلافِ نسخہ/طریق اور “محفوظ” کی تعیین سے متعلق ہے، تدلیس سے نہیں۔
◈ مثال نمبر 2 “رفع و وقف” اور ترجیح/احتیاط کا مسئلہ ہے، تدلیس کی تعریف میں داخل نہیں۔
◈ مثال نمبر 3 میں امام دارقطنی نے واضح کر دیا کہ غلطی “روح بن عبادة” کی ہے، اور محفوظ صورت میں امام شعبة نے واسطہ بیان کیا ہے، لہذا تدلیس کا الزام باطل ہے۔
اہم حوالوں کے سکین














