امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

یہ تحقیق ”طلاق البتّہ“ کی ان روایات کا جائزہ ہے جو امام شافعی کی سند سے منقول ہیں (اور ایک موازی سند زبیر بن سعید نوفلی کی)، جن میں رُکانہؓ کے واقعے سے یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ ”البتّہ“ کہہ کر دی گئی طلاق میں شوہر کی نیت (ایک) کو بنیاد بنا کر رجوع/ردّ ممکن قرار دیا گیا۔ ہم دکھائیں گے کہ:

  • یہ روایات سندی طور پر ضعیف/منقطع/مضطرب ہیں اور ان کے رجال میں مجہولین و مجروحین ہیں؛

  • متعدد ائمۂ حدیث (بخاری، احمد، بیہقی، ابن العربی، ابن حزم، المنذری، ابن القیم، الطحاوی، الزیلعی، الاشبیلی، شوکانی، وغیرہم) نے ان کی تضعیف یا وضع کی جانب تصریحات دی ہیں؛

  • لہٰذا فقہی استدلال میں انہیں راجح صحیح روایات (مثلاً ابنِ عباسؓ والی صحیح طرق) پر ترجیح دینا درست نہیں۔

ہر مقام پر پہلے عربی متن، پھر اردو ترجمہ، اور ماخذ/حوالہ پیش کیا جائے گا؛ اس کے بعد مختصر مگر واضح سندی نقد۔

طلاق البتّہ کیا ہے؟

”بتّہ“ عربی لفظ ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کاٹ دینا، ختم کر دینا۔

  • عرب معاشرے میں اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق دیتے وقت کہتا: ”أنتِ طالق البتّة“ یعنی "تو طلاق ہے، بالکل ختم”، تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ وہ طلاق کو قطعی اور آخری بنانا چاہتا ہے۔

  • اب اختلاف یہ ہے کہ:

    • کیا ”طلاق البتّہ“ بولنے سے تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں؟

    • یا پھر یہ بھی ایک ہی طلاق شمار ہوگی اور شوہر کے ارادے (نیت) کو دیکھا جائے گا؟

اسی بارے میں حضرت رکانہؓ کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے بیوی کو طلاق البتّہ دی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی نیت پوچھی؛ جب انہوں نے کہا کہ میرا ارادہ صرف ایک طلاق کا تھا تو نبی ﷺ نے بیوی کو واپس کر دیا۔

فریقِ مخالف کے پیش کردہ دلائل

روایت 1: سندِ شافعی کے ساتھ “طلاق البتّہ” (رُکانہؓ)

عربی متن:
2206 – حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ، فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ البَتَّةَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً؟» قَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

اردو ترجمہ:
رُکانہ بن عبد یزیدؓ نے اپنی بیوی سُہیمہ کو ”البتّہ“ کہہ کر طلاق دے دی۔ پھر نبی ﷺ کو خبر دی اور کہا: ”اللہ کی قسم! میری نیت ایک (طلاق) کی تھی۔“ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! کیا تمہاری نیت صرف ایک ہی تھی؟“ رُکانہؓ نے کہا: ”اللہ کی قسم! صرف ایک ہی تھی۔“ تو رسول اللہ ﷺ نے اس (بیوی) کو اُن کے نکاح میں واپس کر دیا۔

حوالہ: سنن أبي داود، کتاب الطلاق، حدیث 2206؛ السنن الكبرى للبيهقي (موضع طلاق البتّہ/رُکانہ).

روایت 2: موازی سلسلہ (الزبیر بن سعید النوفلی کے طریق سے)

عربی متن:
2208 – حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ البَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا أَرَدْتَ؟ قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ: آللَّهِ؟ قَالَ: آللَّهِ، قَالَ: «هُوَ عَلَى مَا أَرَدْتَ».

اردو ترجمہ:
(یزید بن) رُکانہ نے اپنی بیوی کو ”البتّہ“ کہہ کر طلاق دی؛ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہاری نیت کیا تھی؟“ انہوں نے کہا: ”ایک (طلاق)“۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم (کہو)؟“ انہوں نے کہا: ”اللہ کی (قسم)“۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ (حکم) تمہاری نیت کے مطابق ہے۔“

حوالہ: سنن أبي داود، کتاب الطلاق، حدیث 2208.

فریقِ مخالف انہی دو روایات سے استدلال کرتا ہے کہ ”طلاقِ البتّہ“ میں نیتواحدہ“ ہو تو رجوع/رد یا حکمِ واحدہ ثابت کیا جائے؛ اور یہ کہ نبی ﷺ نے بنفسِ نفیس رُکانہؓ کے ساتھ ایسا کیا۔

طلاق البتّہ والی روایت پر جروحات (محدثین کی نقد)

① علامہ عبدالحق الاشبیلی (م 582ھ)

عربی متن:
«في إسناد هذا الحديث عبد الله بن علي بن السائب عن نافع بن عجير عن ركانة، والزبير بن سعيد عن عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة عن أبيه عن جده، وكلهم ضعيف

اردو ترجمہ:
اس حدیث کی سند میں عبد اللہ بن علی بن سائب، نافع بن عجیر عن رکانہ، اور زبیر بن سعید عن عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ عن ابیہ عن جدہ ہیں، اور یہ سب ضعیف ہیں۔

حوالہ: عبدالحق الاشبیلی، الأحكام الوسطى۔

② امام ابن العربی المالکی (م 543ھ)

عربی متن:
«قد ذكر أبو عيسى عن البخاري أنه مضطرب، تارة قيل فيه: ثلاثًا، وتارة قيل فيه: واحدة. وأصحّه أنه طلّقها البتّة. وقال أبو داود: حديث نافع بن عجير حديث صحيح. وكيف يجعله صحيحًا، وفيه ما ترون من الاضطراب؟!»

اردو ترجمہ:
امام ترمذی نے امام بخاری سے نقل کیا کہ یہ حدیث مضطرب ہے؛ کبھی کہا گیا کہ (طلاق) تین تھی، اور کبھی کہا گیا کہ ایک تھی۔ اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ طلاق البتّہ تھی۔ ابو داود نے کہا: نافع بن عجیر کی حدیث صحیح ہے، لیکن وہ اسے کیسے صحیح قرار دیتے ہیں جبکہ اس میں آپ دیکھتے ہیں کہ اضطراب موجود ہے؟!

حوالہ: ابن العربی، عارضة الأحوذي.

③ الالوسی بغدادی حنفی (م 1270ھ)

عربی متن:
«أخرجه الشافعي وأبو داود والترمذي وابن ماجة والحاكم والبيهقي: أن ركانة طلّق امرأته البتة … وهذا لا يصلح دليلاً لتلك الدعوى

اردو ترجمہ:
اس روایت کو شافعی، ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ، حاکم اور بیہقی نے ذکر کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق البتّہ دی … لیکن یہ روایت اس دعویٰ کے لیے دلیل کے طور پر درست نہیں ہے۔

حوالہ: الآلوسي، روح المعاني.

④ امام بخاری (م 256ھ)

عربی متن (امام ترمذی کی علل میں نقل):
«سألتُ محمدًا (يعني البخاري) عن هذا الحديث، فقال: فيه اضطراب

اردو ترجمہ:
میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا: ”اس میں اضطراب ہے۔“

حوالہ: علل الترمذي الكبير (رقم 1177).

⑤ امام احمد بن حنبل (م 241ھ)

عربی متن:
«قلتُ لأبي عبد الله (يعني أحمد) حديث ركانة في البتّة؟ فضعّفه، وقال: ذاك جعله بنيته.»

اردو ترجمہ:
میں نے امام احمد بن حنبل سے رکانہ کی طلاق البتّہ والی حدیث کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے اسے ضعیف قرار دیا، اور کہا: ”یہ تو رکانہ نے اپنی نیت سے بنایا ہے۔“

حوالہ: الخلال، كتاب العلل؛ ابن القيم، إغاثة اللهفان۔

⑥ امام ابوبکر النیسابوری (م 319ھ)

عربی متن:
«وقد دفع هذا الحديث بعضهم، وقال: عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة عن أبيه عن جده لا يعرف سماع بعضهم من بعض … وهذا الحديث لا يبين اتصاله

اردو ترجمہ:
بعض اہلِ علم نے اس حدیث کو رد کیا ہے اور کہا ہے: عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ عن ابیہ عن جدہ — ان میں سے بعض کا بعض سے سماع معلوم نہیں … اور یہ حدیث اپنے اتصال کو ظاہر نہیں کرتی۔

حوالہ: ابن المنذر النیسابوری، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف۔

⑦ حافظ ابن قیم الجوزیہ (م 751ھ)

عربی متن:
«وأما حديث نافع بن عجير الذي رواه أبو داود: أن ركانة طلّق امرأته البتّة … فكيف يقدَّم هذا الحديث المضطرب المجهول روايةً على الأحاديث الصحيحة؟»

اردو ترجمہ:
جہاں تک نافع بن عجیر کی وہ روایت ہے جسے ابو داود نے ذکر کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق البتّہ دی … تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسی مضطرب اور مجہول روایت کو صحیح احادیث پر ترجیح دی جائے؟

حوالہ: ابن القيم، زاد المعاد في هدي خير العباد۔

⑧ امام ابو جعفر الطحاوی (م 321ھ)

عربی متن:
«احتج الشافعي لذلك بحديث عبد الله بن علي بن السائب عن نافع بن عجير … أن ركانة طلّق امرأته سهيمة البتّة … فقال: والله ما أردت إلا واحدة … فردّها إليه رسول الله ﷺ. قال أبو جعفر: وهذا حديث منقطع

اردو ترجمہ:
شافعی نے اس مسئلے میں عبد اللہ بن علی بن سائب عن نافع بن عجیر … والی حدیث سے استدلال کیا کہ رکانہ نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق البتّہ دی … تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھنے کے بعد اسے واپس لوٹا دیا۔ ابو جعفر طحاوی نے کہا: یہ حدیث منقطع ہے۔

حوالہ: الطحاوي، مختصر اختلاف العلماء۔

⑨ علامہ ابن الترکمانی الحنفی (م 750ھ)

عربی متن:
«قلت: هذا الحديث ضعفوه، كذا قال صاحب التمهيد.»

اردو ترجمہ:
میں کہتا ہوں: اس حدیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، جیسا کہ صاحب التمہید (ابن عبد البر) نے بھی کہا ہے۔

حوالہ: ابن التركماني، الجوهر النقي على سنن البيهقي۔

⑩ علامہ زیلعی الحنفی (م 726ھ)

عربی متن:
«في إسناد هذا الحديث عبد الله بن علي بن السائب عن نافع بن عجير عن ركانة، والزبير بن سعيد عن عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة عن أبيه عن جدّه، وكلّهم ضعفاء، والزبير أضعفهم

اردو ترجمہ:
اس حدیث کی سند میں عبد اللہ بن علی بن سائب عن نافع بن عجیر عن رکانہ، اور زبیر بن سعید عن عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ عن ابیہ عن جدہ ہیں، اور یہ سب ضعیف ہیں، ان میں سب سے زیادہ ضعیف زبیر ہے۔

حوالہ: الزيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية۔

⑪ حافظ عبدالعظیم المنذری (م 656ھ)

عربی متن:
«وقال أبو داود: حديث نافع بن عجير حديث صحيح. وفيما قاله نظر، فقد تقدّم عن الإمام أحمد أن طرقه ضعيفة، وضعّفه أيضًا البخاري، وقد وقع الاضطراب في إسناده ومتنه

اردو ترجمہ:
ابو داود نے کہا: نافع بن عجیر کی حدیث صحیح ہے۔ لیکن ان کے اس قول میں نظر ہے، کیونکہ امام احمد سے پہلے یہ بات گزر چکی کہ اس کے تمام طرق ضعیف ہیں، اور بخاری نے بھی اسے ضعیف کہا ہے، اور اس کے اسناد اور متن دونوں میں اضطراب واقع ہوا ہے۔

حوالہ: المنذري، مختصر سنن أبي داود۔

⑫ حافظ ابن حزم الاندلسی (م 456ھ)

عربی متن:
«ثم نظرنا في خبر ركانة فوجدناه من طريق عبد الله بن علي بن يزيد عن نافع عن عجير، وكلاهما مجهول، ولو صح لقلنا به مبادرين إليه.»

اردو ترجمہ:
ہم نے رکانہ کی روایت کا جائزہ لیا تو وہ اس طریق سے ملی: عبد اللہ بن علی بن یزید عن نافع عن عجیر، اور ان دونوں (نافع و عجیر) کا حال یہ ہے کہ یہ مجہول ہیں۔ اور اگر یہ روایت صحیح ثابت ہوتی تو ہم سب سے پہلے اس پر عمل کرتے۔

حوالہ: ابن حزم، المحلّى بالآثار۔

امام شافعی کی سند کے مجہول رواۃ پر کلام

🔴 پہلا مجہول: عمِّ الشافعی – محمد بن علی بن شافع القرشی المطَّلبی

1) اصولی حیثیت (مجہول ہونا):

  • عربی: «الرتبة: مجهول

  • ترجمہ: درجہ: مجہول۔

  • اشارہ: اس راوی کے حالاتِ عدالت و ضبط، ولادت/وفات، اور دیگر تلامذہ ثابت نہیں؛ عملاً صرف امام شافعی ہی اس سے روایت کرتے ہیں۔

2) خود امام شافعی کی توثیق (منفرد قول):

  • عربی: «قلتُ: عمي ثقة

  • ترجمہ: (شافعی فرماتے ہیں) “میرے چچا ثقہ ہیں۔”

  • حوالہ: الأم للشافعي؛ نیز: ابن القیم، زاد المعاد (الربیع بن سلیمان کی روایت: «قيل للشافعي… فقال: عمي ثقة»).

نوٹ: شافعی کی منفرد توثیق کافی نہیں جب عملاً غیرہ (دیگر محدثین) اس سے روایت ہی نہ کرتے ہوں—اصولاً یہ راوی مجہول الحال رہے گا۔

3) امام نووی کی تصریح (انفرادِ تلمذ):

  • عربی: «… عمُّ الإمام الشافعي… روى عنه الشافعي في عشرة النساء…»

  • ترجمہ: امام شافعی کے چچا… ان سے صرف شافعی نے (عشرۃ النساء میں) روایت کی۔

  • حوالہ: تهذيب الأسماء واللغات للنووي.

4) قاعدۂ مجہول الحال (ابن حجر کا اصولی بیان):

  • عربی: «… ولا يلزم من ذلك أن يكون الرجل ثقة إذ حاله غير معروفة…»

  • ترجمہ: اس (فردی روایت) سے لازم نہیں آتا کہ راوی ثقہ ہو؛ جب کہ اس کا حال غیر معروف ہے…

  • حوالہ: لسان الميزان لابن حجر (باب أخنس بن خليفة میں عمومی قاعدہ کے طور پر).

5) ابن حجر کی طبقہ بندی (مستور/مجہول الحال):

  • عربی: «6156 – محمد بن علي بن شافع المطَّلبي، المكي، وثّقه الشافعي، من السابعة… والسابعة: مستور/مجهول الحال

  • ترجمہ: (تقریب میں) محمد بن علی بن شافع مکّی؛ شافعی نے اُنہیں ثقہ کہا؛ مگر یہ طبقۂ سابعہ (مستور/مجہول الحال) میں شمار ہوئے۔

  • حوالہ: تقريب التهذيب لابن حجر.

6) ذہبی کی تصریح (لا یُعرف):

  • عربی: «محمد بن علي القرشي عن نافع: لا يُعرف…»

  • ترجمہ: محمد بن علی القرشی (نافع سے روایت کرنے والے) نامعلوم ہیں۔

  • حوالہ: ميزان الاعتدال؛ المغني في الضعفاء للذهبي.

🔴 دوسرا مجہول: عبدالله بن علي بن السائب المطَّلبی

1) عبدالحق الاشبیلی:

  • عربی: «… وكلّهم ضعيف

  • ترجمہ: (اس سند کے) سب رواۃ ضعیف ہیں۔

  • حوالہ: الأحكام الوسطى.

2) ابن حزم:

  • عربی: «… عبد الله بن علي بن يزيد عن نافع عن عجير – وكلاهما مجهول…»

  • ترجمہ: اس طریق میں عبداللہ بن علی بن یزید عن نافع عن عجیر – دونوں مجہول ہیں۔

  • حوالہ: المحلّى بالآثار.

3) امام بخاری – ذکر بلا تعدیل/جرح:

  • عربی: «عبد الله بن علي بن السائب… روى عنه عمر مولى غَفرة وسعيد بن أبي هلال

  • ترجمہ: بخاری نے صرف نام و روایت کنندگان کا ذکر کیا—توثیق/تجریح نہیں۔

  • حوالہ: التاريخ الكبير للبخاري.

ابن القطان الفاسی: بخاری و ابن ابی حاتم حال بیان نہ کر سکے؛ لہٰذا ان کے نزدیک مجہول رہا۔ (بیان الوهم والإيهام)

4) ابن أبي حاتم – سکوت (لا يدرى حاله):

  • عربی: «… ذُكِرَ بلا جرحٍ ولا تعديل

  • ترجمہ: بغیر جرح و تعدیل ذکر—یعنی مستور الحال۔

  • حوالہ: الجرح والتعديل؛ تقویّت کے طور پر ابن کثیر: “فهو مستور الحال” (تفسير ابن كثير).

5) ابن عبدالبر:

  • عربی: «… وهذا لا أدري ما هو

  • ترجمہ: (یہ راوی) معلوم نہیں کہ کون ہے۔

  • حوالہ: الاستيعاب.

6) ابن حجر:

  • عربی: «مستور

  • ترجمہ: مستور الحال۔

  • حوالہ: تقريب التهذيب.

فقہی تنبیہ (احناف کے نزدیک): مستور کی خبر حجّت نہیں جب تک عدالت ظاہر نہ ہو—”والمستور كالفاسق…“ (حسامی، ص 73)

7) الزیلعی (تأیید عبدالحق):

  • عربی: «… وكلّهم ضعفاء

  • ترجمہ: اس سند کے تمام رواۃ ضعیف ہیں۔

  • حوالہ: نصب الراية.

8) ذہبی (الكاشف میں “لم يُضعّف” کا اسلوب):

  • عربی: «… لم يُضعّف

  • تنبیہ (بیانیہ): ذہبی کا “لم یضعّف” توثیق نہیں؛ یہ محض عدمُ الوقوف علی الجرح کی خبر ہے، جب کہ دیگر نقول سے جہالت/ستر ثابت ہے۔

🔴 تیسرا مجہول: نافع بن عجير

1) عبدالحق الاشبیلی:

  • عربی: «… وكلّهم ضعيف

  • ترجمہ: (اس سند کے) سب ضعیف۔

  • حوالہ: الأحكام الوسطى.

2) ابن حزم:

  • عربی: «نافع بن عجير وأبوه عجير مجهولان، ولا حجّة في مجهول.»

  • ترجمہ: نافع بن عجیر اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں، اور مجہول کی روایت حجّت نہیں۔

  • حوالہ: المحلّى بالآثار.

3) امام بخاری – ذکر بلا تعدیل/جرح:

  • عربی: «نافع بن عجير… روى عنه ابنه محمد.»

  • ترجمہ: بخاری نے صرف تذکرہ کیا—توثیق/جرح نہیں۔

  • حوالہ: التاريخ الكبير للبخاري.

ابن القطان: بخاری و ابن ابی حاتم کے نزدیک حال مجہول (بیان الوهم والإيهام).

4) ابن أبي حاتم – سکوت:

  • عربی: «نافع بن عجير روى عن علي… روى عنه ابنه محمد.»

  • ترجمہ: فقط ذکر—جرح/تعدیل نہیںمجہول الحال۔

  • حوالہ: الجرح والتعديل؛ ابن کثیر: “مستور الحال” (تفسير ابن كثير).

5) ابن القيم:

  • عربی: «… نافع بن عجير المجهول الذي لا يُعرف حاله البتّة…»

  • ترجمہ: نافع بن عجیر مجہول ہے؛ اس کا حال بالکل معلوم نہیں۔

  • حوالہ: زاد المعاد.

6) ذہبی (الكاشف میں “وثّق” کا صیغہ):

  • بیان: الذہبی کا مجرد ”وُثّق“ اکثر ابنِ حبان کی منفرد توثیق کی طرف اشارہ ہوتا ہے جس پر ائمہ نے کثیرًا عدمِ اعتماد کیا؛ لہٰذا مجموعی شہادت جہالت پر ہے۔

  • حوالۂ توضیحی: الألبانی، سلسلة الأحاديث الضعيفة (قاعدہ).

7) ابن الملقّن (تأیید عبدالحق + اضطراب):

  • عربی: «… وكلهم ضعيف، الزبير أضعفهم… واضطرب إسناده كما ترى.»

  • ترجمہ: تمام راوی ضعیف ہیں، زبیر ان میں سب سے زیادہ ضعیف… اور سند مضطرب ہے جیسا کہ واضح ہے۔

  • حوالہ: البدر المنير.

8) الزیلعی (تأیید):

  • عربی: «… وكلّهم ضعفاء

  • ترجمہ: سب ضعیف۔

  • حوالہ: نصب الراية.

9) الطحاوی — حکْم: منقطع:

  • عربی: «وهذا حديث منقطع

  • ترجمہ: یہ حدیث منقطع ہے۔

  • حوالہ: مختصر اختلاف العلماء.

10) نواب صدیق حسن خان:

  • عربی: «نافع بن عجير، وهو مجهول. ومتنه مضطرب؛ كما قال البخاري…»

  • ترجمہ: نافع بن عجیر مجہول ہے؛ اور متن مضطرب ہے جیسا کہ بخاری نے کہا۔

  • حوالہ: الروضة النديّة (مع التعليقات الرضية).

پورے مضمون کا خلاصہ

  • سندی اعتبار سے:

    • سند میں تین بڑے مجہول رواۃ موجود ہیں:

      • محمد بن علي بن شافع (عم الشافعی) — مجہول الحال۔

      • عبد الله بن علي بن السائب — مستور/مجہول۔

      • نافع بن عجير — مجہول۔

    • دیگر طرق (زبیر بن سعید وغیرہ) بھی شدید ضعیف ہیں اور ان میں اضطراب و انقطاع پایا جاتا ہے۔

  • متنی اعتبار سے:

    • حدیث میں سخت اضطراب ہے: کبھی ”ثلاث“، کبھی ”واحدة“، کبھی ”البتّہ“۔

    • جمہور محدثین نے اسے ضعیف، منقطع، مضطرب قرار دیا ہے۔

    • بعض نے اسے موضوع تک کہا ہے (ابن حزم، شوکانی، سیوطی وغیرہ کی تصریحات موجود ہیں)۔

  • ائمہ کی آراء:

    • امام احمد، امام بخاری، امام دارقطنی، امام بیہقی: سب نے اسے ضعیف/مضطرب کہا۔

    • عبدالحق الاشبیلی، ابن العربی، ابن القیم، الطحاوی، الزیلعی، ابن الترکمانی، المنذری، ابن حزم، نواب صدیق حسن خان: سب نے روایت کے ضعف اور راویوں کی جہالت/جرح پر تفصیلی کلام کیا۔

🔴 حتمی نتیجہ

  • رکانہ کی ”طلاق البتّہ“ والی روایت: سخت ضعیف، مضطرب، اور مجہولین سے مروی ہے۔

  • اس روایت سے یہ اصول اخذ کرنا کہ ”تین طلاقیں نیت کے مطابق ایک شمار ہوں گی“، صحیح نہیں۔

  • اس کو کسی طرح بھی مسند احمد کی صحیح سند والی روایت (ابن عباسؓ کے طریق سے، جس میں رکانہ نے بیوی کو تین طلاق دی اور آپ ﷺ نے اس پر افتراق کا حکم دیا) پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔

فقہی اعتبار سے ”طلاق البتّہ“ کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کا اعتماد صحیح اور صریح احادیث پر ہے، نہ کہ اس طرح کی مجروح و مضطرب روایات پر۔ لہٰذا امام شافعی کی سند سے منقول یہ روایت قابلِ حجت نہیں۔

اہم حوالوں کے سکین

امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 001 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 002 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 003 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 004 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 005 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 006 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 007 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 008 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 009 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 010 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 011 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 012 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 013 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 014 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 015 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 016 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 017 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 018 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 019 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 020 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 021 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 022 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 023 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 024 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 025 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 026 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 027 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 028 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 029 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 030 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 031 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 032 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 033 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 034 امام شافعی کی سند سے مروی طلاق البتّہ والی روایت: ائمہ حدیث کی نظر میں – 035

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے