امام سلام بن أبی مطیعؒ پر اعمش کی روایات والا مجموعہ جلانے کا الزام
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

ایک رافضی نے یہ اعتراض اٹھایا کہ اہلِ سنت کے امام سلام بن أبی مطیعؒ نے ایک حدیثی مجموعہ جلادیا جس میں الأعمش کی روایات تھیں۔ اس اعتراض سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اہل سنت "اپنے خلاف صحیح احادیث” کو ضائع کر دیتے تھے۔
اس مضمون میں ہم ثابت کریں گے کہ:

  1. سلام بن أبی مطیعؒ ثقہ و صالح امام تھے جن کے فعل کی امام احمد بن حنبلؒ نے تصدیق کی۔

  2. جس کتاب کو جلایا گیا اس میں "صحابہ کے معایب” اور "بلایا” درج تھے، یعنی بدعتی و موضوع روایات۔

  3. اس میں موجود خاص روایت «أنا قسيم النار» کو محدثین نے موضوع قرار دیا ہے، اور خود الأعمش نے اس روایت کو جھوٹا کہہ کر رد کیا ہے۔

  4. اہل سنت کا منہج یہ رہا کہ وہ ہر طرح کی روایت لکھتے، پھر تنقیح کرتے اور موضوعات کو ضائع کر دیتے؛ یہ دین کی حفاظت تھی نہ کہ خیانت۔

اصل روایت (ابوبکر الخلال کی اسانید)

روایت 1

قال الخلّال:
أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ حَمْدُونَ، قَالَ: ثَنَا حَنْبَلٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: كَانَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ أَخَذَ كِتَابَ أَبِي عَوَانَةَ الَّذِي فِيهِ ذِكْرُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَأَحْرَقَ أَحَادِيثَ الْأَعْمَشِ تِلْكَ.

ترجمہ:
حنبل کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل کو فرماتے سنا: "سلام بن ابی مطیع نے ابو عوانہ کی وہ کتاب لی جس میں نبی ﷺ کے صحابہ کا ذکر تھا، تو اس میں موجود الأعمش کی احادیث کو جلا دیا۔”
حوالہ: السنۃ للخلّال (1/401، رقم 818)

روایت 2

قال الخلّال:
وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثَنَا مُهَنَّى، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ، قُلْتُ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَ: جَاءَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ إِلَى أَبِي عَوَانَةَ، فَقَالَ: هَاتِ هَذِهِ الْبِدَعَ الَّتِي قَدْ جِئْتَنَا بِهَا مِنَ الْكُوفَةِ، قَالَ: فَأَخْرَجَ إِلَيْهِ أَبُو عَوَانَةَ كُتُبَهُ، فَأَلْقَاهَا فِي التَّنُّورِ.

خالد بن خداش کہتے ہیں: میں نے پوچھا ان کتابوں میں کیا تھا؟
قَالَ: حَدِيثُ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «اسْتَقِيمُوا لِقُرَيْشٍ» وأشباهه.
میں نے پوچھا: اور کیا تھا؟
قَالَ: حَدِيثُ عَلِيٍّ: «أَنَا قَسِيمُ النَّارِ».
میں نے پوچھا: کیا یہ ابو عوانہ نے خود الأعمش سے بیان کیا تھا؟
قَالَ: نَعَمْ.
ترجمہ:
مہنی کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے پوچھا۔ احمد نے فرمایا: خالد بن خداش نے کہا کہ سلام بن ابی مطیع ابو عوانہ کے پاس گیا اور کہا: "وہ بدعتی باتیں جو کوفہ سے لائے ہو، مجھے دو۔” ابو عوانہ اپنی کتابیں لایا تو سلام نے انہیں تنور میں جلا دیا۔
خالد سے پوچھا گیا: ان میں کیا تھا؟
کہا: الأعمش سے حدیث سالم بن ابی الجعد عن ثوبان کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "قریش کی پیروی کرو” اور اس جیسی روایات۔
پھر کہا: اور علی رضی اللہ عنہ کی روایت: "میں جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والا ہوں”۔
میں نے پوچھا: کیا یہ ابو عوانہ نے الأعمش سے سنائی تھی؟ کہا: ہاں۔
حوالہ: السنۃ للخلّال (1/401–402، رقم 819–820)

روایت 3

قال الخلّال:
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَلامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ مِنَ الثِّقَاتِ مِنْ أَصْحَابِ أَيُّوبَ، وَكَانَ رَجُلا صَالِحًا… ثُمَّ قَالَ: كَانَ أَبُو عَوَانَةَ وَضَعَ كِتَابًا فِيهِ مَعَايِبُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَفِيهِ بَلايَا، فَجَاءَ إِلَيْهِ سَلامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَوَانَةَ أَعْطِنِي ذَلِكَ الْكِتَابَ، فَأَعْطَاهُ، فَأَخَذَهُ سَلامٌ فَأَحْرَقَهُ.

ترجمہ:
عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (امام احمد) کو کہتے سنا: "سلام بن ابی مطیع ثقہ تھے، ایوب سختیانی کے اصحاب میں سے تھے، نیک آدمی تھے۔ … پھر فرمایا: ابو عوانہ نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں نبی ﷺ کے صحابہ کے عیوب اور بلایا درج تھے۔ سلام بن ابی مطیع ان کے پاس آئے، کتاب لی اور اسے جلا دیا۔”
حوالہ: السنۃ للخلّال (1/402، رقم 821)

روایت 4

قال الخلّال:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: اسْتَعَرْتُ مِنْ صَاحِبِ حَدِيثٍ كِتَابًا، فِيهِ الْأَحَادِيثُ الرَّدِيئَةُ، تَرَى أَنْ أُحَرِّقَهُ أَوْ أُخَرِّقُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ. لَقَدِ اسْتَعَارَ سَلامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ مِنْ أَبِي عَوَانَةَ كِتَابًا، فِيهِ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ، فَأَحْرَقَ سَلامٌ الْكِتَابَ. قُلْتُ: فَأُحَرِّقُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ.

ترجمہ:
ابو بکر مروزی کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے کہا کہ میں نے ایک محدث سے ایسی کتاب مستعار لی ہے جس میں ردی احادیث ہیں، کیا میں اسے جلا دوں یا پھاڑ دوں؟ امام احمد نے فرمایا: ہاں۔ پھر فرمایا: سلام بن ابی مطیع نے بھی ابو عوانہ سے ایسی کتاب لی تھی اور اسے جلا دیا تھا۔ میں نے پوچھا: کیا جلا دوں؟ کہا: ہاں۔
حوالہ: السنۃ للخلّال (1/402، رقم 822)

📌 یہاں تک یہ واضح ہو گیا کہ:

  • کتاب میں صحابہ کے معایب اور موضوع روایات تھیں۔

  • امام احمد نے سلام بن ابی مطیع کے فعل کو درست قرار دیا۔

  • اس میں خاص طور پر روایت «أنا قسيم النار» موجود تھی، جس پر تفصیلی کلام زیل میں پیش خدمت ہے۔

1. موضوع روایت «أنا قسيم النار»

اصل روایت

«حديث علي: أنا قسيم النار يوم القيامة، أقول: خذي ذا وذري ذا»

اسناد:
الأعمش → موسى بن طريف → عباية بن ربعي → علي بن أبي طالب رضي الله عنه

حکم

  • امام عقیلی: اس کو الضعفاء الكبير (ص 406) میں ذکر کیا۔

  • ابن عدی: الكامل في الضعفاء (2/383) میں ذکر کیا۔

  • ابن عساكر: تاريخ دمشق (12/136) میں۔

  • علامہ البانی:
    «موضوع» (السلسلة الضعيفة، رقم 4924)

ترجمہ:
یہ روایت گھڑی ہوئی (موضوع) ہے۔

2. علت: موسى بن طريف

اقوالِ ائمہ

  • امام ابو بکر بن عیاش: کذاب (الذهبي، ميزان الاعتدال 4/214)

  • یحییٰ بن معین: ضعيف (ابن عدي، الكامل 8/1818)

  • امام دارقطنی: متروك (الضعفاء والمتروكون، ص 519)

  • جوزجانی: زائغ (أحوال الرجال، ص 152)

  • امام عقیلی: غالي ملحد (الضعفاء الكبير 4/1457)

خلاصہ:
موسى بن طريف غالی شیعہ، جھوٹا اور متروک ہے۔ اس کی روایت سے موضوع روایت گھڑی گئی۔

3. الأعمش کا خود انکار

عبد اللہ بن داود الخُرَيبي کہتے ہیں:
«كنّا عند الأعمش فجاء مغضباً فقال: ألا تعجبون من موسى بن طريف يحدث عن عباية عن علي: أنا قسيم النار؟!»
(العقيلي، الضعفاء الكبير 4/1457، إسناده صحيح)

ترجمہ:
"ہم الأعمش کے پاس تھے، وہ غصے میں آئے اور کہا: کیا تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ موسى بن طريف علی سے یہ روایت بیان کرتا ہے کہ ‘میں جہنم کو تقسیم کرنے والا ہوں’؟”

ابن عدی کی روایت

سفیان ثوری نے الأعمش سے پوچھا: یہ روایت تم نے کیوں بیان کی؟
قال: إنما رويته على الاستهزاء.
(الكامل لابن عدي 8/1818)

ترجمہ:
الأعمش نے کہا: "میں نے اسے محض استہزاء کے طور پر بیان کیا۔”

4. ابن الجوزی کا فیصلہ

ابن الجوزی:
«هذا حديث موضوع… المتهم به موسى بن طريف»
(الموضوعات 1/397)

ترجمہ:
یہ روایت موضوع ہے اور اس کا گھڑنے والا موسى بن طريف ہے۔

5. محدثین کا اصول — کتب بدعت جلانا

اقوالِ ائمہ

  1. امام ابو حاتم الرازی:
    «إذا كتبت فقمّش، وإذا حدّثت ففتّش»
    (يعنی: لکھتے وقت سب جمع کرو، لیکن روایت سے پہلے چھانٹی کرو)

  2. یحییٰ بن معین:
    «كتبنا عن الكذابين، وسجرنا به التنور»
    (تاريخ بغداد 13/293)
    ترجمہ: "ہم نے کذابوں سے (مواد) لکھا، پھر تنور میں جلا دیا۔”

امام احمد کی تصدیق

ابو بکر المروذی کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے پوچھا: اگر کتاب میں ردی احادیث ہوں تو کیا اسے جلا دوں؟
فرمایا: نعم، كما فعل سلام بن أبي مطيع. ہاں، جیسا کہ سلام بن ابھی مطیع نے کیا۔
(السنّة للخلال 1/402)

6. نتیجہ

  1. سلام بن أبی مطیعؒ نے کوئی "صحیح احادیث” نہیں جلائیں بلکہ ابو عوانہ کی وہ کتاب جس میں معایبِ صحابہ اور موضوع روایات تھیں تلف کی۔

  2. اس کتاب کی سب سے نمایاں روایت «أنا قسيم النار» ہے، جو کہ موضوع ہے۔

  3. اس روایت کا گھڑنے والا موسى بن طريف ہے، جسے ائمہ نے کذاب و متروک کہا۔

  4. خود الأعمش نے اس روایت سے بیزاری کا اعلان کیا۔

  5. امام احمد اور دیگر محدثین نے ایسے مواد کو تلف کرنا جائز و مستحسن قرار دیا، تاکہ بدعتی و موضوع روایات امت میں نہ پھیلیں۔

اہم حوالوں کے سکین

امام سلام بن أبی مطیعؒ پر اعمش کی روایات والا مجموعہ جلانے کا الزام – 01 امام سلام بن أبی مطیعؒ پر اعمش کی روایات والا مجموعہ جلانے کا الزام – 02 امام سلام بن أبی مطیعؒ پر اعمش کی روایات والا مجموعہ جلانے کا الزام – 03 امام سلام بن أبی مطیعؒ پر اعمش کی روایات والا مجموعہ جلانے کا الزام – 04 امام سلام بن أبی مطیعؒ پر اعمش کی روایات والا مجموعہ جلانے کا الزام – 05 امام سلام بن أبی مطیعؒ پر اعمش کی روایات والا مجموعہ جلانے کا الزام – 06

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے