امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

اس مضمون میں فقہِ ظاہری کے بانی امام داود بن علی الظاہری (متوفی 270ھ)، المعروف أبو سليمان الأصبهاني/البغدادي کی جمہور محدثین و مؤرخین کے کلمات سے توثیق پیش کی جاتی ہے، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ محض ایک فقیہ ہی نہیں بلکہ **ثقہ، ثبت، مجتہد، حدیث و قرآن کے عالم، اور صاحبِ ورع و زہد امام** تھے۔ اس کے بعد امام داودؒ پر وارد بعض بےسند/منقطع یا غیر معتبر شخصیات کی سخت جروحات کا علمی جواب بھی دیا جائے گا، اور اصول یہ رکھا جائے گا کہ اجتہادی اختلاف کو عدالت و دیانت کی نفی نہیں بنایا جا سکتا۔

امام داود بن علی الظاہری کی توثیق: جمہور کے دلائل

① حافظ شمس الدین ذہبی کی توثیق (سیر اور تذکرۃ الحفاظ)

55 – دَاوُدُ بنُ عَلِيِّ بنِ خَلَفٍ البَغْدَادِيُّ الظَّاهِرِيُّ *
الإِمَامُ، البَحْرُ، الحَافِظُ، العَلاَّمَةُ، عَالِمُ الوَقْتِ، أَبُو سُلَيْمَانَ البَغْدَادِيُّ، المَعْرُوْفُ بِالأَصْبَهَانِيِّ، مَوْلَى أَمِيْرِ المُؤْمِنِيْنَ المَهْدِيِّ، رَئِيْسُ أَهْلِ الظَّاهِرِ.

اردو ترجمہ:
امام داود بن علی… **امام، علم کا سمندر، حافظ، علامہ، اپنے وقت کے بڑے عالم**، ابو سلیمان بغدادی (المعروف بالأصبهاني)، اور **اہلِ ظاہر کے رئیس** تھے۔

وَفِي الجُمْلَةِ، فَدَاوُدُ بنُ عَلِيٍّ بَصِيرٌ بِالفِقْهِ، عَالِمٌ بِالقُرْآنِ، حَافظٌ للأَثَرِ، رَأْسٌ فِي مَعْرِفَةِ الخِلاَفِ، مِنْ أَوْعِيَةِ العِلْمِ، لَهُ ذكَاءٌ خَارِقٌ، وَفِيْه دِيْنٌ مَتِينٌ.

اردو ترجمہ:
خلاصہ یہ کہ داودؒ **فقہ میں بصیرت رکھنے والے، قرآن کے عالم، حدیث/اثر کے حافظ، علمِ اختلاف کے سردار، علم کے بڑے حامل، غیر معمولی ذہانت والے، اور مضبوط دین داری** کے مالک تھے۔

الكتاب: سير أعلام النبلاء للذهبي

مزید (تذکرۃ الحفاظ):

597- 49/ 9- داود بن علي الحافظ الفقيه المجتهد أبو سليمان الأصبهاني البغدادي فقيه أهل الظاهر: ولد سنة مائتين سمع عمرو بن مرزوق والقعنبي وسليمان بن حرب ومسددا ومحمد بن كثير العبدي وتفقه بإسحاق بن راهويه
وصنف التصانيف وكان بصير بالحديث صحيحه وسقيمه،

اردو ترجمہ:
امام داودؒ **حافظ، فقیہ، مجتہد** تھے، اہلِ ظاہر کے فقیہ تھے، بڑے شیوخ سے سماع کیا، اسحاق بن راہویہ سے فقہ حاصل کی، تصانیف لکھیں، اور **حدیث کے صحیح و سقیم کی پہچان رکھتے تھے**۔

الكتاب: تذكرة الحفاظ
المؤلف: شمس الدين الذهبي (المتوفى: 748هـ)

📌 نتیجہ: حافظ ذہبی کے متعدد مقامات کے کلمات امام داودؒ کی **علمی امامت، حفظِ حدیث، فقہی بصیرت اور دیانت** کو واضح کر دیتے ہیں۔

② خطیب بغدادی کی توثیق

4426- دَاوُد بْن عَلِيّ بْن خلف أَبُو سُلَيْمَان الفقيه الظاهري أصبهاني الأصل … وهو إمام أصحاب الظاهر، وَكَانَ وَرعا ناسكا زاهدا.
وَفي كتبه حَدِيث كثير، إِلا أن الرواية عنه عزيزة جدا.

اردو ترجمہ:
داود بن علی… ابو سلیمان فقیہ ظاہری… **امامِ اصحابِ ظاہر** تھے، **ورع، عبادت گزار، زاہد** تھے؛ ان کی کتابوں میں **احادیث بکثرت** ہیں، البتہ ان سے روایت آگے کم نقل ہوئی۔

الكتاب: تاريخ بغداد
المؤلف: الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ)

🧾 نتیجہ: خطیب بغدادی کے نزدیک امام داودؒ کی **امامت، زہد و ورع اور حدیثی سرمایہ** مسلم ہے۔

③ ابن الندیم کی توثیق

داود بن علي: أبو سليمان … وهو أول من استعمل قول الظاهر وأخذ بالكتاب والسنة وألغى ما سوى ذلك من الرأي والقياس … وكان فاضلا صادقا ورعا

اردو ترجمہ:
امام داودؒ وہ ہیں جنہوں نے (فقہ میں) **قولِ ظاہر** کو نمایاں کیا، **کتاب و سنت** کو بنیاد بنایا، اور **رائے و قیاس** کو ترک کیا؛ اور وہ **فاضل، سچے اور متقی** تھے۔

الكتاب: الفهرست
المؤلف: ابن النديم (المتوفى: 438هـ)

📌 نتیجہ: یہ بیان امام داودؒ کے **منہجِ استنباط** اور **دیانت** دونوں کی شہادت ہے۔

④ ابن خلکان کی توثیق

223 – (1) داود الظاهري … الإمام المشهور المعروف بالظاهري؛ كان زاهداً متقللاً كثير الورع، أخذ العلم عن إسحاق بن راهويه وأبي ثور وغيرهما،

اردو ترجمہ:
داود ظاہری… **مشہور امام** تھے، **زاہد، کم خرچ/سادہ مزاج، بہت زیادہ صاحبِ ورع** تھے؛ اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور وغیرہم سے علم حاصل کیا۔

وكان من عقلاء الناس،

اردو ترجمہ:
اور وہ لوگوں میں **عقل و دانائی** رکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے۔

الكتاب: وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان
المؤلف: ابن خلكان (المتوفى: 681هـ)

📚 نتیجہ: ابن خلکان نے امام داودؒ کو **زہد، ورع، علم اور دانائی** کے اوصاف سے یاد کیا۔

⑤ ابن الاثیر کا تذکرہ

(فِيهَا تُوُفِّيَ) دَاوُدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَصْبَهَانِيُّ الْفَقِيهُ، إِمَامُ أَصْحَابِ الظَّاهِرِ، وَكَانَ مَوْلِدُهُ سَنَةَ اثْنَيْنِ وَمِائَتَيْنِ.

اردو ترجمہ:
اس سال داود بن علی الاصبهاني فقیہ کا انتقال ہوا؛ وہ **امامِ اصحابِ ظاہر** تھے، اور ان کی پیدائش 202ھ میں ہوئی۔

الكتاب: الكامل في التاريخ
المؤلف: ابن الأثير (المتوفى: 630هـ)

⑥ ابن العماد العکری کی توثیق

وفيها داود بن علي، الإمام أبو سليمان الأصبهاني ثم البغدادي، الفقيه الظاهري،—-وكان ناسكا زاهدا.—– وكان داود حافظا مجتهدا، إمام أهل الظاهر

اردو ترجمہ:
داود بن علی… **امام ابو سلیمان**… فقیہ ظاہری… **عبادت گزار اور زاہد** تھے؛ اور داود **حافظ، مجتہد، امام اہلِ ظاہر** تھے۔

الكتاب: شذرات الذهب في أخبار من ذهب
المؤلف: ابن العماد العكري (المتوفى: 1089هـ)

⑦ ابن عبدالہادی کی توثیق

الحافظُ المجتهد، أبو سُليمان الأصبهاني البغدادي، فقيه أهل الظاهر– وتفقَّهَ بإسحاقَ بنِ راهويهٓ—وصنَّف التَّصانيف، وكان بصيرًا بالحديث صحيحِه وسقيمِه.

اردو ترجمہ:
وہ **حافظ اور مجتہد** تھے، فقیہ اہلِ ظاہر تھے، اسحاق بن راہویہ سے فقہ سیکھی، تصانیف لکھیں، اور **حدیث کے صحیح و سقیم میں بصیرت** رکھتے تھے۔

الكتاب: طبقات علماء الحديث
المؤلف: ابن عبد الهادي (المتوفى: 744هـ)

⑧ شمس الدین الداوودی المالکی کی توثیق

داود بن علي بن داود بن خلف الإمام الحافظ المجتهد الكبير أبو سليمان الأصبهانيّ البغدادي—فقيه أهل الظاهر، أول من استعمل قول الظاهر وأخذ بالكتاب والسنة، وألغى ما سوى ذلك من الرأي والقياس، كان إماما فاضلا صادقا ورعا،

اردو ترجمہ:
امام داود… **امام، حافظ، بڑے مجتہد** تھے؛ اہلِ ظاہر کے فقیہ تھے؛ قولِ ظاہر کو اپنانے اور کتاب و سنت کو بنیاد بنانے میں پیش پیش تھے؛ رائے و قیاس کو ترک کیا؛ اور وہ **امام، فاضل، سچے اور متقی** تھے۔

الكتاب: طبقات المفسرين للداوودي
المؤلف: شمس الدين الداوودي المالكي (ت 945هـ)

⑨ امام سمعانی کی توثیق

وأما داود فهو أبو سليمان داود بن على بن خلف الفقيه الظاهري … وصنف كتبه بها، وهو إمام أصحاب الظاهر، وكان ورعا ناسكا زاهدا، وفي كتبه حديث كثير إلا أن الرواية عنه عزيزة جدا،

اردو ترجمہ:
داود… فقیہ ظاہری… بغداد میں رہے، وہیں تصانیف لکھیں، وہ **امامِ اصحابِ ظاہر** تھے، **ورع، عبادت گزار، زاہد** تھے؛ ان کی کتابوں میں حدیث بہت ہے مگر ان سے روایت آگے کم ہے۔

الكتاب: الأنساب
المؤلف: السمعاني (المتوفى: 562هـ)

⑩ ابو نعیم الاصبهانی کا تذکرہ

دَاوُدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ خَلَفٍ أَبُو سُلَيْمَانَ الْفَقِيهُ الْأَصْبَهَانِيُّ أَصْلُهُ مِنْ قَاسَانَ، سَكَنَ بَغْدَادَ، صَنَّفَ كُتُبًا كَثِيرَةً،

اردو ترجمہ:
داود بن علی… ابو سلیمان فقیہ… اصل قاسان سے تھا، بغداد میں سکونت اختیار کی، اور **بہت سی کتابیں تصنیف کیں**۔

الكتاب: تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان
المؤلف: أبو نعيم الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)

⑪ ابو اسحاق الشیرازی کا تذکرہ

داود بن علي بن خلف الأصفهاني: ولد سنة اثنتين ومائتين ومات سنة سبعين ومائتين … وكان زاهداً متقللاً … كان داود عقله أكثر من علمه—-وانتهت إليه رياسة العلم ببغداد،

اردو ترجمہ:
ان کی پیدائش 202ھ اور وفات 270ھ؛ وہ **زاہد اور سادہ مزاج** تھے؛ اور ان کے بارے میں لکھا کہ **ان کی عقل (فہم) ان کے علم سے بھی بڑھ کر تھی**؛ اور بغداد میں علمی ریاست (زعمتِ علم) ان پر آ کر ختم ہو گئی۔

الكتاب: طبقات الفقهاء
المؤلف: أبو إسحاق الشيرازي (المتوفى: 476هـ)

⑫ تاج الدین سبکی کا تذکرہ

62 – دَاوُد بن على بن خلف أَبُو سُلَيْمَان البغدادى الأصبهانى
إِمَام أهل الظَّاهِر … وَكَانَ أحد أَئِمَّة الْمُسلمين وهداتهم …

اردو ترجمہ:
داود بن علی… ابو سلیمان… **امام اہلِ ظاہر** تھے، اور مسلمانوں کے **ائمہ و رہنماؤں** میں شمار ہوتے تھے۔

الكتاب: طبقات الشافعية الكبرى
المؤلف: تاج الدين السبكي (المتوفى: 771هـ)

⑬ جلال الدین سیوطی کی توثیق

571 – دَاوُد بن عَليّ بن خلف الْحَافِظ الْفَقِيه الْمُجْتَهد أَبُو سُلَيْمَان الْأَصْبَهَانِيّ الْبَغْدَادِيّ … وصنف التصانيف وَكَانَ بَصيرًا بِالْحَدِيثِ صَحِيحه وسقيمه إِمَامًا ورعاً ناسكاً زاهداً …

اردو ترجمہ:
داود بن علی… **حافظ، فقیہ، مجتہد** تھے… تصانیف لکھیں، اور حدیث کے صحیح و سقیم میں بصیرت رکھتے تھے؛ **امام، ورع، عبادت گزار، زاہد** تھے۔

الكتاب: طبقات الحفاظ
المؤلف: جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)

⑭ ابو محمد الیافعی کا تذکرہ

وفيها توفي داود بن علي الفقيه، الإمام الأصبهاني الظاهري صاحب التصانيف … وكان زاهداً وناسكاً متقللاً كثير الورع،—-وكان صاحب مذهب مستقل بنفسه، وتبعه جمع كثير يعرفون بالظاهرية.

اردو ترجمہ:
داود بن علی فقیہ… امام اصبهانی ظاہری… صاحبِ تصانیف… **زاہد، عبادت گزار، سادہ مزاج، بہت زیادہ ورع والے** تھے؛ اور وہ اپنے مستقل مذہب کے صاحب تھے، اور ان کے پیروکار بڑی تعداد میں تھے جنہیں **ظاہریہ** کہا جاتا ہے۔

الكتاب: مرآة الجنان وعبرة اليقظان
المؤلف: اليافعي (المتوفى: 768هـ)

⑮ امام نووی کا تذکرہ

157 – داود بن على بن داود خلف الأصبهانى ثم البغدادى:
إمام أهل الظاهر … وكان زاهدًا، متقللاً —وفضائل داود وزهده وورعه ومتابعته للسنة مشهورة.

اردو ترجمہ:
داود… امام اہلِ ظاہر… زاہد اور سادہ مزاج تھے؛ اور داود کے فضائل، زہد، ورع، اور سنت کی پابندی **مشہور** ہے۔

الكتاب: تهذيب الأسماء واللغات
المؤلف: أبو زكريا النووي (المتوفى: 676هـ)

⑯ امام شہرستانی کی تقسیم: اصحابِ حدیث کے مجتہدین میں ظاہریہ کا ذکر

3- أصناف المجتهدين:
ثم المجتهدون من أئمة الأمة: محصورون في صنفين؛ لا يعدوان إلى ثالث
أصحاب الحديث، وأصحاب الرأي:
أصحاب الحديث:
وهم أهل الحجاز؛ هم: أصحاب مالك بن أنس، وأصحاب محمد بن إدريس الشافعي، وأصحاب سفيان الثوري، وأصحاب أحمد بن حنبل، وأصحاب داود بن علي بن محمد الأصفهاني. وإنما سموا: أصحاب الحديث؛ لأن عنايتهم:

اردو ترجمہ:
شہرستانی نے مجتہدین کو دو صنفوں میں ذکر کیا: **اصحابِ حدیث** اور **اصحابِ رائے**۔ اصحابِ حدیث میں انہوں نے (دیگر کے ساتھ) **اصحابِ داود بن علی الاصبهاني** کا نام بھی ذکر کیا—یعنی ان کے ہاں استنباط کا اصل مدار حدیث و آثار پر ہے۔

الكتاب: الملل والنحل
المؤلف: الشهرستاني (المتوفى: 548هـ)

✅ مجموعی خلاصہ: ان توثیقات سے امام داودؒ کی **ثقاہت، اجتہاد، حدیث فہمی، زہد و ورع** اور علمی امامت واضح ہوتی ہے۔

امام داود ظاہری پر اعتراضات اور ان کے علمی جوابات

① قاضی ابن العربی کا ایک فقہی جملہ اور اس کا محل

وانعقد الإجماع على وُجُوب الغسل بالتقاء الختانين وإن لم يُنزل، وما خالف في ذلك إلّا داود، ولا يُعبَأ به.

اردو ترجمہ:
“ختنوں کے ملنے پر غسل کے وجوب پر اجماع قائم ہو چکا ہے، اگرچہ انزال نہ ہو۔ اس میں صرف داود نے مخالفت کی، اور اس کی پروا نہیں کی جاتی۔”

الكتاب: عارضة الأحوذي (شرح جامع الترمذي) 169/1
المؤلف: ابن العربي (متوفى: 543هـ)

🧾 جواب کا خلاصہ:
یہاں بحث **ایک فقہی مسئلہ** کی ہے، نہ کہ امام داودؒ کی عدالت و دیانت کی۔ خود اسی شارح نے متعدد مقامات پر دوسرے ائمہ کے اقوال کو بھی “جمہور کے خلاف” کہا ہے، مثلاً:

أما ابو حنيفة فيتعلق بآثار كلها لا صحة لها … فلا تعويل عليها
اردو ترجمہ: ابو حنیفہ بعض ایسی آثار سے استدلال کرتے ہیں جن کی صحت نہیں؛ ان پر اعتماد نہیں۔

الكتاب: عارضة الأحوذي لابن العربي

الثامنة وأما الهرة فاتفق جمهور العلماء علي طهارة سؤرها وقال أبو حنيفة هو مكروه
اردو ترجمہ: بلی کے جھوٹے کے پاک ہونے پر جمہور کا اتفاق ہے، جبکہ ابو حنیفہ نے اسے مکروہ کہا۔

الكتاب: عارضة الأحوذي لابن العربي

📌 نتیجہ: کسی امام کے ایک مسئلہ میں اختلاف کو بنیاد بنا کر **اس کی علمی حیثیت ختم کرنا اصولی طور پر درست نہیں**—بالخصوص جب وہ امام جمہور کے نزدیک ثقہ و مجتہد ثابت ہو۔

② قیاس کے مسئلے پر بعض اقوال اور حافظ ذہبی کی اصولی تنبیہ

امام نووی نے بعض اکابر سے بغیر تفصیلی سند کے یہ اقوال نقل کیے:

فقال الأستاذ أبو إسحاق الإسفرايينى: اختلف أهل الحق فى نفاة القياس … فقال الجمهور: إنهم لا يبلغون رتبة الاجتهاد، ولا يجوز تقليدهم القضاء،

اردو ترجمہ:
ابو اسحاق اسفراینی کے مطابق قیاس کے منکرین کے بارے میں (جمہور کا) قول یہ ہے کہ وہ درجۂ اجتہاد تک نہیں پہنچتے وغیرہ۔

الكتاب: تهذيب الأسماء واللغات
المؤلف: النووي (المتوفى: 676هـ)

وقال إمام الحرمين: الذى ذهب إليه أهل التحقيق أن منكرى القياس لا يعدون من علماء الأمة وحملة الشريعة؛

اردو ترجمہ:
امام الحرمین کے مطابق قیاس کے منکرین کو امت کے علماء میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔

الكتاب: تهذيب الأسماء واللغات
المؤلف: النووي (المتوفى: 676هـ)

📌 اصل جواب (حافظ ذہبی کی تنبیہ):

حافظ ذہبی نے اسی نوع کے کلام پر اصولی بات لکھی کہ **اجتہاد کا رد محض اجتہاد سے نہیں کیا جاتا**، اور عملی حقیقت یہ ہے کہ امام داودؒ بغداد میں فتویٰ دیتے، تدریس کرتے اور مناظرہ کرتے رہے، اور اس زمانے کے بڑے ائمہ نے ان کے درس و فتویٰ کو باقاعدہ روکنے کی کوشش نہیں کی:

قُلْتُ: هَذَا القَوْلُ مِنْ أَبِي المعَالِي أَدَّاهُ إِلَيْهِ اجْتِهَادُهُ، وَهُم فَأَدَّاهُم اجتِهَادُهُم إِلَى نَفِي القَوْلِ بِالقِيَاسِ، فَكَيْفَ يُرَدُّ الاجتِهَادُ بِمِثْلِهِ … فَلَم نَرَهُم قَامُوا عَلَيْهِ، وَلاَ أَنْكَرُوا فَتَاويه وَلاَ تَدْرِيسَهُ …

اردو ترجمہ:
یہ ابو المعالی کا قول ان کے اجتہاد کا نتیجہ ہے، اور قیاس کے انکار تک پہنچنا بھی امام داودؒ وغیرہ کے اجتہاد کا نتیجہ؛ تو **اجتہاد کو اجتہاد سے کیسے رد کیا جائے؟** پھر امام داودؒ بغداد میں فتویٰ و تدریس کرتے رہے اور معاصر ائمہ نے نہ ان کے فتویٰ و تدریس کی نکیر کی اور نہ اسے روکنے کی کوشش کی۔

الكتاب: سير أعلام النبلاء
المؤلف: الذهبي (المتوفى: 748هـ)

اضافی فائدہ (قیاس کے بارے میں ابن سیرین کا اثر):

195 – … عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ، وَمَا عُبِدَتِ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ إِلَّا بِالْمَقَايِيسِ»
[تعليق المحقق] إسناده جيد

اردو ترجمہ:
ابن سیرین کہتے ہیں: “سب سے پہلے قیاس ابلیس نے کیا، اور سورج و چاند کی پوجا (بھی) قیاس ہی کے راستے سے رائج ہوئی۔” (محقق کے مطابق اس کی سند اچھی ہے)

الكتاب: سنن دارمي

✅ نتیجہ: قیاس کے مسئلے میں اختلاف **اجتہادی** ہے؛ اسے امام داودؒ کی عدالت/اجتہاد کی نفی بنانے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔

③ عبدالرحمن بن خراش کا سخت قول اور ابو زرعہ الرازی کا رد

ایک مقام پر یہ واقعہ نقل ہوا ہے:

… فَقَالَ ابْن خراش: دَاوُد كافر،

اردو ترجمہ:
ابن خراش نے داود کے بارے میں **انتہائی سخت** بات کہی۔

الكتاب: تاريخ بغداد
المؤلف: الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ)

اسی مقام پر ابو زرعہ الرازی نے اس طرزِ گفتگو پر سرزنش بھی کی:

فأقبل عليهما أَبُو زرعة يوبخهما، وَقَالَ لهما: ما وَاحد منهما لكما بصاحب …

اردو ترجمہ:
ابو زرعہ نے دونوں کو ڈانٹا اور فرمایا: تم میں سے کوئی بھی ان کے مقابلے کا نہیں…

الكتاب: تاريخ بغداد
المؤلف: الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ)

اور ابو زرعہ الجرجانی سے ابن خراش کے بارے میں یہ بات منقول ہے (لفظ “رافضيا” کو اصل نقل کے طور پر محفوظ رکھتے ہوئے):

… سألت أبا زرعة محمد بن يوسف الجرجاني عن عبد الرحمن بن خراش فقال … وكان … وكان رافضيا

اردو ترجمہ:
ابو زرعہ الجرجانی نے ابن خراش کے بارے میں کہا کہ اس کے بارے میں (بعض امور) منقول ہیں، اور اس پر **غالی تشیع/رفض** کا الزام بھی ذکر کیا گیا۔

الكتاب: سؤالات حمزة بن يوسف السهمي
المؤلف: السهمي (المتوفى: 427هـ)

📌 نتیجہ: جب خود ابو زرعہؒ نے اس انداز کو رد کیا، اور ابن خراش پر شدید میلان/تعصب کی نشان دہی بھی منقول ہو، تو امام داودؒ کے بارے میں اس طرح کی غیر متوازن سختی **حجت نہیں بنتی**۔

④ “اسحاق بن راہویہ نے مارا” والی روایت: سند اور فہمِ واقعہ

بعض کتب میں یہ قصہ اس طرح آیا ہے:

قَالَ المَرُّوْذِيُّ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ النَّيْسَابُورِيُّ، أَنَّ إِسْحَاقَ بنَ رَاهْوَيْه لَمَّا سَمِعَ: كَلاَمَ دَاوُدَ … وَثَبَ عَلَى دَاوُدَ، وَضَرَبَهُ وَأَنْكَرَ عَلَيْهِ.

اردو ترجمہ:
مروزی کے واسطے سے یہ نقل کیا گیا کہ اسحاق بن راہویہ نے داود کا کلام سن کر سخت رد عمل ظاہر کیا۔

الكتاب: طبقات الشافعية الكبرى / تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام

جواب کا خلاصہ:

1. یہ واقعہ **سنداً مضبوط** طریق سے ثابت ہونا اپنی جگہ مستقل بحث ہے۔
2. اگر بالفرض کسی نوع کی سرزنش/درشتی ثابت بھی ہو، تو یہ ضروری نہیں کہ وہ **عدالت و دیانت کی نفی** ہو؛ استاد و شاگرد میں علمی تنبیہ کا اصل وقوع ممکن ہوتا ہے۔
3. خود تاریخی نقل میں یہ بھی آیا کہ امام داودؒ نے اسحاقؒ کے بعض امور میں علمی تردید کی، اور لوگ اسحاقؒ کی ہیبت کے سبب عموماً اس طرح رد نہیں کرتے تھے:

… سمعت دَاوُد بْن عَلِيّ الأَصْبَهَانِيّ يرد على إسحاق، يعني ابْن راهويه، وَما رأيت أحدا قبله وَلا بعده يرد عَلَيْهِ هيبة له —

اردو ترجمہ:
میں نے داود بن علی کو اسحاق بن راہویہ کی تردید کرتے سنا، اور میں نے اس سے پہلے اور بعد میں کسی کو اسحاق کی ہیبت کے باعث ان کی تردید کرتے نہیں دیکھا۔

الكتاب: تاريخ بغداد
المؤلف: الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ)

✅ نتیجہ: اس نوع کے واقعات سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ علمی مناقشہ موجود تھا؛ یہ **امام داودؒ کی ثقاہت و اجتہاد کو ساقط نہیں کرتا**۔

⑤ ابو الفتح الازدی کی جرح اور اس کا وزن

بعض جگہ الازدی کی طرف منسوب ترک کا ذکر آیا، اور اسی پر جواب نقل ہوا:

… وداود بن علي ثقة فاضل امام من الأئمة لم يذكره أحد بكذب ولا تدليس في الحديث رحمه الله تعالى.

اردو ترجمہ:
داود بن علی **ثقہ، فاضل، ائمہ میں سے امام** ہیں؛ حدیث میں کسی نے انہیں **کذب یا تدلیس** کے ساتھ یاد نہیں کیا۔

الكتاب: لسان الميزان
المؤلف: ابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)

اور الازدی کے بارے میں یہ بھی لکھا گیا:

أبي الفتح محمد بن الحسين الأزدي، فإنه متهم بالوضع، وإن كان من الحفاظ

اردو ترجمہ:
ابو الفتح الازدی… اگرچہ حفاظ میں سے تھا، مگر اس پر **وضع (حدیث گھڑنے)** کا الزام بھی ہے۔

الكتاب: الصارم المنكي في الرد على السبكي
المؤلف: ابن عبد الهادي (المتوفى: 744هـ)

✅ نتیجہ: جب ایک جانب امام داودؒ کی جمہوری توثیقات موجود ہوں، اور دوسری جانب معترض راوی/ناقل خود محلِ کلام ہو، تو ایسی جرح **وزن نہیں رکھتی**۔

⑥ قرآن کے بارے میں نسبتیں اور اصولی احتیاط

بعض کتب میں امام داودؒ کی طرف یہ کلمات منسوب کیے گئے:

… سَمِعت دَاوُد الأصبهانى يَقُول الْقُرْآن مُحدث ولفظى بِالْقُرْآنِ مَخْلُوق

اردو ترجمہ:
ایک راوی نے امام داودؒ کی طرف قرآن/لفظ کے بارے میں کچھ الفاظ منسوب کیے۔

الكتاب: طبقات الشافعية الكبرى
المؤلف: تاج الدين السبكي (المتوفى: 771هـ)

اسی سلسلے میں ایک اور نقل بھی منقول ہے:

… جَاءَنِي كِتَابُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيِّ أَنَّ دَاوُد الأصبهاني قَالَ: كَذِبًا: إنَّ الْقُرْآنَ مُحْدَثٌ

اردو ترجمہ:
یہ نقل منقول ہے کہ محمد بن یحییٰ النیسابوری کے خط میں امام داودؒ پر “قرآن محدث” کہنے کی نسبت کا ذکر آیا۔

الكتاب: مجموع الفتاوى لابن تيمية

📌 اصولی نتیجہ:
ایسی نسبتوں میں **سند، راویوں کا حال، اور تاریخی سیاق** فیصلہ کن ہوتا ہے؛ محض ایک منقطع/مجروح طریق سے امام پر بڑا حکم لگانا درست نہیں—خصوصاً جب دوسری طرف امام داودؒ کی **دیانت، ورع اور سنت کی متابعت** جمہور سے ثابت ہو۔

ظاہریہ کے بڑے امام ابن حزم کا اصولی بیان (بطور عقیدۂ اہلِ سنت کی وضاحت):

[مَسْأَلَة الْقُرْآن كَلَام اللَّه غَيْر مَخْلُوق]
58 – مَسْأَلَةٌ: وَالْقُرْآنُ كَلَامُ اللَّهِ وَعِلْمُهُ غَيْرُ مَخْلُوقٍ… مَنْ قَالَ فِي شَيْءٍ مِنْ هَذَا … فَقَدْ كَفَرَ

اردو ترجمہ:
قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں… جو اس کے بارے میں (ایسا باطل قول) کرے… اس نے کفر کیا۔

الكتاب: المحلى بالآثار
المؤلف: ابن حزم الأندلسي (المتوفى: 456هـ)

🧾 نتیجہ: امام داودؒ پر ایسے بڑے الزامات میں **قطعی اور متصل سند** شرط ہے؛ جبکہ امام کی جمہوری توثیق کے ہوتے ہوئے محض غیر مضبوط نسبتیں فیصلہ کن نہیں بنتیں۔

نتیجہ

پوری تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ **امام داود بن علی الظاہری** (متوفی 270ھ) کی **امامت، ثقاہت، اجتہاد، حدیث فہمی، فقہی بصیرت، زہد و ورع اور سنت کی متابعت** پر جمہورِ اہلِ علم کے مضبوط نقول موجود ہیں (ذہبی، خطیب، سمعانی، نووی، سیوطی، ابن عبدالہادی، ابن خلکان، ابن الاثیر، الداوودی وغیرہم)۔ دوسری طرف جو اعتراضات پیش کیے جاتے ہیں ان میں سے متعدد **سنداً غیر مضبوط/منقطع** ہیں، یا ان کے ناقلین/قائلین پر **تعصب یا ضعف** کے پہلو ذکر کیے گئے ہیں، یا وہ **محض اجتہادی اختلافات** پر قائم ہیں۔

لہٰذا راجح بات یہی ہے کہ امام داودؒ **ثقہ ثبت مجتہد امام** تھے، اور ان پر ثابت شدہ اصولی توثیقات کے مقابلے میں غیر مضبوط جروحات کو بنیاد بنا کر ان کی علمی حیثیت گرانا درست نہیں۔

اہم حوالاجات کے سکین

امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 01 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 02 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 03 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 04 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 05 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 06 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 07 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 08 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 09 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 10 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 11 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 12 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 13 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 14 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 15 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 16 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 17 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 18 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 19 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 20 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 21 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 22 امام داود ظاہری کی توثیق اور ان پر نقد و جرح کا دعویٰ – 23

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے