امام تکبیر اونچی آواز سے کہے گا اور مقتدی آہستہ آواز سے، اس کی کیا دلیل ہے ؟

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

سوال :

امام تکبیر اونچی آواز سے کہے گا اور مقتدی آہستہ آواز سے، اس کی کیا دلیل ہے ؟

جواب :

نماز میں اصل سکوت (خاموشی) ہے، جیسا کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ، وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ .

”ہمیں (رسولِ اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز میں) خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور باتوں سے منع کر دیا گیا۔ “ [ صحيح البخاري : 160/1، ح : 1200، صحيح مسلم : 204/1، ح : 539، واللّفظ لهٗ ]

↰ یہ حکم عام ہے جو کہ امام، مقتدی اور منفرد سب کو شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اصل سکوت ہے۔ ہر ایک کو نماز میں خاموش رہنا چاہیے۔ اصل سے ہٹنے کے لیے دلیل درکار ہو گی۔ مطلب یہ کہ اونچی آواز سے تکبیر کہنے کے لیے دلیل ہونا ضروری ہے۔ امام کے لیے یہ دلیل قائم ہو چکی ہے، لہٰذا وہ اونچی آواز سے تکبیر کہے گا اور مقتدی و منفرد کے لیے ایسا ثابت نہیں، لہٰذا وہ آہستہ ہی تکبیر کہیں گے۔ امام کے اونچی تکبیر کہنے کی دلیل یہ ہے :

سعید بن حارث تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

صَلَّى لَنَا أَبُو سَعِيدٍ فَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ حِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ وَحِينَ سَجَدَ وَحِينَ رَفَعَ وَحِينَ قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ "، وَقَالَ : هَكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

” سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی۔ انہوں نے سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے، سجدے میں جاتے ہوئے، پھر سر اٹھاتے ہوئے اور دو رکعتوں کے بعد (تیسری کے لیے ) کھڑے ہوتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر کہی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔

[صحيح البخاري : 114/1، ح : 825 ]

یہی روایت امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے :

فَجَهَرِ بِالتَّكْبِيرِ حِينَ افْتَتَحَ، وَحِينَ رَكَعَ، وَبَعْدَ أَنْ قَالَ : سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه .

”آپ رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کرتے اور رکوع کو جاتے وقت اور سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہنے کے بعد (سجدے کو جاتے ہوئے بھی) بلند آواز سے تکبیر کہی۔ “ [السنن الكبرٰي : 18/2 ]

◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631۔ 676ھ) نے اس کی سند کو ”حسن“ قرار دیا ہے۔ [خلاصة الأحكام فى مهمّات السنن وقواعد الإسلام : 350/1 ]

اس کے راوی فُلَیْح بن سلیمان صحیح بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ ان پر جرح مردود ہے، جمہور محدثین کرام نے ان کی توثیق کر رکھی ہے، یوں یہ ”حسن الحدیث“ راوی ہیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، وَأَبُوبَكْرٍ يُّسْمِعُهُمُ التَّكْبِيرَ .

”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کو ”اللہ اکبر“ سناتے تھے۔ “

[صحيح مسلم : 179/1، ح : 418 ]

یعنی صرف امام بلند آواز میں ’اللہ اکبر‘ کہے گا۔ اگر مقتدی بھی بلند آواز سے تکبیر کہتے تھے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دور والے لوگوں کو سنانے کے لیے مُکَبِّر بننے کی کیا ضرورت تھی ؟

معلوم ہوا کہ نماز میں اصل سکوت، یعنی خاموشی ہے، ہاں جہاں جہاں امام اور مقتدی کے لیے بلند آواز کرنے کی دلیل شرعی موجود ہے، وہاں وہ آواز بلند کریں گے۔ اسی طَے شدہ اصول کے تحت نماز میں امام اور مُکَبِّر، تکبیر بلند آواز سے کہیں گے اور مقتدی ومنفرد آہستہ آواز سے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: