اہل سنت والجماعت کا عقیدہ
اہل سنت والجماعت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لحاظ سے عرش پر بلند ہے، اور ہر جگہ موجود نہیں ہے۔ یہ عقیدہ تمام زمانوں میں مسلمانوں کا متفقہ نظریہ رہا ہے۔
امام ابو عمر طلمنکی رحمہ اللہ (م: 429ھ) فرماتے ہیں:
"اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر حقیقی طور پر مستوی ہے، نہ کہ مجازی طور پر۔”
(ماخذ: اجتماع الجیوش الإسلامیۃ لابن القیّم، 142/2)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ) فرماتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کا نظریہ وہ عقیدہ ہے جس پر تمام انبیاء متفق رہے ہیں، اور ہر نبی پر نازل ہونے والی کتابوں میں یہ ذکر موجود ہے۔ امت محمدیہ کے اسلاف اور ائمہ کرام بھی اس پر متفق ہیں۔”
(ماخذ: بیان تلبیس الجہمیّۃ، 9/2)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) فرماتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر بلند ہے، جیسا کہ ابتدائی زمانے کے مسلمانوں کا اس پر اجماع تھا اور ائمہ نے بھی اس اجماع کو نقل کیا ہے۔”
(ماخذ: العلوّ لعليّ الغفّار، ص: 596)
دوسرے نظریات کی مخالفت
فلاسفہ جیسے ارسطو، افلاطون، ابن سینا، اور معتزلہ کے بعض علماء کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ نظریہ قرآن و حدیث اور اجماع امت کے خلاف ہے۔
فطری نظریہ
اللہ تعالیٰ کو مخلوقات سے بلند ماننا ایک فطری عقیدہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے دل میں یہ بات فطری طور پر رکھی ہے۔ اس کی مثال چیونٹی کے واقعے سے لی جا سکتی ہے:
چیونٹی کا نظریہ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ایک نبی اپنی قوم کے ساتھ بارش کی دعا کے لیے نکلے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے دعا کر رہی تھی۔ نبی نے فرمایا: ‘واپس لوٹ جاؤ، کیونکہ چیونٹی کے عمل کی وجہ سے تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے۔'”
(ماخذ: سنن الدارقطني: 1797، المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 325/1، 326، وسندہ حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو "صحیح” قرار دیا ہے۔
محمد بن عون کے متعلق محدثین کی آراء
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا: "یہ جانے پہچانے محدث ہیں۔”(ماخذ: العلل ومعرفۃ الرجال، 211/2)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے (411/7)۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے ان کی احادیث کی سند کو "صحیح” قرار دیا ہے، جو ان کی توثیق کا ذریعہ ہے۔
سابقہ امتوں کے موحّدین کا نظریہ
سابقہ امتوں کے موحدین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اور ہر جگہ موجود نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم روایت پیش ہے:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"معراج کی رات، میں ایک خوشبو کے پاس سے گزرا۔ میں نے جبریل سے پوچھا: یہ خوشبو کیسی ہے؟ جبریل نے جواب دیا: یہ خوشبو فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرنے والی عورت اور اس کے بیٹے کی ہے۔ وہ کنگھی کرتے ہوئے جب کنگھی گر گئی تو اس نے کہا: بسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے کہا: کیا تم میرے والد کا ذکر کر رہی ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں، میرا اور تمہارے والد کا ربّ۔ اس پر فرعون نے پوچھا: کیا میرے سوا بھی تمہارا کوئی ربّ ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا اور تمہارا رب وہ ہے جو آسمانوں میں ہے۔”
(ماخذ: مسند الإمام أحمد: 310/1، مسند أبي یعلٰی: 25/7، الأحاديث المختارة: 288)
امام ابن حبان (2904) اور امام حاکم (496/2) نے اس حدیث کو "صحیح” قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إسنادہ لا بأس بہ” یعنی اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: 29/5)
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں، بلکہ آسمانوں کے اوپر ہے، اور یہ عقیدہ ہر دور کے موحدین کا متفقہ نظریہ رہا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک اللہ تعالیٰ حیا اور کرم کا پیکر ہے۔ جب بندہ دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے، تو اسے انہیں خالی لوٹانے میں شرم محسوس ہوتی ہے، اور وہ انہیں بھلائی سے بھر دیتا ہے۔”
(ماخذ: أمـــالي المحاملي بروایۃ ابن یحییٰ: 433، شرح السنۃ للبغوي: 1385)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کے وقت آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرنا اللہ تعالیٰ کی بلندی کی علامت ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو زمین میں ذکر کی مجالس کو تلاش کرتے ہیں۔ جب وہ ایسی مجلس پاتے ہیں، تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے آسمان تک کا خلا بھر دیتے ہیں۔ جب وہ واپس جاتے ہیں تو آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے: تم کہاں سے آئے ہو؟ حالانکہ وہ ان سے بہتر جانتا ہے۔”
(ماخذ: صحیح مسلم: 2689)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود نہیں، بلکہ آسمانوں پر ہے، کیونکہ فرشتے زمین سے آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے: یہ وقت وہ ہے جب آسمانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں، اور میں چاہتا ہوں کہ میرے نیک اعمال اس وقت میں اوپر جائیں۔”
(ماخذ: سنن الترمذی: 478)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "حسن غریب” قرار دیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہو تو اعمال کے آسمانوں کی طرف چڑھنے کا عقیدہ بے معنی ہو جاتا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مظلوم کی دعا سے بچو، کیونکہ وہ آسمان کی طرف یوں چڑھتی ہے، گویا چنگاریاں ہوں۔”
(ماخذ: المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 29/1)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے راویوں کے قابلِ حجت ہونے پر اتفاق کیا ہے۔
صحابہ کرام کا عقیدہ
صحابہ کرام کا متفقہ عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے، اور وہ ہر جگہ موجود نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم دلیل یہ ہے:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
"قیامت کے وقت ایک آواز لگانے والا پکارے گا: ‘اے لوگو! قیامت تمہارے پاس آ پہنچی ہے۔’ اس آواز کو زندہ اور مردہ سب سنیں گے۔ پھر اللہ عزوجل آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرمائیں گے اور منادی یہ آواز لگائے گا: ‘آج کے دن کس کی بادشاہی ہے؟ واحد و قہار اللہ کے لیے۔'”
(ماخذ: الأھوال لابن أبي الدنیا: 27، المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 437/2)
اس حدیث کی سند کو "حسن” قرار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ نہیں مانتے تھے، بلکہ آسمانوں کے اوپر مانتے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہوتا، تو اس کے آسمانِ دنیا کی طرف نزول کے تصور کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔
تابعین عظام کا نظریہ
تابعین عظام بھی اسی عقیدے کے قائل تھے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ ان کے عقیدے کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:
عکرمہ رحمہ اللہ (سیدنا ابن عباس کے مولیٰ) فرماتے ہیں:
"بے شک اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور ان دونوں کے درمیان موجود چیزوں کی تخلیق اتوار کے دن شروع کی، پھر جمعہ کے دن عرش پر مستوی ہو گیا۔”
(ماخذ: تفسیر ابن أبي حاتم: 1497/5)
کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جب اللہ عزوجل نے مخلوقات کو پیدا کیا تو عرش پر مستوی ہو گیا، اور عرش نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کی۔”
(ماخذ: تفسیر ابن أبي حاتم: 2217/7)
امام ربیعہ بن ابو عبد الرحمن رحمہ اللہ (م: 136ھ) کے بارے میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
"ربیعہ کے پاس ایک شخص نے سوال کیا کہ ‘الرحمن عرش پر مستوی ہے’ (کیسے؟)۔ انہوں نے جواب دیا: ‘استوا معلوم ہے، لیکن اس کی کیفیت سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔ یہ پیغام اللہ کی طرف سے ہے، اسے پہنچا دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے، اور تصدیق کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔'”
(ماخذ: العلوّ للعليّ الغفّار للذہبي، ص: 129)
امام ابو جعفر محمد بن احمد بن نصر ترمذی رحمہ اللہ (201-295ھ) سے کسی نے سوال کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ (ہر رات) آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، تو نزول کے بعد بلندی کیسے باقی رہتی ہے؟ اس پر امام نے فرمایا:
"نزولِ باری تعالیٰ معلوم ہے، اس کی کیفیت نامعلوم ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔”
(ماخذ: تاریخ بغداد للخطیب: 382/1)
خلاصہ: اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا عقیدہ
اس پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت، صحابہ کرام، تابعین عظام اور سابقہ امتوں کے موحدین کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر مستوی ہے اور وہ ہر جگہ موجود نہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات، صحابہ کرام کی تفسیریں، اور تابعین کے اقوال سب اسی نظریے کی تصدیق کرتے ہیں۔
اجماعِ امت
اس عقیدے پر ہر دور کے مسلمانوں کا اجماع رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات حقیقی طور پر عرش پر مستوی ہے، نہ کہ مجازی طور پر۔
سابقہ امتوں کا نظریہ
سابقہ امتوں کے موحدین اور انبیاء کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات آسمانوں کے اوپر ہے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرنے والی عورت کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اللہ تعالیٰ کی بلندی کی نشاندہی کی، جیسے دعا کے وقت ہاتھوں کا آسمان کی طرف اٹھانا اور اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا کی طرف نزول کا ذکر۔
صحابہ کرام اور تابعین کا موقف
صحابہ کرام جیسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور تابعین جیسے عکرمہ رحمہ اللہ اور ربیعہ بن ابو عبد الرحمن رحمہ اللہ کا بھی یہی نظریہ تھا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اور ان کا اجماع اسی پر تھا۔
مضمون میں متعدد احادیث اور اقوال سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے کا نظریہ قرآن، حدیث، اور اجماعِ امت کے مخالف ہے۔ اہل سنت والجماعت میں سے کوئی بھی اس نظریے کا قائل نہیں ہے۔ یہ عقیدہ ایک فطری حقیقت ہے جسے انسانوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خود ڈالا ہے، اور تمام انبیاء اور امتوں نے اسی کی تعلیم دی ہے۔
نتیجہ
اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا عقیدہ قرآن و سنت، صحابہ، تابعین اور امت کے سلف صالحین کا متفقہ اور فطری عقیدہ ہے، اور اس کے برعکس ہر جگہ موجود ہونے کا نظریہ ناقابلِ قبول اور باطل ہے۔