اللہ ظالموں کو فوراً سزا کیوں نہیں دیتا حکمتیں اور اسباق
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

اللہ تعالیٰ ظالموں کو فوراً سزا کیوں نہیں دیتا؟

یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو فوراً سزا کیوں نہیں دیتا۔ قرآن و حدیث میں اس کی کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، جو اللہ کے عدل، حکمت، اور آزمائش کے اصولوں کو واضح کرتی ہیں۔

 اللہ ظالموں کو فوراً کیوں نہیں پکڑتا

(1) اللہ کی سنت مہلت دینا ہے

اللہ تعالیٰ دنیا میں مہلت دیتا ہے تاکہ لوگ توبہ کر سکیں اور ان پر حجت پوری ہو جائے۔ اگر ہر گناہ پر فوراً سزا ملنے لگے، تو آزمائش کا مقصد ختم ہو جائے گا۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ
(سورہ ابراہیم: 42)

ترجمہ: "اور ہرگز یہ نہ سمجھو کہ اللہ ظالموں سے غافل ہے، وہ تو انہیں ایک ایسے دن تک مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں (خوف سے) کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔”

(2) اللہ فوراً پکڑتا بھی ہے، مگر اپنی حکمت سے

بعض اوقات اللہ دنیا میں ہی ظالموں کو پکڑ لیتا ہے، لیکن اس کا طریقہ مختلف ہوتا ہے، جیسے بیماری، ذلت، قحط، یا کسی اور آزمائش کی صورت میں۔

وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ ٱلْقُرَىٰ وَهِىَ ظَـٰلِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُۥٓ أَلِيمٌۭ شَدِيدٌ
(ہود: 102)

ترجمہ: "اور یہی ہے تیرے رب کی پکڑ جب وہ کسی بستی کو پکڑتا ہے جبکہ وہ ظالم ہو، بے شک اس کی پکڑ سخت اور دردناک ہے۔”

(3) آزمائش اور امتحان کا نظام

دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ اللہ ظالموں کو مہلت دیتا ہے تاکہ مظلوم بھی آزمائے جائیں کہ وہ صبر اور دعا کے ذریعے اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں یا نہیں۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا ٱلْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوْا۟ مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ ٱلْبَأْسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوا۟ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصْرُ ٱللَّهِ ۗ أَلَآ إِنَّ نَصْرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌۭ
(البقرہ: 214)

ترجمہ: "کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، جبکہ تمہیں ابھی وہ حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں کو پیش آئے؟ انہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں، اور وہ ایسے ہلا دیے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ خبردار! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔”

(4) ظالم کی رسی دراز کرنا اللہ کا امتحان ہوتا ہے

اللہ بعض ظالموں کو مہلت دیتا ہے تاکہ وہ اپنی سرکشی میں بڑھ جائیں اور پھر اچانک پکڑ میں آجائیں۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ”
(بخاری: 4686، مسلم: 2583)

ترجمہ: "اللہ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے، یہاں تک کہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔”

 تو پھر مظلوم کیا کرے

✔ صبر اور دعا کرے

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"اتَّقُوا دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهَا تُحْمَلُ عَلَى الغَمَامِ، يَقُولُ اللَّهُ: وَعِزَّتِي وَجَلَالِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ”
(مسند احمد: 8039)

ترجمہ: "مظلوم کی بددعا سے بچو، کیونکہ وہ بادلوں تک پہنچتی ہے، اور اللہ فرماتا ہے: میری عزت اور جلال کی قسم! میں ضرور تمہاری مدد کروں گا، چاہے کچھ دیر بعد ہو۔”

✔ اللہ پر بھروسہ رکھے

اللہ کی مدد آتی ہے، بس دیر ہو سکتی ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے فرعون کو تباہ کرنے میں وقت لگا، مگر جب اللہ کا حکم آیا تو فرعون سمندر میں ڈوب گیا۔

✔ اگر ممکن ہو تو ظالم کے خلاف قانونی، شرعی اور معاشرتی اقدامات کرے

اگر کوئی ظلم سہ رہا ہے، تو صرف صبر نہ کرے بلکہ شریعت اور قانون کے مطابق اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ یہ بھی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہے کہ ظلم کو روکا جائے۔

 نتیجہ

◈ اللہ فوراً ہر ظالم کو نہیں پکڑتا کیونکہ وہ مہلت دیتا ہے تاکہ وہ توبہ کر سکے یا اپنی سرکشی میں بڑھ کر بڑی سزا کا مستحق ہو جائے۔
◈ بعض اوقات ظالم کو دنیا میں ہی سزا ملتی ہے، اور بعض کو آخرت میں بدترین انجام بھگتنا ہوگا۔
◈ مظلوموں کو دعا، صبر، اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے، کیونکہ اللہ مظلوم کی فریاد کو رد نہیں کرتا۔
◈ ظالم کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے، چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔
اگر آپ پر کوئی ظلم ہو رہا ہے، تو میں آپ کی مزید رہنمائی بھی کر سکتا ہوں کہ آپ کس طرح اس کے خلاف عملی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں، اللہ آپ کے ساتھ ہے!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1