سوال:
جب انسان وضو کرے اور اعضاء وضو میں سے کسی عضو کو دھونا بھول جائے تو اس کاکیا حکم ہوگا؟
جواب:
جب انسان وضو کرے اور اعضاء وضو میں سے کسی عضو کو دھونا بھول جائے تو اگر تو اسے جلدی یاد آ جائے تو وہ اس عضو کو اور اس کے بعد دھوئے جانے والے اعضاء کو دھو سکے گا ۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے وضو کیا اور اپنا بایاں ہاتھ (کہنی سمیت ) دھونا بھول گیا ، اس نے اپنا دایاں ہاتھ (کہنی سمیت) دھویا ، پھر اپنے سر اور کانوں کا مسح کیا ، پھر اپنے پاؤں دھوے اور جب وہ پاؤں دھو کر فارغ ہوا تو اس کو یاد آیا کہ اس نے بایاں ہاتھ نہیں دھویا ہے تو ہم اس کو کہیں گے: بایاں ہاتھ دھو لو اور سر اور کانوں کا مسح کرو اور پاؤں کو دھو لو تاکہ وضو کی ترتیب قائم رہے ، پس بلاشبہ وضو کے لیے واجب ہے کہ اس کو اس طرح ترتیب سے کیا جائے جیسے اللہ عز وجل نے ترتیب کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ [5-المائدة: 6]
”تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھولو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھولو )“ ۔
لیکن اگر اس کو ایک لمبی مدت کے بعد یاد آیا تو وہ دوبارہ سے وضو کرے ۔
مثال: ایک شخص وضو کرتا ہے اور اپنا بایاں ہاتھ (کہنی سمیت) دھونا بھول جاتا ہے ، پھر اپنے وضو سے فارغ ہو کر کہیں چلا جاتا ہے یہاں تک کہ کافی وقت گزر جاتا ہے ، پھر اس کو یاد آتا ہے کہ اس نے وضو کرتے وقت بایاں ہاتھ نہیں دھویا تھا ، تو اس پر واجب ہے کہ وہ شروع سے وضو دھرائے ، کیونکہ اس نے پے در پے اعضاء وضو کو نہیں دھویا جبکہ اعضاء وضو کو پے در پے دھونا اس کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے ۔
لیکن یہ بات بھی جان لی جائے کہ اگر اس کو شک ہو یعنی وضو سے فارغ ہونے کے بعد اس کو اپنا دایاں یا بایاں ہاتھ دھونے میں یا کلی کرنے یا ناک صاف کرنے میں شک گزرے (کہ اس نے یہ کام کیے ہیں یا نہیں ) تو وہ اس شک کی طرف توجہ نہ دے بلکہ وہ نماز پڑھتا رہے اس میں کوئی حرج نہیں ، اور یہ اس لیے ہے کہ عبادات سے فارغ ہو کر ان کے متعلق شک ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ، کیونکہ اگر ہم اس کا اعتبار کریں گے تو ہم لوگوں پر وسوسوں کا ایک دروازہ کھول دیں گے اور ہر انسان اپنی عبادت کے بارے میں شک میں ہی مبتلا رہے گا ۔ پس یہ اللہ عزوجل کی رحمت ہے کہ جب عبادت سے فارغ ہونے کے بعد اس میں کوئی شک ہو تو اس کی طرف توجہ نہ دی جائے اور انسان اس کی فکر نہ کرے ، الا یہ کہ اس کو کسی نقص یا خرابی کا یقین ہو جائے ، کیونکہ خرابی کا تدارک کرنا اس پر واجب ہے ۔ واللہ اعلم
(محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ )