سوال : اسکند نافیہ اور اس کے اوپر شمال کے ممالک میں مسلمانوں کو شب و روز کے چھوٹے اور لمبے ہونے کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں۔ کیونکہ کبھی دن 22 گھنٹے کا ہوتا ہے اور رات دو گھنٹے کی، جبکہ دوسرے موسم میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک سائل کو یہ دشواری پیش آئی جو رمضان میں شام کے وقت وہاں پہنچا۔ اس سائل کا یہ بھی بیان ہے کہ وہاں کے باشندوں نے اسے بتایا کہ بعض علاقوں میں رات اور دن دونوں چھ چھ مہینے کے ہوتے ہیں، تو اس قسم کے ممالک میں صیام کی مقدار کیا ہو ؟ اور وہاں کے مسلم باشندے یا ملازمت اور تعلیم و تعلم کے لئے مقیم مسلمان صوم کیسے رکھیں ؟
جواب : ان ممالک میں جو مشکل ہے وہ صرف صوم کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ صلاۃ کے معاملہ میں بھی یہی دشواری ہے، پس اگر کسی ملک میں دن اور رات الگ الگ ہوتے ہیں تو اسی کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، خواہ دن بڑا ہو یا چھوٹا۔ لیکن اگر وہاں دن اور رات الگ الگ نہ ہو تے ہوں۔ مثلاً خطۂ قطب شمالی اور قطبِ جنوبی جن میں دن چھ مہینے کا ہوتا ہے اور رات چھ مہینے کی۔ تو ایسے مقامات کے لوگ اپنے صیام اور صلوات کے اوقات کا اندازہ کر کے ان کی ادائیگی کریں۔ لیکن اندازہ کس چیز سے کریں ؟ اس سلسلہ میں بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کے اوقات کا لحاظ کر کے اندازہ کریں، کیوں کہ مکہ تمام بستیوں کی اصل اور ان کی ماں (امّ) ہے، اس اعتبار سے وہ تمام بستیوں کا مرکز ہے۔ اس لئے کہ ماں (امّ) اس چیز کو کہتے ہیں جس کی پیروی کی جاتی ہے اسی سے امام ہے۔ شاعر نے کہا ہے :
علٰي رأسه أم له تقتديٰ بها
یعنی اس کے سر پر اس کی ماں ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے۔
اور بعض اہلِ علم کہتے ہیں کہ وہ لوگ متوسط ممالک کا اعتبار کریں پس رات کا اندازہ بارہ گھنٹے کا اور دن کا اندازہ بارہ گھنٹے کا کریں۔ کیونکہ شب و روز میں معتدل وقت یہی ہوتا ہے۔
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ اپنے ملک سے قریب ترین ملک کا اعتبار کریں جہاں رات و دن الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہی قول راجح ہے۔ اس لئے کہ ان سے قریب ترین ملک ہی ان کی اتباع کا زیادہ حقدار ہے۔ اور جغرافیائی لحاظ سے یہی ان کے آب و ہوا سے قریب تر ہے۔ اس اعتبار سے وہ اپنے سے قریب تر ملک کو دیکھیں جہاں شب و روز الگ ہوتے ہیں اور صیام و صلاۃ میں اس کی پابندی کریں۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “
جواب : ان ممالک میں جو مشکل ہے وہ صرف صوم کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ صلاۃ کے معاملہ میں بھی یہی دشواری ہے، پس اگر کسی ملک میں دن اور رات الگ الگ ہوتے ہیں تو اسی کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، خواہ دن بڑا ہو یا چھوٹا۔ لیکن اگر وہاں دن اور رات الگ الگ نہ ہو تے ہوں۔ مثلاً خطۂ قطب شمالی اور قطبِ جنوبی جن میں دن چھ مہینے کا ہوتا ہے اور رات چھ مہینے کی۔ تو ایسے مقامات کے لوگ اپنے صیام اور صلوات کے اوقات کا اندازہ کر کے ان کی ادائیگی کریں۔ لیکن اندازہ کس چیز سے کریں ؟ اس سلسلہ میں بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کے اوقات کا لحاظ کر کے اندازہ کریں، کیوں کہ مکہ تمام بستیوں کی اصل اور ان کی ماں (امّ) ہے، اس اعتبار سے وہ تمام بستیوں کا مرکز ہے۔ اس لئے کہ ماں (امّ) اس چیز کو کہتے ہیں جس کی پیروی کی جاتی ہے اسی سے امام ہے۔ شاعر نے کہا ہے :
علٰي رأسه أم له تقتديٰ بها
یعنی اس کے سر پر اس کی ماں ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے۔
اور بعض اہلِ علم کہتے ہیں کہ وہ لوگ متوسط ممالک کا اعتبار کریں پس رات کا اندازہ بارہ گھنٹے کا اور دن کا اندازہ بارہ گھنٹے کا کریں۔ کیونکہ شب و روز میں معتدل وقت یہی ہوتا ہے۔
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ اپنے ملک سے قریب ترین ملک کا اعتبار کریں جہاں رات و دن الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہی قول راجح ہے۔ اس لئے کہ ان سے قریب ترین ملک ہی ان کی اتباع کا زیادہ حقدار ہے۔ اور جغرافیائی لحاظ سے یہی ان کے آب و ہوا سے قریب تر ہے۔ اس اعتبار سے وہ اپنے سے قریب تر ملک کو دیکھیں جہاں شب و روز الگ ہوتے ہیں اور صیام و صلاۃ میں اس کی پابندی کریں۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “