سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام سے تبرک حاصل کرنا ثابت نہیں ہے۔ حالانکہ صحابہ، تابعین اور ائمہ دین جیسی عظیم شخصیات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ان کے پاس قرآن و حدیث کی نصوص بھی موجود تھیں، لیکن ان میں سے کسی نے بھی نامِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک حاصل کرنے کا عمل نہیں اپنایا۔
بعض لوگوں کا دعویٰ
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔ ان کے پاس اس دعوے کے لیے کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں، بلکہ ان کے دلائل غلو اور غیر معیاری ہیں۔ ذیل میں ان کے پیش کردہ دلائل کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
دلیل نمبر 1
ایک من گھڑت روایت سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جاتی ہے کہ جس نے اپنے بچے کا نام محمد تبرکاً رکھا، وہ اور اس کا بچہ جنتی ہوں گے۔ (فضائل التسمیہ لابن بکیر : 30)
تبصرہ
یہ روایت جھوٹی ہے اور اسے ایک ناقابل اعتبار شخص حامد بن حماد عسکری نے گھڑا ہے، جیسا کہ:
◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا: ’’اس روایت کو گھڑنے والا حامد بن حماد عسکری ہے۔‘‘
(تلخیص کتاب الموضوعات، ص: 35)
◄ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوعات میں شامل کیا ہے
(الموضوعات : 157/1)
◄ حافظ سیوطی رحمہ اللہ کا اس روایت کی سند کو "حسن” کہنا درست نہیں ہے۔
(اللالی المصنوعہ: 106/1)
دلیل نمبر 2
ایک اور روایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس کا نام محمد ہو، اسے آگ کا عذاب نہیں دوں گا۔ (معجم الشیوخ للذہبی : 42/3)
تبصرہ
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو جھوٹا قرار دیا اور کہا: ’’یہ نبیط کا نسخہ ہے جو کہ سراسر موضوع ہے۔‘‘ (معجم الشیوخ : 43/3)
علامہ محمد طاہر پٹنی حنفی نے بھی اسے تذکرۃ الموضوعات میں ذکر کیا ہے۔ (تذکرۃ الموضوعات: 89)
دلیل نمبر 3
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت میں ہے کہ جس کا نام محمد یا احمد ہو، وہ دوزخ میں نہیں جائے گا۔ (فضائل التسمیہ لابن بکیر: 1)
تبصرہ
یہ بھی ایک جھوٹی روایت ہے، جیسا کہ:
◄ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کہا: ’’اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔‘‘
(الموضوعات : 157/1)
◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کے راوی احمد بن نصر بن عبداللہ ذارع کو جھوٹا قرار دیا ہے۔
(میزان الاعتدال: 313/2)
◄ شیخ الاسلام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نارِ جہنم سے بچنے کے لیے ایمان اور اعمال صالحہ کی ضرورت ہے، نہ کہ محض نام سے کوئی فرق پڑتا ہے۔‘‘
(المنار المنیف، ص: 57)
دلیل نمبر 4
حافظ سیوطی نے اپنی کتاب میں ایک مرفوع روایت ذکر کی ہے: ’’قیامت کے دن ایک منادی پکارے گا: اے محمد! کھڑے ہو جائیں اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جائیں۔ اس پر ہر وہ شخص جس کا نام محمد ہو گا، یہ سمجھے گا کہ منادی نے اسے پکارا ہے۔ محمد نام کی برکت کی وجہ سے کسی کو جنت میں جانے سے روکا نہیں جائے گا۔‘‘ (اللآلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ: 97/1)
تبصرہ
یہ روایت جھوٹی اور منقطع ہے، کیونکہ:
◄ حافظ سیوطی نے خود لکھا ہے: ’’یہ روایت معضل ہے، اس کے کئی راویوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔‘‘
(اللآلي المصنوعۃ: 97/1)
◄ ابن عراق کنانی نے بھی اسے جھوٹی قرار دیا ہے اور کہا: ’’یہ روایت بلاشبہ موضوع ہے۔‘‘
(تنزیہ الشریعۃ: 226/1)
دلیل نمبر 5
ایک روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جاتی ہے: ’’جب تم بچے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزت کرو، اس کے لیے مجلس کشادہ رکھو اور اس کے چہرے کی کوئی برائی نہ کرو۔‘‘ (فضائل التسمیہ لابن بکیر: 26)
تبصرہ
یہ روایت بھی جھوٹی ہے، کیونکہ:
◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’منکر المتن‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔
(سیر اعلام النبلاء: 386/9)
◄ عبداللہ بن احمد بن عامر، جو اس روایت کا راوی ہے، اسے غیر معتبر اور جاہل کہا گیا ہے۔
(سؤالات السہمي للدارقطني: 339)
◄ اس روایت کی دوسری اور تیسری سندیں بھی جھوٹی اور غیر مستند ہیں۔
دلیل نمبر 6
ایک اور روایت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے: ’’جب تم بچے کا نام محمد رکھو، تو اس کے ساتھ سختی نہ کرو، نہ اس کی تنقیص کرو، اور نہ ہی اس کی برائی بیان کرو۔ محمد نام والے گھر اور مجلس میں برکت ہوتی ہے۔‘‘ (سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ: 2574)
تبصرہ
یہ روایت بھی جھوٹی ہے، کیونکہ:
◄ اس کے راوی سفیان بن وکیع جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔
◄ اس کے دیگر راوی جیسے ابو الزبیر مدلس ہیں اور ان کے سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
دلیل نمبر 7
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک روایت یہ ہے: ’’جو قوم مشورے کے لیے جمع ہو اور ان کے درمیان کوئی شخص محمد نام کا موجود ہو، لیکن اسے مشورے میں شامل نہ کیا جائے تو اس مشورے میں برکت نہیں ہوگی۔‘‘ (فضائل التسمیہ لابن بکیر: 9)
تبصرہ
یہ روایت سخت ضعیف ہے، کیونکہ:
◄ اس کے ایک راوی احمد بن حفص جزری کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
◄ ایک دوسری سند میں احمد الشامی کا ذکر ہے، جس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ منکر الحدیث اور غیر معروف شخص ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال: 141/1)
◄ اسی طرح دیلمی کی سند میں بھی ’’مجہول‘‘ راوی موجود ہے۔
(اللالی المصنوعہ: 96/1)
◄ ابن النجار کی تاریخ میں بھی ایک جھوٹی سند کا ذکر ہے، جس کا راوی ابوبکر محمد بن احمد متہم قرار دیا گیا ہے۔
(میزان الاعتدال: 461/3)
دلیل نمبر 8
محمد بن عثمان عمری اپنے والد سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں: ’’اگر تم میں سے کسی کے گھر میں ایک، دو یا تین محمد نامی شخص ہوں، تو انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 54/5)
تبصرہ
یہ روایت ’’مرسل‘‘ ہے اور اس وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ عثمان عمری صحابی نہیں ہیں اور وہ بغیر کسی واسطے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کر رہے ہیں۔
دلیل نمبر 9
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک اور روایت ہے: ’’جس بھی دسترخوان پر کھانا کھایا جائے اور جس مجلس میں بیٹھا جائے، اگر اس میں میرا نام ہو، تو ہر دن انہیں دو مرتبہ پاک کیا جائے گا۔‘‘ (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 275/1)
تبصرہ
یہ روایت جھوٹی ہے، کیونکہ:
◄ اس کے راوی احمد بن کنانہ شامی کو امام ابن عدی رحمہ اللہ ’’منکر الحدیث اور غیر معروف‘‘ قرار دیتے ہیں۔
(الکامل: 274/1)
◄ اس روایت کی صحت کے لیے امام ابن عدی رحمہ اللہ کے استاذ یحییٰ بن عبدالرحمن کی توثیق بھی ضروری ہے۔
حوالہ جات
(الکامل في ضعفاء الرجال: 141/1)
(اللالی المصنوعہ: 96/1)
(میزان الاعتدال: 461/3)
(الطبقات الکبرٰی: 54/5)
(الکامل: 274/1)
دلیل نمبر10
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک مرفوع روایت یہ ہے: ’’سیدنا آدم علیہ السلام کے علاوہ ہر جنتی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے پکارا جائے گا۔‘‘ (المجروحین لابن حبان: 76/3)
تبصرہ
یہ روایت جھوٹی ہے، کیونکہ:
◄ اس روایت کو گھڑنے کا کارنامہ وہب بن حفص حرانی نے انجام دیا، جیسا کہ:
◄ امام ابو عروبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ شخص جھوٹا تھا اور احادیث گھڑا کرتا تھا۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 344/8)
◄ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا: ’’اس کی ساری روایات جھوٹی اور غیر محفوظ ہیں۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال: 347/8)
◄ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی کہا: ’’یہ شخص اپنی طرف سے احادیث گھڑا کرتا تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب: 463/13)
◄ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس روایت کو الموضوعات
(257/3)
میں شامل کیا ہے۔
◄ اس کی ایک دوسری سند بھی موجود ہے، لیکن وہ بھی جھوٹی ہے، کیونکہ اس کے راوی شیخ بن خالد صوفی بصری بھی جھوٹی احادیث گھڑتے تھے۔
دلیل نمبر 11
ایک اور روایت امیرالمومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کی گئی ہے: ’’جنتیوں میں سے کسی کی کوئی کنیت نہیں ہو گی سوائے سیدنا آدم علیہ السلام کے، جن کی کنیت بہ طور تعظیم و تکریم ابو محمد ہو گی۔‘‘ (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 566/7)
تبصرہ
یہ روایت بھی جھوٹی ہے، کیونکہ:
◄ اس کے راوی ابو الحسن محمد بن محمد بن الاشعث کوفی نے خود اسے گھڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے، جیسا کہ:
◄ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے۔
◄ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ شخص علویات نامی کتاب میں موجود روایات گھڑنے والا ہے۔‘‘
(سؤالات السہمي للدارقطني: 52)
حوالہ جات
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 344/8)
(المجروحین لابن حبان: 76/3)
(الکامل في ضعفاء الرجال: 566/7)
(سؤالات السہمي للدارقطني: 52)
دلیل نمبر 12
ایک روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہے: ’’جو اپنے ہونے والے بچے کا نام محمد رکھنے کا ارادہ کرے، اللہ تعالیٰ اسے بیٹا عطا فرمائے گا، اور جس گھر میں محمد نامی شخص ہو، اللہ تعالیٰ اس گھر میں برکت ڈال دیتا ہے۔‘‘ (فضائل التسمیۃ بأحمد ومحمّد لابن بکیر: 11)
تبصرہ
یہ روایت جھوٹی ہے، کیونکہ:
◄ محمد بن عبدالرحمن جدعانی، جو اس روایت کا راوی ہے، جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
◄ اس میں ابن جریج کی تدلیس (چھپانا) بھی پائی جاتی ہے۔
◄ ابن جریج سے اوپر کی سند غائب ہے۔
◄ اس روایت میں اور بھی کئی خرابیاں موجود ہیں۔
دلیل نمبر 13
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک اور روایت یہ ہے: ’’جس کا کوئی حمل ہو اور وہ اس کے لیے محمد نام رکھنے کی نیت کرے، تو اللہ تعالیٰ اس بچے کو بیٹا بنا دے گا، اگرچہ وہ بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (اللالی المصنوعۃ للسیوطي: 95/1)
تبصرہ
یہ بھی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ:
◄ اس کے راوی وہب بن وہب کو محدثین کرام نے کذاب (جھوٹا)، دجال، اور اللہ کا دشمن قرار دیا ہے، جو اپنی طرف سے حدیثیں گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا تھا۔
(میزان الاعتدال للذہبی: 353/4)
◄ زید بن مروان تک سند کی بھی تحقیق درکار ہے۔
دلیل نمبر14
ہشام بن عروہ تابعی سے منسوب ایک واقعہ ہے کہ وہ امیر المومنین منصور کے پاس گئے اور منصور نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اپنے بچے کا نام محمد کیوں رکھا؟ ہشام نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی برکت کی وجہ سے۔ (فضائل التسمیۃ لابن بکیر: 13)
تبصرہ
یہ قول بھی جھوٹا ہے، کیونکہ:
◄ اس روایت کی سند درست نہیں ہے، نصر بن ابو الفتح خراسانی اور محمد بن عبداللہ بن رزیق دونوں مجہول (نامعلوم) ہیں۔
دلیل نمبر15
عطا خراسانی سے منسوب ایک قول ہے: ’’جس بچے کا نام اس کی ماں کے پیٹ میں محمد رکھا جائے، وہ بیٹا ہی ہو گا۔‘‘ (الأجوبۃ المرضیّۃ للحافظ السخاوي: 381/1)
تبصرہ
یہ قول بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول کہ ’’جس گھر میں محمد نام کا شخص ہو، اس میں برکت پھیل جاتی ہے،‘‘ بھی بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔
دلیل نمبر16
وہب بن وہب کی روایت: ’’میں نے اپنے سات بچوں کا نام دوران حمل ہی محمد رکھنے کی نیت کی، جس کی برکت سے سب لڑکے پیدا ہوئے۔‘‘ (اللآلي المصنوعۃ: 95/1)
تبصرہ
یہ روایت سراسر جھوٹی ہے، کیونکہ:
◄ وہب بن وہب خود محدثین کے نزدیک کذاب (جھوٹا) اور دجال ہے، جو اپنی طرف سے روایات گھڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا تھا۔ اس کی بات کا اعتبار کوئی اس جیسا ہی کر سکتا ہے۔
اہل علم کی تصریحات
محمد نام کی فضیلت اور اس سے برکت حاصل کرنے کے متعلق جتنی بھی روایات منسوب کی گئی ہیں، وہ سب جھوٹی اور موضوع ہیں۔
◄ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس باب میں جتنی روایات بیان کی گئی ہیں، ان میں کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔‘‘
(الموضوعات: 158/1)
◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’یہ ساری روایات جھوٹی ہیں۔‘‘
(میزان الاعتدال: 129/1)
◄ حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس بارے میں پورا ایک کتابچہ ہے جو کہ سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے۔‘‘
(المنار المنیف: 52)
◄ علامہ حلبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’بعض علما کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے، اور اس بارے میں جتنی بھی روایات آئی ہیں، وہ سب من گھڑت ہیں۔‘‘
(السیرۃ الحلبیۃ: 121/1)
◄ علامہ زرقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’بعض حفاظ کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے۔‘‘
(شرح الزرقاني علی المواہب اللدنیۃ: 307/7)
◄ ابن عراق کنانی فرماتے ہیں: ’’علامہ اُبّی نے کہا کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی بھی حدیث ثابت نہیں ہے، بلکہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس بارے میں جتنی بھی روایات ہیں، وہ سب کی سب من گھڑت ہیں۔‘‘
(تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ: 174/1)
نتیجہ
اس پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ مبارک "محمد” سے تبرک حاصل کرنے کے متعلق جتنی بھی روایات پیش کی گئی ہیں، وہ تمام جھوٹی، من گھڑت اور غیر مستند ہیں۔ اس موضوع پر بیان کی جانے والی کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے اور ان کی سند میں ضعیف، مجہول یا جھوٹے راوی شامل ہیں۔
محدثین کرام جیسے حافظ ابن الجوزی، حافظ ذہبی، حافظ ابن قیم الجوزیہ، علامہ حلبی، علامہ زرقانی، اور ابن عراق کنانی نے ان روایات کو سختی سے رد کیا ہے اور ان کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ محمد نام کی فضیلت اور تبرک کے حوالے سے تمام احادیث موضوع ہیں۔
یہ روایات قابل اعتماد نہیں ہیں اور اس کی کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے کہ محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو رکھنے سے کسی خاص برکت یا اجر کا حصول ممکن ہو۔
لہٰذا، اسم "محمد” سے تبرک حاصل کرنے کا عقیدہ محض قیل و قال پر مبنی ہے اور اس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ نجات اور برکت کا دارومدار صرف ایمان اور اعمال صالحہ پر ہے، نہ کہ محض نام رکھنے سے۔