اسلام میں وراثت کی تقسیم اور مساوات
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

کیا میت کی وراثت صرف اس کے لڑکوں میں تقسیم کی جائے گی اور کیا آدمی اپنی زندگی میں اپنا مال صرف اپنے بیٹوں کو دے سکتا ہے، باقی ترکہ کو محروم کر کے؟ کتاب و سنت میں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب :

آدمی کو اپنی زندگی میں یا اس کے مرنے کے بعد مال صرف لڑکوں میں تقسیم کرنا اور لڑکیوں، عورتوں اور بوڑھوں کو اس سے محروم رکھنا یہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں وراثت صرف خاندان کے طاقتور مرد حضرات میں تقسیم کی جاتی تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ جنگوں اور خاندان کے دفاع کے لیے یہ کام آتے ہیں، جبکہ عورتیں اور بوڑھے مرد تو دفاع کا کام نہیں کر سکتے، لہذا انھیں مال میں سے کچھ بھی نہیں دیا جائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں حصہ داروں کے حصص مقرر کر دیے ہیں، مرد کے ساتھ عورت کو بھی حصہ دار بنایا ہے، بلکہ عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے مختلف حصص عطا کیے ہیں۔ اسی طرح اگر آدمی اپنی زندگی میں اپنا سارا مال یا کچھ تقسیم کرنا چاہتا ہے تو پھر بھی عدل و انصاف کو مد نظر رکھے گا اور اولاد میں برابر تقسیم کرے گا، لڑکیوں کو محروم نہیں رکھے گا۔ اس پر صحیح بخاری میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کی حدیث دلالت کرتی ہے، لہذا وراثت صرف لڑکوں میں تقسیم کر کے باقی ورثا کو محروم کرنا حدود اللہ سے تجاوز اور ظلم ہے، اس سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے