اسلام میں قاتل کے وراثتی حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

ایک شخص نے اپنے والد کی جائداد پر قبضہ کرنے کے لیے اسے قتل کر ڈالا، کیا ایسا شخص شرعاً مقتول باپ کی جائداد کا حق دار بن سکتا ہے؟ باپ کی جائداد اس کے باقی ترکہ میں تقسیم کرتے ہوئے اس قاتل بیٹے کو بھی حصہ دیا جائے گا یا نہیں؟

جواب :

شریعت اسلامیہ نے قتل و غارت کی غایت درجہ نفی کی ہے اور اعمال ایمان کے اوصاف جمیلہ اور خصائل حمیدہ بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ﴾
(الأنعام: 151)
”وہ کسی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل اللہ نے حرام قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ۔“
حق کے ساتھ قتل میں قاتل کو مقتول کے عوض قصاص میں قتل کرنا ہے، یا شادی شدہ کو زنا کے ارتکاب پر رجم کر کے قتل کرنا ہے، یا کوئی شخص مرتد ہو جائے تو اس کا قتل اس میں شامل ہے اور یہ مسلم حکمران کا کام ہے۔ صورت مذکورہ میں قتل حق میں سے نہیں ہے اور شریعت کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ قاتل کو مقتول کا وارث نہیں بنایا جاتا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
القاتل لا يرث
(ترمذی کتاب الفرائض، باب ما جاء في إبطال ميراث القاتل ح 2109، ابن ماجہ ابواب الدیات، باب القاتل لا یرث ح 2645-2735)
”قاتل وارث نہیں بن سکتا۔“
لہذا قاتل بیٹا مقتول باپ کی وراثت سے محروم ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے