رقص، جاہل، بے عقل، اور بے دین صوفیوں کی ایجاد کردہ ایک بدعت ہے، جسے علماء کے اجماع سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ سلف صالحین اور ائمہ دین میں سے کسی نے بھی اس عمل کی تائید یا اس پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کی مذمت اور ممانعت ہی کی ہے۔
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (متوفی 855ھ) کا قول
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے صوفیوں کی بدعات پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا:
"ولا اعتبار لما أبدعتہ الجھلۃ من الصّوفیۃ فی ذلک (أی الغناء وغیرہ ) ، فإنّک إذا تحقّقت أقوالھم فی ذلک ورأیت أفعالھم وقفت علی آثار الزنادقۃ منھم ۔”
یعنی، "جاہل صوفیوں نے غناء وغیرہ کے نام پر جو بدعات نکالی ہیں، ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ جب آپ ان کے اقوال کی تفتیش کریں گے اور ان کے افعال دیکھیں گے تو آپ کو ان میں بے دین وزندیق لوگوں کی علامات ملیں گی۔” (عمدۃ القاری : 21/401)
رقص کا شرعی حکم
رقص ایک غیر شرعی رسم ہے جو دین کے نام پر جاری کی گئی ہے، اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ (متوفی 597ھ) کا بیان
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وقد انعقد اجتماع العلماء أنّ من ادّعی الرّقص قربہ إلی اللّٰہ تعالیٰ فقد کفر ۔”
یعنی، "اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ جو شخص رقص کو قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیتا ہے، وہ کافر ہے۔” (صید الخاطر لابن الجوزی : ص 154)
علامہ احمد طحطاوی حنفی (متوفی 1233ھ) کا قول
علامہ طحطاوی حنفی لکھتے ہیں:
"وأمّا الرّقص والتّصفیق والصّریخ وضرب الأوتار والضّجّ والبوق الّذی یفعلہ بعض من یدّعی التّصوّف ، فإنّہ حرام بالإجماع ، لأنّھا زیّ الکفّار ۔”
یعنی، "رقص کرنا، تالیاں بجانا، شور شرابہ، ہارمونیم بجانا، چیخ وپکار، اور بِگل بجانا، جو کہ صوفیت کے کچھ دعویداروں کا معمول ہے، یہ بالاجماع حرام ہے کیونکہ یہ کفار کی مشابہت ہے۔” (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص 174، صفۃ الاذکار)
حصکفی حنفی کا بیان
حصکفی حنفی لکھتے ہیں:
"من یستحلّ الرّقص قالوا بکفرہ ، ولا سیّما بالدّفّ یلھو ویزمر ۔”
یعنی، "جو شخص رقص کو حلال سمجھتا ہے، علماء کے نزدیک وہ کافر ہے، خاص طور پر جب وہ کھیل تماشا اور ساز بجانے کے ساتھ ہوتا ہے۔” (الدر المختار : 4/446)
ابنِ عابدین شامی حنفی (1198-1252ھ) کی وضاحت
ابن عابدین شامی حنفی اس قول کی تشریح میں لکھتے ہیں:
"والمراد بہ التّمایل والخفض والرّفع بحرکات موزونۃ کما یفعلہ بعض من ینتسب إلی التّصوّف ، وقد نقل فی البزازیۃ من القرطبیّ إجماع الأئمّۃ علی حرمۃ الغناء وضرب القضیب والرّقص ۔”
یعنی، "اس رقص سے مراد جھومنا اور موزون حرکات کے ساتھ اوپر نیچے ہونا ہے، جیسا کہ بعض تصوف کے دعویدار کرتے ہیں۔ بزازیہ میں علامہ قرطبی نے غناء، ڈھول پیٹنے، اور رقص کرنے کی حرمت پر ائمہ کے اجماع کو نقل کیا ہے۔” (فتاوی شامی : 4/446)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ (600-671ھ) کی رائے
مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"استدلّ العلماء بھذہ الآیۃ علی ذمّ الرّقص وتعاطیہ ، قال الإمام أبو الوفاء ابن عقیل : قد نصّ القرآن علی النّھی عن الرّقص ، فقال : ( وَلَا تَمْشِ فِیْ الْأَرْضِ مَرَحًا ) وذمّ المختال والرّقص أشدّ المرح والبطر ۔”
یعنی، "اس آیت کریمہ سے علمائے کرام نے رقص اور اس میں مشغول ہونے کی مذمت پر استدلال کیا ہے۔ امام ابوالوفاء ابنِ عقیل کا قول ہے کہ قرآن کریم نے رقص کی ممانعت پر صراحت کی ہے: ( وَلَا تَمْشِ فِیْ الْأَرْضِ مَرَحًا ) (اور زمین پر اکڑ کر مت چلو)، جھومنا (ناچنا) اور رقص کرنا تکبر و غرور سے بھی زیادہ (گناہ میں) شدید ہے۔” (تفسیر القرطبی : 10/263)
قرآنی آیت کا حوالہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَھَا ھُزُوًا أُولٰئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ ) (لقمان : 31/6)
یعنی، "اور کچھ لوگ بے ہودہ باتیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو اللہ کے راستے سے گمراہ کریں اور اسے مذاق بنائیں۔ یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔”
رقص کو "لہو الحدیث” کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے، اس لیے یہ ممنوع اور حرام ہے۔
گمراہ صوفیوں کی کوششیں
اس کے باوجود، بعض گمراہ صوفی اس بدعتِ قبیحہ اور شنیعہ کو شرعی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، جیسا کہ:
دلیل نمبر 1: سیدنا ایوب علیہ السلام کا واقعہ
سیدنا ایوب علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(أُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ) (صۤ: 38/42)
”(ہم نے حکم دیا اے ایوب!) اپنا پاؤں ماریں، (دیکھو) یہ نہانے کے لیے ٹھنڈا اور پینے کو (میٹھا پانی ہے)۔”
علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"استدلّ بعض الجہّال المتزھّدۃ وطغام المتصوّفۃ بقولہ تعالیٰ لأیّوب: (أُرْکُضْ بِرِجْلِکَ) علیٰ جواز الرّقص ۔۔۔”
یعنی، "بعض زہد وتقویٰ کی ملمع سازی کرنے والے جاہلوں اور صوفی ازم کا دعویٰ کرنے والے کمینے لوگوں نے سیدنا ایوب علیہ السلام کو دیے گئے حکم (أُرْکُضْ بِرِجْلِکَ) (صۤ: 38/42) سے رقص کے جواز پر دلیل نکالنے کی کوشش کی ہے۔” (تفسیر القرطبی: 15/215)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ گمراہ صوفیوں کے ردّ میں لکھتے ہیں:
"وھذا الاحتجاج بارد، لأنّہ لو کان أمر بضرب الرّجل فرحا کان لھم فیہ شبھۃ، وإنّما أمر بضرب الرّجل لینبع الماء، قال ابن عقیل: أین الدّلالۃ فی مبتلی أمر عند کشف البلاء بأن یضرب برجلہ الأرض لینبع الماء إعجازا من الرّقص، ولئن جاز أن یکون تحریک رجل قد أنحلھا تحکم الھوام دلالۃ علی جواز الرّقص فی الإسلام جاز أن یجعل قولہ تعالیٰ لموسیٰ: (اِضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ) دلالۃ علی ضرب الجماد بالقضبان، نعوذ باللّٰہ من التّلاعب بالشّرع۔”
یعنی، "یہ استدلال بالکل بے بنیاد ہے، کیونکہ اگر پاؤں مارنے کا حکم خوشی کی بنا پر دیا گیا ہوتا تو اس میں استدلال کی کچھ گنجائش ہو سکتی تھی۔ لیکن سیدنا ایوب علیہ السلام کو یہ حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ زمین سے پانی نکل آئے۔ ابنِ عقیل نے کہا کہ ایک بیمار آدمی کو، جسے معجزہ کے طور پر پانی نکالنے کے لیے زمین پر پاؤں مارنے کا حکم دیا گیا، اس سے رقص کی دلیل کیسے لی جا سکتی ہے؟ اگر ایوب علیہ السلام کے کمزور پاؤں کو حرکت دینے سے اسلام میں رقص کا جواز لیا جا سکتا ہے تو پھر موسیٰ علیہ السلام کو پتھر پر عصا مارنے کے حکم سے بھی جمادات کو مارنے کا جواز لیا جا سکتا ہے۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ شریعت کو کھیل تماشا بنایا جائے!” (تلبیس ابلیس لابن الجوزی: 1/230)
دلیل نمبر 2: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"وکان یوم عید یلعب فیہ السُّودان بالدّرق والحراب، فإمّا سألت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم وإمّا قال: أتشتھین تنظرین؟ قلت: نعم! فأقامنی ورائہ، خدّی علی خدّہ، وھو یقول: دونکم یا بنی أرفدۃ، حتّی إذا مللت، قال: حسبک، قلت: نعم! قال: فاذھبی۔”
یعنی، "عید کا دن تھا، حبشی لوگ ڈھالوں اور نیزوں کے ساتھ جنگی کھیل کھیل رہے تھے۔ یا تو میں نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: ‘کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟’ میں نے کہا: ‘جی ہاں!’ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کیا، میرا رخسار آپ کے رخسار مبارک سے ملا ہوا تھا، آپ فرما رہے تھے: ‘کھیلتے رہو، اے بنی ارفدہ!’ جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا: ‘بس؟’ میں نے عرض کی: ‘جی ہاں!’ آپ نے فرمایا: ‘اچھا جاؤ۔'” (صحیح بخاری: 950، صحیح مسلم: 892/20)
صحیح مسلم میں مزید روایت ہے:
"جاء حبش یزفنون فی یوم عید فی المسجد۔”
یعنی، "ایک بار عید کے دن حبشی لوگ مسجد میں جنگی مشقیں کرنے لگے۔”
انس رضی اللہ عنہ کی روایت
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"کانت الحبشۃ یزفنون بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم ویرقصون ویقولون: محمّد عبد صالح، فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم: ما یقولون؟ قالوا: یقولون: محمّد عبد صالح۔”
یعنی، "حبشی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جنگی مشقیں کر رہے تھے اور رقص کر رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: ‘محمد صلی اللہ علیہ وسلم نیک آدمی ہیں۔’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ‘یہ کیا کہہ رہے ہیں؟’ صحابہ نے جواب دیا کہ یہ کہہ رہے ہیں: ‘محمد صلی اللہ علیہ وسلم نیک آدمی ہیں۔'” (مسند الامام احمد: 3/152، وسندہ صحیح، وصححہ ابن حبان: 5870)
صحیح ابن حبان میں یہ الفاظ ہیں:
"ویتکلّمون بکلام لا یفھمہ۔”
"وہ ایسی بات کر رہے تھے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ نہیں پا رہے تھے۔”
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک اور روایت
"وھم یلعبون ویرقصون۔”
"وہ کھیل رہے تھے اور ناچ رہے تھے۔” (المعجم الاوسط للطبرانی: 11359)
اس کی سند سخت "ضعیف” ہے، کیونکہ:
- امام طبرانی رحمہ اللہ کے شیخ ہاشم بن مرثد کی توثیق ثابت نہیں ہے۔
- قرظہ راوی "مجہول” اور غیر معروف ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (المیزان: 3/387) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (التقریب: 5535) نے اسے "لا یُعرف” (غیر معروف) کہا ہے، اس لیے سند سخت "ضعیف” ہے۔
جمہور علماء کی وضاحت
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852ھ) لکھتے ہیں:
"واستدلّ قوم من الصّوفیۃ بحدیث الباب علی جواز الرّقص وسماع آلات الملاھی، وطعن فیہ الجمھور باختلاف المقصدین، فإنّ لعب الحبشۃ بحرابھم کان للتّمرین علی الحرب، فلا یحتجّ بہ للرّقص فی اللّھو۔”
"صوفیوں کے ایک گروہ نے اس حدیث سے رقص اور آلات موسیقی کے سماع پر استدلال کیا ہے۔ جمہور علماء نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ دونوں کاموں کا مقصد مختلف ہے، کیونکہ حبشی لوگ تو جنگی تربیت کے لیے نیزوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، لہٰذا اس سے عام لہو ولعب میں رقص کرنے پر کوئی دلیل نہیں لی جا سکتی۔” (فتح الباری لابن حجر: 6/553)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (م 597ھ) لکھتے ہیں:
"زفن الحبشۃ نوع من المشی، یفعل عند اللّقاء للحرب۔”
"حبشی لوگوں کے رقص سے مراد ایک قسم کی چال ہے، جو جنگ میں دشمن سے سامنا کرتے وقت چلائی جاتی ہے۔” (تلبیس ابلیس لابن الجوزی: 1/230)
یہی بات علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔ (تفسیر قرطبی: 15/215)
حافظ نووی رحمہ اللہ کی شرح
حافظ نووی رحمہ اللہ یزفنون کی شرح میں فرماتے ہیں:
"معناہ یرقصون، وحملہ العلماء علی التّوثّب بسلاحھم ولعبھم بحرابھم علی قریب من ھیئۃ الرّقص، لأنّ معظم الرّوایات إنّما فیھا لعبھم بحرابھم، فتتأوّل ھذہ اللّفظۃ علی موافقۃ سائر الرّوایات۔”
"اس کا مطلب رقص کرنا ہے، لیکن علماء نے اس سے مراد اسلحہ کے ساتھ اچھلنا کودنا اور نیزوں کے ساتھ کھیلنا لیا ہے، جو رقص کی کیفیت کے قریب ہے۔ چونکہ اکثر روایات میں ان کے نیزوں کے ساتھ کھیلنے کا ذکر ہے، اس لیے اس لفظ کی وضاحت باقی روایات کے مطابق ہی کی جائے گی۔” (شرح صحیح مسلم للنووی: 6/186)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"بینما الحبشۃ یلعبون عند رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم بحرابھم إذ دخل عمر بن الخطّاب، فأھوٰی إلی الحصباء یحصبھم بھا، فقال لہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم: یا عمر! دعھم۔”
"حبشی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے نیزوں کے ساتھ جنگی کھیل کھیل رہے تھے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کنکریوں کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ انہیں ماریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘اے عمر! انہیں چھوڑ دو۔'” (مسند الامام احمد: 2/308، صحیح بخاری: 2901، صحیح مسلم: 893)
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ حبشی لوگ عید کے دن خوشی کے موقع پر جنگی مشقوں میں مشغول تھے۔ وہ یہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لیے نہیں کر رہے تھے۔ اسی لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روکنے کی کوشش کی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کر دیا۔ اگر یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا حصہ ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (نعوذ باللہ!) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ہوتے کہ انہیں یہ عمل پسند نہ آیا۔
بعض لوگ جہالت اور غلو کی وجہ سے اس عمل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں رقص قرار دیتے ہیں، جبکہ محدثین کرام اسے جنگی تربیت کی مشق سمجھتے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے یہ مشقیں دیکھیں یہاں تک کہ میرا دل بھر گیا اور میں خود وہاں سے چلی گئی۔ (مسند الامام احمد: 6/33، صحیح بخاری: 949، صحیح مسلم: 892)
علامہ قرطبی کی وضاحت
حافظ ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی (578-656ھ) لکھتے ہیں:
"وأمّا لعب الحبشۃ فی المسجد، فکان لعبا بالحراب والدّرق تواثبا ورقصا بھما، وھو من باب التّدریب علی الحرب والتّمرین والتّنشیط علیہ، وھو من قبیل المندوب، ولذلک أباحہ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی المسجد۔”
"حبشی لوگوں کا مسجد میں کھیلنا دراصل نیزوں اور ڈھالوں کے ساتھ اچھل کود تھا، جو جنگی تربیت، ٹریننگ، اور مشق کا حصہ تھا۔ یہ مستحب عمل تھا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اس کی اجازت دی۔” (المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم للقرطبی: کتاب الجمعۃ، باب ما یقرأ بہ فی صلاۃ العیدین)
دلیل نمبر 3: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا واقعہ
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"أتینا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم أنا وجعفر وزید، فقال لزید: أنت أخونا ومولانا، فحجل، وقال لجعفر: أشبھت خَلْقی وخُلُقی، فحجل وراء حجل زید، ثمّ قال لی: أنت منّی وأنا منک، فحجلت وراء حجل جعفر۔”
یعنی، "میں، جعفر بن ابی طالب اور زید بن حارثہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا، ‘آپ ہمارے بھائی اور دوست ہیں’، اس پر زید نے حجل (ایک پاؤں پر اچھلنا) کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا، ‘آپ شکل و صورت اور اخلاق میں میرے مشابہ ہیں’، اس پر جعفر نے زید کے پیچھے حجل کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا، ‘آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں’، تو میں نے جعفر کے پیچھے حجل کیا۔” (مسند الامام احمد: 1/108، السنن الکبریٰ للبیہقی: 8/6، 10/226)
تبصرہ:
اس روایت کی تین سندیں ہیں، ایک مسند احمد میں اور دو بیہقی میں، لیکن یہ سب "ضعیف” ہیں۔
- مسند احمد کی سند میں ابواسحاق السبیعی کی تدلیس کی بنا پر یہ روایت "ضعیف” ہے۔
- بیہقی کی پہلی سند (8/5-6) میں اگرچہ ابواسحاق السبیعی نے سماع کی تصریح کی ہے، لیکن اس میں ایک راوی عبداللہ بن محمد بن سعید بن ابی مریم سخت "ضعیف” ہے۔
عبداللہ بن محمد بن سعید بن ابی مریم کی ضعف:
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عبد اللّٰہ بن محمّد بن سعید بن أبی مریم مصریّ، یحدّث عن الفریابیّ وغیرہ بالبواطیل۔۔۔”
"عبداللہ بن محمد بن سعید بن ابی مریم مصری ہے۔ یہ فریابی وغیرہ سے باطل روایات بیان کرتا ہے۔”
مزید فرماتے ہیں:
"وعبد اللّٰہ بن محمّد بن سعید بن أبی مریم ھذا إمّا أن یکون مغفّلا لا یدری ما یخرج من رأسہ أو یتعمّد، فإنّی رأیت لہ غیر حدیث ممّا لم أذکرہ أیضا ھاھنا غیر محفوظ۔”
"یہ عبداللہ بن محمد بن سعید بن ابی مریم راوی یا تو اتنا غیر حاضر دماغ تھا کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سر سے کیا نکل رہا ہے یا پھر یہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا تھا، کیونکہ میں نے جو احادیث یہاں ذکر نہیں کیں، ان میں بھی اس کی کئی غیر محفوظ احادیث دیکھی ہیں۔” (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 4/255)
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وھو ضعیف جدّا۔”
"یہ سخت ضعیف راوی ہے۔” (مجمع الزوائد: 2/389)
مزید اسناد کی کمزوریاں:
اس میں دوسری علت یہ ہے کہ ابواسحاق السبیعی "مختلط” ہیں۔ ان سے روایت کرنے والے زکریا بن ابی زائدہ ہیں، جو کہ اختلاط کے بعد ان سے روایت کرتے ہیں۔
دوسری سند (10/266) میں اسرائیل بن یونس، جو ابواسحاق سے اختلاط سے پہلے روایت کرتے ہیں، لیکن یہاں ابواسحاق "عن” سے بیان کر رہے ہیں، اور وہ "مدلس” بھی ہیں۔ اس وجہ سے یہ روایت تمام سندوں سے ناقابل قبول ہے۔
بیہقی رحمہ اللہ کا موقف:
حافظ بیہقی رحمہ اللہ (م 458ھ) لکھتے ہیں:
"وفی ھذا إن صحّ دلالۃ علی جواز الحجل، وھو أن یرفع رجلا ویقفز علی الأخری من الفرح، فالرّقص الّذی یکون علی مثالہ یکون مثلہ فی الجواز۔”
"اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اس میں حجل (ایک پاؤں پر اچھلنے) کی اجازت ہے، یعنی خوشی سے ایک ٹانگ اٹھا کر دوسری پر ناچا جائے، تو جو رقص اس طرح کا ہوگا، وہ بھی اسی کے جواز کے مطابق ہوگا۔” (السنن الکبریٰ للبیہقی: 10/226)
چونکہ یہ روایت بلحاظ سند ثابت نہیں ہو سکی، اس لیے اس کی دلالت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ دوسری بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ حافظ بیہقی رحمہ اللہ بھی اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتے تھے، ورنہ وہ تردّد کا اظہار نہ کرتے۔
دلیل نمبر 4: محمد بن علی بن الحسین الباقر رحمہ اللہ کا بیان
محمد بن علی بن الحسین الباقر رحمہ اللہ (56-118ھ) فرماتے ہیں:
"إنّ ابنۃ حمزۃ لتطوف بین الرّجال إذ أخذ علیّ بیدھا، فألقاھا إلی فاطمۃ فی ھودجھا، قال: فاختصم فیھا علیّ وجعفر وزید بن حارثۃ، حتّی ارتفعت أصواتھم، فأیقظوا النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم من نومہ، قال: ھلمّوا، أقض بینکم فیھا وفی غیرھا، فقال علیّ: ابنۃ عمّی، وأنا أخرجتھا، وأنا أحقّ بھا، وقال جعفر: ابنۃ عمّی وخالتھا عندی، وقال زید: ابنۃ أخی، فقال فی کلّ واحد قولا رضیہ، فقضی بھا لجعفر وقال: الخالۃ الوالدۃ، فقام جعفر، فحجل حول النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، دار علیہ، فقال النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم: ما ھذا؟ قال: شیء رأیت الحبشۃ یصنعونہ بملوکھم۔”
یعنی، "حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی مردوں کے درمیان گھوم رہی تھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہودج میں ڈال دیا۔ پھر اس کے بارے میں سیدنا علی، جعفر، اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم جھگڑنے لگے، یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگا دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ‘آؤ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔’ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا، ‘یہ میری چچازاد ہے اور میں نے اسے ساتھ لیا ہے، اس لیے میں اس کا زیادہ حقدار ہوں۔’ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا، ‘یہ میری چچازاد ہے اور اس کی خالہ میرے عقد میں ہے۔’ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا، ‘یہ میری بھتیجی ہے۔’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے لیے ایسے الفاظ کہے جو انہیں راضی کر گئے اور فیصلہ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے حق میں کیا اور فرمایا، ‘خالہ، ماں کی طرح ہوتی ہے۔’ اس پر سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ اٹھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد خوشی سے حجل (ایک پاؤں پر اچھلنا) کرنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ‘یہ کیا ہے؟’ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، ‘یہ ایسا عمل ہے جو میں نے حبشیوں کو ان کے بادشاہوں کے ساتھ کرتے دیکھا تھا۔'” (طبقات ابن سعد: 4/35-36، مصنف ابن ابی شیبہ: 10/170، مختصراً)
تبصرہ:
اس روایت کی سند "ضعیف” ہے، کیونکہ:
- مرسل روایت: محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ تابعی ہیں اور وہ براہِ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کر رہے ہیں، اس لیے یہ روایت "مرسل” ہونے کی وجہ سے "ضعیف” ہے۔
- حفص بن غیاث کی تدلیس: حفص بن غیاث "مدلس” ہیں، اور ثقہ مدلس جب بخاری و مسلم کے علاوہ "عن” سے روایت کرے تو وہ "ضعیف” ہوتی ہے۔ اس روایت میں سماع کی تصریح نہیں ہے۔
دلیل نمبر 5: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا واقعہ
محمد بن عمر الواقدی روایت کرتے ہیں:
"حدّثنی ابن أبی حبیبۃ عن داو،د بن الحصین عن عکرمۃ عن ابن عبّاس، قال: فلمّا قضیٰ بھا لجعفر قام جعفر، فحجل حول رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم، فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلّم: ما ھذا یا جعفر! قال: یا رسول اللّٰہ! کان النّجاشیّ إذا أرضیٰ أحدًا قام، فحجل حولہ۔”
یعنی، "سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہ کی بیٹی کا فیصلہ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے حق میں کیا تو وہ کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد خوشی سے ناچنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ‘اے جعفر! یہ کیا ہے؟’ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے عرض کی، ‘اے اللہ کے رسول! نجاشی جب کسی کو خوش کرتا تو وہ شخص کھڑا ہوتا اور نجاشی کے گرد ناچتا، اسی لیے میں نے ایسا کیا ہے۔'” (المغازی لمحمد بن عمر الواقدی: 2/738، تاریخ دمشق لابن عساکر: 19/361، کنز العمال: 14033)
تبصرہ:
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
محمد بن عمر الواقدی کی کمزور حیثیت:
- محمد بن عمر الواقدی جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف، متروک، اور کذاب” ہے۔
- حافظ ابنِ ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وقد ضعّفہ الجمہور۔” "جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہوا ہے۔” (البدر المنیر لابن الملقن: 5/324)
- حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اسے "متروک” قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب: 6175)
- امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کتب الوقدی کذب۔” "واقدی کی کتابیں جھوٹ کا پلندہ ہیں۔” (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 8/21، وسندہ، صحیح)
- امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لأنّہ عندی ممن یضع الحدیث۔” "میرے نزدیک یہ جھوٹی احادیث گھڑنے والا ہے۔” (الجرح والتعدیل: 8/21)
- امام احمد رحمہ اللہ نے اسے "کذاب” قرار دیا ہے۔ (الکامل لابن عدی: 6/241، وسندہ، حسن)
- امام بخاری، امام ابو زرعہ، امام نسائی، اور امام عقیلی نے اسے "متروک الحدیث” کہا ہے، جبکہ امام یحییٰ بن معین اور جمہور نے اسے "ضعیف” قرار دیا ہے۔
- امام ابنِ عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یروی أحادیث غیر محفوظۃ والبلاء منہ، ومتون أخبار الواقدیّ غیر محفوظۃ، وھو بیّن الضّعف۔” "یہ غیر محفوظ احادیث بیان کرتا ہے، اور یہ مصیبت اسی کی طرف سے ہے۔ واقدی کی احادیث کے متون غیر محفوظ ہیں، وہ واضح ضعیف راوی ہے۔” (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 6/243)
داؤد بن الحصین کی روایت پر اعتراض:
داؤد بن الحصین کی عکرمہ سے روایت کے بارے میں امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ما روی عن عکرمۃ فمنکر الحدیث۔” "جو احادیث یہ عکرمہ سے بیان کرتا ہے، وہ منکر حدیث ہیں۔” (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 3/409، وسندہ، صحیح)
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا موقف:
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وأمّا الحجل فھو نوع من المشی یفعل عند الفرح، فأین ھو من الرّقص؟”
"حجل ایک قسم کی چال ہے جو خوشی کے وقت کی جاتی ہے، اس کا رقص سے کیا تعلق؟” (تلبیس ابلیس لابن الجوزی: 1/230)
دلیل نمبر 6: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا واقعہ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"جب سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استقبال کیا۔ جب سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو ناچنے لگے، یعنی اپنی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں ایک ٹانگ پر چلنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔” (دلائل النبوۃ للبیہقی: 4/246، ح: 1596)
تبصرہ:
یہ روایت جھوٹی اور ناقابل قبول ہے، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
امام بیہقی رحمہ اللہ کا اعتراف:
امام بیہقی رحمہ اللہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
"فی إسنادہ إلی الثّوریّ من لا یعرف۔”
"اس حدیث کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جو مجہول ہے۔”
امام سفیان ثوری کی تدلیس:
امام سفیان ثوری "مدلس” ہیں، اور یہاں انہوں نے سماع کی صراحت نہیں کی ہے، جو سند کو کمزور بناتا ہے۔
ابوالزبیر کی تدلیس:
ابوالزبیر بھی "مدلس” ہیں اور یہاں "عن” کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، جو کہ بخاری و مسلم کے علاوہ قبول نہیں ہوتا۔
نوٹ:
بنتِ حمزہ کا واقعہ صحیح بخاری (2699 وغیرہ) میں موجود ہے، لیکن ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناچنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے ان روایات پر ضعف کا جو حکم لگایا گیا ہے، وہ صرف "ناچ” والے سیاق کے متعلق ہے۔
الحاصل:
رقص ممنوع اور حرام ہے، اور اس کے جواز پر کوئی معتبر شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔