اسلام میں امن و امان کی اہمیت اور اس کے قیام کے قرآنی و نبوی اصول
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

امن وامان انسانی زندگی کی سب سے بڑی اور بنیادی نعمتوں میں سے ہے۔ اگر کسی معاشرے میں امن قائم ہو تو وہاں کے باسی سکون واطمینان کی زندگی گزارتے ہیں۔ مرد و عورت، امیر و غریب، حاکم و محکوم، سبھی خوشحال رہتے ہیں۔ کوئی کسی سے خوف زدہ نہیں ہوتا، ہر فرد اپنی جان، مال، عزت اور اہل وعیال کے لحاظ سے مطمئن ہوتا ہے۔ امن کے ماحول میں لوگ اپنے فرائض کو بہتر طور پر انجام دیتے ہیں اور معاشرہ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
اس کے برعکس جہاں بدامنی اور خوف و دہشت کا راج ہو، وہاں انسان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ نہ جان محفوظ، نہ مال ودولت، نہ عزت وناموس۔ لوگ خوف میں زندگی بسر کرتے ہیں، راتوں کا سکون چھن جاتا ہے اور معاشرہ انتشار و تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اسلام نے امن وامان کو وہ مقام دیا ہے کہ اسے ایمان اور نعمتِ رزق کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے ہم اس مضمون میں قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

امن وامان کی اہمیت

❀ اگر معاشرہ پرامن ہو تو لوگ چین و سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔
❀ چھوٹے بڑے، مرد و عورت، مالدار اور فقیر سب اطمینان میں رہتے ہیں۔
❀ ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو آسانی سے ادا کرتا ہے۔
❀ اس کے برعکس جہاں بدامنی ہو، وہاں زندگی دوبھر ہو جاتی ہے۔
❀ خوف و ہراس اور لاقانونیت کے باعث نہ جانیں محفوظ رہتی ہیں، نہ عزتیں، نہ مال۔

بدامنی ایک ایسی لعنت ہے جو انسان سے زندگی کا لطف چھین لیتی ہے۔ جب کسی کی عزت پامال ہو جائے، محنت کی کمائی چند لمحوں میں لٹ جائے، یا کسی گھرانے پر ظلم ٹوٹ پڑے تو انسان موت کو زندگی پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے معاشرے کے امن کو برقرار رکھنے کو ایمان کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا: امن و رزق کی بنیاد

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اہل وعیال کو بے آب وگیاہ وادی (مکہ مکرمہ) میں چھوڑ کر جانے لگے تو انہوں نے سب سے پہلے امن کی دعا کی:

﴿ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَـٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَہْلَہُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْہُم بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ﴾

[البقرۃ: 126]

ترجمہ: “اور جب ابراہیمؑ نے دعا کی کہ اے میرے رب! اس جگہ کو امن والا شہر بنا دے اور اس کے رہنے والوں میں سے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائیں، انہیں پھل عطا فرما۔”

یہ آیت بتاتی ہے کہ امن و رزق دونوں کسی معاشرے کی کامیابی کے دو لازمی ستون ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے پہلے امن کی دعا کی، پھر رزق کی — اس سے واضح ہوتا ہے کہ رزق کی فراوانی بھی تب ہی مفید ہے جب معاشرہ امن وامان سے بھرپور ہو۔

مکہ مکرمہ: امن کی سرزمین

حضرت ابراہیمؑ کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو ایسا پرامن مقام بنایا کہ وہاں شکار کرنا، درخت کاٹنا، حتی کہ گری ہوئی چیز اٹھانا بھی حرام قرار دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾

[الحج: 25]

ترجمہ: “اور جو کوئی مسجد حرام میں ظلم کے ساتھ کجروی کرنے کا ارادہ کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔”

یہ تھا مکہ کا امن، جبکہ اس کے اردگرد کے علاقے بدامنی اور قتل و غارت کے گڑھ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ مکہ کو اپنے اس احسان کی یاد دہانی کرواتے ہوئے فرمایا:

﴿ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَكْفُرُونَ ﴾

[العنکبوت: 67]

ترجمہ: “کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو پرامن بنایا، جب کہ ان کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں؟ پھر بھی یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں؟”

اللہ تعالیٰ نے اہلِ مکہ کو امن کی نعمت یاد دلائی اور بتایا کہ یہ امن اس کی عبادت اور اطاعت کا انعام ہے۔ لیکن کفار مکہ نے ناشکری کرتے ہوئے شرک کو اختیار کیا اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو ٹھکرایا۔

نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں امن و امان کی اہمیت

اللہ تعالیٰ نے اہلِ مکہ کو بارہا امن کی نعمت یاد دلاتے ہوئے اس پر شکر گزاری کی تلقین کی۔ اسی نعمت کا ذکر ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَٰذَا الْبَيْتِ ۝ الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ﴾

[قریش: 3-4]

ترجمہ: “پس وہ اس گھر (خانہ کعبہ) کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف سے امن دیا۔”

یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رزق اور امن کو اپنی دو عظیم نعمتوں کے طور پر بیان کیا۔ رزق جسم کی ضرورت ہے اور امن دل کی راحت، دونوں کے بغیر انسانی زندگی سکون حاصل نہیں کر سکتی۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد: تین بنیادی نعمتیں

نبی کریم ﷺ نے انہی دو نعمتوں کے ساتھ ایک تیسری نعمت صحت و تندرستی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

( مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، آمِنًا فِي سِرْبِهِ، عِندَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا )

[الترمذی: 2346، ابن ماجہ: 4141، وحسنہ الألبانی]

ترجمہ: “جس شخص نے صبح اس حال میں کی کہ وہ جسمانی طور پر تندرست ہو، اپنے ماحول میں پرامن ہو اور ایک دن کی خوراک موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا جمع کر دی گئی۔”

یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ انسان کی حقیقی خوش بختی مال و دولت یا دنیاوی جاہ و حشمت میں نہیں، بلکہ صحت، امن اور روزی کی کفایت میں ہے۔ یہ تینوں جب اکٹھے ہوں تو انسان دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب شمار ہوتا ہے۔

خونِ مسلم کی حرمت

اسلام نے نہ صرف امن کی تلقین کی بلکہ خونِ مسلم کی حرمت کو مکہ مکرمہ کی حرمت کے برابر قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

( إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَٰذَا فِي شَهْرِكُمْ هَٰذَا فِي بَلَدِكُمْ هَٰذَا )

[مسلم: 1218]

ترجمہ: “بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں، جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارا یہ مہینہ اور تمہارا یہ شہر حرمت والا ہے۔”

اس فرمان میں نبی ﷺ نے مسلمانوں کے خون اور مال کو حرمت والا قرار دیا۔ یعنی کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا یا اس کا مال تباہ کرنا ویسا ہی گناہ ہے جیسا مکہ مکرمہ میں حرمت شکنی کرنا۔

یوم النحر کا خطبہ اور قتلِ ناحق کی ممانعت

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے دن منیٰ میں ارشاد فرمایا:

( فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَٰذَا فِي بَلَدِكُمْ هَٰذَا فِي شَهْرِكُمْ هَٰذَا… )

[بخاری: 4406، مسلم: 1679]

ترجمہ: “بے شک تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں، جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارا یہ شہر اور تمہارا یہ مہینہ حرمت والا ہے۔”

پھر آپ ﷺ نے فرمایا:

“تم اپنے رب سے ملو گے، وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ دیکھو! میرے بعد کافر یا گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔”

یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ ایک مسلمان کا خون بہانا ایسا جرم ہے جو انسان کو کفر یا ضلالت کی سرحد تک پہنچا دیتا ہے۔ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کی جان، عزت اور مال کی حفاظت کرے۔

قتلِ ناحق: پوری انسانیت کا قتل

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

﴿ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ﴾

[المائدہ: 32]

ترجمہ: “جس نے کسی ایک جان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔ اور جس نے کسی جان کو بچایا، تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔”

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ قتلِ ناحق صرف فرد کا نقصان نہیں بلکہ پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، اور اس میں کسی بے گناہ کی جان لینا سب سے بڑا گناہ ہے۔

مومن کے قتل پر قرآن کی سخت وعید

اسلام نے ایک مومن کے قتل کو نہایت ہی سنگین جرم قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا ﴾

[النساء: 93]

ترجمہ: “اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اس پر لعنت ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا گیا ہے۔”

یہ آیت ایک قاتل کے لیے پانچ ہولناک وعیدوں پر مشتمل ہے:
① جہنم کی سزا۔
② جہنم میں ہمیشہ رہنا۔
③ اللہ کا غضب۔
④ اللہ کی لعنت۔
⑤ عظیم عذاب کی تیاری۔

ایسی شدید وعید کسی اور گناہ کے بارے میں اس انداز سے نہیں آئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مومن کا خون بہانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس قدر ناپسندیدہ عمل ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اگر کسی نے مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا، پھر توبہ کر لی، ایمان لایا اور نیک عمل کیے تو کیا اس کی توبہ قبول ہو گی؟
انہوں نے فرمایا:

“وہ ہلاک ہو گیا! اس کے لیے ہدایت کیسے ممکن ہے، جبکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
( يَجِيءُ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُتَعَلِّقٌ بِرَأْسِ صَاحِبِهِ، يَقُولُ: رَبِّ، سَلْ هَذَا لِمَ قَتَلَنِي؟ )

ترجمہ: ’’قیامت کے دن قاتل و مقتول آئیں گے، مقتول اپنے قاتل کے سر سے چمٹا ہوا کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟’”
[ابن ماجہ: 2621، وصححہ الألبانی]

پھر ابن عباسؓ نے فرمایا:

“اللہ کی قسم! یہ آیت ‘وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا…’ نازل ہوئی اور اللہ نے اسے منسوخ نہیں کیا۔”

یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ مومن کا ناحق قتل ناقابلِ معافی جرم ہے جب تک مقتول کے وارث یا خود اللہ تعالیٰ معاف نہ کرے۔

کلمہ گو مسلمان کا خون حلال نہیں

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

( لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللّٰهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ )

[متفق علیہ]

ترجمہ: “کسی مسلمان کا خون، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور میں اس کا رسول ہوں، حلال نہیں، سوائے تین صورتوں کے:
① شادی شدہ زانی،
② قاتل،
③ دین چھوڑنے والا اور جماعت سے الگ ہونے والا۔”

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اسلام کسی بھی حالت میں قتلِ ناحق کی اجازت نہیں دیتا۔

مومن کے خون کی عظمت

حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

( لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللّٰهِ مِنْ قَتْلِ مُؤْمِنٍ بِغَيْرِ حَقٍّ )

[ابن ماجہ: 2619، والترمذی: 1395، وصححہ الألبانی]

ترجمہ: “دنیا کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادہ ہلکا ہے کہ کسی مومن کو ناحق قتل کر دیا جائے۔”

یعنی اگر پوری دنیا تباہ ہو جائے تو بھی اللہ کے نزدیک وہ ایک مومن کے ناجائز قتل سے کم تر سانحہ ہے۔ یہ بیان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مومن کی جان اللہ کے نزدیک کتنی عظیم حرمت رکھتی ہے۔

اجتماعی جرم: ایک مومن کے قتل میں سب شریک ہوں

حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

( لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَكَبَّهُمُ اللّٰهُ فِي النَّارِ )

[الترمذی: 1398، وصححہ الألبانی]

ترجمہ: “اگر آسمان و زمین والے (سب کے سب) کسی مومن کے خون میں شریک ہوں، تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔”

یہ حدیث قتلِ مومن کی سنگینی اور اجتماعی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کسی بھی درجے میں ظلم و قتل کے عمل میں شامل ہونا جہنم کا سبب ہے۔

قیامت کے دن سب سے پہلے خون کا فیصلہ ہوگا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

( أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ )

[متفق علیہ]

ترجمہ: “قیامت کے دن سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔”

یہ اعلان بتاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک انسانی جان کا احترام سب سے مقدم ہے۔ لہٰذا جو مسلمان اپنے بھائی کا خون بہائے گا، اسے سب سے پہلے حساب کے لیے پیش کیا جائے گا۔

حرمت والے خون سے دامن بچانا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

( مَنْ لَقِيَ اللّٰهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَلَمْ يَتَنَدَّ بِدَمٍ حَرَامٍ، دَخَلَ الْجَنَّةَ )

[ابن ماجہ: 2618، وصححہ الألبانی]

ترجمہ: “جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا ہو اور اس نے حرمت والا خون نہ بہایا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔”

یہ حدیث ہمیں دو بنیادی اصول دیتی ہے:
① توحید پر قائم رہنا۔
② حرمت والے خون سے اجتناب۔
جو ان دونوں کی حفاظت کرے، اسے جنت کی ضمانت ہے۔

فساد فی الارض اور دہشت گردی کی مذمت

اسلام سلامتی، امن، اور اخوت کا دین ہے۔ اس نے معاشرے میں بدامنی پھیلانے، خوف و ہراس پیدا کرنے، یا بے گناہوں کے قتل کو سختی سے حرام قرار دیا ہے۔ جو لوگ امن و امان کو تباہ کرتے، بم دھماکوں، خودکش حملوں یا قتل و غارت گری کے ذریعے خوف پھیلاتے ہیں، وہ دراصل زمین میں فساد برپا کرنے والے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کا خون، مال اور عزت اتنی ہی حرمت رکھتی ہے جتنی مکہ مکرمہ، ذو الحجہ اور یوم عرفہ کی۔ چنانچہ کسی مسلمان کی جان لینا یا اس کے مال و جائیداد کو تباہ کرنا مکہ کی حرمت پامال کرنے کے مترادف ہے۔

فساد پھیلانے والوں کی سزا

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے لیے سخت سزا مقرر فرمائی ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾

[المائدہ: 33]

ترجمہ: “جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کیا جائے، یا سولی پر چڑھایا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں، یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔”

یہ آیت ان تمام لوگوں کے لیے واضح تنبیہ ہے جو بم دھماکوں، قتل و غارت اور دہشت گردی کے ذریعے معاشرے کے امن کو برباد کرتے ہیں۔

بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا شرعی حکم

آج کے دور میں بعض گمراہ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ حکومت یا فوج ظلم کرتی ہے، لہٰذا ہم خودکش حملوں کے ذریعے بدلہ لیں گے۔
لیکن اسلام میں کسی بھی حالت میں بے گناہوں کو قتل کرنا جائز نہیں۔
خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں عموماً عام لوگ مارے جاتے ہیں، وہ عورتیں، بچے، بزرگ اور وہ شہری جن کا ان جھگڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ایسے معصوموں کا خون بہانا نہ صرف ظلم بلکہ اسلام کے نام کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔

اسلام نے کسی بھی ظلم کے جواب میں ظلم کی اجازت نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ﴾

[الأنعام: 164]

ترجمہ: “کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔”

لہٰذا کسی حکومت یا فوج کے ظلم کے بدلے میں بے گناہوں کو نشانہ بنانا سراسر ناجائز ہے۔

دہشت گردی کا انجام

یہ حقیقت ہے کہ ایسے افراد کی کارروائیوں کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو عالمی سطح پر “دہشت گرد” کہا جاتا ہے۔ ان کے اعمال دشمنانِ اسلام کے پروپیگنڈے کو تقویت دیتے ہیں اور منبر و محراب کو بدنام کرتے ہیں۔ جب ایسے افراد اپنی نسبت دین کی طرف کرتے ہیں اور اپنے اعمال پر اصرار کرتے ہیں تو وہ دراصل اسلام کے چہرے کو مسخ کرتے ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان دانشمندی سے کام لیں، ان گمراہ سوچوں سے دور رہیں، اور امت کے امن و استحکام کے لیے دعاگو ہوں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:

( اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ )

[بخاری و مسلم]

ترجمہ: “مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔”

جو مسلمان اپنے بھائیوں کو ایذا پہنچاتا ہے، خوف و ہراس پھیلاتا ہے یا ظلم کرتا ہے، وہ اس فرمانِ نبوی کے خلاف عمل کرتا ہے۔

ظلم اور فساد کا رد عمل

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حکمران ظلم کرتے ہیں، اس لیے ہم بھی ظلم کا جواب ظلم سے دیں۔ لیکن قرآن وسنت میں ایسی سوچ کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللّٰهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ﴾

[الحشر: 19]

ترجمہ: “اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا، تو اللہ نے انہیں خود ان کا آپ بھلا دیا۔”

جو شخص اللہ کے حکم کو چھوڑ کر انتقام کی راہ پر چلتا ہے، وہ خود اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔

اہلِ ایمان کے لیے ہدایت

جو لوگ فساد اور قتل و غارت چھوڑ کر اصلاح اور امن کا راستہ اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے قرآن میں خوشخبری ہے:

﴿ وَاللّٰهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ ﴾

[یونس: 25]

ترجمہ: “اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف دعوت دیتا ہے۔”

پس جو دنیا میں امن قائم کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی اس دعوت کو قبول کرتے ہیں۔ اور جو بدامنی پھیلاتے ہیں، وہ اللہ کے دشمن قرار پاتے ہیں۔

امن و امان کے قیام کے اسباب

(قرآن و سنت کی روشنی میں)

اسلام نے جہاں بدامنی، قتل و غارت اور فساد فی الارض کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، وہیں امن کے قیام کے ایسے اسباب بھی واضح کیے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ایک معاشرہ سکون و سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ آج جب امتِ مسلمہ فتنوں میں گھری ہوئی ہے اور امن و اطمینان سے محروم نظر آتی ہے، تو لازم ہے کہ ہم قرآن و سنت سے ان اسباب کو تلاش کریں جن کے ذریعے حقیقی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔

❶ ایمان — امن کی بنیاد

امن و امان کا پہلا اور سب سے اہم سبب ایمان ہے۔ ایمان کے بغیر حقیقی امن ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾

[الأنعام: 48]

ترجمہ: “پھر جو ایمان لائے اور اصلاح کر لی، تو ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔”

ایمان امن کا سرچشمہ ہے۔ جب دل اللہ پر یقین اور آخرت کے خوف سے لبریز ہو، تو انسان کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ جو مومن اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرتا ہے، وہ خود بھی مطمئن رہتا ہے اور دوسروں کے لیے امن کا ذریعہ بنتا ہے۔

مومنین کی صفات

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مومنین کی چند صفات بیان فرمائی ہیں جو امن و ایمان کے باہمی تعلق کو واضح کرتی ہیں:

﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ۝ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ۝ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴾

[الأنفال: 2-4]

ترجمہ: “سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل لرز اٹھتے ہیں، اور جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مومن ہیں جن کے لیے ان کے رب کے ہاں درجات، مغفرت اور عزت والی روزی ہے۔”

ان پانچ صفات — خشیت، یقین، توکل، نماز اور انفاق — کے مجموعے سے ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں ظلم و بغاوت نہیں بلکہ عدل و امن قائم ہوتا ہے۔

ایمان و امن کا باہمی تعلق

ایمان اور امن لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں ایمان ہوگا، وہاں امن خود بخود پیدا ہوگا۔ جب ایمان کمزور ہوگا، تو بدامنی، خوف اور فساد پھیل جائے گا۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ جب نئے مہینے کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

( اَللّٰهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالإِسْلَامِ، رَبُّنَا وَرَبُّكَ اللّٰهُ )

[السلسلۃ الصحیحۃ: 1816]

ترجمہ: “اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ! اس چاند کو ہم پر امن و ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما۔ ہمارا اور (اے چاند!) تیرا رب اللہ ہی ہے۔”

اس دعا میں نبی ﷺ نے امن کو ایمان کے ساتھ جوڑا، گویا یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔

❷ شرک سے اجتناب اور خالص عبادتِ الٰہی

ایمان کے بعد امن کے قیام کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ تمام مسلمان خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور شرک سے مکمل طور پر بچیں۔

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:

﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾

[النور: 55]

ترجمہ: “اور تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا، جیسے ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے دین کو مضبوط کرے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا، اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔”

یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ خالص عبادتِ الٰہی اور توحید امن کے قیام کی ضمانت ہے۔ اگر شرک معاشرے میں سرایت کر جائے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و امن چھن جاتے ہیں۔

شرک سے پاک ایمان ہی حقیقی امن کا باعث

اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴾

[الأنعام: 82]

ترجمہ: “جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم (یعنی شرک) سے آلودہ نہیں کیا، انہی کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔”

یہ آیت بتاتی ہے کہ شرک سے پاک ایمان ہی امن کا ضامن ہے۔ لہٰذا جب تک امتِ مسلمہ خالص توحید کی طرف رجوع نہیں کرے گی، حقیقی امن حاصل نہیں ہوگا۔

❸ دعا — امن حاصل کرنے کا روحانی ذریعہ

دعا مومن کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے۔ جس طرح رزق، صحت اور دیگر نعمتیں اللہ تعالیٰ سے طلب کی جاتی ہیں، اسی طرح امن و امان بھی دعا کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

( اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالإِكْرَامِ )

[مسلم]

ترجمہ: “اے اللہ! تو سلامتی والا ہے، اور تجھ ہی سے سلامتی ہے۔ تو بابرکت ہے اے بزرگی اور عزت والے۔”

یہ دعا اس حقیقت کی علامت ہے کہ سلامتی اور امن صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ صبح و شام یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

( اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اَللّٰهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اَللّٰهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي )

[ابو داؤد، ابن ماجہ]

ترجمہ: “اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں معافی اور عافیت مانگتا ہوں۔ اے اللہ! اپنے دین، دنیا، اہل و عیال اور مال میں عافیت عطا فرما۔ اے اللہ! میرے عیبوں پر پردہ ڈال اور میرے خوف کو امن میں بدل دے۔ اے اللہ! میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں اور اوپر سے حفاظت فرما، اور میں تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں کہ نیچے سے اچانک ہلاک کیا جاؤں۔”

یہ دعائیں اس امر کی تعلیم دیتی ہیں کہ امن و سلامتی انسان کے اپنے اقدامات سے زیادہ اللہ کی توفیق اور حفاظت پر منحصر ہے۔

❹ اخوت و بھائی چارہ

امن کے قیام کا ایک اہم ذریعہ مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ، اَلتَّقْوَى هَاهُنَا – وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ – بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ: دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ )

[مسلم: 2564]

ترجمہ: “مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے رسوا کرتا ہے، اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے (سینے کی طرف اشارہ کیا)۔ آدمی کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔”

یہ حدیث معاشرتی عدل، احترام، اور محبت کے اصول سکھاتی ہے۔ اگر مسلمان ایک دوسرے کے حقوق کا پاس کریں تو معاشرے میں کبھی بدامنی نہیں پھیل سکتی۔

اسی طرح نبی ﷺ نے فرمایا:

( لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ )

[بخاری: 13، مسلم: 45]

ترجمہ: “تم میں سے کوئی شخص (کامل) ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔”

یہ تعلیم محبت، ہمدردی اور انصاف کی بنیاد ہے، جو امن و سکون کا لازمی جزو ہیں۔

❺ نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا

امر بالمعروف و نہی عن المنکر (نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) اسلامی معاشرے کے امن کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
اگر والدین، اساتذہ، علمائے کرام، حکمران، اور ہر فرد اپنی سطح پر یہ فریضہ انجام دے، تو نہ صرف جرائم ختم ہوں گے بلکہ امن و انصاف کی فضا قائم ہو گی۔

قرآن کہتا ہے:

﴿ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ ﴾

[آل عمران: 110]

ترجمہ: “تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”

اگر ہر سطح پر یہ فریضہ زندہ ہو جائے تو معاشرہ ظلم، ناانصافی اور بدامنی سے پاک ہو جائے۔

❻ ایذاء رسانی سے اجتناب

امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دوسروں کو تکلیف پہنچانا ہے۔ اگر ہر شخص یہ عزم کر لے کہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا تو پورا معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:

( خَيْرُكُمْ مَنْ يُرْجَىٰ خَيْرُهُ وَيُؤْمَنُ شَرُّهُ، وَشَرُّكُمْ مَنْ لَا يُرْجَىٰ خَيْرُهُ وَلَا يُؤْمَنُ شَرُّهُ )

[ترمذی: 2263، وصححہ الألبانی]

ترجمہ: “تم میں سے بہترین وہ ہے جس سے خیر کی امید رکھی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں، اور بدترین وہ ہے جس سے خیر کی امید نہ ہو اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ ہوں۔”

اسی طرح فرمایا:

( اِضْمَنُوا لِي سِتًّا مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنُ لَكُمُ الْجَنَّةَ… )

[احمد، ابن حبان]

ترجمہ: “تم مجھے اپنی طرف سے چھ باتوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں:
جب بات کرو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو، امانت ادا کرو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، نظریں جھکاؤ، اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔”

یہ چھ اصول اگر معاشرے میں عام ہو جائیں تو ظلم، چوری، قتل اور بدامنی کا خاتمہ ہو جائے۔

❼ حدودِ الٰہی کا نفاذ

امن کے قیام کا آخری اور اہم سبب اللہ کی حدود کا نفاذ ہے۔
جب مجرم کو اس کے جرم کی شرعی سزا ملتی ہے تو دوسرے عبرت حاصل کرتے ہیں اور معاشرہ امن میں بدل جاتا ہے۔

❀ اگر قاتل کو قصاصاً قتل کیا جائے تو قتل و خون ریزی رک جائے۔
❀ اگر چور کا ہاتھ کاٹا جائے تو لوگوں کے مال محفوظ ہوں۔
❀ اگر زانی مرد و عورت کو سزا دی جائے تو عزتیں محفوظ رہیں۔
❀ اگر شرابی اور نشہ آور چیزوں کے استعمال پر حد جاری ہو تو جرائم کم ہو جائیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴾

[البقرہ: 179]

ترجمہ: “اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو!”

یہی شرعی نظامِ عدل معاشرے کے امن و استحکام کی ضمانت ہے۔

مضمون کا خلاصہ یا حاصلِ کلام

امن و امان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ ایمان، توحید، اخوت، دعا، امر بالمعروف، ایذاء سے اجتناب اور حدودِ الٰہی کا نفاذ وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے معاشرہ امن کا گہوارہ بنتا ہے۔ جو قومیں ان تعلیمات کو چھوڑ دیتی ہیں، ان سے امن و سکون چھن جاتا ہے۔

نتیجہ

اسلام ایک کامل اور متوازن دین ہے جو انسانیت کو امن و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر ہم قرآن و سنت کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کریں تو ان شاء اللہ ہمارے معاشرے سے ظلم، خوف اور دہشت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا ایمان، امن، سکون اور باہمی محبت عطا فرمائے، اور امتِ مسلمہ کو ہر قسم کے فتنوں اور فساد سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے