اسلام اور جدید کاری
اسلام نہ صرف جدید کاری کو قبول کرتا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے، تاہم وہ جدیدیت کے لادین اور مادہ پرست اجزاء کو قبول نہیں کرتا۔ اسلام کے نزدیک جدیدیت کی وہ شکلیں ناقابل قبول ہیں جو بے جا فضول خرچی، سماجی تقاضوں سے بے نیاز انفرادیت، سطحی اور بازاری پن، اور نفسانی خواہشات کی عکاسی کرنے والی مغربی تجارتی ثقافت پر مبنی ہوں۔
ناپسندیدہ عناصر
◈ شراب نوشی
◈ منشیات کا استعمال
◈ بے قابو جنسی رویے
◈ غیر شادی شدہ ماؤں اور ناجائز اولاد کی کثرت
◈ جنسی امراض
◈ برہنگی کا رجحان
◈ نفسیاتی مسائل
یہ تمام چیزیں جدیدیت کا کوئی خوشنما چہرہ نہیں دکھاتیں۔ مسلمان معاشرہ ایسی جدیدیت کو بالکل قبول نہیں کرتا اور اسے رد کرتا ہے، چاہے کوئی اسے "تنگ نظری” کہے یا "عقل پرستی” سے کنارہ کشی قرار دے۔
جدیدیت کی قبول صورتیں
اگر جدیدیت سے مراد تخلیقی صلاحیتوں کا فروغ، معاشرتی کارکردگی میں بہتری، یا پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو، یا یہ نظم و نسق کے جدید نظام ہوں جو ان مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دیں، تو اسلام کو اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ اسی طرح اگر جدیدیت سے مراد سائنس کی ترقی ہو یا عقلیت کی ضرورت، تو اسلام اسے بھی قبول کرتا ہے، بشرطیکہ یہ سب کچھ اس الہامی دائرے کے اندر رہ کر ہو جس کا احترام ایک مسلمان معاشرہ ضروری سمجھتا ہے۔
جدیدیت پسندوں کا مغالطہ
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے جدیدیت پسند ایسی جدیدیت سے ناواقف ہیں۔ وہ جدیدیت اور ترقی پسندی کو وہی سمجھتے ہیں جس کا تذکرہ پہلے کیا گیا۔ ان کے نزدیک جدیدیت اور مغربیت لازم و ملزوم ہیں، اور ان کے خیال میں کسی معاشرے کے جدید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربی اقدار کو اپنائے۔ چونکہ اسلام اس بے لگام مغربیت بنام جدیدیت کا مخالف ہے، اس لیے وہ اسلام کو اپنی نفسانی خواہشات کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ اسلام کی توہین اور تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
غیر اسلامی نظریات کی ترویج
کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو علمی طریقے سے ہمارے معاشرے میں لادینیت اور غلط نظاموں کی قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ جدیدیت کی اس غیر اسلامی فکر اور طرزِ عمل کو اس طرح مسلمان معاشرے میں پیش کریں کہ لادینیت کا پہلو چھپ جائے اور ان کا مقصد پورا ہوجائے۔