اسلام اور ارتقاء: نظریۂ ایوولیوشن پر مذہبی نقطۂ نظر

بہت سے مسلمان طلباء "تھیوری آف ایوولیوشن” یعنی ارتقاء کے نظریے کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں۔ اس نظریے کے مطابق، زمین پر موجود تمام جاندار اصل میں ماضی میں پائے جانے والے کچھ دوسرے جانداروں کی نسل ہیں۔ جو تنوع ہم آج جانداروں میں دیکھتے ہیں، وہ کئی نسلوں کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔

نیچرل سلیکشن اور ارتقاء کی وضاحت

مسلمان طلباء نیچرل سلیکشن کے نظریے کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، جو ارتقاء کے عمل کو بیان کرتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق جانداروں میں انفرادی خصوصیات مختلف ہوتی ہیں۔ جو جاندار زیادہ کامیاب ہوتے ہیں، وہ اپنی خصوصیات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، جبکہ کم کامیاب جاندار اس میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس طرح، طویل عرصے پر محیط اس تبدیلی کے عمل میں صرف کامیاب جاندار ہی باقی رہتے ہیں۔

اسلامی نقطۂ نظر سے ارتقاء کا مطالعہ

اس مضمون میں ہمارا مقصد ارتقاء کے سائنسی پہلو پر بحث کرنا نہیں ہے، بلکہ ہم اس مسئلے کا اسلامی تعلیمات کے تناظر میں جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ بطور مسلمان، ہمارے لیے اہم سوالات یہ ہیں:

  • کیا ارتقاء کا نظریہ اور اس کے طریقۂ کار کے طور پر نیچرل سلیکشن اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے یا ان سے متصادم ہے؟
  • کیا ایک مسلمان، ارتقاء کو خالصتاً ایک سائنسی نظریے کے طور پر مان سکتا ہے؟
  • کیا یہ ماننا جائز ہے کہ ارتقاء خدا کی تخلیق کا ہی ایک طریقہ ہو سکتا ہے؟
  • کیا انسان کے ارتقاء کا نظریہ تسلیم کرنا ممکن ہے، اور اگر نہیں تو ان فوسلز کی کیا توجیہہ کی جائے گی جو دو پیروں پر چلنے والے، آلات استعمال کرنے والے، بڑے دماغ والے بن مانسوں کے آثار کے طور پر دریافت ہوئے ہیں؟

قرآن و حدیث کا حوالہ

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ زمین پر بسنے والے تمام انسان حضرت آدمؑ اور حوا کی اولاد ہیں۔ حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے تخلیق کیا اور ان کی پیدائش والدین کے بغیر ہوئی۔ کتاب اللہ براہِ راست حضرت آدمؑ اور حوا کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔ حضرت آدمؑ کی تخلیق بذاتِ خود ایک معجزہ ہے، جسے سائنسی ذرائع سے نہ ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی رد کیا جا سکتا ہے۔ قرآن میں بیان کردہ معجزات انسان کی محدود عقل کے دائرے سے باہر ہیں۔

نباتات و جمادات کا ارتقاء

نباتات و جمادات کے ارتقاء کے بارے میں شرعی نصوص میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ جب حضرت آدمؑ اور حوا کو زمین پر بھیجا گیا تو یہ ذکر نہیں کہ اس وقت زمین پر دیگر جاندار موجود تھے یا نہیں۔ اس حوالے سے وحی کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان اس بات پر ایمان رکھیں کہ اللہ نے تمام مخلوقات کو تخلیق کیا جیسا کہ اس کی مرضی تھی۔

’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے‘(39:62)
’اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی‘(21:30)

ارتقاء اور نیچرل سلیکشن کے بارے میں قرآن کی خاموشی

قرآن مجید نہ تو جانداروں کے حیاتیاتی ارتقاء کا اثبات کرتا ہے اور نہ اس کی نفی کرتا ہے۔ اسی طرح، نیچرل سلیکشن کے نظریے کی بھی نہ تصدیق کی گئی ہے نہ تردید۔ یہ ایک خالص سائنسی سوال بن کر رہ جاتا ہے، جسے سائنسی بنیادوں پر ہی جانچا جائے گا۔ اگر یہ نظریہ سائنسی بنیادوں پر ثابت ہوتا ہے تو اسے سچ سمجھا جائے گا، اور اگر نہیں تو اسے مسترد کیا جائے گا۔

مذہب اور سائنس کا فرق

سائنس کا کام کائنات کے مظاہر کا مطالعہ کرنا اور اللہ کی قدرت کا انکشاف کرنا ہے۔ اگر ایسے فوسلز ملتے ہیں جو دو پیروں پر چلنے والے، آلات استعمال کرنے والے بن مانسوں کے آثار کی نشاندہی کرتے ہیں، تو بھی ان کا اسلامی تعلیمات سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔

انسان اور ارتقاء

انسانی مخلوق کے علاوہ، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ دیگر جانداروں میں ارتقائی مراحل واقعی وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں، تو یہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ارتقائی مراحل حضرت آدمؑ کی زمین پر آمد سے پہلے ہوئے ہوں۔ نصوص اور وحی کی روشنی میں ہمارا ایمان یہ ہے کہ ایسے جاندار انسانوں کے آباء و اجداد نہیں تھے۔

نظریۂ ارتقاء اور خدا کا وجود

ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ نظریۂ ارتقاء کو ماننے سے خدا کا انکار لازم آتا ہے۔ درحقیقت، نظریۂ ارتقاء جانداروں کے وجود میں آنے کا تدریجی طریقہ بیان کرتا ہے۔ خدا کے وجود کا اثبات یا انکار اس نظریے کا موضوع نہیں ہے۔ یہ تو ایک سادہ سائنسی مسئلہ ہے جس میں قدرتی اسباب کے تحت مختلف جانداروں کے وجود میں آنے کا طریقہ سمجھایا گیا ہے۔

مذہب اور سائنس کی علیحدگی

مذہب کا موضوع سائنس سے مختلف ہے، اور اسے اپنے آپ کو سائنسی نظریات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سائنس اور مذہب اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کریں۔ سائنس کا مقصد قدرتی مظاہر کا مطالعہ کرنا ہے جبکہ مذہب کا مقصد انسان کی روحانی رہنمائی ہے۔ اگر ملحدین سائنس کو اپنے نظریات کی بنیاد کے طور پر پیش کرتے ہیں، تو یہ ان کا ذاتی نقطۂ نظر ہے، نہ کہ سائنس کی اپنی ذمہ داری۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے