اسلامی شریعت کے نفاذ کے مسائل اور متوازن حل
تحریر: مولانا زاہد الراشدی

مسلم ممالک میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور اسلامی قوانین

مسلم ممالک میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور اسلامی قوانین کی عمل داری ایک اہم ذمہ داری ہے، جو کہ چیلنجز سے بھی بھرپور ہے۔ اس کی راہ میں مختلف سیاسی، تہذیبی، اقتصادی، اور علمی رکاوٹیں موجود ہیں۔ موجودہ دور کے عالمی حالات اور جدید تہذیبی ماحول میں اسلامی احکام کی تطبیق اور گلوبلائزیشن کے تناظر میں ان قوانین کو ایڈجسٹ کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔

نفاذِ شریعت کے حوالے سے تین رجحانات

مسلم دنیا میں اس مسئلے پر تین مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں:

  1. قدیم قوانین کا مکمل نفاذ:
    کچھ افراد یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام کو قدیم فقہی ذخیرے کی بنیاد پر اسی طرح نافذ کیا جائے جیسے خلافت عثمانیہ یا مغل سلطنت میں تھا۔
    اس نظریے کے مطابق ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ اور ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ جیسے فقہی ماخذ کو بنیاد بنایا جائے۔
  2. جدید فقہ کی تشکیل:
    دوسرا رجحان یہ ہے کہ قدیم فقہی ذخیرے کو چھوڑ کر، جدید عالمی تقاضوں کے مطابق قرآن و سنت یا صرف قرآن کی بنیاد پر نئی فقہ تشکیل دی جائے۔
  3. روایتی اصولوں کے تحت جدید مسائل کا حل:
    تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ چودہ سو سالہ علمی ورثے اور فقہی ذخیرے کو ترک کرنے کے بجائے، انہی اصولوں کی بنیاد پر جدید مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔
    یہ نقطہ نظر اجتہاد شرعی کے دائرے میں رہتے ہوئے بین الاقوامی تقاضوں کو قبول کرنے کا حامی ہے، بشرطیکہ وہ اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہوں۔

متوازن راستہ

پہلے دو نظریات کو غیر عملی اور غیر متوازن قرار دیتے ہوئے، ایک متوازن راستہ تجویز کیا گیا ہے:

  • اجماعی تعامل کا احترام: امت مسلمہ کے علمی ورثے اور اہل سنت والجماعت کے اجماعی اصولوں کی پابندی کی جائے۔
  • فقہی رجحانات کا احترام: ہر ملک میں اکثریتی فقہی رجحانات کو قانون سازی کی بنیاد بنایا جائے، لیکن دیگر فقہوں اور براہ راست قرآن و سنت سے استنباط کے دروازے کو بھی کھلا رکھا جائے۔
  • جدید تقاضوں کا جائزہ: گلوبلائزیشن اور جدید عالمی ثقافتی ماحول کو یکسر مسترد یا مکمل قبول کرنے کے بجائے، اسلامی اصولوں کے مطابق قابل قبول تقاضوں کو اپنایا جائے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی اصولی گزارشات

پاکستان میں نفاذ شریعت کے حوالے سے درج ذیل نکات اہم ہیں:

  1. قرآن کے ساتھ سنت کا مقام: قانون سازی کے لیے صرف قرآن کریم پر اکتفا کرنا اور سنت رسول ﷺ کو نظرانداز کرنا ناقابل قبول ہے، کیونکہ یہ خود قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے۔
  2. سنت کی درست تعریف: سنت کا وہی مفہوم لیا جائے جو امت مسلمہ چودہ سو سال سے تسلیم کرتی آئی ہے۔ سنت کے کسی نئے مفہوم کو رائج کرنا یا متوارث مفہوم کو رد کرنا درست نہیں۔
  3. سنت کی حیثیت: سنت کو مستقل ماخذ قانون تسلیم کیا جائے۔ اسے قرآن کے ساتھ مطابقت کے معیار پر پرکھنا اور صرف مطابقت کی صورت میں تسلیم کرنا درست نہیں۔ ایسا کرنے سے سنت کو عملی طور پر ایک ثانوی درجہ مل جاتا ہے، جو کہ امت مسلمہ کے اجماعی تعامل کے خلاف ہے۔
  4. عقل عام کی حدود: قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح میں عقل عام کو معیار نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ عقل عام میسر معلومات، مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہوتی ہے، جو وقت اور جگہ کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ سنت کو مستقل ماخذ تسلیم کرنا اور قرآن و سنت کی تعبیر کے لیے ان کے اجماعی اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے، جیسا کہ صحابہ کرام کے دور میں ہوتا تھا۔

نتیجہ

موجودہ عالمی حالات میں اسلامی قوانین کی تعبیر و تشریح اور نفاذ کے لیے اجماعی اصولوں، فقہی ذخیرے، اور اجتہاد شرعی کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ جدید تقاضوں کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں قبول کرنا اور غیر متوازن رویوں سے گریز کرنا ہی کامیابی کا راستہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے