خلاصہ
- اسلامی ڈسکورس میں عبدیت (بندگی) کو قدر سمجھا جاتا ہے، نہ کہ آزادی کو۔
- اسلام میں اصل سوال یہ ہے کہ انسان وہ چاہ رہا ہے یا نہیں جو اللہ چاہتا ہے کہ وہ چاہے۔
- آزادی بطور قدر کی نفی کر کے انسان کو اللہ کے احکامات کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
- مغربی فکر میں آزادی کو خود ایک حتمی قدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو عبدیت کے تصور کی نفی کرتی ہے۔
- مغربی تصور آزادی کا درست اسلامی مفہوم "بغی” یعنی سرکشی اور نافرمانی ہے، کیونکہ یہ آزادی کو اللہ کی حاکمیت سے آزاد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
آزادی کے دو مفاہیم
آزادی کو بنیادی طور پر دو مختلف معنی میں استعمال کیا جاتا ہے:
آزادی بطور صلاحیت (Freedom as Ability):
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ارادے کے مطابق کوئی عمل اختیار یا ترک کر سکے۔ یہ تصور اسلامی فکر میں جبرو قدر (determinism and free will) کی بحث سے جنم لیتا ہے، اور اس کی اہمیت صرف اس حد تک ہے کہ انسان خیر و شر میں سے کسی کو اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے اسلام میں آزادی کا یہ مطلب ہے کہ انسان کو اچھے یا برے کام کرنے کی صلاحیت دی گئی ہے، لیکن اس آزادی کا مقصد ہمیشہ اللہ کی مرضی کے مطابق عمل کرنا ہے۔
آزادی بطور قدر (Freedom as Value):
مغربی تصور میں آزادی کو ایک "قدر” (value) کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یعنی انسان کی آزادی خود اپنے آپ میں ایک حتمی مقصد ہے۔ مغربی فکر میں آزادی کو کسی دوسری قدر یا پیمانے پر نہیں پرکھا جاتا، بلکہ اس کا پیمانہ خود آزادی ہوتی ہے۔ یعنی ہر وہ عمل جو انسانی ارادے کی آزادی میں اضافہ کرے، وہ خیر مانا جاتا ہے۔
اسلامی اور مغربی تصورِ آزادی کا فرق
اسلام میں آزادی بطور صلاحیت صرف ایک ذریعہ ہے، جس کا مقصد اللہ کی رضا اور عبدیت (خدائی حکم کی تابعداری) ہے۔ یہاں آزادی کو خیر و شر کے پیمانے پر نہیں پرکھا جاتا بلکہ انسان کے اعمال کو اللہ کے حکم اور شرعی اصولوں کے تحت جانچا جاتا ہے۔ اسلام میں قابل قدر چیز انسان کا اپنی آزادی کو اللہ کے حکم کے تابع رکھنا ہے، یعنی انسان وہ چاہے جو اللہ چاہتا ہے۔
اس کے برعکس، مغربی فکر میں آزادی کو خود اپنے اصول پر پرکھا جاتا ہے۔ وہاں آزادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے ارادے کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل حق ہو، چاہے اس کی بنیاد کوئی بھی ہو، اور اس آزادی کو کسی بیرونی اصول یا ضابطے کے تحت محدود نہ کیا جائے۔
مثال کے ذریعے فرق کی وضاحت
فرض کریں، آپ اپنے بیٹے کو شادی کرنے کی مکمل آزادی دیتے ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ایک لڑکے یا کسی خواجہ سرا سے شادی کرتا ہے۔ اگر آپ شرع کے مطابق اس عمل کو ناجائز قرار دیتے ہیں، تو آپ آزادی کو شرعی اصولوں کے تحت جانچ رہے ہیں۔ اس صورت میں آپ "آزادی بطور قدر” کو نہیں مان رہے، کیونکہ آپ آزادی کو کسی دوسری قدر (یعنی شرع) کے تحت پرکھ رہے ہیں۔
جبکہ مغربی ڈسکورس میں، اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے کسی بھی صنف کے ساتھ شادی کرتا ہے، تو اس کو جائز سمجھا جائے گا، کیونکہ اس عمل سے آزادی میں اضافہ ہوا ہے اور ایک نئے طریقے سے اپنی ذات کا اظہار ممکن ہوا ہے۔ مغربی فکر میں، کسی عمل کو جائز یا ناجائز قرار دینے کا پیمانہ صرف یہ ہے کہ اس سے فرد کی آزادی میں اضافہ ہوا یا نہیں۔