سوال :
صبح سکول کی اسمبلی میں قومی ترانے کی تعظیم میں کھڑے ہونا، یعنی بے حس و حرکت کھڑے ہو جانا، کسی قسم کی بات، سوال جواب اور حرکت حتیٰ کہ اشارہ تک نہ کرنا، اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اسی طرح کلاس روم میں استاد، پروفیسر اور لیکچرار وغیرہ کے آنے پر طلباء کا تعظیماً اپنی جگہ کھڑے ہو جانا کیسا ہے؟
جواب :
نماز اور قیام ایک شرعی عبادت ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے، اللہ کے علاوہ کسی دوسرے آدمی، عورت یا کسی ترانے و جھنڈے کی تعظیم کے لیے بھی اپنی جگہ کھڑا ہونا اور مسلسل کیفیت آپ نے ذکر کی ہے، اس طرح کی حالت اختیار کرنا جائز نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾
(البقرة: 238)
”نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے خاموش ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔“
معلوم ہوا کہ قیام اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے لیے قیام کرنا درست نہیں، جو یہ پسند کرتے ہیں کہ لوگ ان کے لیے کھڑے ہوں تو ان کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے دوزخ کی وعید سنائی ہے، خواہ وہ استاد ہو یا مرشد، چودھری ہو یا وڈیرا، صدر ہو یا وزیر۔
ہو، وزیراعظم ہو، یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا افسر ہو، جس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالیا ہے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أحب أن يقوم له الرجال قياما فليتبئ مقعده من النار
(أبو داود، كتاب الأدب، باب في قيام الرجل للرجل يعظمه بذلك 5229، مسند أحمد 91/4، ح 19400)
’’جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے بت کی طرح کھڑے ہو جائیں، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے۔‘‘
ابو مجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأن معاوية دخل بيتا فيه ابن عامر وابن الزبير، فقام ابن عامر وجلس ابن الزبير، فقال له معاوية: اجلس، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سره أن يمثل له العباد قياما فليتبوأ مقعده من النار
(مسند أحمد 5/393، ح 17042، 1697، شرح السنة 295/12)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک گھر میں داخل ہوئے تو اس میں ابن عامر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما موجود تھے۔ ابن عامر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما بیٹھے رہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’بیٹھ جاؤ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ بندے اس کے لیے کھڑے ہو جائیں تو وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنائے۔‘‘
امام بغوی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ اسی طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أحب أن يتمثل له بنو آدم قياما وجبت له النار
(الطبقات الكبرى 362/19، مشكل الآثار للطحاوي 138/2)
’’جو آدمی اس بات کو پسند کرے کہ اولاد آدم اس کے لیے قیام کی صوت میں مطیع ہو جائیں تو اس کے لیے آگ واجب ہے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت تھی، لیکن اتنی شدید محبت کے باوجود وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند فرماتے تھے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لم يكن شخص أحب إليهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانوا إذا رأوه لم يقوموا لما يعلمون من كراهيته لذلك
(ترمذی 2763، شرح السنة 12/294)
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ تھا، اس کے باوجود جب وہ آپ کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ اس قیام کو برا سمجھتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور امام بغوی وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی پاکباز اور اعلیٰ و ارفع ہستی کے لیے تعظیمی قیام جائز نہیں تو پھر آپ کے سوا دوسرا کون ایسا ہو سکتا ہے جس کے لیے قیام کیا جائے؟ لہٰذا کسی سکول ماسٹر، جج، وکیل، پروفیسر، ڈائریکٹر، فوجی افسر، جرنل، کرنل، بریگیڈیئر، سیاستدان، دینی یا سیاسی رہنما، یا کسی گلوکار وغیرہ کے ترانے بجانے پر کھڑا ہونا شرعاً درست نہیں۔
جو لوگ قیام کے جواز کے لیے صحیح بخاری کی حدیثِ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے آمے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا: قوموا إلى سيدكم ”اپنے سردار کی طرف اٹھو“، ان کا اس حدیث سے دلیل لینا بالکل غلط ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قوموا إلى سيدكم ”تم آپ سردار کی خاطر اٹھو “ ہلکہ یوں فرمایا : قوموا لسيدكم ”اپنے سردار کی طرف جاؤ“۔ ان دونوں میں بہت فرق ہے، اور اس کی دوسری وجہ صحیح بخاری میں ہے کہ جنگ خندق میں سعد رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو گئے تھے، ایک قریشی حبان بن قیس نے ان کے بازو کی رگ میں تیر مارا تھا، جس کی بنا پر وہ شدید زخمی ہو گئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خبرگیری کر نے کے لیے مسجد میں خیمہ لگوایا۔ جب آپ خندق سے واپس آئے تو اسلحہ اتارا اور غسل کیا۔ آپ کے پاس جبریل امین تشریف لائے انھوں نے کیا : آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے، اللہ کی قسم! میں نے تو ابھی اسلحہ نہیں اتارا، ان کی طرف نکلیں ۔ نبی صلى الله عليه وسلم نے دریافت فرمایا: ”کہاں!“ تو جبرئیل نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ قصہ مختصر، آپ نے بنو قریضہ کا محاصرہ کیا۔ کیوں کہ انھوں نے معاہدہ توڑ کر کفار کی مدد کی تھی۔ جب وہ محاصرے سے تنگ آگئے تو انھوں نے قلعوں سے نکل کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے سپرد کرنا اس شرط پر منظور کیا کہ ہمارے بارے میں سعد رضی اللہ عنہ جو فیصلہ کریں گے وہ ہمیں منظور.
ابوسعید خدری بی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
فأرسل النبى صلى الله عليه وسلم إلى سعد فأتى على حمار فلما دنا من المسجد قال للأنصار قوموا إلى سيدكم أو خيركم
(بخاری، کتاب المغازی، باب مرجع النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الأحزاب 4121)
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے ، جب سعد رضی اللہ عنہ مسجد کے قریب ہوئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے انصار سے فرمایا: ”اپنے سردار، یا فرمایا بہترین آدمی کی طرف اٹھو۔“
مسند احمد (142/6، ج: 25610) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قوموا إلى سيدكم فأنزلوه
” اپنے سردار کی طرف اٹھو اور انھیں اتاردو۔“
ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری (412/7) میں اس پر سکوت اختیار کیا، جو ان کے نزدیک صحیح یا حسن پر دلالت کرتا ہے، یہی بات مولوی ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے ”قواعد نی علوم الحدیث“ میں ذکر کی ہے۔
اس حدیث سے صراحاً معلوم ہوا کہ سعد رضی اللہ عنہ مریض تھے اور گدھے پر سوار ہو کر آئے تھے۔ آپ نے جب انھیں دیکھا کہ وہ مسجد کے قریب آچکے ہیں تو آپ نے انصار کو انھیں گدھے سے اتارنے کے لیے حکم دیا تھا، نہ کہ اپنی جگہ کھڑے ہونے کا۔ علاوہ ازیں آپ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی تعظیم کے لیے قیام کا حکم دے بھی کیسے سکتے تھے، جبکہ آپ اپنے لیے تعظیمی قیام بھی مکروہ سمجھے تھے ؟ جیسا کہ ترمذی کی حدیث میں اوپر ذکر ہو چکا ہے۔
لہذا قیام صرف اور صرف رب العزت کی ذات کے لیے کیا جائے، اس کے علاوہ کسی خاطر قیام نہ کیا جائے۔