اساتذہ یا بڑوں کے احترام میں کھڑے ہونا صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

اپنے بڑوں کو جھک کر سلام کرنا، یا کھڑے ہو کر سلام کرنا، یا اپنے اساتذہ کے احترام میں کھڑے ہونا اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا قرآن وسنت کی روشنی میں بتائیں یہ افعال کیسے ہیں؟

جواب :

سلام کرتے وقت جھکنا درست نہیں، کیونکہ اس کی مشابہت رکوع کے ساتھ ہے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے وقت جھکتے ہوں۔ اسی طرح کسی شخص کے احترام یا تعظیم کے لیے کھڑا ہونا جائز نہیں، جیسا کہ آج کل استاد یا کسی بڑے آدمی کی آمد پر لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
”جس شخص کو پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے تصویر بن کر کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنانے “
(ترمذی، کتاب الأدب، باب ما جاء في كراهية قيام الرجل للرجل 2755)
یہ حدیث صحیح ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہیں تھا اور وہ جب آپ صلى الله عليه وسلم کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو نا پسند فرماتے تھے ۔“
(ترمذی، کتاب الأدب، باب ما جاء في كراهية قيام الرجل للرجل 2754)
امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ البتہ آگے بڑھ کر استقبال کرنا یا اٹھ کر ملنا اور بٹھانا درست ہے، کیونکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بنو قریظہ کا فیصلہ کرنے کے لیے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلوایا، جب وہ قریب پہنچے تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے انصار سے فرمایا:
قوموا إلى سيدكم
(بخاري، كتاب الاستئذان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم قوموا إلى سيدكم 6262، مسلم كتاب الجهاد باب جواز قتال من نقض الخ 1768)
”اپنے سردار کی طرف اٹھو۔“
مصافحہ کا معنی عربی زبان میں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ کا صفحہ (کنارہ) ملانا ہے۔ جب ایک ہاتھ کا صفحہ دوسرے شخص کے ہاتھ سے مل گیا تو مصافحہ مکمل ہو گیا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم مصافحہ کرتے وقت اور بیعت لیتے وقت دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں تحفة الأحوذی (397/3)۔
صحیح بخاری (6265) میں جو حدیث ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تشہد کی تعلیم دی تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی انگلیاں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھیں، تو یہ تعلیم دیتے وقت متوجہ کرنے کے لیے تھا، اس سے ملاقات کا مصافحہ مراد نہیں، ورنہ لازم آئے گا کہ ملاقات کے وقت چھوٹے کو ایک ہاتھ سے اور بڑے کو دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے