اخروی زندگی پر ایمان اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے
تحریر: حافظ اسامہ شوکت, پی ڈی ایف لنک

عقیدہ آخرت

یہ عقیدہ رکھنا کہ ایک دن قیامت بپا ہوگی اور تمام مخلوقات کو دوبارہ زندہ کر کے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ارکان ایمان کا اہم رکن اور اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ روز آخرت اور عالمگیر بعثت پر ایمان رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ زَیَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فَهُمْ یَعْمَهُوْنَ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْعَذَابِ وَ هُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ )

(النمل : 4، 5)

”بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لیے ان کے اعمال خوش نما بنادیے ہیں، پس وہ گمراہی میں حیران و پریشان پھر رہے ہیں۔ انھی لوگوں کے لیے برا عذاب ہے اور یہی آخرت میں سب سے زیادہ خسارے میں ہوں گے۔“

ایمان بالآخرت ہی وہ عقیدہ وسبب ہے جو انسان کو اس دنیا میں اللہ کا خوف عطا کرتا ہے اور اسی عقیدے کی وجہ سے انسان برائیوں سے دور رہتا ہے۔ بندہ مومن جب بھی گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کے پیش نظر ایک ہی بات ہوتی ہے کہ اگر میں گناہ کرتے ہوئے مر گیا تو اللہ رب العزت کے دربار میں حاضری کے وقت کیا جواب دوں گا۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے متقی لوگوں کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

((الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَ هُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ ))

(الأنبياء : 49)

’’وہ لوگ جو بن دیکھے اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور وہی قیامت سے ڈرنے والے لوگ ہیں ۔“

❀ شیخ زبیر علی زئیؒ لکھتے ہیں:

دنیا میں جتنے قوانین ہیں ان سے جرائم رک نہیں رہے بلکہ بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔ مگر آخرت پر ایمان ایسا عقیدہ اور قانون ہے کہ انسان کو ہر جرم سے روک دیتا ہے۔ چور کو اگر یقین ہو کہ کل آخرت میں اسے چوری کا حساب دینا پڑے گا تو وہ پوری کوشش سے اپنے آپ کو چوری سے بچائے گا اور سمجھے گا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ مادر پدر آزاد، شتر بے مہار اور آخرت کے خوف سے بے پروا پیدا کیا گیا ہے تو وہ آگاہ رہے کہ

(اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ )

’’ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمھیں عبث (بے فائدہ) پیدا کیا ہے اور تم ہمارے پاس واپس نہ لائے جاؤ گے۔“

(المومنون : 115)

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”ہم نے آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، کھیل کود کا سامان نہیں بنایا، ہم نے انھیں حق کے ساتھ ہی بنایا ہے لیکن اکثرلوگ نہیں سمجھتے ۔“

(الدخان : 38، 39)۔ (مقالات : 16/2)

ایمان بالآخرۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اسے ایمان باللہ کے ساتھ مجرد بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُؕ)

(البقرة : 223)

’’اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جان لو کہ تم ضرور اس سے ملنے والے ہو۔“

وہ عورتیں جو حاملہ ہیں اور انھیں طلاق دے دی جائے تو وہ اپنے حمل کو نہ چھپائیں، ایسی عورتوں کو تنبیہ فرماتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:

(وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ)

(البقرة : 228)

’’اور ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔“

اہل کتاب میں جو لوگ اچھے تھے، رات کی تاریکیوں میں تلاوتیں اور سجدے کرنےوالے تھے، ان کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

(یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِؕ وَاُولٰٓىٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ)

(آل عمران : 114)

’’وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے جلدی کرتے ہیں یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں۔“

حدیث نبوی میں بھی اس کی مثال ملتی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ))

(صحيح البخاري ، ح : 6018)

"جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے۔ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے ۔“

ہر امت کا یہ مسئلہ تھا وہ کہتے تھے کہ مرنے کے بعد ہم کیسے زندہ کیے جائیں گے۔ جب کہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(وَكَانُوا يَقُولُونَ ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ)

(الواقعة : 47 تا 50)

’’اور وہ کہا کرتے تھے کہ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہم دوبارہ اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟ تو کہہ دے کہ یقیناً سب اگلے اور پچھلے ضرور جمع کیے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت ۔“

❀ دوسری جگہ فرمایا:

(قُلْ بَلٰى وَ رَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْؕ-وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ)

(التغابن : 7)

’’ کہہ دو! کیوں نہیں، میرے رب کی قسم ! تمھیں ضرور بالضرور اٹھایا جائے گا پھر تمھیں ضرور بالضرور بتایا جائے گا جو تم نے کیا اور یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔“

اہل ایمان ہر وقت آخرت کو مدنظر رکھتے ہیں اور اپنی دعاؤں میں آخرت کے عذاب سے پناہ حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

((رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ))

(البقرة : 201)

’’( مومن لوگ کہتے ہیں کہ ) اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔“

❀ اسی طرح ارشاد فرمایا:

(وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا)

(الفرقان : 65)

”(عباد الرحمٰن ) وہ لوگ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! جہنم کے عذاب کو ہم سے پرے ہی رکھ یقیناً اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔“

اسی طرح اللہ رب العزت نے ابراہیمؑ کی دعاؤں کے باب میں ذکر کیا کہ ابراہیمؑ ان الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے۔

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ)

(الشعراء : 87- 88)

’’ (اے اللہ ! مجھے (اس دن ) ذلیل و رسوا نہ کرنا جس دن (لوگ) اٹھائے جائیں گے جس دن نہ مال نفع دے گا اور نہ بیٹے ۔“

سید نا عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف فرما تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے اور چٹائی کے درمیان کوئی چیز نہیں تھی اور آپ کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک سرہانا تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اور نبی ﷺ کے پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ جب میں نے آپ کی پشت پر چٹائی کے نشانات دیکھے تو رو پڑا۔ میں نے کہا:

آپ اللہ کے رسول ہیں اور قیصر و کسریٰ مزے کر رہے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ))

’’ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ ان کے لیے دنیا اور ہمارے لیے آخرت ہو؟“

(صحيح البخاري ، ح : 4913)

❀ حافظ زبیر علی زئیؒ رقمطراز ہیں:

’’بھائیو! دنیا کی یہ زندگی عارضی ہے اور آخرت کا ابدی دن آنے والا ہے۔ جان لیں کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں جو بوئیں گے وہاں وہی کاٹیں گے۔ سوچیں! ہم نے آخرت کی کیا تیاری کر رکھی ہے۔ یاد رکھیں! دنیا کی یہ زندگی آخری موقع ہے۔ دوبارہ ایسا کوئی موقع نہیں ملے گا۔ آخرت کا دروازہ موت کی صورت میں مسلسل لوگوں کو نگل رہا ہے پھر بھی اکثر لوگ آخرت سے غافل ہیں ۔ “

( مقالات : 16/2 )

آخرت کے احوال میں قبر میں سوال و جواب اور جزا وسزا اور پھر میدان حشر ، پل صراط، میزان، شفاعت اور حوض وغیر ہم شامل ہیں ۔

ایک صاحب ایمان شخص ان تمام احوال پر بن دیکھے ایمان رکھتا ہے۔ یہی وہ صفت ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے قرآن کے آغاز میں اس کا ذکر فرمایا کہ متقی لوگ وہ ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر بن دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

((اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ))

(البقرة : 5)

”یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘

ہم اللہ سے اُس کے فضل کا سوال کرتے ہیں اور یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اپنے مومن بندوں میں شامل فرمائے اور ہمیں آخرت کے لیے بھر پور تیاری کی توفیق دے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے