احکام عیدالفطر

 

176۔ عید الفطر :
عید الفطر کے دن صوم رکھنا جائز نہیں ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم يوم الفطر و النحر . [صحيح البخاري : كتاب الصيام، باب 66 صوم يوم الفطر ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر اور قربانی کے دن صوم سے منع فرمایا۔ “
اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے 29 ویں رمضان کو عید کا چاند نظر نہ آئے، اور رویت کی کوئی معتبر شہادت بھی نہ مل سکے تو اس دن صوم رکھا جائے گا البتہ زوال سے پہلے اگر کوئی معتبر شہادت مل جائے تو افطار کر لینا چاہئے اور اسی دن عید کی صلاۃ پڑھ لینی چاہئے اور اگر چاند دیکھنے کی شہادت آفتاب ڈھلنے کے بعد ملے تو صوم افطار کر لینا چاہئے لیکن عید کی صلاۃ دوسرے دن پڑھنی چاہئے۔

177۔ مسنونات عید :

غسل کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا، عید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہنا، پیدل عیدگاہ جانا، ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا، طاق کھجوریں یا چھوہارے یا کوئی دوسری میٹھی چیز کھا کر عیدگاہ جانا۔

178۔ صلاۃ العید :
عید کی صلاۃ سنت مؤکدہ ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس کو ترک نہیں فرمایا۔ اس کا و قت طلوع آفتاب کے بعد سے لے کر زوال کے کچھ پہلے تک رہتا ہے۔ صلاۃ العید میں اذان اور اقامت نہیں ہے، صلاۃ العید سے پہلے یا بعد میں عیدگاہ میں صلاۃ نافلہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اسی طرح صلاۃ سے پہلے خطبہ اور وعظ کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے، عورتوں کو عیدگاہ لے جانا سنت ہے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخرج الأبكار و العواتق وذوات الخدور و الحيض فى العيدين فأما الحيض فيعتزلن المصلي ويشهدن دعوة المسلمين قالت إحداهن يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن لم يكن لهاجلباب قال : فلتعرها اختهامن جلبابها [سنن الترمذي : كتاب الصلوٰة، باب38، خروج النساء فى العيدين ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باکرہ، نو عمر، پردہ نشین اور حائضہ عورتوں کو عیدین میں لے جایا کرتے تھے، رہیں حائضہ عورتیں تو وہ مصلی (جائے صلاۃ) سے تو الگ رہیں گی لیکن مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔ ایک عورت نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! اگر اس (عورت )کے پاس چادر نہ ہو تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی بہن اس کو اپنی چادر عاریۃً دے دے “۔
اور صحیح مسلم میں ہے۔ ام عطیہ کہتی ہیں : كنانؤمر (الحدیث) یعنی ہمیں اللہ کے رسول عورتوں کو عیدگاہ میں لے جانے کا حکم دیتے تھے۔

179۔ صلاۃ عید کاطریقہ :
صلاۃ العیدین کا طریقہ عام صلاۃ ہی کی طرح ہے، البتہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعاء ثنا سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قراء ت سے پہلے پانچ تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں، جنہیں تکبیر زوائد کہتے ہیں، تکبیر زوائد کے ساتھ رفیع الیدین کسی صحیح اور مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔

180۔ شوال کے صوم :

رمضان کے بعد شوال میں چھ صوم رکھنے کی بڑی فضیلت ہے :

عن أبى أيوب الأنصاري رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : من صام رمضان ثم أتبعه ستامن شوال كان كصيام الدهر [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب استحباب صيام ستة أيام من شوال اتباعا رمضان ]
’’ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے صوم رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ صوم رکھے تو گویا کہ اس نے پورے سال صوم رکھا۔ “
چوں کہ نیکیوں کا بدلہ دس گنا دیا جاتا ہے اس لیے رمضان اور اس کے بعد چھ صوم کو پورے سال صوم رکھنے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

181۔ فرضیت زکوٰۃ اور عدم ادائیگی پر وعید :
زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اس کا منکر کافر ہو جاتا ہے جس کے پاس مال ہو اور زکوٰۃ نہ نکالے تو وہ بہت بڑا گنہگا ر اور بروز قیامت سخت ترین عذاب کا مستحق ہو گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من آتاه الله مالافلم يؤد زكٰوته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ثم يأخذ بلهزمتيه يعني شدقيه ثم يقول أنامالك أناكنزك [صحيح البخاري : كتاب الزكوٰة، باب 3، إثم مانع الزكوٰة ]
’’ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے اور اس نے زکوٰۃ نہ ادا کی تو قیامت کے دن اس کا مال بڑا زہریلا گنجا سانپ بنا دیا جائے گا اور وہ اس کی گردن میں لپٹ جائے گا پھر اس کے دونوں جبڑے نوچے گا اور کہے گا میں ہی تیرا مال ہوں اور میں ہی تیرا خزانہ ہوں۔ “
یہ زکوٰۃ تزکیۂ نفس اور طہارت مال و سکون قلب کا ذریعہ ہے یہ ٹیکس نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَاوَ صَلِّ عَلَيْهِمْ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ [التوبة : 103 ]
’’ (اے پیغمبر) آپ ان کے مالوں میں سے زکوٰۃ لے لیجئے جس کے ذریعہ آپ ان کو پاک و صاف کر دیں گے اور ان کے لیے دعا کیجئے، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے باعث طمانیت ہے۔ “

182۔ نصاب :
جب سونا بیس دینار یعنی ساڑھے سات تولہ (85گرام) ہو تو اس میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے۔ [دار قطني : كتاب الزكوة باب وجوب زكوٰة الذهب والفضة]
پانچ اوقیہ یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی (595 گرام) میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ [صحيح مسلم : كتاب الزكوٰة ]
کھیت اور باغ کی پیداوار کا نصاب پانچ وسق یعنی تین سو صاع (6 کوئنٹل 53 کلو گرام) ہے۔ [صحيح مسلم كتاب الزكوٰة]
بارانی زمین کا دسواں حصہ اور چاہی زمین کا بیسواں حصہ زکاۃ نکالنا ہو گا۔ [صحيح البخاري : كتاب الزكوٰة، باب 55]
نقد روپیہ کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے۔ اونٹ کا نصاب پانچ اونٹ ہیں۔ 24 تک ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری پھر 25 سے اونٹ واجب ہو جاتے ہیں۔ [صحيح بخاري كتب الزكوٰة باب 38 ]
بکری کا نصاب چالیس ہے جس میں ایک بکری واجب ہے۔ [صحيح بخاري : كتاب الزكوٰة، باب 38، زكوٰة الغنم]
گائے کا نصاب تیس ہے جس میں ایک سالہ بچہ دینا ہو گا۔ [سنن الترمذي، كتاب الزكوٰة باب5 ]

183۔ زیور کی زکوٰۃ :
زیور میں بھی زکوٰۃ ہے۔ نصاب تک پہنچنے کے بعد زکاۃ نہ دینے والا مجرم اور گنہگار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَ لَايُنْفِقُوْنَهَافِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ [التوبة : 34 ]
’’ جو لوگ سونے اور چاندی کے ڈھیر جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔ “
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سونا چاندی خواہ نقدی ہو یا زیور کی صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ احادیث سے بھی اس کی فرضیت ثابت ہے، چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے :
أنهاكانت تلبس أو ضاحامن ذهب فسألت عن ذاك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : أكنز هو ؟ فقال إذا أديت زكٰوته فليس بكنز [دار قطني : كتاب الزكوٰة، باب 8، ما ادّي زكوته فليس بكنز و صححه الحاكم و قال الحافظ ابن حجر رحمه الله فى الدراية قواه ابن دقيق العيد ]
’’ ام سلمہ سونے کے زیور پہنتی تھیں پس انہو ں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا یہ کنز ہے ؟ (جس کی قرآن میں مذمت آئی ہے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے اس کی زکوٰۃ دی ہے تو کنز نہیں ہے۔ “
زیور کی زکوٰۃ ہر سال ادا کرنی چاہئے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے بارے میں لکھا ہے :
أنه كان يكتب إلى خازنه سالم أن يخرج زكوة حلي بناته كل سنة [دار قطني كتاب الزكوٰة باب 9 زكوٰة الحلي ]
’’ وہ اپنے خزانچی سالم کو لکھتے ہیں کہ وہ ان کی بیٹیوں کے زیور کی زکوٰۃ ہر سال ادا کیا کریں۔ “
اگر کسی کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ہے، لیکن وہ اتنے ہی روپیوں کا مقروض ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
اگر کسی نے کچھ روپیوں پر کسی کی چند بیگہہ زمین رہن رکھی تو اس روپے کی زکوٰۃ اس پر واجب ہو گی کیوں کہ مرہون چیز سے انتفاع ناجائز ہے اور جب یہ جائز نہیں تو اس کا روپیہ اس کی ملکیت میں مانا جائے گا۔

184۔ مصارف زکوٰۃ :
اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا مال آٹھ قسم کے آدمیوں کا حق قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّـهِ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [9-التوبة:60 ]
’’ زکوۃ فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہے اور ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کی وصولی کا کام کرنے والے ہیں اور مؤلفہ قلوب کے لیے اور غلام آزاد کرانے کے لیے اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں صرف کرنے کے لیے اور مسافر کے لیے۔ “

185۔ اسلامی مدارس، طلباء و مدرسین :
جن مدارس میں اساسی حیثیت دینی تعلیم اور شرعی علوم کی ہے ان میں ضرورت مند طلباء کے طعام و قیام، کتب، دوا و علاج اور آمد و رفت کے مصارف پر اور جن مدرسین کے پاس کوئی دوسراذریعۂ معاش نہیں ہے ان کی تنخواہ اور ضروری حاجات کی تکمیل پر زکوٰۃ صرف کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دینی کتابوں کی طباعت اور نشر و اشاعت پر بھی زکوٰۃ صرف کی جا سکتی ہے، البتہ تعمیرات بالخصوص مساجد کی تعمیر پر زکوٰۃ صرف نہیں کی جا سکتی۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے