بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
إن الحمدالله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ باالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهده االله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا االله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله. أما بعد…
باب فى تعريف السنة
سنت کی تعریف کا بیان
قال الله تعالى: (وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا ۚ واتقوا الله ۖ إن الله شديد العقاب )
[الحشر: ٧]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے رو کے رک جاؤ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقینا اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے۔‘‘
❀ عن أبى جحيفةؓ قال: قال رسول الله : من سن سنة حسنة فعمل بها بعده كان له أجره و مثل أجورهم من غير أن ينقص من أجورهم شيئا و من سن سنة سيئة فعمل بها بعده كان عليه وزره و مثل أوزارهم من غير أن ينقص من أوزارهم شيئا
’’حضرت ابو جحیفہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا، تو جاری کرنے والے کو اپنے عمل کا ثواب بھی ملے گا اور اس اچھے طریقے پر چلنے والے دوسرے لوگوں کے عمل کا ثواب بھی ملے گا جبکہ عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے کوئی برا طریقہ جاری کیا جس پر اس کے بعد عمل کیا گیا تو اس پر اپنا گناہ بھی ہو گا اور ان لوگوں کا گناہ بھی جنہوں نے اس پر عمل کیا جبکہ برے طریقے پر عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے گناہوں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘
(متن این للالباني، الجزء الأول، رقم: ۱۷۲)
❀عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله : فمن رغب عن سنتي فليس مني
حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے میرے طریقہ پر چلنے سے گریز کیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب النکاح باب الترغيب في النكاح، رقم: ٠٥٠٦٣)
عن قيس بن عمرو ، قال رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين فقال رسول الله : صلاة الصبح ركعتان، فقال الرجل إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الآن فسكت رسول الله ﷺ
حضرت قیس بن عمروؓ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو صبح کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا تو ارشاد فرمایا:
’’صبح کی نماز تو دو رکعت ہے۔‘‘ اس آدمی نے جواب دیا: میں نے فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں، لہذا اب پڑھی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ یہ جواب سن کر خاموش ہو گئے۔ (یعنی اس کی اجازت دے دی )۔
(صحيح سنن أبي داود، للألباني، الجزء الأول، رقم: ٦١٩.)
باب فى فضل السنة
سنت کی فضیلت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾
[النساء: ٥٩]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کبھی معاملہ میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریقہ ہے اور ثواب کے لحاظ سے بھی اچھا ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾
[النساء: ١٣]
اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ” جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔”
❀عن أبى هريرة ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبى ، قالوا: يا رسول الله و من يأبى؟ قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبى .
حضرت ابو ہرھیرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’میری امت کے سارے لوگ جنت میں جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انکار کس نے کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ” جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا، جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا ( اور وہ جنت میں نہیں جائے گا ) ۔
(صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب و السنة، باب الاقتداء بستن رسول الله رقم ۲۲۸)
❀ عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من أطاعني فقد أطاع الله، ومن يعصيني فقد عصى الله ، و من يطع الأمير فقد أطاعني، و من يعص الأمير فقد عصاني .
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الإمارة، رقم: ٠٤٧٤٧
❀عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس فى حجة الوداع فقال: إن الشيطان قد ييس أن يعبد بأرضكم و لكن رضي أن يطاع فيما سوى ذلك مما تحافرون من أعمالكم فاحذروا إني قد تركت فيكم ما إن اعتصمتم به فلن تضلوا أبدا كتاب الله و سنة نبيه
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ’’شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ اس سرزمین میں کبھی اس کی بندگی کی جائے گی ، لہذا اب وہ اسی بات پر مطمئن ہے کہ (شرک کے علاوہ) وہ اعمال جنہیں تم معمولی سمجھتے ہو ان میں اس کی پیروی کی جائے ، لہذا (شیطان سے ہر وقت ) خبردار رہو اور (سنو) میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں جسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی سنت ۔
صحيح الترغيب والترهيب، رقم: ٣٦.
❀عن أبى هريرة قال: قال رسول الله : إني قد تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما كتاب الله و سنتى .
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر ان پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت‘‘۔
صحيح الجامع الصغير للالباني، رقم: ۲۹۳۷
❀عن العرباض بن سارية قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ثم أقبل علينا فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون، و وجلت منها القلوب، فقال قائل: يا رسول الله! كأن هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا ؟ فقال: أوصيكم بتقوى الله و السمع و الطاعة وإن عبدا حبشيا فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهدمين الراشدين، تمسكوا بها و عضوا عليها بالنواجد، وإياكم و محدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة .
حضرت عرباض بن ساریہؓ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، نماز کے بعد ہماری طرف توجہ فرمائی اور ہمیں بڑا موثر وعظ فرمایا جس سے لوگوں کے آنسو بہہ نکلے اور دل کانپ اٹھے ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آج آپ نے اس طرح وعظ فرمایا ہے جیسے یہ آپ کا آخری وعظ ہو، ایسے وقت میں آپ ہمیں کس چیز کی تاکید فرماتے ہیں، ہمیں کچھ وصیت بھی فرما دیجیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالی سے ڈرنے، اپنے امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا امیر حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ( اور یاد رکھو ) جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ امت میں بہت زیادہ اختلافات دیکھیں گے۔ ایسے حالات میں میری سنت پر عمل کرنے کو لازم پکڑنا اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو تھامے رکھنا اور اس پر مضبوطی سے جمے رہنا نیز دین میں پیدا کی گئی نئی نئی باتوں (بدعتوں) سے بچنا کیونکہ دین میں ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
سنن ابی داود، کتاب السنة، رقم: ٤٦٠٧
❀ عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المرني حدثني أبى عن جدي أن رسول الله الله قال: من أحيا سنة من متى فعمل بها الناس كان له مثل أجر من عمل بها لا ينقص من أجورهم شيئا و من ابتدع بدعة فعمل بها كان عليه أوزار من عمل بها لا ينقص من أوزار من عمل بها شيئا .
حضرت کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے، میرے باپ نے میرے دادا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے میری سنتوں میں سے کوئی ایک سنت زندہ کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو سنت زندہ کرنے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس سنت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کو ملے گا جبکہ لوگوں کے اپنے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے کوئی بدعت جاری کی اور پھر اس پر لوگوں نے عمل کیا تو بدعت جاری کرنے والے پر ان تمام لوگوں کا گناہ ہو گا جو اس بدعت پر عمل کریں گے جبکہ بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے گناہوں کی سزا سے کوئی چیز کم نہیں ہوگی۔ ( یعنی وہ بھی پوری پوری سزا پائیں گے ) ۔“
سنن ابن ماجہ المقدمة . رقم: ۲۰۹
❀ عن عبد الرحمن بن عبد الله صلى الله عليه وسلم عن أبيه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: نضر الله إمرأ سمع منا حديثا فبلغه فرب مبلع أحفظ من سامع
حضرت عبدالرحمن بن عبداللہؓ اپنے باپ سے اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالی اس آدمی کوتر و تازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی اور اسے (جوں کا جوں) آگے پہنچا دیا ( کیونکہ ) اکثر وہ لوگ جن کو حدیث پہنچائی گئی ہو، وہ سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔‘‘
سنن ابن ماجة، المقدمة، رقم: ٢٣٢-
❀ عن ابن مسعود قال سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: نضر الله امرا سمع منا حديثا فبلغه كما سمع فرب مبلغ أوعى من سامع
’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اس کو اسی طرح دوسروں تک پہنچا دیا جس طرح سنی تھی (کیونکہ) بہت سے پہنچائے جانے والے سننے والوں سے زیادہ یادرکھنے والے ہوتے ہیں۔“
سنن الترمذى، كتاب العلم، رقم: ٢٦٥٧ –
باب فى أهمية السنة
سنت کی اہمیت کا بیان
❀ عن أنس يقول جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبى صلى الله عليه وسلم يسألون عن عبادة النبى صلى الله عليه وسلم فلما أخبروا كأنهم تقالوها ، فقالوا و أين نحن من النبى صلى الله عليه وسلم قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر قال: أحدهم أما أنا فإني أصلى الليل آبدا، وقال آخر أنا أصوم الدهر ولا أقطر، وقال آخر أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم فقال: أنتم الذين قلتم كذا وكذا أما و الله إني لاخشاكم لله و أتقاكم له لكني أصوم وأفطر وأصلى و أرقد و أتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني .
’’حضرت انسؓ فرماتے ہیں تین صحابی ازواج مطہراتؓ کے گھروں میں حاضر ہوئے اور نبی اکرم نے صلى الله عليه وسلم کی عبادت کے بارے میں سوال کیا جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے آپ ﷺ کی عبادت کو کم سمجھا اور آپس میں کہا نبی اکرم ﷺ کے مقابلے میں ہمارا کیا مقام ہے ان کی تو اگلی پچھلی ساری لغزشیں معاف کر دی گئیں ہیں (لہذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) ان میں سے ایک نے کہا میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا( آرام نہیں کروں گا) دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی ترک نہیں کروں گا، تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی ان کی قربت اختیار نہیں کروں گا جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ان سے پوچھا: کیا تم نے ایسا اور ایسا کہا ہے ؟ ( ان کے اقرار پر) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’خبردار! اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں ، ترک بھی کرتا ہوں، رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں ، عورتوں سے نکاح بھی کیے ہیں (یاد رکھو) جس نے میری سنت سے منہ موڑا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔“
صحيح بخاري، كتاب النكاح، باب الترغيب في النكاح، رقم: ٠٥٠٦٣
❀ عن عائشة دنا قالت: قال رسول الله : من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد .
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جس نے دین میں کوئی ایسا کام کیا جس کی بنیاد شریعت میں نہیں، وہ کام مردود ہے۔“
صحیح بخاری، کتاب الصلح، رقم ٢٦٩٧ ا
❀ عن جابر أن عمر ابن الخطاب أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنسخة من التوراة فسكت فجعل يقرأ و وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتغير فقال أبو بكر: تكلتك النواكل ما ترى ما بوجه رسول الله فنظر عمر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أعوذ بالله من غضب الله و غضب رسوله رضينا بالله ربا و بالإسلام دينا وبمحمد نبيا فقال رسول الله : والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حيا و أدرك نبوتي لا تبعني .
’’حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ تورات لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ تورات ہے۔ آپ ﷺ خاموش رہے، حضرت عمرؓ تورات پڑھنے لگے، تو رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک (غصے سے) بدلنے لگا۔ حضرت ابو بکرؓ(نے یہ صورت حال دیکھی ) تو کہا: اے عمر ! گم کرنے والیاں تجھے گم پائیں، رسول اللہ ﷺ کے چہرے کی طرف نہیں دیکھتے؟ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو کہا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غصے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں، ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔ اس کے بعد رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر آج موسیؑ تشریف لے آئیں اور تم لوگ میری بجائے ان کی اتباع شروع کر دو، تو سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاؤ گے اور اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے ، تو وہ بھی میری ہی اتباع کرتے ۔‘‘
سنن الدارمي المقدمة، باب ٣٩ رقم ٤٣٥۔
❀ عن العرباض بن سارية أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لقد تركتكم على مثل البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها إلا هالك
’’حضرت عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: لوگو! میں تمہیں ایسے روشن دین چھوڑے جا رہا ہوں جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے اس سے وہی شخص گریز کرے گا جسے ہلاک ہونا ہے۔‘‘
صحيح كتاب السنة 5 رقم ٤٩
❀ عن عروة بن الربير قال أبو بكر : لست تاركا شيئا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به فإنى أخشى إن تركت شيئا من أمره أن أزيغ .
’’حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ارشاد فرمایا: میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ سکتا جس پر رسول اللہ ﷺ عمل کیا کرتے تھے، کیونکہ مجھے ڈرہے کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کے قول وفعل میں سے کوئی چیز بھی چھوڑوں گا ، تو گمراہ ہو جاؤں گا۔“
صحیح بخاری، کتاب فرض صحیح مسلم، کتاب الجهاد و السير، رقم ٤٥٨٢ .
❀ عن أبى هريرة قال: قال رسول الله : من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار .
’’حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جان بوجھ کر جھوٹ میری جانب منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔“
صحیح بخاری، کتاب العلم، رقم: صحيح مسلم، المقدمة، رقم: ٤.
❀ عن أبى هريرة و قال: قال رسول الله : يكون فى آخر الزمان دجالون كذابون يأتونكم من الأحاديث بما لم تسمعوا أنتم ولا آباه كم فإياكم وإياهم لا يضلونكم ولا يفتنونكم .
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آخری زمانے میں دجال اور کذاب لوگ ایسی حدیثیں تمہارے پاس لائیں گے جو تم نے اور تمہارے اسلاف نے بھی نہ سنی ہوں گی ، لہذا ان سے بچ کر رہو کہیں تمہیں گمراہ نہ کر دیں یا فتنے میں مبتلا نہ کر دیں۔‘‘
صحيح مسلم، المقدمة، باب النهي عن الرواية عن الضعفاء رقم ١٦
❀ عن ابن عباس أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: أبغض الناس إلى الله ثلاثة ملحد فى الحرم، و مبتغ فى الإسلام سنة الجاهلية ، ومطلب دم امرى بغير حق ليهريق دمه .
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”تین آدمی اللہ تعالیٰ کے ہاں مغضوب ہیں:
➊ حرم شریف کی حرمت پامال کرنے والا۔
➋ اسلام میں رسول اللہ ﷺ کا طریقہ چھوڑ کر جاہلیت کا طریقہ تلاش کرنے والا۔
➌ کسی مسلمان کا ناحق خون طلب کرنے والا تا کہ اس کا خون بہائے ۔“
صحیح بخاری، کتاب الديات، باب من طلب دم امری، رقم ۶۸۸۲
تعظيم السنة
سنت کے احترام کا بیان
❀ عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تمنعوا إماء الله أن يصلين فى المسجد، فقال ابن له إنا لتمنعهن فغضب غضبا شديدا و قال أتحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم و تقول إنا لتمنعهن .
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکے۔ حضرت عبد اللہؓ کے بیٹے نے کہا: ہم تو روکیں گے ۔ حضرت عبداللہؓ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: میں تیرے سامنے حدیث رسول ﷺ بیان کر رہا ہوں اور تو کہتا ہے کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے ۔“
سنن ابن ماجة، كتاب السنة، باب تعظيم حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم و التخليص على من عارض ارواء الغليل، رقم ٥١٥، صحيح أبو داود، رقم: ٥٧٥.
❀ عن عبد الله بن مغفل و أنه كان جالسا إلى جنبه ابن أح له فخذف فنهاه و قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنها فقال: إنها لا تصيد صيدا ولا تنكى عدوا وإنها تكسر السن وتفقا العين، قال: فعاد ابن أخيه فخذف ، فقال: أحدثك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنها ثم عدت تخذف لا أكلمك أبدا .
’’حضرت عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے کہ ان کا بھتیجا پہلو میں بیٹھا کنکریاں پھینک رہا تھا۔ حضرت عبداللہؓ نے اسے منع کیا اور بتایا کہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے نیز نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسا کرنے سے نہ تو شکار ہو سکتا ہے، دشمن کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، البتہ اس سے (کسی کا) دانت ٹوٹ سکتا ہے یا آنکھ پھوٹ سکتی ہے۔ بھتیجے نے دوبارہ کنکریاں پھینکنا شروع کر دیں، تو حضرت عبداللہؓ نے کہا: ” میں نے تجھے بتایا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور تو پھر وہی کام کر رہا ہے، لہذا میں تجھ سے اب کبھی بات نہیں کروں گا۔‘‘
صحيح سنن ابن ماجه للألباني، المقدمة، رقم: ١٧.
❀ عن عمران بن حصين ، قال: قال رسول الله : الحياء خير كله. قال أو قال: الحياء كله خير ، فقال بشير بن كعب إنا لتجد فى بعض الكتب أو الحكمة إن منه سكينة و وقارا لله و منه ضعف قال فغضب عمران حتى أحمرنا عيناه و قال: ألا أراني أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم و تعارض فيه قال فأعاد عمران الحديث قال فأعاد بشير فغضب عمران قال فما زلنا تقول فيه إنه منا يا آبا نجيد ، إنه لا بأس به .
’’حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: حیا تو ساری بھلائی ہے۔ یا آپ ﷺ نے فرمایا: حیا مکمل بھلائی ہے۔حضرت بشیر بن کعبؓ نے کہا: ہم نے بعض کتابوں میں یا دانائی کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ حیا کی ایک قسم تو اللہ تعالیٰ کے حضور سکینہ اور وقار ہے جبکہ دوسری قسم بودا پن اور کمزوری ہے۔ یہ سن کر (صحابی رسول) حضرت عمرانؓ کو سخت غصہ آیا ، آنکھیں سرخ ہو گئیں اور فرمایا کہ میں تمہارے سامنے حدیث رسول ﷺ بیان کر رہا ہوں اور تو اس کے خلاف بات کر رہا ہے۔ راوی کہتے ہیں حضرت عمرانؓ نے پھر حدیث پڑھ کر سنائی۔ ادھر بشیر بن کعبؓ نے بھی اپنی وہی بات دہرا دی، تو حضرت عمرانؓ غضب ناک ہو گئے اور (بشیر بن کعبؓ کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ) ہم سب نے کہا: ’’اے ابا نجید!(حضرت عمرانؓ کی کنیت) بشیر ہمارا ہی مسلمان ساتھی ہے (اسے معاف کر دیجیے ) اس میں کوئی (منافقت یا کفر والی ) بات نہیں ہے۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الايمان، باب بيان عدد شعب الإيمان وفضيلة الحياء، رقم: ١٥٧.
❀ عن الحارث عن عبد الله بن اوس له قال أتيت عمر بن الخطاب و فسألته عن المرأة تطوف بالبيت يوم النحر ثم تحيض قال ليكن آخر عهدها بالبيت قال: فقال الحارث كذلك أفتاني رسول الله قال: فقال عمر أربت عن يديك سألتني عن شيء سألت عنه رسول الله لكي ما أخالف ؟
حضرت حارث بن عبداللہ بن اوسؓ کہتے ہیں کہ میں امیر عمر بن خطابؓ کے پاس حاضر ہوا اور ان سے پوچھا:
’’اگر قربانی کے دن طواف زیارت کرنے کے بعد عورت حائضہ ہو جائے تو کیا کرے؟“ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا:’’(طہارت حاصل کرنے کے بعد ) آخری عمل بیت اللہ شریف کا طواف ہونا چاہیے۔‘‘
حارثؓ نے کہا :
’’رسول اللہ ﷺ نے بھی مجھے یہی فتوی دیا تھا۔‘‘
اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں، تو نے مجھ سے ایسی بات پوچھی، جو رسول اللہ ﷺ سے پو چھ چکا تھا تا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے خلاف فیصلہ کروں۔“
صحیح سنن ابی داود، للالبانی، ه الأول، رقم ١٧٩٥.
باب مكانة الرابي لدى الستة
سنت کی موجودگی میں رائے کی حیثیت کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾
(النساء: ٦٥)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے محمد! تمہارے رب کی قسم، لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے (تمام) باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو بھی فیصلہ تم کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں ۔ ‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾
(محمد: ۳۳)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے منہ موڑ کر) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
[الحشر: ٧]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
❀ عن قبيضة ابن ذويب أنه قال جاءت الجدة إلى أبى بكر الصديق تسأله ميرانها فقال لها أبو بكر مالك فى كتاب الله شيء و ما عملت لك فى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا فارجعي حتى أسأل الناس فسأل الناس فقال المغيرة بن . حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطاها السدس فقال أبو بكر : هل معك غيرك؟ فقام محمد بن مسلمة الأنصاري فقال: مثل ما قال المغيرة ج فانفذه لها أبو بكر الصديق
’’حضرت قبیصہ بن ذویبؓ سے روایت ہے کہ ایک میت کی نانی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس میراث مانگنے آئی، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’قرآنی احکام کے مطابق میراث میں تمہارا کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی میں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے، لہذا واپس چلی جاؤ، میں اس بارے میں لوگوں سے دریافت کروں گا‘‘۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں سے پوچھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے کہا: میری موجودگی میں رسول اللہ ﷺ نے نانی کو چھٹا حصہ دلایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پوچھا: ” کوئی اور بھی اس کا گواہ ہے؟ حضرت محمد بن مسلمہ انصاریؓ نے بھی اس حدیث کی تائید کی۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نانی کو چھٹا حصہ دلا دیا۔“
صحیح سنن ابی داود للالبانی الجزء الأول، رقم ۲۸۸۸
❀ عن المسور بن مخرمة ع قال: استشار عمر بن الخطاب الناس فى ملاص المرأة فقال: المغيرة بن شعبة شهدت النبى صلى الله عليه وسلم قضى فيه بغرة عبد أو أمة، قال: التنى بمن يشهد معك، قال: فشهد له محمد فقال بن مسلمة
حضرت مسورہ بن مخرمہؓ سے روایت ہے حضرت عمرؓ نے پیٹ کے بچے کی دیت کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کیا، تو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے اس پر ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنے کا حکم دیا ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’ اپنی بات پر گواہ لاؤ۔ ‘‘چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس بات کی تصدیق کی۔ (اس کے بعد حضرت عمرؓ نے سنت رسول ﷺ کے مطابق فیصلہ فرما دیا)‘‘۔
صحیح مسلم، كتاب القسامة، باب: بين رقم ٤٣٩٧
❀ عن بجالة ، قال كنت كاتنا لجزء بن معاوية عم الاحتف فأتانا كتاب عمر بن الخطاب ك قبل موته بسنة فرقوا بين كل ذي محرم من المجوس و لم يكن عمر احل الجزية من المجوس حتى شهد عبد الرحمن بن عوف أن رسول الله أخذها من مجوس
حضرت بجالہؒ کہتے ہیں: میں اخف کے چچا جز بن معاویہ کا منشی تھا ہمیں حضرت عمرؓ کا ایک خط ان کی وفات سے ایک سال قبل ملا، جس میں لکھا تھا کہ جس مجوسی نے اپنی محرم عورت سے نکاح کیا ہو انہیں الگ کر دو۔ حضرت عمرؓ مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے، لیکن جب حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ مجوسیوں سے جزیہ لیا کرتے تھے، (تو حضرت عمرؓ نے بھی جزیہ لینا شروع کر دیا )۔‘‘
صحيح البخاري والموادعة مع أهل الذمة و الحرب، رقم: ٣١٥٧،٣١٥٦
باب احتياج السنة لفهم القرآن
قرآن سمجھنے کے لیے سنت کی ضرورت کا بیان
❀ عن المقداد بن معدى كرب و عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه ألا يوشك رجل شبعان على أريكته يقول: عليكم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه ألا لا يحل لكم لحم الحمار الأهلي ولا كل ذي ناب من السبع ولا نقطة معاهد إلا أن يستغنى عنها صاحبها و من نزل بقوم فعليهم أن يقروه فإن لم يقروه فله أن يعقبهم بمثل قراه .
حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگو! یاد رکھو! قرآن ہی کی طرح ایک اور چیز ( یعنی حدیث) مجھے اللہ کی طرف سے دی گئی ہے۔ خبردار! ایک وقت آئے گا کہ ایک پیٹ بھرا ( یعنی متکبر شخص) اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو گا اور کہے گا لوگو! تمہارے لیے یہ قرآن ہی کافی ہے اس میں جو چیز حلال ہے بس وہی حلال ہے اور جو چیز حرام ہے بس وہی حرام ہے۔ حالانکہ جو کچھ اللہ کے رسول نے حرام کیا ہے وہ ایسے ہی حرام ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ سنو! گھریلو گدھا بھی تمہارے لیے حلال نہیں (حالانکہ قرآن میں اس کی حرمت کا ذکر نہیں ) نہ ہی وہ درندے جن کی کچلیاں (یعنی نوکیلے دانت جن سے وہ شکار کرتے ہیں ) ہیں، نہ ہی کسی ذمی کی گری پڑی چیز کسی کے لیے حلال ہے۔ ہاں البتہ اگر اس کے مالک کو اس کی ضرورت ہی نہ ہو تو پھر جائز ہے۔‘‘
صحیح سنن ابی داود للالبانی الجزء الثالث، رقم: ٣٨٤٨۔
❀ عن أبى رافع ما عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا ألفين أحدكم متكنا على أريكته يأتيه الأمر من أمرى مما أمرت به أو نهيت عنه فيقول: لا ندري ما وجدنا فى كتاب الله اتبعناه .
حضرت ابو رافعؓ روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’(لوگو!) میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو اس کے پاس میرے ان احکامات میں سے جن کا میں نے حکم دیا، یا جن سے میں نے منع کیا ہے، کوئی حکم آئے اور وہ یوں کہے میں تو ( آپ ﷺ کے اس حکم کو نہیں جانتا، ہم نے جو کتاب اللہ میں پایا اس پر عمل کر لیا (یعنی ہمارے لیے وہی کافی ہے)۔‘‘
صحیح سنن ابی داود للالبانی الجزء الثالث، رقم: ٣٨٤٩۔
❀ عن حذيفة يقول: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الأمانة نزلت من السماء فى جدر قلوب الرجال و نزل القرآن فقرءوا القرآن وعلموا من السنة .
’’حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دیانت داری آسمان سے لوگوں کے دلوں میں اتری ہے (یعنی انسان کی فطرت میں شامل ہے) اور قرآن بھی ( آسمان سے ) نازل ہوا ہے جسے لوگوں نے پڑھا اور سنت کے ذریعے سمجھا۔“
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب و السنة، باب الاقتداء بستن رسول الله ، رقم: ۷۲۷۶
باب وجوب العمل بالسنة
سنت پر عمل کرنے کے واجب ہونے کا بیان
❀ عن أبى هريرة قال خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أيها الناس قد فرض الله عليكم الحج فحبوا فقال رجل: كل عام يا رسول الله؟ فسكت حتى قالها ثلاثا فقال رسول الله : لو قلت نعم، وجبت ولما استطعتم، ثم قال: ذروني ما تركتكم فإنما هلك من كان قبلكم بكثرة سوالهم و اختلافهم على أنبياء هم فإذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم وإذا نهيتكم عن شيء فدعوه .
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے،‘‘ لہذا حج کرو۔ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہر سال حج ادا کریں؟ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے۔ اس آدمی نے تین مرتبہ سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج ادا کرنا واجب ہو جاتا اور پھر اس پر عمل کرنا تمہارے لیے ممکن نہ ہوتا، لہذا جتنی بات میں تم سے کہوں اسی پر اکتفا کیا کرو، اگلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے نبیوں سے زیادہ سوال اور اختلاف کرتے تھے ۔‘‘ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو (کرید کی بجائے ) اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو اور جس چیز سے منع کروں اسے چھوڑ دو ۔“
صحیح مسلم، كتاب الحج، باب فرض الحج مرة في العمر، رقم: ٣٢٥٧.
❀ عن أبى سعيد بن المعلى قال: كنت أصلى فى المسجد فدعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم أجبه فقلت يا رسول الوا إني كنت أصلى، فقال: ألم يقل الله واستجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم .
حضرت ابو سعید بن معلیؓ فرماتے ہیں میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، نبی اکرم ﷺ نے مجھے آواز دی، میں نے جواب نہ دیا پھر (نماز ختم کر کے ) جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھا ( اس لیے آپ ﷺ کے بلانے پر حاضر نہ ہو سکا ) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا اللہ تعالی نے (قرآن مجید میں ) یہ حکم نہیں دیا: ”لوگو! اللہ اور اس کا رسول جب تمہیں بلائیں تو اس کے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن باب فضل فاتحة الكتاب، رقم: ٥٠٠٦
❀ عن جابر بن عبد الله ع قال جاءت ملائكة إلى النبى صلى الله عليه وسلم وهو نائم فقالوا: إن لصاحبكم هذا مثلا فاضربوا له مثلا فقال: بعضهم: إنه نائم و قال بعضهم: إن العين نائمة والقلب يقطان ، فقالوا: مثله كمثل رجل بني دارا و جعل فيها مادبة و بعث داعيا فمن أجاب الداعى دخل الدار وأكل من المادبة و من لم يجب الداعى لم يدخل الدار و لم يأكل من المادية فقالوا: أولوها له يفقهها فقال بعضهم: إنه نائم وقال بعضهم: إن العين نائمة والقلب يقطان ، فقالوا: فالدار الجنة والداعي محمد، فمن أطاع محمدا فقد أطاع الله و من على محمدا الله و محمد فرق بين الناس
حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں فرشتوں کی ایک جماعت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت آپ ﷺ سو رہے تھے۔ فرشتوں نے آپس میں کہا: رسول اللہ ﷺ کی ایک مثال ہے، وہ بیان کرو۔ کچھ فرشتوں نے کہا آپﷺ تو سو رہے ہیں (یعنی ان کے سامنے مثال بیان کرنے سے کیا فائدہ؟) لیکن کچھ دوسرے فرشتوں نے کہا آپ ﷺ کی آنکھ تو واقعی سو رہی ہے لیکن دل جاگتا ہے۔ چنانچہ فرشتوں نے کہا: آپ ﷺ کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے ایک گھر تعمیر کیا ، کھانا پکایا اور پھر لوگوں کو بلانے کے لیے ایک آدمی بھیجا، جس نے بلانے والے کی بات مان لی وہ گھر میں داخل ہوا اور کھانا کھا لیا۔ جس نے بلانے والے کی بات نہ مانی وہ گھر میں داخل ہوا نہ کھانا کھایا۔ پھر کچھ فرشتوں نے کہا: اس مثال کی وضاحت کرو تا کہ آپ ﷺ اچھی طرح سمجھ لیں ۔ بعض فرشتوں نے پھر یہ بات دہرائی آپ تو سور ہے ہیں۔ لیکن دوسروں نے جواب دیا آپ کی آنکھ تو سو رہی ہے لیکن دل جاگ رہا ہے۔ چنانچہ فرشتوں نے مثال کی یوں وضاحت کی : گھر سے مراد جنت ہے (جسے اللہ تعالیٰ نے تعمیر کیا ہے ) اور لوگوں کو بلانے والے محمد ﷺ ہیں۔ پس جس نے محمد ﷺ کی بات مان لی اس نے گویا اللہ تعالی کی بات مانی اور جس نے محمد ﷺ کی بات ماننے سے انکار کیا، اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی بات ماننے سے انکار کیا اور محمد ﷺ ہم لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں (یعنی کون فرمانبردار ہے اور کون نافرمان ) ۔“
صحيح البخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة، باب الاقتداء بستن رسول الله ، رقم: ۲۲۸۱۔
❀ عن المقدام بن معدى كرب و عن رسول الله أنه قال الا إني أوتيت الكتاب ومثله معه ألا يوشك رجل شبعان على أريكته يقول: عليكم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من خلال فاحلوه و ما وجدتم فيه من حرام فحرموه ألا لا يحل لكم لحم الحمار الأهلي ولا كل ذي ناب من السبع ولا لقطة معاهد إلا أن يستغنى عنها صاحبها .
حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگو! یاد رکھو قرآن ہی کی طرح ایک اور چیز ( یعنی سنت ) مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہے خبردار! ایک وقت آئے گا کہ ایک پیٹ بھرا ( یعنی متکبر شخص) اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھا ہوگا اور کہے گا لوگو! تمہارے لیے قرآن ہی کافی ہے۔ اس میں جو چیز حلال ہے بس وہی حلال ہے اور جو چیز حرام ہے بس وہی حرام ہے۔ حالانکہ جو کچھ اللہ کے رسول ﷺ نے حرام کیا ہے وہ ایسے ہی حرام ہے جیسے اللہ تعالی نے حرام کیا ہے سنو! گھریلو گدھا بھی تمہارے لیے حلال نہیں (حالانکہ قرآن میں اس کی حرمت کا ذکر نہیں ) نہ ہی درد نے جن کی کچلیاں ( نوکیلے دانت جن سے وہ شکار کرتے ہیں ) ، نہ ہی کسی ذمی کی گری پڑی چیز کسی کے لیے حلال ہے۔ ہاں البتہ اگر اس کے مالک کو اس کی ضرورت ہی نہ ہو تو پھر جائز ہے۔‘‘
صحیح سنن ابی داود للالباني، الجزء الثالث، رقم: ٣٨٤٨۔
باب السنة والصحابة
صحابہ کرامؓ کی نظر میں سنت کا بیان
❀ عن نافع قال: سمع ابن عمر نا مزمارا قال فوضع إصبعيه على أذنيه و نأى عن الطريق ، وقال لي: يا نافع هل تسمع شيئا قال: فقلت لا ، قال: فرفع إصبعيه من أذنيه ، وقال: كنت مع النبى صلى الله عليه وسلم مثل هذا فصنع مثل ذلك ، قال نافع: فكنت إذا ذاك صغيرا .
حضرت نافعؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بانسری کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں اور راستے کی دوسری سمت کافی دور نکل گئے اور مجھ سے پوچھا: اے نافع ! کیا کچھ سن رہے ہو؟ میں نے عرض کیا نہیں تب انہوں نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں اور فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، رسول اللہﷺ نے بانسری کی آواز سنی اور ایسے ہی کیا (جیسے میں نے اب کیا ہے) حضرت نافعؓ نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت میں چھوٹی عمر کا لڑکا تھا۔
صحیح سنن ابی داود للالبانی الثاني رقم : ٤١١٦. ج۔
❀ عن نافع أن رجلا عطس إلى جنب ابن عمر فقال: الحمد لله والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ابن عمرنا و أنا أقول: الحمد لله والسلام على رسول الله وليس هكذا علمنا رسول الله ، علمنا أن تقول الحمد لله على كل حال
حضرت نافعؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس چھینک ماری اور کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ تو میں بھی کہتا ہوں (یعنی مجھے بھی رسول اللہ ﷺ کے نام پر سلام بھیجنے میں کوئی اعتراض نہیں) لیکن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یوں سکھایا ہے (چھینک کے بعد ) ہم الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلّ حَالٍ (یعنی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے) کہیں (لہذا جو سنت طریقہ ہے وہی اختیار کرو)۔
صحیح سنن الترمذي لـرقم ٢٢٠٠
❀ عن زيد بن أسلم عن أبيه أن عمر بن الخطاب و قال: للركن أما و الله! إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع ولو لا أني رأيت النبى استلمك ماستلمتك فاستلمه ثم قال: فمالنا وللرمل إنما كنا رأينا به المشركين و قد أهلكهم الله ثم قال شيء صنعه النبى فلا تحب أن نتركه .
’’حضرت زید بن اسلمؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا واللہ ! میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے اگر میں نے نبی اکرم ﷺ کو استلام ( حجر اسود کو ہاتھ لگا کر بوسہ دینا) کرتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا۔ پھر فرمایا: اب ہمیں رمل کرنے کی کیا ضرورت ہے دل تو دشمنوں کو دکھانے کے لیے تھا اب تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر دیا ہے۔ پھر خود ہی فرمایا لیکن رمل تو وہ چیز ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے اور سنت چھوڑنا ہمیں پسند نہیں۔‘‘
صحيح البخاري، كتاب الحج، رقم: ١٩٠٥.
❀ عن ابن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال بني الإسلام على خمسة على أن يوحد الله ، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصيام رمضان، والحج فقال رجل: الحج وصيام رمضان، قال لا ، صيام رمضان والحج هكذا سمعته رسول الله
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اللہ تعالی کی توحید، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے اور حج ادا کرنا۔ ایک آدمی نے (بات دہرا کر ) پوچھا: حج اور رمضان کے روزے؟ (یعنی لفظ تقدیم تاخیر کے ساتھ بیان کیے ) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا: (نہیں) رمضان کے روزے اور حج ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس ترتیب سے حدیث سنی تھی۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان اركان الاسلام، رقم: ۱۱۱۔
❀ و عن عبد الله بن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى خاتما من ذهب فى يد رجل فتزعه فطرحه و قال يعمد أحدكم إلى جمرة من نار فيجعلها فى يده . فقيل للرجل بعد ما ذهب رسول الله حد خاتمك انتفع به قال: لا ، و الله لا أخذه ابدا و قد طرحه رسول الله .
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کے ہاتھ ( کی انگلی ) میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا تم میں سے کوئی سونے کی انگوٹھی پہن کر گویا آگ کے انگارے کا قصد کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد اس آدمی سے کہا گیا انگوٹھی اٹھا لو اور اس سے کوئی (دوسرا) فائدہ حاصل کر لو ( یعنی اپنی بیوی یا بہن کو دے دو یا فروخت کر دو) صحابی نے کہا: اللہ کی قسم! جس انگوٹھی کو رسول اللہﷺ نے پھینک دیا ہے اسے بھی نہ اٹھاؤں گا ۔“
صحیح مسلم، کتاب اللباس والزينة، باب تحريم خانم للرجال، رقم: ٥٤٧٢۔
باب ذم البدعة
بدعت کی مذمت کا بیان
❀ عن جابر بن عبد الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله : أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله و خير الهدي هدى محمد و شر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة
حضرت جابرؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حمد وثنا کے بعد (یاد رکھو) بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت محمد ﷺ کی ہدایت ہے اور بدترین کام دین میں نئی بات ایجاد کرنا ہے اور ہر بدعت (نبی ایجاد شدہ چیز ) گمراہی ہے۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، رقم: ٢٠٠٥.
❀ عن عائشة و قالت: قال رسول الله : من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رة .
’’حضرت عائشہؓ کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کوئی ایسا کام کیا جو دین میں نہیں ہے، وہ کام اللہ تعالی کے ہاں مردود ہے۔“
صحیح بخاری، کتاب الصلح، رقم: ۲۹۹۷
❀ عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله : إن الله حجب التوبة عن كل صاحب بدعة حتى يدع بدعته .
’’حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی بدعتی کی توبہ قبول نہیں کرتا ، جب تک وہ بدعت چھوڑ نہ دے۔‘‘
صحيح الترغيب والترهيب ب الجزء الأول، رقم: ٥٢.
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد و آله وصحبه أجمعين.