یہ مضمون حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے منسوب ایک قول کے بارے میں تحقیقی وضاحت ہے، جس میں بیان کیا گیا کہ سات زمینیں ہیں اور ہر زمین میں ایک نبی تمہارے نبی ﷺ کی طرح، ایک آدمؑ تمہارے آدمؑ کی طرح، ایک نوحؑ تمہارے نوحؑ کی طرح، ایک ابراہیمؑ تمہارے ابراہیمؑ کی طرح اور ایک عیسیٰؑ تمہارے عیسیٰؑ کی طرح ہے۔
ایک دیوبندی محقق محمد ناظم عباسی نے اس اثر کو قابلِ استدلال ظاہر کرنے کی کوشش کی، حالانکہ اس کی اسناد اور متن دونوں پر محدثین نے جرح کی ہے۔
اس مضمون میں ہم:
❀ اس قول کی دونوں سندوں کا تفصیلی جائزہ پیش کریں گے۔
❀ راویانِ سند پر محدثین کے اقوال ذکر کریں گے۔
❀ متن پر محدثین کی آراء بیان کریں گے۔
❀ دیوبندی مکتب فکر میں قولِ صحابی کی حجیت کے بارے میں اُن کے اپنے علماء کے اقوال ذکر کریں گے۔
📜 المستدرک کی دونوں اسناد اور رواۃ پر جرح
① پہلی سند (المستدرک 3822)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ النَّخَعِيُّ، أَنْبَأَ عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ، ثنا شَرِيكٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ…
اس سند میں شریک بن عبداللہ النَّخعی (قاضی) اور عطاء بن السائب دونوں پر اختلاط اور ضعف کی بنا پر کلام ہے؛ خصوصاً شریک کا قاضی مقرر ہونے کے بعد حفظ متاثر ہوا، اور عطاء بن السائب کا اختلاط ثابت ہے — شریک کی عطاء سے روایت میں قبل/بعدِ اختلاط کا شبہ ہے۔
◈ ابن حجر (تقریب):
شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ النَّخَعِيُّ… صَدُوقٌ يَخْطِئُ كَثِيرًا، تَغَيَّرَ حِفْظُهُ مُنْذُ وُلِّيَ الْقَضَاءَ بِالْكُوفَةِ…
شریک بن عبداللہ النخعی صدوق تھے مگر کثرت سے خطا کرتے، اور کوفہ میں قاضی بننے کے بعد حفظ متاثر ہوا۔
حوالہ: تقريب التهذيب، ابن حجر
◈ شعیب الأرنؤوط (تحقیقِ مسند أحمد):
وشريكٌ… سَيِّئُ الحِفْظ، ثم لم يتحرر لنا أمرُه: سمع من عطاء قبل الاختلاط أم بعده.
شریک کمزور حافظہ کے حامل تھے؛ یہ واضح نہیں کہ عطاء سے سماع اختلاط سے پہلے ہوا یا بعد میں۔
حوالہ: مسند الإمام أحمد (تحقیق: شعیب الأرنؤوط وغیرہ) موضع رقم 16400
◈ الہیثمی (مجمع الزوائد):
وفيه عطاء بن السائب، وقد اختلط.
سند میں عطاء بن السائب ہیں، اور ان میں اختلاط واقع ہوا تھا۔
حوالہ: مجمع الزوائد، للہيثمي (الأوسَط للطبراني کی روایت پر تبصرہ)
② دوسری سند (المستدرک 3823)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحُسَيْنِ… عن أبي الضُّحى، عن ابن عباس…
اس سند کا مرکزی شیخ عبدالرحمن بن الحسن القاضی الہمذانی پر کذب اور شدید ضعف کی تصریحات موجود ہیں، اس لئے یہ سند ساقط الاعتبار ہے۔
◈ الذهبي (تاريخ الإسلام):
… رماه بالكذب القاسمُ بنُ أبي صالح… وقال صالحُ بن أحمد الهمداني: ضعيف…
قاسم بن ابی صالح نے کذاب کہا، اور صالح بن احمد الہمذانی نے ضعیف قرار دیا۔
حوالہ: تاريخ الإسلام، للذهبي
◈ ابن عراق الكنانِي (تنزيه الشريعة):
عبدُ الرَّحمنِ بنُ الحسنِ… كذّبه القاسمُ بنُ أبي صالح.
قاسم بن ابی صالح نے اسے کذاب کہا۔
حوالہ: تنزيه الشريعة، ابن عراق الكنانِي
◈ المناوي (فيض القدير):
وفيه عبدُ الرحمن بنُ الحسنِ الأسدي… أورده الذهبي وغيره في الضعفاء ورماه بالكذب.
اسے ذہبی وغیرہ نے ضعفاء میں ذکر کرکے کذاب قرار دیا۔
حوالہ: فيض القدير، للمناوي
📜 متنِ اثر پر محدثین کی آراء
③ الذهبي
… وهذه بَلِيَّةٌ تُحَيِّرُ السامع، كتبتُها استطْرادًا للتعجُّب، وهو من قبيل اسْمَعْ واسْكُتْ.
یہ متن سامع کو حیران کر دینے والی آفت ہے؛ میں نے محض تعجباً نقل کیا؛ ایسی روایات میں موقف “سن لو اور خاموش رہو” کا ہوتا ہے (یعنی نہ اثبات نہ رد بطریقِ توثیق).
حوالہ: العلوّ للعليّ الغفار، للذهبي
④ ابن كثير
… وهو محمولٌ إن صحَّ نقله عنه على أنه أخذه عن الإسرائيليات والله أعلم.
اگر یہ اثر صحیح نسبت کے ساتھ ثابت بھی ہو تو اسے اسرائیلیات سے مأخوذ سمجھا جائے گا۔
حوالہ: البداية والنهاية، لابن كثير
⑤ السخاوي
فهو محمول إن صح نقله عنه… على أنه أخذه عن الإسرائيليات، وذلك وأمثاله… إن لم يُخبر به ويصح سنده إلى معصوم فهو مردودٌ على قائله.
اگر صحیح نسبت ہو تب بھی اسے اسرائیلیات سے مأخوذ سمجھا جائے گا؛ اور ایسی خبریں جب تک معصوم تک صحیح سند سے نہ ہوں، قائل کے حق میں مردود ہیں۔
حوالہ: المقاصد الحسنة، للسخاوي
⑥ ابن برهان الحلبي (نقلًا عن البيهقي)
قال البيهقي: إسناده صحيح لكنه شاذٌّ بالمرة… لا يلزم من صحة الإسناد صحة المتن… فهو ضعيف.
بیہقی کے مطابق سند اگرچہ صحیح ہے مگر متن شاذ ہے؛ سند کی صحت متن کی صحت لازم نہیں کرتی، اس لئے متن ضعیف ہے۔
حوالہ: السيرة الحلبية (إنسان العيون)
⑦ أبو حيّان الأندلسي
… وعن ابن عباس، من رواية الواقدي الكذّاب… وهذا حديث لا شك في وضعه.
ابن عباسؓ سے یہ روایت واقدی کذاب کی روایات میں سے ہے؛ اس کے وضعی ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
حوالہ: البحر المحيط في التفسير، لأبي حيّان
✿ خلاصہ کلام
❀ پہلی سند میں شریک اور عطاء بن السائب کے اختلاط/ضعف کی وجہ سے اعتماد میں خلل ہے۔
❀ دوسری سند عبدالرحمن بن الحسن القاضی کے کذب کے سبب ساقط الاعتبار ہے۔
❀ متن پر ائمہ (ذہبی، ابن کثیر، سخاوی، حلَبی، ابو حیّان) کے بیانات اس اثر کے استدلال کے لائق نہ ہونے پر متفق ہیں۔
اہم حوالاجات کے سکین