احادیثِ مبارکہ کی حفاظت اور ائمہ محدثین کا مقام
احادیثِ مبارکہ دین کا حصہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کے لیے امت میں ایسے مخصوص افراد پیدا کیے جنہیں ائمہ محدثین کہا جاتا ہے۔ ان کی عظمت اور مقام کو بیان کرتے ہوئے علامہ و حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٦٧٣-٧٤٨ھ) فرماتے ہیں:
"فباللّٰہ علیک ، یا شیخ ! ارفق بنفسک والزم الإنصاف ، ولا تنظر إلی ہؤلاء الحفّاظ النظر الشزر ، ولا ترمقنّہم بعین النقص ، ولا تعتقد فیہم أنّہم من جنس محدثی زماننا ، حاشا وکلّا ، فما فی من سمّیت أحد ــ وللّٰہ الحمد ــ إلّا وہو بصیر بالدین عالم بسبیل النجاۃ ، ولیس فی کبار محدثی زماننا أحد یبلغ رتبۃ أولئک فی المعرفۃ ، فإنّی أحسبک لفرط ہواک تقول بلسان الحال إن أعوزک المقال من أحمد ، وما ابن المدینی ، وأیّ شیء أبو زرعۃ وأبو داود ، ہؤلاء محدثون ولا یدرون ما الفقہ ، ما أصولہ ، ولا یفقہون الرأی ، ولا علم لہم بالبیان والمعانی والدقائق ولا خبرۃ لہم بالبرہان والمنطق ، ولا یعرفون اللّٰہ تعالی بالدلیل ، ولا ہم من فقہاء الملّۃ ، فاسکت بحلم أو انطق بعلم ، فالعلم النافع ہو النافع ما جاء عن أمثال ہؤلاء ، ولکن نسبتک إلی أئمّۃ الفقہ کنسبۃ محدثی عصرنا إلی أئمّۃ الحدیث ، فلا نحن ولا أنت ، وإنّما یعرف الفضل لأہل الفضل ذو الفضل ، فمن اتّقی اللّٰہ راقب اللّٰہ واعترف بنقصہ ، ومن تکلّم بالجاہ وبالجہل أو بالشر والبأو ، فأعرض عنہ وذرہ فی غیّہ ، فعقباہ إلی وبال ، نسأل اللّٰہ العفو والسلامۃ ۔”
(تذکرۃ الحفاظ للذہبی : ٢/٦٢٧،٦٢٨)
"اے شیخ! اللہ سے ڈر، اپنے آپ پر رحم کر، انصاف کا دامن تھام، اور ان ائمہ محدثین کی طرف نفرت یا توہین کی نظر سے مت دیکھ۔ انہیں ہمارے دور کے محدثین کی طرح نہ سمجھ، بلکہ یہ وہ ہستیاں ہیں جو دین کی بصیرت اور نجات کی راہوں سے واقف ہیں۔ ہمارے دور کے بڑے محدثین میں بھی ان جیسے علم کی معرفت رکھنے والا کوئی نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تعصب کی وجہ سے تُو احمد بن حنبل، ابن مدینی، ابو زرعہ، یا ابو داؤد جیسے جلیل القدر محدثین کو معمولی سمجھے۔ خاموش رہنا ہی بہتر ہے، اور اگر بولنا ہے تو علم کے ساتھ بول۔”
ائمہ محدثین میں ایک عظیم شخصیت: امام دُحَیم
ائمہ محدثین میں سے ایک عظیم شخصیت ابو سعید عبدالرحمن بن ابراہیم الدمشقی، المعروف دُحَیم ہیں، جو شام کے محدث، قاضی اور ایک بڑے ناقدِ رجال تھے۔
ولادت
آپ کی ولادت ١٧٠ ہجری میں ہوئی۔
اساتذہ کرام
آپ نے امام سفیان بن عیینہ، ابو مسعر، ولید بن مسلم، عمر بن عبدالواحد، شعیب بن اسحاق، مروان بن معاویہ، اور محمد بن شعیب بن شابور جیسے مشہور محدثین سے علم حاصل کیا۔
تلامذہ
آپ کے شاگردوں میں ایک بڑی جماعت شامل ہے، جن میں امام بخاری، امام مسلم، امام ابو داؤد، امام نسائی، امام ابن ماجہ، امام ابو زرعہ رازی، امام ابو زرعہ دمشقی، امام ابو حاتم رازی، امام محمد بن یحییٰ ذہلی اور امام فریابی رحمہم اللہ شامل ہیں۔
توثیق و توصیف
بہت سے ائمہ محدثین نے آپ کی ثقاہت اور مقام کا اعتراف کیا:
➊ امام عجلی نے آپ کو ثقہ قرار دیا۔ (تاریخ الثقات : ٢٨٧)
➋ امام ابو حاتم رازی نے آپ کی توثیق کی۔ (الجرح والتعدیل : ٥/٢١٢)
➌ امام نسائی نے آپ کو ثقہ کہا۔ (مشیخۃ النسائی : ١٦١)
➍ امام دارقطنی نے آپ کے مقام کو بیان کیا۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی : ص ٢٣٨)
➎ خطیب بغدادی نے آپ کی ثقاہت کا اعتراف کیا۔ (تاریخ بغداد : ١٠/٢٦٥)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں، "آپ عقلمند اور سنجیدہ و باوقار شخص تھے۔”
(العلل ومعرفۃ الرجال : ٢٤٦)
بلند مقام
ثقہ و حافظ عبداللہ بن محمد بن سیار فرہیائی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ شام کے علماء میں سے سب سے زیادہ قابل اعتماد کون ہیں، تو انہوں نے جواب دیا:
"أعلاہم دُحَیم” یعنی ان میں سب سے بلند پایہ عالم امام دُحَیم رحمہ اللہ تھے۔
(تاریخ بغداد للخطیب : ١٠/٢٥٦، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جو پختہ حافظے کے مالک تھے اور اپنے علاقے کے علماء کو ان کے شیوخ اور نسب سمیت یاد رکھتے تھے۔
(کتاب الثقات لابن حبان : ٨/٣٨١)
علمی مقام
حافظ خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، "آپ حفاظ ائمہ محدثین میں سے ایک تھے۔ ان کی علمی جلالت پر علمائے کرام کا اتفاق ہے، اور شام کے شیوخ کی جرح و تعدیل میں آپ پر اعتماد کیا جاتا ہے۔”
(کتاب الارشاد للخلیلی : ١/٤٥٠)
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے آپ کو نقاد ائمہ میں شمار کیا ہے۔
(الکامل لابن عدی : ١/١٣٤)
اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی آپ کو اپنی کتاب
"ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل”
میں ذکر کیا ہے۔
(ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل للذہبی : ص ١٧٣)
امام ابو حاتم رازی کا قول
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، "امام دُحَیم رحمہ اللہ اپنی حدیث پر مکمل ضبط رکھتے تھے۔”
(الجرح والتعدیل : ٥/٢١١)
حافظ ذہبی کا بیان
حافظ ذہبی رحمہ اللہ آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، "آپ قاضی، امام، فقیہ، حافظ اور شام کے محدث تھے۔۔۔ آپ نے علم حدیث میں گہری دلچسپی لی اور اپنے ہم عصروں پر فوقیت حاصل کی۔ آپ نے احادیث کو جمع کیا اور ان کی تصنیف کی، راویوں کی جرح و تعدیل کی اور احادیث کی صحت و ضعف پر کام کیا۔”
(سیر اعلام النبلاء للذہبی : ١١/٥١٥)
وفات
یہ عظیم محدث، حافظ حدیث اور ناقد رجال ٢٥٤ ہجری میں وفات پا گئے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
خلاصہ
یہ مضمون احادیثِ مبارکہ کی اہمیت اور ائمہ محدثین کی عظمت کو بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کی حفاظت کے لیے امت میں خاص افراد یعنی ائمہ محدثین کو پیدا کیا، جن کی عظمت اور علم میں کوئی کمی نہیں۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ جیسے ناقدین نے ائمہ کی بصیرت، علم دین اور فہم کی قدر کو بیان کیا ہے اور یہ وضاحت کی کہ موجودہ زمانے کے علماء ان کے علم و معرفت کی سطح تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس مضمون میں امام دحیم کی زندگی، ان کے اساتذہ، تلامذہ، اور ان کی علمی و فقہی مہارت پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس میں ان کے بلند مقام اور اعتماد کو تسلیم کیا گیا ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام ابن حبان، امام ابو حاتم رازی اور حافظ ذہبی جیسے علماء نے امام دحیم کی توثیق کی اور ان کی علمی جلالت کو سراہا۔