دنیا ایک دارالامتحان ہے، یہاں ہر انسان کو کسی نہ کسی طرح آزمائش سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مسلمان ہو یا کافر، فرمانبردار بندہ ہو یا نافرمان، مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا — سب ہی زندگی میں مختلف قسم کی آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ ان آزمائشوں کی نوعیت کبھی جسمانی ہوتی ہے، کبھی گھریلو، کبھی مالی اور کبھی نفسیاتی۔ کوئی شخص بیماریوں میں مبتلا رہ کر آزمایا جاتا ہے، کوئی بیوی یا اولاد کے بُرے رویّے سے پریشان ہوتا ہے، اور کوئی تنگدستی، روزگار یا خاندانی تنازعات سے متاثر ہوتا ہے۔ الغرض انسان ہر وقت کسی نہ کسی امتحان میں رہتا ہے۔
لیکن کامیاب وہی انسان ہے جو ان تمام آزمائشوں کے دوران صبر و شکر کا مظاہرہ کرے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہے، اور کبھی اپنی زبان پر شکایت نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا:
﴿ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ٭ أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ﴾
[البقرۃ : 155۔157]
ترجمہ:’’اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے، جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
ایسے صابر بندے کے لیے دنیا میں مصیبتیں تو ہیں، لیکن آخرت میں انعامات و رحمتیں بے شمار ہیں — ایسی راحتیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
❀ خود کشی کا خطرناک پہلو
کچھ لوگ آزمائشوں سے تنگ آ کر زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اپنی جان دے دینے میں ہی نجات ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خود کشی کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب کا دروازہ کھولنے والی ہلاکت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر خود کشی کو حرام قرار دیا ہے:
﴿ وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا ٭ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ﴾
[النساء : 29۔30]
ترجمہ:’’اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے، اور جو شخص ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا، ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے، اور یہ کام اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘
جو شخص اپنی زندگی ختم کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی رحمت سے مایوس ہو چکا ہوتا ہے، اور قرآن میں فرمایا گیا ہے:
﴿ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ ﴾
[یوسف : 87]
ترجمہ:’’اللہ کی رحمت سے مایوس تو کافر ہی ہوتے ہیں۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ ﴾
[الحجر : 56]
ترجمہ:’’اور اپنے رب کی رحمت سے صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔‘‘
لہٰذا ایک مومن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہو۔
◈ خود کشی کی سنگینی احادیث کی روشنی میں
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
( لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ )
[سنن ابن ماجہ : 2340]
ترجمہ:’’نہ خود کو نقصان پہنچاؤ اور نہ کسی دوسرے کو۔‘‘
لہٰذا جو عمل انسان کو نقصان پہنچانے والا ہو وہ حرام ہے، اور خود کشی سب سے بڑا نقصان ہے۔
حضرت جندب بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’تم سے پہلی امت میں ایک شخص تھا جسے زخم لگا تو وہ برداشت نہ کر سکا، اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا اور مر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(بَادَرَنِی عَبْدِی بِنَفْسِہِ، حَرَّمْتُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ)‘‘
[بخاری : 1364، 3463]
ترجمہ:’’میرے بندے نے اپنی جان کے بارے میں جلد بازی کی، میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ خود کشی جنت سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔
✿ جہاد میں خود کشی کرنے والے کا انجام
حضرت سہل بن سعدؓ کی روایت کے مطابق ایک شخص جہاد میں نہایت بہادری سے لڑ رہا تھا۔ صحابہ نے کہا: ’’آج جیسا بہادر ہم نے نہیں دیکھا!‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خبردار! وہ جہنمی ہے۔‘‘
جب ایک صحابی نے اس کا تعاقب کیا تو دیکھا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر اپنی تلوار سے خود کشی کر بیٹھا۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ)
[بخاری : 2898، مسلم : 112]
ترجمہ:’’بسا اوقات ایک شخص بظاہر اہلِ جنت کے عمل کرتا ہے مگر حقیقت میں وہ جہنمی ہوتا ہے۔‘‘
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ خود کشی خواہ کسی حالت میں ہو، اللہ کے نزدیک ناجائز اور مہلک جرم ہے۔
❀ خود کشی کی آخرت میں سزا
رسول اکرم ﷺ نے متعدد احادیث میں واضح طور پر بتایا ہے کہ خود کشی کرنے والا شخص دنیا میں اپنی جان تو لے لیتا ہے، لیکن آخرت میں اسے دائمی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ تَرَدَّی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَہُوَ فِی نَارِ جَہَنَّمَ یَتَرَدَّی فِیہَا خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا)
ترجمہ:’’جو شخص کسی پہاڑ سے گر کر اپنی جان لے، وہ جہنم میں ہوگا، اور وہاں ہمیشہ اپنے آپ کو گراتا رہے گا۔‘‘
(وَمَنْ تَحَسَّی سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَسُمُّہُ فِی یَدِہٖ یَتَحَسَّاہُ فِی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا)
ترجمہ:’’جو زہر پی کر اپنی جان لے، وہ جہنم میں اپنے ہاتھ میں زہر لیے بار بار اسے پیتا رہے گا اور ہمیشہ وہاں رہے گا۔‘‘
(وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِیْدَۃٍ فَحَدِیْدَتُہُ فِی یَدِہٖ یَجَأُ بِہَا فِی بَطْنِہٖ فِی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا)
[بخاری : 5778]
ترجمہ:’’اور جو لوہے کے آلے سے اپنی جان لے، وہ جہنم میں اسی آلے سے اپنے پیٹ کو چبھوتا رہے گا اور ہمیشہ کے لیے اس میں رہے گا۔‘‘
یہ احادیث اس جرم کی سنگینی اور اس کے نتیجے میں آنے والے سخت عذاب کو ظاہر کرتی ہیں۔
◈ خود کشی کے دیگر طریقے اور ان کی قباحت
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
(اَلَّذِیْ یَخْنِقُ نَفْسَہُ یَخْنِقُہَا فِی النَّارِ، وَالَّذِیْ یَطْعَنُہَا یَطْعَنُہَا فِی النَّارِ)
[بخاری : 1365]
ترجمہ:’’جو شخص دنیا میں اپنا گلا گھونٹتا ہے، جہنم میں بھی وہ اپنے گلے کو گھونٹتا رہے گا۔ اور جو اپنے آپ کو کسی آلے سے زخمی کرتا ہے، وہ جہنم میں بھی اسی آلے سے اپنے آپ کو زخمی کرتا رہے گا۔‘‘
یہ عذاب کبھی ختم نہیں ہوگا، وہاں موت نہیں آئے گی۔ دنیا میں اس نے موت کو بلایا، لیکن جہنم میں موت اسے کبھی نہیں چھوئے گی۔
اسی مفہوم کو آپ ﷺ نے ایک اور حدیث میں بیان فرمایا:
(مَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِشَیْءٍ فِی الدُّنْیَا عُذِّبَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)
[متفق علیہ]
ترجمہ:’’جو شخص دنیا میں کسی چیز کے ساتھ اپنی جان لے، قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب دیا جائے گا۔‘‘
❀ کیا خود کشی کرنے والا ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا؟
بعض احادیث میں آیا ہے کہ خود کشی کرنے والے پر جنت حرام کر دی گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ لیکن محدثین اور اہلِ علم نے وضاحت فرمائی ہے کہ اگر خود کشی کرنے والا موحد مسلمان ہو — یعنی اللہ تعالیٰ کا اکیلا عبادت گزار ہو — تو وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔
اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے جرم کی سزا دے کر اسے جنت میں داخل کر دے گا، اور چاہے تو اس کی توحید اور ایمان کے سبب اسے معاف فرما دے گا۔
یہ احادیث دراصل جرم کی شدت اور قباحت کو ظاہر کرنے کے لیے ہیں، تاکہ کوئی مومن اس جرم کے قریب بھی نہ جائے۔
◈ خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ کا حکم
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص خود کشی کر لیتا ہے، کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے یا نہیں؟
حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک میت لائی گئی جس نے اپنے تیروں سے خود کو مار ڈالا تھا، تو آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی۔‘‘
[مسلم]
یعنی نبی ﷺ نے خود نمازِ جنازہ نہیں پڑھی، لیکن صحابہ کو منع بھی نہیں فرمایا۔
اس سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ:
عام مسلمان خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ پڑھیں گے،
لیکن علماء، اہلِ فضل اور معزز شخصیات اس میں شریک نہ ہوں تاکہ اس گناہ کی سنگینی عوام پر ظاہر ہو جائے اور لوگ عبرت حاصل کریں۔
❀ خود کشی کے اسباب اور ان کا علاج
اسلام میں خود کشی کا محرک اکثر مایوسی، غم، یا دنیاوی نقصان ہوتا ہے۔ لیکن شریعت نے اس کا علاج واضح طور پر بتایا ہے:
➊ تقدیرِ الٰہی پر ایمان اور رضا
یہ ایمان رکھنا کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے فیصلے سے ہوتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
’’سچا مومن وہ ہے جو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘
➋ توحید پر کامل یقین
اللہ پر مضبوط ایمان انسان کو مصیبت میں بھی استقامت دیتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق غیر مسلم ممالک میں خود کشی کے واقعات زیادہ ہیں، جس سے ظاہر ہے کہ ایمان انسان کے اندر صبر و برداشت کی قوت پیدا کرتا ہے۔
➌ مصیبت کو گناہوں کا کفارہ سمجھنا
نبی ﷺ نے فرمایا:
(مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ…)
ترجمہ:’’مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ، بیماری، غم یا تکلیف پہنچتی ہے، حتیٰ کہ اگر کانٹا بھی چبھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔‘‘
[متفق علیہ]
➍ اللہ سے دعا اور مدد طلب کرنا
پریشانیوں کے وقت رسول اکرم ﷺ نے مختلف دعائیں سکھائیں جن سے دل کو سکون اور اللہ کی رحمت کا یقین پیدا ہوتا ہے۔
✿ پریشانی اور غم کے وقت مسنون دعائیں
❀ حضرت اسماء بنت عمیسؓ کو آپ ﷺ نے سکھائی:
(اللّٰہُ رَبِّی لَا أُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا)
ترجمہ:’’اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘
[ابوداؤد : 1525]
❀ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ پریشانی میں یہ دعا پڑھتے:
(لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ الْعَظِیمُ الْحَلِیْمُ…)
ترجمہ:’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عظمت والا اور بردبار ہے۔‘‘
[متفق علیہ]
❀ حضرت علیؓ کو آپ ﷺ نے سکھائی:
(لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ…)
ترجمہ:’’ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ بردبار اور کرم والا ہے۔‘‘
[مسند احمد]
❀ حضرت ابو بکرہؓ کی روایت میں دعا:
(اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ…)
ترجمہ:’’اے اللہ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، مجھے پل بھر کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر۔‘‘
[ابوداؤد : 5090]
❀ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے:
(یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ)
ترجمہ:’’اے زندہ و قائم رب! میں تیری رحمت سے مدد مانگتا ہوں۔‘‘
[ترمذی : 3524]
❀ حضرت یونسؑ کی دعا:
(لَا إلٰہَ إلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ)
[الأنبیاء : 87]
ترجمہ:’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، میں ہی ظالموں میں سے تھا۔‘‘
❀ خود کشی کی آخرت میں سزا
رسول اکرم ﷺ نے متعدد احادیث میں واضح طور پر بتایا ہے کہ خود کشی کرنے والا شخص دنیا میں اپنی جان تو لے لیتا ہے، لیکن آخرت میں اسے دائمی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ تَرَدَّی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَہُوَ فِی نَارِ جَہَنَّمَ یَتَرَدَّی فِیہَا خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا)
ترجمہ:’’جو شخص کسی پہاڑ سے گر کر اپنی جان لے، وہ جہنم میں ہوگا، اور وہاں ہمیشہ اپنے آپ کو گراتا رہے گا۔‘‘
(وَمَنْ تَحَسَّی سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَسُمُّہُ فِی یَدِہٖ یَتَحَسَّاہُ فِی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا)
ترجمہ:’’جو زہر پی کر اپنی جان لے، وہ جہنم میں اپنے ہاتھ میں زہر لیے بار بار اسے پیتا رہے گا اور ہمیشہ وہاں رہے گا۔‘‘
(وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِیْدَۃٍ فَحَدِیْدَتُہُ فِی یَدِہٖ یَجَأُ بِہَا فِی بَطْنِہٖ فِی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیہَا أَبَدًا)
[بخاری : 5778]
ترجمہ:’’اور جو لوہے کے آلے سے اپنی جان لے، وہ جہنم میں اسی آلے سے اپنے پیٹ کو چبھوتا رہے گا اور ہمیشہ کے لیے اس میں رہے گا۔‘‘
یہ احادیث اس جرم کی سنگینی اور اس کے نتیجے میں آنے والے سخت عذاب کو ظاہر کرتی ہیں۔
◈ خود کشی کے دیگر طریقے اور ان کی قباحت
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
(اَلَّذِیْ یَخْنِقُ نَفْسَہُ یَخْنِقُہَا فِی النَّارِ، وَالَّذِیْ یَطْعَنُہَا یَطْعَنُہَا فِی النَّارِ)
[بخاری : 1365]
ترجمہ:’’جو شخص دنیا میں اپنا گلا گھونٹتا ہے، جہنم میں بھی وہ اپنے گلے کو گھونٹتا رہے گا۔ اور جو اپنے آپ کو کسی آلے سے زخمی کرتا ہے، وہ جہنم میں بھی اسی آلے سے اپنے آپ کو زخمی کرتا رہے گا۔‘‘
یہ عذاب کبھی ختم نہیں ہوگا، وہاں موت نہیں آئے گی۔ دنیا میں اس نے موت کو بلایا، لیکن جہنم میں موت اسے کبھی نہیں چھوئے گی۔
اسی مفہوم کو آپ ﷺ نے ایک اور حدیث میں بیان فرمایا:
(مَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِشَیْءٍ فِی الدُّنْیَا عُذِّبَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)
[متفق علیہ]
ترجمہ:’’جو شخص دنیا میں کسی چیز کے ساتھ اپنی جان لے، قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب دیا جائے گا۔‘‘
❀ کیا خود کشی کرنے والا ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا؟
بعض احادیث میں آیا ہے کہ خود کشی کرنے والے پر جنت حرام کر دی گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ لیکن محدثین اور اہلِ علم نے وضاحت فرمائی ہے کہ اگر خود کشی کرنے والا موحد مسلمان ہو — یعنی اللہ تعالیٰ کا اکیلا عبادت گزار ہو — تو وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔
اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے جرم کی سزا دے کر اسے جنت میں داخل کر دے گا، اور چاہے تو اس کی توحید اور ایمان کے سبب اسے معاف فرما دے گا۔
یہ احادیث دراصل جرم کی شدت اور قباحت کو ظاہر کرنے کے لیے ہیں، تاکہ کوئی مومن اس جرم کے قریب بھی نہ جائے۔
◈ خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ کا حکم
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص خود کشی کر لیتا ہے، کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے یا نہیں؟
حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک میت لائی گئی جس نے اپنے تیروں سے خود کو مار ڈالا تھا، تو آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی۔‘‘
[مسلم]
یعنی نبی ﷺ نے خود نمازِ جنازہ نہیں پڑھی، لیکن صحابہ کو منع بھی نہیں فرمایا۔
اس سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ:
عام مسلمان خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ پڑھیں گے،
لیکن علماء، اہلِ فضل اور معزز شخصیات اس میں شریک نہ ہوں تاکہ اس گناہ کی سنگینی عوام پر ظاہر ہو جائے اور لوگ عبرت حاصل کریں۔
❀ خود کشی کے اسباب اور ان کا علاج
اسلام میں خود کشی کا محرک اکثر مایوسی، غم، یا دنیاوی نقصان ہوتا ہے۔ لیکن شریعت نے اس کا علاج واضح طور پر بتایا ہے:
➊ تقدیرِ الٰہی پر ایمان اور رضا
یہ ایمان رکھنا کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے فیصلے سے ہوتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
’’سچا مومن وہ ہے جو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘
➋ توحید پر کامل یقین
اللہ پر مضبوط ایمان انسان کو مصیبت میں بھی استقامت دیتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق غیر مسلم ممالک میں خود کشی کے واقعات زیادہ ہیں، جس سے ظاہر ہے کہ ایمان انسان کے اندر صبر و برداشت کی قوت پیدا کرتا ہے۔
➌ مصیبت کو گناہوں کا کفارہ سمجھنا
نبی ﷺ نے فرمایا:
(مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ…)
ترجمہ:’’مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ، بیماری، غم یا تکلیف پہنچتی ہے، حتیٰ کہ اگر کانٹا بھی چبھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔‘‘
[متفق علیہ]
➍ اللہ سے دعا اور مدد طلب کرنا
پریشانیوں کے وقت رسول اکرم ﷺ نے مختلف دعائیں سکھائیں جن سے دل کو سکون اور اللہ کی رحمت کا یقین پیدا ہوتا ہے۔
✿ پریشانی اور غم کے وقت مسنون دعائیں
❀ حضرت اسماء بنت عمیسؓ کو آپ ﷺ نے سکھائی:
(اللّٰہُ رَبِّی لَا أُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا)
ترجمہ:’’اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘
[ابوداؤد : 1525]
❀ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ پریشانی میں یہ دعا پڑھتے:
(لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ الْعَظِیمُ الْحَلِیْمُ…)
ترجمہ:’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عظمت والا اور بردبار ہے۔‘‘
[متفق علیہ]
❀ حضرت علیؓ کو آپ ﷺ نے سکھائی:
(لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ…)
ترجمہ:’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بردبار اور بڑا کرم والا ہے۔‘‘
[مسند احمد]
❀ حضرت ابو بکرہؓ کی روایت میں دعا:
(اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ…)
ترجمہ:’’اے اللہ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، مجھے پل بھر کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر۔‘‘
[ابوداؤد : 5090]
❀ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے:
(یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ)
ترجمہ:’’اے زندہ و قائم رب! میں تیری رحمت سے مدد مانگتا ہوں۔‘‘
[ترمذی : 3524]
❀ حضرت یونسؑ کی دعا:
(لَا إلٰہَ إلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ)
[الأنبیاء : 87]
ترجمہ:’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، میں ہی ظالموں میں سے تھا۔‘‘
❀ ابتلاء اور آزمائش کی حقیقت
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے میں انسان کو کسی نہ کسی سختی، تکلیف یا پریشانی سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی اس دنیا کی حقیقت ہے — یہ راحت و آرام کا نہیں بلکہ صبر و امتحان کا گھر ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
﴿ لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ٭ وَاَنْتَ حِلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ ٭ وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ ٭ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ ﴾
[البلد : 1–4]
ترجمہ:’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں، اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں، اور والد اور اس کی اولاد کی قسم! بے شک ہم نے انسان کو سخت مشقت میں پیدا کیا ہے۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿ یَا أَیُّہَا الْاِِنْسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلَاقِیْہِ ﴾
[الانشقاق : 6]
ترجمہ:’’اے انسان! یقیناً تو اپنے رب کی طرف محنت کرتا چلا جا رہا ہے، پھر اس سے جا ملے گا۔‘‘
یعنی انسان کی زندگی مسلسل جدوجہد، تکلیف اور آزمائش سے عبارت ہے۔ لیکن جو بندہ صبر و رضا کے ساتھ ان مشکلات کو جھیلتا ہے، اس کے لیے آخرت میں عظیم اجر و انعام ہے۔
◈ آزمائش پر صبر کرنے والوں کے لیے خوشخبری
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاءِ، وَإِنَّ اللّٰہَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاہُمْ، فَمَنْ رَضِیَ فَلَہُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَہُ السَّخَطُ)
[ترمذی : 2396، ابن ماجہ : 4031 – صحیح الألبانی]
ترجمہ:’’بڑا اجر بڑی آزمائش کے ساتھ ہے۔ اور جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔ پس جو راضی ہو جائے، اس کے لیے اللہ کی رضا ہے، اور جو ناراض ہو، اس کے لیے اللہ کی ناراضگی۔‘‘
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ آزمائش دراصل اللہ کی محبت کا اظہار ہے۔ جو شخص صبر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
❀ دوسرا مرحلہ: خودکش حملے اور اجتماعی ہلاکت
اسلام نے ہر قسم کی خود کشی کو حرام قرار دیا ہے، خواہ کوئی شخص اپنی ذات تک محدود رہے یا دوسروں کی جان بھی لے۔
آج کے دور میں بعض لوگ خودکش دھماکوں کو ’’جہاد‘‘ کا نام دیتے ہیں، لیکن دراصل یہ خود کشی اور قتلِ ناحق دونوں ہیں — اور اسلام میں دونوں سخت ترین گناہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیْمًا ﴾
[النساء : 93]
ترجمہ:’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے (یہ پہلی وعید)، وہ ہمیشہ اس میں رہے گا (دوسری وعید)، اس پر اللہ کا غضب ہے (تیسری وعید)، اس پر اللہ کی لعنت ہے (چوتھی وعید)، اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے (پانچویں وعید)۔‘‘
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ کسی مومن کی جان لینا — خواہ وہ کسی بہانے سے ہو — اللہ کے نزدیک ناقابلِ معافی جرم ہے۔
لہٰذا کوئی شخص اگر دھماکہ کر کے اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاک کر دیتا ہے، تو وہ دوہرا جرم کرتا ہے:
➊ خود کشی،
➋ دوسروں کا قتل۔
یہ دونوں گناہ ایسے ہیں کہ ان پر قرآن و سنت میں شدید ترین وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔
◈ قرآن کا حکم: ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ﴾
[البقرۃ : 195]
ترجمہ:’’اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔‘‘
یہ آیت نہ صرف خود کشی سے روکتی ہے بلکہ ہر اُس عمل سے منع کرتی ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ تباہی کی طرف لے جائے۔
❀ خود کو ہلاک کرنے کی دیگر صورتیں
اسلام کے نزدیک اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی کئی شکلیں ہیں:
➊ براہِ راست خود کشی:
جیسے کوئی شخص اپنے گلے کو گھونٹ دے، تیز دھار آلے سے جسم کو کاٹ ڈالے، زہر پی لے، یا خود پر گولی چلا دے۔
➋ رفتہ رفتہ ہلاکت:
کچھ اعمال ایسے ہیں جو بظاہر فوری موت نہیں لاتے مگر انسان کو آہستہ آہستہ موت کے قریب کرتے ہیں، جیسے نشہ آور اشیاء یا سگریٹ نوشی۔
سگریٹ نوشی کینسر جیسے مہلک امراض کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے یہ بھی ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے‘‘ کے زمرے میں آتی ہے۔
➌ اعضاء فروشی:
کوئی شخص مالی مشکلات کے باعث اپنے جسم کا کوئی عضو بیچ دے، یہ بھی شرعاً ناجائز ہے۔ اللہ نے جسم کے ہر عضو کو ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے، اس کی فروخت یا تلفی دراصل اپنی ہلاکت کا راستہ ہموار کرنا ہے۔
◈ نجات کا راستہ
دنیا کی مشکلات اور پریشانیاں وقتی ہیں، لیکن ایمان، صبر اور دعا کے ذریعے انسان ان پر قابو پا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ ﴾
[النمل : 62]
ترجمہ:’’بھلا کون ہے جو بے بس کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے، اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے؟‘‘
لہٰذا مصائب کے وقت اللہ سے رجوع، صبر، اور دعا ہی مومن کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔
مضمون کا خلاصہ یا حاصلِ کلام
آزمائش دنیا کی حقیقت ہے، ہر انسان کسی نہ کسی مشکل سے گزرتا ہے۔
صبر کرنے والے بندے کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کی بشارت ہے۔
خود کشی چاہے کسی بھی صورت میں ہو، اسلام میں حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
خودکش حملے جہاد نہیں بلکہ قتلِ ناحق ہیں۔
مایوسی ایمان کے منافی ہے، اللہ کی رحمت سے صرف کافر اور گمراہ مایوس ہوتے ہیں۔
مشکلات کے وقت دعا، صبر، اور اللہ کی تقدیر پر رضا نجات کا ذریعہ ہے۔
نتیجہ
اسلام ایک ایسی کامل تعلیمات کا حامل دین ہے جو انسان کو مشکلات میں بھی امید اور صبر کی روشنی فراہم کرتا ہے۔ زندگی کی کوئی پریشانی اتنی بڑی نہیں کہ بندہ اپنی جان لینے کا فیصلہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ہر تکلیف کے بعد آسانی دیتا ہے، اور ہر آزمائش میں انسان کے لیے خیر اور مغفرت کا پہلو چھپا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر، رضا، اور ایمان کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق دے اور ہر قسم کی مایوسی و خود کشی سے محفوظ رکھے۔ آمین۔