اذان سے پہلے درود پڑھنا
حفیظ الرحمن قادری بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ہر اچھے کام سے پہلے اللہ عزوجل کی حمد وثناء اور درود و سلام پڑھا جائے تو وہ کام مزید بابرکت ہو جاتا ہے اذان پڑھنا بھی اچھا کام ہے لہذا اس سے پہلے بھی درود و سلام پڑھنا مستحب ہے اس کو فرض قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ہم اس کو فرض قرار دیتے تو جمعہ کے دن خطبے سے پہلے جو اذان دی جاتی ہے اس سے پہلے بھی درود و سلام پڑھا جاتا حالانکہ ایسا نہیں کیا جاتا اس لیے کہ یہ عمل مستحب ہے اگر کوئی پڑھ لے تو ثواب نہ پڑھے تو عذاب نہیں فتنہ اس وقت پڑے گا جب پڑھنے والے کو برا کہا جائے گا۔ حالانکہ اس کے بھی بے شمار دلائل ہیں قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(سورۃ الاحزاب : 56)
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے نبی پر اے ایمان والو تم بھی آپ پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
اس آیت مبارکہ میں درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ایمان والوں کو اگر کوئی اذان سے پہلے پڑھنے سے منع کر رہا ہے تو منع کرنے والے کو دلیل لانی چاہیے نہ کہ پڑھنے والے کو کیوں کہ پڑھنے والا تو قرآن کی آیت مبارکہ کے تحت پڑھ رہا ہے۔ انشاء اللہ منع کرنے والا کوئی دلیل نہیں لا سکتا اگر کوئی دلیل پیش کرتا ہے تو یہی کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جو موذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے وہ اذان سے پہلے درود نہیں پڑھتے تھے لہذا تم کیوں پڑھتے ہو۔ میرے خیال میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ پر بہت بڑا بہتان ہے کہ اتنے بڑے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ جو اذان میں اشهد ان محمد رسول الله پر اشارہ کرتے تھے سرکار دو عالم کے نام کی طرف ان کے بارے میں کہنا کہ وہ درود نہیں پڑھتے تھے بات اصل میں یہ ہے کہ پہلے سپیکر نہیں ہوتے تھے لہذا اذان سے پہلے درود و سلام آہستہ پڑھا جاتا تھا جس کی آواز دور تک نہیں جاتی تھی اب سپیکر ایجاد ہو گئے آہستہ پڑھنے سے بھی آواز دور تک چلی جاتی ہے اگر اذان سے پہلے درود و سلام پڑھنے کا ذکر آجاتا ہے تو وہ اذان کا حصہ بن جاتا جبکہ ہم اس کو اذان کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ (کتاب مذکورہ ص : 120)
الجواب :
قادری صاحب نے کہا ہے حدیث مبارکہ میں ہے ہر اچھے کام سے پہلے اللہ عزوجل کی حمد وثنا اور درود و سلام پڑھا جائے تو وہ کام مزید بابرکت ہو جاتا ہے لیکن یہ حدیث کہاں ہے؟ کس نے بیان کی حدیث کی کس کتاب میں ہے؟ موصوف نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا حقیقت میں ان الفاظ کے ساتھ کسی مستند کتاب کے اندر کوئی حدیث موجود نہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا گیا ہے اگر ہر اچھا کام کرنے سے پہلے حمد وثنا اور درود وسلام پڑھنا باعث برکت ہے تو پھر خطبہ مروجہ سے پہلے جو اذان دی جاتی ہے اس کی ابتداء میں حمد وثنا و درود و سلام بریلوی حضرات کیوں نہیں پڑھتے کیا یہ اچھا کام نہیں جس کو خیر و برکت سے خالی چھوڑ دیا جاتا ہے جب بچے کے کان میں اذان دیتے ہیں تو صلوۃ وسلام نہیں پڑھتے کیا یہ ان کے نزدیک اچھا کام نہیں؟ اس کو خیر و برکت سے کیوں خالی چھوڑ دیا جاتا ہے؟
جب نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ہے تو اس سے پہلے حمد وثناء درود و سلام کیوں نہیں پڑھا جاتا کیا یہ اچھا کام نہیں اسے خیر و برکت سے کیوں خالی چھوڑ دیا جاتا ہے یا اس موقعہ پر پڑھنا منع ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟
قادری صاحب کہتے ہیں کوئی پڑھے تو ثواب نہ پڑھے تو عذاب نہیں اگر پڑھنا ثواب ہے تو ثواب کے کام کو کیوں چھوڑا جاتا ہے؟ قادری صاحب نے بطور دلیل سورہ الاحزاب کی آیت پیش کی ہے جس کا مروجہ اذان سے پہلے درود وسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں اگر اس کا مطلب اذان سے پہلے صلوۃ وسلام پڑھنا تھا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ آیت مبارکہ قرآن میں موجود نہ تھی اگر تھی تو یہ مسئلہ ان کی سمجھ میں کیوں نہ آیا جو قادری صاحب اور دیگر بریلوی حضرات کی سمجھ میں آگیا اگر ان کی سمجھ میں آیا تو پھر انہوں نے عمل کیوں نہ کیا؟
آیت مبارکہ کا صحیح مفہوم حدیث کی روشنی میں اس طرح ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(سورۃ الاحزاب : 56)
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔
اور خوب سلام بھیجا کرو ابو عالیہ رحمہ اللہ نے کہا لفظ صلوة کی نسبت اگر اللہ کی طرف ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں کے سامنے ثناء وتعریف بیان کرنا ہے اگر ملائکہ کی طرف ہو تو دعا رحمت اس سے مراد لی جاتی ہے۔ يصلون بمعنی برکت کی دعا کرنا ہے۔ (صحیح بخاری شریف کتاب التفسير سوره الاحزاب صفحه : 352 مع شرح)
اس طرح جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا :
عن ابن أبى ليلى ، عن كعب بن عجرة رضى الله عنه قيل: يارسول الله ، أما السلام عليك فقد عرفناه، فكيف الصلاة؟ قال: قولوا : اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد(بخاری شریف کتاب التفسير سوره الاحزاب حديث : 4797 مع شرح ص 353)
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوة کا کیا طریقہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں پڑھا کرو۔ اے اللہ ہمارے محبوب رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور آپ کی آل پر بھی جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمتیں نازل کی ہیں بیشک تو تعریف کیا گیا بزرگ ہے اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر برکتیں نازل فرما اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر بھی جیسی برکتیں تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر نازل کی ہیں بیشک تو تعریف کیا گیا بزرگ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درود اور طریقہ بیان کیا مذکورہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں آیت مبارکہ کا مفہوم وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ نے سمجھا قادری صاحب خود ساختہ درود اذان سے پہلے پڑھنا بتا رہے ہیں اب ہم آیت کی وہ تفسیر لیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی یا قادری صاحب کی بے سند بات اسی طرح کی دوسری حدیث ہے :
عن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه قال: قلنا: يارسول الله ، هذا التسليم فكيف نصلي عليك؟ قال: قولوا اللهم صل على محمد عبدك ورسولك، كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم(صحیح بخاری شریف كتاب التفسير سوره الاحزاب حديث : 4798)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے لیکن درود بھیجنے کا کیا طریقہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ درود پڑھا کرو۔ جو روایت مذکورہ میں ہے۔
ایک اور حدیث مبارکہ ہے :
حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اہل بیت رضی اللہ عنہم پر کس طرح درود بھیجیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہو:
اللہم صل علٰي محمد وعلٰٓي اٰل محمد كما صليت علٰٓي ابراهيم وعلٰٓي اٰل ابراهيم انك حميد مجيد. اللہم بارك علٰي محمد وعلٰٓي اٰل محمد كما باركت علٰٓي ابراهيم وعلٰٓي اٰل ابراهيم انك حميد مجيد(صحیح بخاری شریف کتاب الانبیاء حديث : 3370 مع شرح 660)
اے اللہ اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ برکت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسے تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا افضل اعمال میں سے ہے حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من صلى على صلاة واحدة صلى الله عليه عشر صلوات وحطت عنه عشر خطيئات ورفعت له عشر درجات(سنن نسائی 3/ 50 حدیث : 1298)
جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھا تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس شخص کے دس گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اس کے دس درجے بلند کیے جاتے ہیں۔
اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
البخيل الذى إذا ذكرت عنده فلم يصل علي(سنن ترمذی حدیث :3546)
بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے پھر وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔
سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أولى الناس بي يوم القيامة أكثرهم على صلاة(سنن ترمذی حدیث: 484)
قیامت کے دن سب سے زیادہ وہ لوگ میرے قریب ہونگے جو سب سے زیادہ مجھ پر درود پڑھتے ہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (صحیح مسلم حدیث : 408)
ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود پڑھنا باعث سعادت دارین ہے درود کا منکر دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے ادب بخیل ترین اور بد بخت انسان ہے۔
درود پڑھنا قیامت کے دن قرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باعث ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ درود ضرور پڑھو مگر مسنون پڑھو خود ساختہ درود کے ہم قائل نہیں جو درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں وہ اصلی درود نہیں۔
اذان سے پہلے صلوة والسلام پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہرگز ثابت نہیں۔
قادری صاحب کہتے ہیں منع کرنے والے کو دلیل لانی چاہیے یہ کہنا سراسر غلط ہے کیونکہ دلیل ہمیشہ مثبت کے ذمہ ہوتی ہے آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی ان بدعات پر دلائل پیش کریں یہ تو کوئی اصول نہیں ہے کہ جس چیز کی ممانعت حدیث میں وارد نہ ہو اسے بے دھڑک کرتے چلے جائیں اس طرح تو بدعات کا ایک بڑا دروازہ کھل جائے گا اور اللہ کا دین ایک کھلونا بن کر رہ جائے گا۔
قارئین محترم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک ایجاد ہونے والی بدعات کا الگ الگ نام لے کر تھوڑا ہی منع کرنا تھا سینکڑوں سالوں میں پتہ نہیں کتنی بدعات جاری ہو چکی ہیں اور کتنی جاری ہوں گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام کا نام لے کر کہتے۔ ہر چیز کی ممانعت کا آپ ثبوت مانگتے ہیں کہ اذان سے پہلے منع کہاں ہے یعنی منع نہیں تو پھر جائز ہے۔ اس طرح تو شیعہ حضرات اپنی اذان میں اشهد ان عليا ولي الله کہتے ہیں آپ اپنی اذان میں الفاظ نہیں کہتے اس کلمہ کی ممانعت کا ثبوت دیں یہ کہنا کہاں منع ہے۔
وہ اپنی اذان میں حي على خير العمل کہتے ہیں آپ نہیں کہتے اس کی ممانعت کا ثبوت دیں وہ محرم میں چھریاں مارتے ہیں آپ نہیں مارتے اس کی ممانعت کا ثبوت دیں۔ نماز عید سے پہلے اگر کوئی اذان دے تو اس کی ممانعت کا ثبوت دیں۔ سورۃ توبہ کے شروع میں آپ بسم الله نہیں پڑھتے اس کی ممانعت کا ثبوت دیں۔ فجر کی نماز دو رکعت فرض ہے اگر کوئی چار پڑھے تو اس کی ممانعت کا ثبوت دیں۔
اب یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ ثبوت ممانعت کا نہیں ہوتا بلکہ ثابت کرنے کا ہوتا ہے قادری صاحب کہتے ہیں اگر کوئی دلیل پیش کرتا ہے تو یہی کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جو کہ موذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ اذان سے پہلے درود کیوں نہیں پڑھتے تھے لہذا تم کیوں پڑھتے ہو میرے خیال میں یہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ پر بہت بڑا بہتان ہے کہ اتنے بڑے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ جو اذان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتے تھے سرکار کی طرف ان کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ درود نہیں پڑھتے تھے اصل بات یہ کہ پہلے سپیکر نہیں ہوتے تھے لہذا اذان سے پہلے درود آہستہ پڑھا جاتا تھا۔
جواباّ عرض ہے کہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ پر بہتان وہ شخص لگاتا ہے جو کہتا ہے کہ انہوں نے اذان سے پہلے درود پڑھا تھا کیوں کہ اس بات کا ثبوت کسی حدیث سے نہیں ملتا یہ ان کی طرف منسوب ہے براہ مہربانی حدیث پیش کریں کہ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان سے پہلے آہستہ درود پڑھا تھا میں حیران ہوں کہ سپیکر کے بغیر اذان سے پہلے پڑھا ہوا درود مکہ اور مدینہ کے رہنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تک کے لوگ تو سن نہ سکے قادری صاحب نے چودہ سو سال بعد پاکستان میں بیٹھے ہوئے کیسے سن لیا؟ میں پوچھتا ہوں کہ لوگوں نے سپیکر کے بغیر اذان کیسے سنی تھی پورا دین سپیکر کے بغیر لوگوں نے سن لیا مگر صرف درود اذان سے پہلے نہ سن سکے کسی نے سچ کہا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ دلیل پیش کریں کہ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان سے پہلے آہستہ درود پڑھا تھا وگرنہ اس جھوٹ سے توبہ کریں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بدعت سے بچنے اور سنت پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمين
صاف وشفاف تھی پانی کی طرح نیت دل کی
دیکھنے والوں نے دیکھا اسے گدلا کر کے