مستدرک حاکم وغیرہ میں روایت ہے کہ جب آدم علیہ السلام سے غلطی کا ارتکاب ہوا (بھول کر ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا) تو آدم علیہ السلام کہنے لگے : اے اللہ ! میں محمد کے طفیل تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو نے ہم کو کیسے جانا ہے۔ جبکہ میں نے اس کو ابھی پیدا ہی نہیں کیا ؟ تو آدم نے کہا : جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے بنایا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے پایوں پر میں نے دیکھا تو (ان پر ) لکھا ہوا تھا۔
لا إله إلا لله محمد رسول الله تو میں نے سمجھا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ جس کا نام ملایا ہے وہ تجھے ساری مخلوق سے زیادہ پسند ہے۔
الله تعالی نے فرمایا:
”اے آدم ! تو نے سچ کہا بلاشبہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہے۔ تو مجھ سے اس کے وسیلے سے دعا کر بے شک میں نے تجھے معاف کردیا کیونکہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ ہوتے تو میں تجھے کبھی پیدا نہ کرتا۔ “ [مستدرك حاكم 615/2 رقم الحديث 4228، مختصر المستدرك 1069/2، التوسل 115، الدر المنثور 58/1، كنز العمال 455/11، سلسلة الأحاديث الضعية رقم الحديث 25]
تحقیق الحدیث :
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو موضوع (من گھڑت) کہا ہے۔
مستدرک حاکم کی تلخیص میں امام ذہبی کہتے ہیں :
بل موضوع بلکہ یہ حدیث تو بنائی گئی ہے۔
اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہے۔
اور عبد الله بن مسلم فہری کے متعلق میں نہیں جانتا یہ کون ہے۔
اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے ضعف پر تمام محد ثین کا اتفاق ہے۔
یہ روایت قطعاً صحیح نہیں۔