روایت کی تحقیق: ایک قوم آئے گی جس کا نام رافضی ہوگا
تحریر: حافظ زبیر علی زئی

سوال

السلام عليكم مختلف علماء سے درج ذیل احادیث سنی ہیں لیکن علماء نے ان کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اور یہ علماء اب فوت ہو چکے ہیں، مہربانی فرما کر ان احادیث کی تخریج سے آگاہ کریں، اور یہ بھی آگاہ کریں کہ یہ احادیث صحیح ہیں یا نہیں ؟ احادیث درج ذیل ہیں (مفہوم)

➊ آخر زمانہ میں ایک قوم آئے گی جس کا نام رافضی ہوگا، میرے صحابہؓ پر وہ تبرا کریں گے ، ان میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو پوچھئے مت، مر جائے جنازہ مت پڑھئے ، تمہارا مر جائے اپنے جنازے میں اسے شریک نہ کیجئے۔

➋ جب فتنے اور بدعات عام ہو جائیں اور صحابہ پر تبرا کیا جائے تو عالم کو چاہئے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے۔

➌ رسول پاک ﷺ نے حضرت عمر کو کہا : اے عمر حق بات کہ خواہ لوگوں کے دل پر وہ بری گزرے۔

➍ جس قوم میں ابوبکر صدیق موجود ہوں کسی اور کیلئے جائز نہیں کہ وہ امامت کرائے۔
(والسلام عبداللہ طاہر، اسلام آباد)

جواب

’’رافضی اس شخص کو کہتے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت اور کردار کشی کو جائز سمجھتا ہے“
(القاموس الوحید : ص ۶۴۸)

حافظ ذہبی (متوفی ۷۴۸ھ) فرماتے ہیں کہ:
ومن أبغض الشيخين واعتقد صحة إما متهما فهو رافضي مقيت ومن سبهما و اعتقد أنهما ليسا بامامي هدى فهو من غلاة الرافضة
جو شخص شیخین (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہا) سے بغض رکھے اور انہیں خلیفہ برحق بھی سمجھے تو یہ شخص رافضی ، قابل نفرت ہے اور جو شخص انہیں (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہا) کو خلیفہ برحق بھی نہ سمجھے اور بُرا کہے تو یہ شخص غالی رافضیوں میں سے ہے۔
(سیر اعلام النباء : ۴۵۸/۱۶ ترجمۃ الدارقطنی رحمہ اللہ)

حافظ ابن حجر العسقلانی (متوفی ۸۵۲ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
فمن قدمه على أبي بكر و عمر فهو غالٍ في تشيعه ويطلق عليه رافضي
جو شخص (سیدنا) علی رضی اللہ عنہ کو (سیدنا) ابو بکر رضی اللہ عنہ (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ پر (افضلیت میں) مقدم کر دے تو وہ شخص غالی شیعہ ہے اور اس پر رافضی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری : ص ۴۵۹)
اثنا عشری جعفری فرقہ ، رافضی فرقہ ہے۔

دلیل نمبر ۱
غلام حسین نجفی رافضی نے اپنی کتاب ”جاگیر فدک‘‘ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’جناب ابوبکر اور مرزا صاحب میں کوئی فرق نہیں‘‘ (ص ۵۰۹)

اس نجفی بیان میں صدیق اکبر کو مرزا غلام احمد قادیانی کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

دلیل نمبر ۲
محمد الرضی الرضوی الرافضی کہتا ہے کہ:
أما برائتنا من الشيخين فذاك من ضرورة دينا۔۔۔إلخ
اور شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہا) سے برأت (تبرّا) کرنا ہمارے دین کی ضرورت میں سے ہے۔
(كذبواعلی الشیعہ : ص ۴۹)

روافض کے بارے میں مروی شدہ مرفوع احادیث کی تحقیق درج ذیل ہے۔
بشر بن عبدالله عن أنس بن مالك عن النبي عل الله قال : وأنه سيكون في آخر الزمان قوم يبغضونهم فلا تواكلوهم ولا تشاركوهم ولا تصلوا عليهم ولا تصلوا معهم . وهذا خبر باطل لا أصل له
آخری زمانہ میں ایسے لوگ ہوں گے جو ان (ابو بکر وعمر وعثمان و علی رضی اللہ عنہم) سے بغض کریں گے ہم ان کے ساتھ نہ کھانا کھاؤ ، نہ شریک کرو، نہ ان کا جنازہ پڑھو اور نہ ان کے ساتھ (مل کر) نماز پڑھو یہ روایت باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
(کتاب المجروحین لابن حبان: ار۱۸۷)

حافظ ذہبی نے اس روایت کو سخت منکر قرار دیا۔
(میزان الاعتدال : ۳۲/۱)

بشر القصیر کے بارے میں امام ابن حبان نے کہا :
” منکر الحديث جداً “
یہ سخت منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے۔
(المجر وحین : ص ۱۸۷)

أبو عقيل يحي بن المتوكل عن كثير النواء عن إبراهيم بن حسن بن . طالب عن أبيه عن جده قال قال علي بن أبي طالب : قال رسول الله ﷺ یظھر في آخر الزمان قوم يسمون الرافضة ، يرفضون الإسلام
آخری زمانہ میں ایک قوم ظاہر ہوگی جس کا نام رافضی ہوگا، یہ لوگ اسلام کو چھوڑ دیں گے۔
(مسند احمد: ۱۰۳/۱ ح ۸۰۸، روایته عبد الله بن احمد عن غیر ابیه)

یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔
ابو قتیل سحي بن المتوكل ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب:۷۲۳۳) کثیر بن اسماعیل النوار ضعیف ہے۔ (تقریب: ۵۶۰۵)

امام ابن الجوزی (متوفی ۵۹۷ھ) فرماتے ہیں کہ :
هذا حديث لا يصح عن رسول الل هﷺ
يہ حديث رسول اللہ ﷺسے صحیح (ثابت) نہیں ہے۔
(العلل المتناحیه: ۱۵۷/۱ ۲۵۲)

عمران بن زيد : ثنا الحجاج بن تميم عن ميمون بن مهران عن ابن عباس قال قال رسول الله ﷺ: يكون في آخر الزمان قوم ينبزون: الرافضة ، يرفضون الإسلام ويلفظونه اقتلوهم فإنهم مشركون

آخری زمانے میں ایک قوم ہوگی جسے رافضی کہا جائے گا یہ اسلام کو اتار کر پھینک دیں گے ، انہیں قتل کرو کیوں کہ یہ مشرک ہیں۔
(مسند عبد بن حمید : ح ۶۹۸، دوسر انسخہ: ح ۶۹۷ ، والمسند الجامع : ۷۰۸۲۵۹۶/۹ واللفظ له)

یہ روایت ضعیف ہے، عمران بن زید یعنی ضعیف ہے (تقریب: ۵۱۵۶) حجاج بن تمیم بضعیف ہے (تقریب: ۱۱۲۰)

تنبیہ
ان راویوں پر محدثین کرام کی جرح تفصیلاً تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال وغیرہ میں موجود ہے۔ تقریب کا حوالہ بطور اختصار اور بطور خلاصہ واعدل الاقوال دیا جاتا ہے۔

عصام بن الحكم العكبرى : نا جميع بن عمير البصري : ثنا سوار الهمداني عن محمد ابن جحادة عن الشعبي عن علي قال قال : رسول الله ﷺ: إنك وشيعتك في الجنة وسيأتي قوم (لهم نبز) يقال لهم الرافضة ، فإذا لقيمتوهم فاقتلوهم فإنهم مشركون
(اے علی !) تم اور تمہارے شیعہ، جنت میں جائیں گے اور ایک قوم آئے گی جن کا لقب رافضی ہوگا تم جب انہیں ملو تو انہیں قتل کرو، کیوں کہ یہ مشرک ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء : ۳۲۹/۴ و تاریخ بغداد مختصر : ۲۸۹/۱۲ت ۶۷۳۱ ، والعلل المتناهية :۱۵۹،۱۵۸/۱ح:۲۵۴ واللفظ له)

یہ روایت باطل و مردود ہے، سوار بن مصعب الهمدانی : منکر الحدیث (منکر حدیثیں بیان کرنے والا) ہے۔
( کتاب الضعفاء للامام البخاری تحقیقی : ۱۵۸)

امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا:
وقد رأيته وليس بشي ، كان يجئينا إلى منزلنا
میں نے اسے دیکھا ہے، یہ کچھ چیز نہیں ہے، یہ ہمارے ڈیرے پر آتا تھا۔(تاریخ ابن معین ، روایتہ الدوری: ۲۰۶۸) اس پر شدید جروح کے لئے دیکھئے لسان المیزان (۱۲۸/۳، ۱۲۹ات ۴۰۵۸) جمیع بن عمیر البصری : ضعیف ہے۔(تقریب: ۹۶۷) عصام بن الحکم کی توثیق نامعلوم ہے۔

تنبیه
جمیع بن عمیر کو جمیع بن عمر بھی کہا جاتا ہے۔

تليد بن سليمان أبو إدريس المحاربي عن أبي الحجاف داود بن أبي عوف عن محمد بن عمرو الهاشمي عن زينب بنت علي عن فاطمة بنت رسول الله ﷺ قالت : نظر النبي ﷺ فقال : هذا في الجنة وإن من شيعته قوم يعطون الإسلام فليفظونه ، لهم نبز يسمون الرافضة فمن لقيهم فليقتلهم فإنهم مشركون
نبی ﷺ نے علی (رضی اللہ عنہ) کی طرف دیکھ کر فرمایا : یہ جنتی ہے اور اس کے شیعہ میں سے ایک قوم (ایسی) ہوگی جنہیں اسلام دیا جائے گا تو وہ اسلام کو پھینک دیں گے ، ان کا صفاتی نام رافضی ہوگا ، جو شخص انہیں پائے تو قتل کر دے، کیونکہ یہ مشرک ہیں۔
(کتاب المجروحین لابن حبان: ار۲۰۵ واللفظ له، العلل المتناهية : ۱۵۹/۱ ح : ۲۵۵ و مسند ابی یعلی تحقیق الشیخ الاثری ۱۶۵۶ ۶۷۱۶ و تحقیق حسین سلیم اسد وهو ضعيف في التحقيق : ۱۱۶/۱۲، ۱۱۷ ح ۶۷۴۹، و نسخه مخطوط ص ۱۳۵، تاریخ دمشق لابن عساکر ۱۳۰/۷۳ موضع أوهام الجمع والتفريق الخطيب: ۴۳/۱)
یہ روایت سخت ضعیف اور باطل ہے۔
تلید بن سلیمان پر جمہور محدثین نے شدید جرح کی ہے لہذا بعض محدثین کی توثیق مردود ہے۔
امامت یحیٰي بن معین (متوفی ۲۳۳ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
تليد كذاب ، كان يشتم عثمان ، وكل من يشتم عثمان أو طلحة أو أحداً من أصحاب النبي ، دجال لا يكتب عنه وعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين
تلید کذاب ہے ، عثمان (رضی اللہ عنہ) کو گالیاں دیتا تھا۔ اور ہر وہ شخص جو عثمان یا طلحہ یا نبی ﷺ کے کسی ایک صحابی (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو گالی دے تو وہ شخص دجال ہے، اس سے (کچھ بھی) نہ لکھا جائے اور ایسے شخص پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔
(تاریخ ابن معین: روالیة الدوری: ۲۶۷۰)

تنبیہ
مسند ابی یعلی میں قدیم زمانے سے یہ غلطی چلی آرہی ہے کہ ابو ادریس تلید بن سلیمان کی بجائے ابن ادریس لکھا ہوا ہے جو کہ یقیناً غلط ہے۔

حافظ الشام امام ابن عساکر، مسند ابی یعلی کے نسخے کی غلطی پر فرماتے ہیں کہ:
كذا قال وإنما هو أبو إدريس وهو تليد بن سليمان

راوی نے اسی طرح کہا ہے حالانکہ یہ راوی صرف اور صرف ابوادریس تلید بن سلیمان ہے۔
(تاریخ دمشق :۱۳۱/۷۳)

محقق جلیل القدر مولانا ارشاد الحق اثری نے بھی اس قدیم غلطی کی نشاندہی کر کے لکھا دیا ہے کہ ابن ادریس مصحف (تصحیف شدہ) ہے۔
(مسند ابی یعلی : ۱۶۵/۶ ۶۷۱۶ حاشیہ)

حسین سلیم اسد جو کہ تحقیق حدیث میں ضعیف و نا قابل اعتبار ہے، لکھتا ہے کہ:
إسناده صحيح إن كانت زينب سمعت من أمها وإلا فهو منقطع
یعنی اس کی سند صحیح ہے، اگر زینب نے اپنی ماں (فاطمہ رضی اللہ عنہا) سے سنا ہے ورنہ منقطع ہے۔
(مسند ابی یعلی : ۱۱۷/۱۲ ۶۷۵۰ حاشیه ۴)

ابو ادریس (تلید) کی سند کو ابن ادریس (عبداللہ بن ادریس رحمہ اللہ) سمجھ کر اس روایت کو صحیح قرار دینا حسین الدارانی جیسے لوگوں کا ہی کام ہے۔

تنبیه
ابو الحجاف داود بن ابی عوف کا ذکر تلید ابو ادریس کے استادوں میں تو موجود ہے۔
(دیکھئے تہذیب الکمال وغیرہ)

لیکن عبداللہ بن ادریس کے استادوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ خلاصہ یہ کہ تلید ابوادریس کی بیان کردہ یہ روایت باطل ہے، اس کے بارے میں امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
هذا لا يصح عن رسول اللہ ﷺ
سید رسول اللہ ﷺ سے صحیح (ثابت) نہیں ہے۔
(العلل المتناحیہ: ۱۵۹٫۱ ۳۵۵)

حجاج بن تميم عن ميمون بن مهران عن ابن عباس عن النبي ﷺ قال : يا علي سيكون في أمتي قوم ينتحلون حبنا أهل البيت لهم نبز يسمون الرافضة فاقتلوهم فانهم مشركون
اے علی (بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) عن قریب میری امت میں ایک قوم ہوگی جو ہماری : اہل بیت کی محبت کو دعوی کرے گی ، ان لوگوں کا لقب رافضی ہوگا، پس انہیں قتل کرو یہ مشرک ہیں۔
(المعجم الكبير للطبرانی ۱۳۷۱۲ ح ۱۳۹۹۸ د حلیة الاولیا ۹۵/۴۰ ، مسند ابی لیلی ۴۵۹/۳۰ ۲۵ ۲۵۸ والستة لابن ابی عاصم: ح ۹۸۱)

یہ روایت ضعیف ہے، حجاج بن تمیم ضعیف ہے جیسا کہ حدیث نمبر ۳ کی تحقیق میں گزر چکا ہے۔ (ص۱۱) اس ضعیف راوی کے باوجود علامہ بیشمی لکھتے ہیں کہ :”واسنادہ حسن“ اور اس کی سند حسن ہے۔
(مجمع الزوائد : ۲۲/۱۰)

ہیشمی کا یہ قول جمہور محدثین کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
الفضل بن غانم : حدثنا سوار بن مصعب عن عطية العوفي عن أبي سعيد الخدري عن أم سلمة عن النبي ﷺ قال : أنت وأصحابك في الجنة ، أنت وشيعتك في الجنة ، الا أن ممن یحبک قوماً يضفرون الإسلام بألسنتهم ، يقرؤن القرآن لا يجاوز تراقيهم ، لهم نبز يسمون الرافضة ، فإذا لقيتهم فجاهد هم فإنهم مشركون ، قال : قلت : يا رسول الله له ما علامة ذلك فيهم ؟ قال : يتركون الجمعة والجماعة ، ويطعنون في السلف الأول
(اے علی) تم اور تمہارے ساتھی جنتی ہیں، تم اور تمہارے شیعہ جنتی ہیں ، سوائے اس کے کہ ایک قوم تجھ سے محبت (کا دعوی) کرے گی ، یہ اسلام کا زبانی دعوی کریں گے ، قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، ان کا لقب رافضی ہوگا ، جب تم انہیں پاؤ تو ان سے جہاد کرو کیونکہ یہ مشرک ہیں۔ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ان کی علامت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا : جمعہ اور جماعت ترک کردیں گے اور سلف اول (یعنی صحابہ) پر طعن کریں گے۔
(تاریخ بغداد الخطیب : ۳۵۸/۱۲ت ۱۶۷۹۰الأوسط اللطبرانی: ۳۱۶،۳۱۵/۷ ح ۶۶۰۱)
یہ روایت سخت ضعیف، باطل اور مردود ہے۔

فضل بن غانم کے بارے میں امام ابن معین نے فرمایا : ”ضعیف لیس بشئ“ یہ ضعیف ہے، کچھ چیز نہیں ہے۔
(سوالات ابن الجنيد: 11)

سوار بن مصعب منکر الحدیث ہے جیسا کہ حدیث نمبر ۴ کے تحت گزر چکا ہے۔ (ص ۱۱)

عطیہ العوفی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، حافظ ابن حجر نے کہا:
ضعيف الحفظ ، مشهور بالتدليس القبیح
حافظے کی وجہ سے ضعیف ہے اور گندی تدلیس کرنے کے ساتھ مشہور ہے۔
(طبقات المدلسین تحقیقی :۴/۱۲۲)

أبو سعيد محمد بن أسعد التغلبي : حدثنا عبثر بن القاسم أبو زبيد عن حصين بن عبدالرحمن عن أبي عبدالرحمن السلمي عن علي قال قال : رسول الله الله : سيأتي بعدي قوم لهم نبز ، يقال لهم الرافضة ، فإذا لقيمتوهم فاقتلوهم فإنهم مشركون ، قلت : يارسول الله! ما العلامة فيهم ؟ قال : يقرضونک بما ليس فيک ويطعنون على أصحابي ويشتمونهم
میرے بعد ایک قوم آئے گی جس کا لقب رافضی (رافضہ) ہوگا تم جب انہیں پاؤ تو انہیں قتل کرو، بے شک وہ مشرک ہیں، میں (علی رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ ان کی پہچان (نشانی) کیا ہے؟ فرمایا : تیرے بارے میں ایسی باتیں کہیں گے جو تجھ میں نہیں ہیں اور میرے صحابہ پر طعن و تشیع کریں گے۔
(کتاب السنہ لابن ابی عاصم :۶۷۲۲ ح ۹۷۹)

یہ روایت ضعیف ہے، محمد بن اسعد التغلمی لین (یعنی ضعیف) ہے۔
(تقریب: ۵۷۲۶)

بكر بن خنيس : حدثنا سوار بن مصعب عن داود بن أبي عوف عن فاطمة بنت علي عن فاطمة الكبرى عن أسماء بنت عميس عن أم سلمة عن رسول الله ﷺ قال : أبشر يا علي ! أنت و أصحابك في الجنة ، إلا إن ممن يزعم أنه يحبك قوم يرفضون الإسلام ، يلفظونه يقال لهم الرافضة (فإذا أدركتهم فجاهدهم) فإنهم مشركون ، قلت : يا رسول الله ! ما العلامة فيهم ؟ قال : لا يشهدون جمعة ولا جماعة ويطعنون على السف

اے علی تجھے خوشخبری ہو، تو اور تیرے ساتھی جنتی ہیں سوائے ان کے جو تیری محبت کے دعویدار ہیں مگر اسلام کو دور پھینکنے والے ہیں، انہیں رافضی کہا جائے گا۔ تو جب انہیں پائے تو ان سے جہاد کرنا کیونکہ وہ مشرک ہیں، میں نے کہا: یا رسول اللہ ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا: وہ جمعہ اور جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھیں گے اور سلف صالحین، صحابہ پر طعن کریں گے۔
(کتاب السنه ح ۹۸۰)

یہ سند سخت ضعیف اور مردود ہے۔ بکر بن تنیس جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
(دیکھئے تسہیل الحاجة فی تحقیق سنن ابن ماجه: ح ۲۲۹ و تحریر تقریب التہذیب: ۷۳۹)

سوار منکر الحدیث (یعنی سخت ضعیف) ہے۔ جیسا کہ حدیث نمبر ۴ کے تحت گزر چکا ہے۔ (ص ۱۱)

خلاصة التحقيق :
رافضیوں کا نام لے کر ، مذمت والی کوئی روایت بھی صحیح و ثابت نہیں ہے ، اس مفہوم کی دیگر بے اصل ، موضوع اور مردود روایات درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہیں۔
(شرح اصول اعتقاد اصل السنه لالکائی ۱۴۵۳/۸-۱۳۵۵، معالم التنزيل البغوى ،۲۰۸/۴ آخر سورة الفتح، کنز العمال ۳۲۴/۱۱ ح ۳۱۶۳۶،۳۱۶۳۵)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
ثنا وكيع عن شعبة عن أبي التياح عن أبي السوار قال قال علي : ليحبني قوم حتى يدخلوا النار في حبي وليبغصني قوم حتى يدخلوا النار في بغضي
علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : ایک قوم (لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ (اندھا دھند) محبت کرے گی حتی کہ وہ میری (افراط والی) محبت کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض کرے گی حتی کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی۔
(کتاب فضائل الصحابه: ۹۵۲:۵۶۵/۲ و اسناده صحیح، کتاب السنه لا بن ابی عاصم : ح ۹۸۳ن وسنده صحیح)

امام احمد بن مقبل فرماتے ہیں کہ :
نا وكيع عن نعيم بن حكيم عن أبي مريم قال : سمعت . علياً يقول : يهلك في رجلان ، مفرط غال و مبغض قال

(سیدنا)علی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : میرے بارے میں دو (قسم کے) مرد ہلاک ہو جائیں گے
(۱) غالی (اور محبت میں ناجائز) افراط کرنے والا۔
(۲) بغض کرنے والا حجت باز۔
(فضائل الصحابه: ۹۶۴:۵۷۱٫۲ و اسناده حسن)

چونکہ ان دونوں اقوال کا تعلق غیب سے ہے لہذا یہ دونوں مرفوع حکما ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ باتیں بتائی ہوں گی ، لہذا رافضی اور غلو کرنے والے شیعہ حضرات دنیا و آخرت دونوں میں رسوا اور ہلاک ہو جائیں گے۔

والله من ورائهم محيط
تلخیص الجواب سوال میں بیان کردہ روایت بے اصل اور باطل ہے۔

مسند الفردوس للدیلمی میں لکھا ہوا ہے کہ:
إذا ظهر البدع في أمتي و شتم أصحابي (فليظهر العالم علمه فإن لم يفعل فعليه لعنة الله
ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مرفوعاً مروی ہے کہ :’’ جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہو جائیں اور میرے صحابہ کو گالیاں دی جائیں تو عالم کو اپنا علم ظاہر کرنا چاہئے ، اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘
(۳۹۰٫۱ ح ۱۲۷۵)

یہ روایت بے سند و بے اصل ہے لہذا مردود و باطل ہے، اس مفہوم کی تائید کرنے والی ایک ضعیف و مردود روایت تاریخ دمشق لابن عساکر (۶۲/۵۷) میں ہے۔

اس روایت میں محمد بن عبدالرحمن بن رمل الدمشقی مجبول الحال ہے، شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔
(السلسلۃ الضعیفة :۱۴/۴ ۱۵۰۶)

دیلمی نے اس کی ایک موضوع (من گھڑت) سند بھی بیان کر رکھی ہے۔ (ایضاً ص ۱۵)

خلاصہ: یہ روایت بے اصل و مردود ہے۔

یہ روایت بے اصل ہے، اس کی کوئی سند مجھے نہیں ملی۔

سنن ترمذی کی ایک روایت میں آیا ہے کہ:
لا ينبغي فيهم أبو بكر أن يؤمهم غيره
لوگوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اگر وہ ان میں ابو بکر(رضی اللہ عنہ) موجود ہوں تو کوئی دوسرا شخص ان کی امامت کرانے لگے۔(ح۳۶۷۳)

یہ روایت ضعیف ہے، عیسی بن میمون الانصاری: ضعیف ہے۔(تقریب: ۵۳۳۵)

محدث البانی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ضعیف جدا‘‘ یعنی سخت ضعیف ہے۔
(سنن الترمذی: ص ۸۳۴، السلسلة الضعیفہ : ۳۶۵/۱۰)

اس کی تائید والی دو مردود و باطل روایتیں (السلسلہ الصحیحہ : ۳۶۶۱۰ ح ۸۲۰) میں بطور رد مذکور ہیں ، اس روایت کے شواہد مردود و باطل ہیں لہذا یہ حسن لغیرہ کے درجے تک قطعا نہیں پہنچتی ، اسے صحیح قرار دینا غلط ہے۔

وما علينا إلا البلاغ
(۶ جولائی ۲۰۰۴ء)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!