اللہ تعالیٰ روز ِقیامت اپنے مومن بندوں کو اپنا دیدار عطا کریں گے، اور یہ دیدار اللہ کی بہت بڑی نعمت اور عظیم بخشش ہے۔ قرآن، احادیث، اور مومنوں کا اس پر اجماع دلیل ہیں، جبکہ بعض فرقے جیسے معطلہ، جہمیہ، معتزلہ، خوارج، اور امامیہ شیعہ اس حقیقت کے منکر ہیں۔
اجماعِ امت
امام ابن جریر طبری (٣١٠ھ): امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”درست یہی ہے کہ مومن روز قیامت اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ یہ ہمارے دین کا حصہ ہے اور ہم نے اہل سنت والجماعت کو اسی عقیدے پر پایا ہے کہ جنتی باری تعالیٰ کا دیدار کریں گے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں ثابت ہے۔” (صریح السنۃ، ص ٢٠)
امام ابو بکر محمد بن حسین آجری (٣٦٠ھ): وہ فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا اور انہیں نیک بخت اور بدبخت قرار دیا۔ بدبختوں نے اللہ کا انکار کیا، غیر اللہ کی عبادت کی، اور رسولوں کی نافرمانی کی، اس وجہ سے وہ مرنے کے بعد عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں اور روز قیامت اللہ کے دیدار سے محروم رہیں گے۔ وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے اور مختلف عذابوں سے دوچار ہوں گے، جبکہ نیک بختوں کو اللہ کی جانب سے جنت میں نعمتیں ملیں گی اور وہ اللہ کا دیدار کریں گے، جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے، اور اللہ کے قریب رہیں گے۔” (الشریعۃ للآجری: ٢/٩٧٦)
اگر کوئی جاہل یا بے علم شخص اعتراض کرے کہ کیا مومن قیامت کے دن اللہ کو دیکھ سکیں گے؟ تو اس کا جواب ہے، ”جی ہاں، الحمدللہ! اگر کوئی جہمی اس پر ایمان لانے سے انکار کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ اس نے اللہ کا انکار کیا ہے اور قرآن، سنت، صحابہ کے اقوال اور مسلم علماء کی باتوں کو جھٹلایا ہے۔”
اللہ رب العزت کا فرمان:
﴿يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ﴾ ”اللہ تعالیٰ مومنوں پر بہت مہربان ہے، جس دن وہ اللہ سے ملاقات کریں گے، ان کا تحفہ سلام ہوگا، اور اللہ نے ان کے لیے بہترین اجر تیار کیا ہے۔” (الأحزاب: ٤٣)
امام ابو بکر محمد بن حسین آجری (٣٦٠ھ): ان کا کہنا ہے:
”اللہ آپ پر رحم فرمائے، ذہن نشین کر لیں کہ لغت کے علماء کے نزدیک یہاں ملاقات کا مطلب سامنا کرنا ہے۔ جنتی اللہ کو دیکھیں گے اور اللہ بھی ان سے مخاطب ہو گا۔” (الشریعۃ: ٢/٩٧٦)
امام ابن خزیمہ (٢٢٣-٣١١ھ):
”کسی بھی عالم کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ مومنین آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، البتہ دنیا میں یہ ممکن نہیں۔ جو اس کا انکار کرتا ہے، وہ ایمان سے خارج سمجھا جاتا ہے، اور علماء کے نزدیک یہ لوگ یہود و نصاریٰ اور مجوس سے بھی بدتر ہیں۔” (کتاب التوحید: ٢/٥٨٥)
امام ابو سعید دارمی (٢٠٤-٢٨٠ھ):
”(دیدار باری تعالیٰ) قرآن، صحیح احادیث، اور سلف صالحین کی روایات سے ثابت ہے۔ جب کتاب اللہ، قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور اجماعِ امت متفق ہوں تو تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہتی، البتہ متکبر یا منکر کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔” (الردّ علی الجہمیۃ، ص: ١٢١)
حافظ عبدالغنی مقدسی (٥٤١-٦٠٠ھ):
”اہل حق، اہل توحید و صدق کا اجماع ہے کہ روزِ آخرت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا، جیسا کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔” (الاقتصاد في الاعتقاد، ص: ١٢٥)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م: ٧٢٨ھ): وہ فرماتے ہیں:
”صحابہ کرام، تابعین عظام، اور تمام اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار آخرت میں ہو گا، جیسا کہ احادیثِ نبویہ اور آثار صحابہ سے ثابت ہے۔ امام احمد اور دیگر علماء کے مطابق، صحابہ و تابعین کا متفقہ عقیدہ ہے کہ آخرت میں اللہ کا دیدار آنکھوں سے ہو گا، مگر دنیا میں یہ ممکن نہیں۔” (منہاج السّنۃ النّبویۃ: ٢/٣١٦)
حافظ ذہبی (م: ٧٤٨ھ): وہ لکھتے ہیں:
”ہمیں کوئی واضح نص نہیں ملی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ اس مسئلہ میں ایک مسلمان کے لیے خاموشی ہی بہتر ہے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں اللہ کو دیکھنا مختلف اسانید سے ثابت ہے۔ آخرت میں اللہ کے دیدار کا معاملہ یقینی ہے، جو متواتر نصوص سے ثابت ہے۔ امام دارقطنی اور امام بیہقی نے اس موضوع پر احادیث جمع کی ہیں۔” (سیر أعلام النبلاء: ٢/٢٦٧)
مزید فرماتے ہیں:
”ہم اس کی سرزنش کریں گے اور اسے بدعتی قرار دیں گے جو آخرت میں دیدار الٰہی کا انکار کرے، کیونکہ یہ بات متواتر نصوص سے ثابت ہے۔” (سیر أعلام النبلاء: ١٠/١١٤)
قرآنی دلائل
دلیل نمبر 1: دیدار الٰہی کا ثبوت
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
"(وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ . إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ)” (القِیامۃ: 22، 23)
"اس روز جنتیوں کے چہرے شاداب اور بارونق ہوں گے، اور وہ اپنے رب کا دیدار کریں گے۔”
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751ھ) کی تفسیر: علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
"لفظ ‘نظر’ کو ‘وجہ’ کے ساتھ مخصوص کرنا، جو نظر کا محل ہے، اور ‘الیٰ’ (کی طرف) کا استعمال، جو آنکھ سے دیکھنے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے، اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ مومنین قیامت کے دن اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جو لفظ ‘نظر’ کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر مجازی معنی میں لے جائے۔” (حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح، ص: 296، 211، 2/623)
امام عکرمہ رحمہ اللہ کی تشریح: امام عکرمہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ کو حقیقی نظر سے دیکھیں گے۔”
(الردّ علی الجہمیۃ للدّارمي: 200، وسندہ، صحیحٌ)
یہی تفسیر امام عکرمہ، اسماعیل بن ابی خالد رحمہ اللہ، اور اہلِ کوفہ کے بہت سے مشائخ نے کی ہے۔ (تفسیر الطبري: 23/507، وسندہ، صحیحٌ)
تنبیہ:
تابعی امام مجاہد بن جبیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر یوں کی:
"اللہ سے ثواب کے منتظر ہوں گے۔”
(تفسیر الطبري: 23/508، وسندہ، صحیحٌ)
امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ایک صاحب نے امام مجاہد رحمہ اللہ کا یہ قول (کہ اہلِ جنت اللہ سے ثواب کے منتظر ہوں گے) دیدارِ الٰہی کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کیا۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ان کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اللہ کے چہرے کے دیدار سے بڑا کوئی ثواب نہیں ہو سکتا۔ اہلِ جنت اسی ثواب کے منتظر ہوں گے۔”
(الردّ علی الجہمیۃ، ص: 124)
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ قیامت کے دن مومن اللہ کے دیدار سے سرفراز ہوں گے، جبکہ کفار اس سے محروم رہیں گے۔
دلیل نمبر 2: دیدار الٰہی اور اس کی فضیلت
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
"(لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ)” (یونس: 26)
"اہلِ احسان مومنین کا اجر جنت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر (اللہ کا دیدار)۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
"جب اہلِ جنت جنت میں داخل ہو جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ‘کیا کوئی اور چیز چاہیے جو میں آپ کو مزید عطا کروں؟’ اہلِ جنت عرض کریں گے: ‘کیا آپ نے ہمارے چہروں پر نور نہیں بکھیرا؟ ہمیں جنت میں داخلہ نہیں دیا؟ اور ہمیں جہنم سے نجات نہیں دی؟’ پھر اللہ تعالیٰ پردہ ہٹا دیں گے، اور اہلِ جنت کے لیے اللہ کے دیدار سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہوگی۔”
(صحیح مسلم: 181)
امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول: امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس کی تشریح میں فرمایا:
"اللہ کو دیکھنا۔”
(تفسیر الطبري: 12/160، الاعتقاد للبیہقي، ص: 125)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) کی تفسیر: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
"لفظ ‘زیادہ’ سے مراد ایک نیکی کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دینا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر جنت کے محل، حوریں، رضائے الٰہی، اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہے، جو اللہ نے اہلِ جنت کے لیے چھپا رکھا ہے۔ اس سے بھی افضل اور اعلیٰ انعام اللہ کے چہرے کا دیدار ہے، جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ انعام اعمال کے بل بوتے پر نہیں، بلکہ اللہ کے فضل و رحمت سے ملے گا۔”
(تفسیر ابن کثیر: 4/262، ت: سلامۃ)
مزید فرماتے ہیں:
"صحیح مسلم میں سیدنا صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ اس آیت میں ‘زیادہ’ سے مراد اللہ کے چہرے کا دیدار ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر: 7/407)
دلیل نمبر 3: دیدارِ الٰہی سے محرومی
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
"(كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ)” (المُطَفِّفِین: 15)
"خبردار! یہ لوگ روزِ قیامت دیدارِ الٰہی سے محروم کر دیے جائیں گے۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) کی تفسیر: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ قیامت کے دن مومن اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ امام شافعی کا یہ قول بہترین استدلال ہے، جو اس آیت کے مفہوم سے اخذ کیا گیا ہے۔ اسی مفہوم کا بیان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بھی موجود ہے: (وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ . إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ) (القِیامَۃ: 22، 23)۔ یہ احادیثِ صحیحہ متواترہ سے بھی ثابت ہے کہ روزِ آخرت مومن اللہ کا دیدار کریں گے، اور یہ دیدار قیامت کی ہولناکیوں اور جنت کے شاندار باغات میں آنکھوں سے ہوگا۔”
(تفسیر ابن کثیر: 8/351)
امام ابو بکر عبداللہ بن زبیر حمیدی رحمہ اللہ کا قول:
"سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ بشر مریسی کا دعویٰ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کا دیدار نہیں ہوگا۔ سفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: ‘اللہ اسے تباہ کرے، کیا اس نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا؟ (كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ)۔ اگر اولیاء اللہ اور دشمن دونوں دیدار سے محروم ہوں، تو پھر اولیاء اللہ کو دشمنوں پر کیا فضیلت حاصل ہے؟'”
(حِلْیَۃُ الأولیاء وطبقات الأصفیاء: 7/297، تاریخ بغداد: 6/65، وسندہ، صحیحٌ)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا غصہ: جب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو ایک شخص کے روزِ قیامت دیدارِ الٰہی کے انکار کا علم ہوا تو وہ شدید ناراض ہوئے اور فرمایا:
"جو کہتا ہے کہ آخرت میں اللہ کا دیدار نہیں ہوگا، وہ کافر ہے۔ اس پر اللہ کی لعنت اور غضب ہو۔ کیا اللہ نے نہیں فرمایا: (وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ . إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ) اور فرمایا: (كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ)۔ یہ آیات دلیل ہیں کہ مومنین کو قیامت کے دن اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔”
(الشریعۃ للآجری: 2/986، وسندہ، صحیحٌ)
امام مالک رحمہ اللہ کا موقف:
"امام مالک رحمہ اللہ نے سنا کہ کچھ لوگ آیت: (وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ . إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ) کو صرف اللہ کے ثواب کے انتظار سے تعبیر کرتے ہیں۔ امام مالک نے فرمایا: ‘یہ لوگ جھوٹے ہیں، انہیں اللہ کے اس فرمان کا کیا جواب ہوگا؟ (كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ)۔'”
(حِلْیَۃُ الأولیاء: 6/326، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م: 354ھ): امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"رؤیت الٰہی کے بارے میں مروی احادیث کا انکار وہی شخص کرتا ہے جس کے پاس علم کی روشنی نہیں۔ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو آخرت میں اپنا دیدار عطا کریں۔ قرآن بھی یہی کہتا ہے: (كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ)۔ اگر کفار کو دیدارِ الٰہی سے محروم رکھا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مومنین اس نعمت سے محروم نہیں ہوں گے۔ دنیا میں اللہ کا دیدار ممکن نہیں کیونکہ یہاں سب فانی ہیں، مگر آخرت میں ہمیشہ رہنے والی آنکھ ہمیشہ باقی رہنے والے اللہ کا دیدار کر سکتی ہے۔ اس حقیقت کا انکار وہی کرتا ہے جو علم سے بے بہرہ ہو اور اپنی رائے اور قیاس کو وحی پر فوقیت دیتا ہو۔”
(صحیح ابن حبان: 16/477، 478)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (223-311ھ):
"روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کا دیدار اولیاء اللہ کے لیے مختص ہے، اور قرآن اس بات کی گواہی دیتا ہے: (وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ . إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ)۔ یہ فضیلت اللہ کے مومن دوستوں کو دی جائے گی، جبکہ اللہ کے دشمن، جیسے مشرک، یہودی، نصرانی، مجوسی اور منافق، اس دیدار سے محروم رہیں گے۔ اللہ نے فرمایا: (كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ)۔ جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل ہونے کے بعد، اللہ اپنے مومن بندوں کو اپنا دیدار عطا کرے گا، اور یہ اللہ کے فضل و کرم سے ہوگا۔”
(کتاب التوحید وإثبات صفات الرب عزّ وجلّ: 2/441)
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م: 181ھ) کی تفسیر:
"جو شخص اپنے خالق کے چہرے کا دیدار چاہتا ہے، وہ نیک عمل کرے اور کسی کو اس کی اطلاع نہ دے۔”
(الاعتقاد والہدایۃ إلى سبیل الرشاد للبیہقی، ص: 127، وسندہ، حسنٌ)
حدیثی دلائل
دلیل نمبر 1:
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا مِنْكُمْ مِّنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ، لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ، وَلَا حِجَابَ يَحْجُبُهُ.”
"آپ سب سے عنقریب اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوں گے، اور آپ کے اور اللہ کے درمیان نہ کوئی ترجمان ہوگا اور نہ ہی کوئی حجاب۔”
(صحیح البخاری: 7443، صحیح مسلم: 1016)
دلیل نمبر 2:
سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَقَالَ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ، لَا تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَّا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَصَلَاةٍ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَافْعَلُوا.”
"ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں بیٹھے تھے کہ آپ نے چودہویں کے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: ‘آپ اپنے رب کو اسی طرح دیکھیں گے جس طرح یہ چاند دیکھتے ہیں، اور دیکھنے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔ اگر آپ نماز عصر اور نماز فجر کو وقت پر ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو ضرور کریں۔'”
(صحیح البخاری: 7434، صحیح مسلم: 633)
صحیح بخاری (7435) میں یہ بھی آیا ہے: "إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ عِيَانًا”
"آپ اپنے رب کو روبرو دیکھیں گے۔”
اس میں رؤیت کی تشبیہ حقیقی رؤیت کے ساتھ ہے، یعنی جیسے آپ اپنی آنکھوں سے چاند کو دیکھتے ہیں، اسی طرح مومنین قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔
دلیل نمبر 3:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"قَالَ أُنَاسٌ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، هَلْ نَرٰى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ، قَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ دُونَهُ سَحَابٌ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذٰلِكَ.”
"صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول، کیا روز قیامت ہم اللہ کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘جب مطلع صاف ہو تو کیا آپ کو سورج دیکھنے میں کوئی دشواری پیش آتی ہے؟’ انہوں نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول۔ پھر آپ نے فرمایا: ‘جب مطلع صاف ہو تو کیا آپ چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں کوئی دشواری محسوس کرتے ہیں؟’ انہوں نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘آپ قیامت کے دن اللہ کو اسی طرح دیکھیں گے۔'”
(صحیح البخاری: 6573، صحیح مسلم: 182)
امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (150-224ھ) فرماتے ہیں:
"یہ احادیث رویت باری تعالیٰ کے بارے میں ہمارے نزدیک حق ہیں، یہ فرامین ثقہ راویوں کے واسطے سے ہم تک پہنچے ہیں، البتہ ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے، نہ ہی ہم نے کسی کو ان کی تفسیر کرتے ہوئے پایا۔”
(الأسماء والصفات للبیہقی: 2/196، وسندہ، صحیحٌ)
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (107-198ھ):
"رؤیت الٰہی کی یہ احادیث حق ہیں، جیسا کہ ہم نے ثقہ راویوں سے سنا ہے۔”
(التصدیق بالنّظر إلى اللّٰه تعالیٰ في الآخرۃ للآجُرِّي، ص: 42، 43، الشریعۃ للآجری: 2/984، سیر أعلام النبلاء للذہبی: 8/466، وسندہ، صحیحٌ)
امام اسود بن سالم، بغدادی رحمہ اللہ (م: 213ھ):
"رؤیت باری تعالیٰ کی یہ احادیث و آثار اگر درست نہ ہوں تو قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہماری بیویاں طلاق ہیں، وہ ہم سے علیحدہ ہوجائیں۔”
(الشریعۃ للآجری: 2/984، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ):
"جان لیں کہ اہلِ سنت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اللہ کا دیدار عقلاً ممکن ہے اور روز قیامت مومنین اللہ کا دیدار کریں گے، جبکہ کفار اس سے محروم ہوں گے۔ معتزلہ، خوارج، اور بعض مرجیہ کا یہ دعویٰ کہ مخلوق میں سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، ایک صریح غلطی اور قبیح جہالت ہے۔ قرآن و سنت اور صحابہ کے اجماع سے قیامت کے دن اللہ کے دیدار کا اثبات ہوتا ہے، جسے بیس سے زیادہ صحابہ نے بیان کیا ہے، اور قرآن کی آیات بھی اس بارے میں مشہور ہیں۔”
(شرح صحیح مسلم: 3/15)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673-748ھ):
"آخرت میں اللہ کا دیدار، اور وہ بھی روبرو، ایک یقینی امر ہے۔ متواتر احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں۔”
(سیر أعلام النبلاء: 2/167)
مزید فرماتے ہیں:
"معتزلہ کا خیال ہے کہ اگر محدثین اسماء و صفات، رؤیتِ باری تعالیٰ، اور نزولِ باری تعالیٰ کی ہزار احادیث چھوڑ دیتے تو وہ راہِ صواب پر ہوتے، مگر یہ ان کا باطل دعویٰ ہے۔”
(سیر أعلام النبلاء: 10/455)
امام ابو بکر محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ (م: 360ھ):
"اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو خبر دی کہ وہ قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے۔ یہ بات بہت سے صحابہ نے بیان کی، اور علماء نے ان سے احسن طریقے سے قبول کی، جیسا کہ انہوں نے طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، اور حلال و حرام کا علم قبول کیا۔ اسی طرح انہوں نے ان احادیث کو بھی قبول کیا کہ مومنین قیامت کے دن اللہ کا دیدار کریں گے۔ اور جو ان احادیث کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔”
(الشریعۃ: 2/976)
امام مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"قیامت کے دن (مومنین) اللہ تعالیٰ کا دیدار اپنی آنکھوں سے کریں گے۔”
(الشریعۃ للآجری: 574، وسندہ، صحیحٌ)
شبہات اور ان کا ازالہ
رؤیت باری تعالیٰ کے منکرین اپنی گمراہی اور لاعلمی کو ثابت کرنے کے لیے مختلف شبہات پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں ان شبہات کا ذکر کیا جاتا ہے اور ان کا ردّ پیش کیا گیا ہے تاکہ ان کی غلطی واضح ہو سکے۔
شبہہ نمبر 1:
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
"(لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ)” (سورۃ الأنعام: 103)
"آنکھیں اس (اللہ) کا ادراک نہیں کر سکتیں، جبکہ وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے۔”
منکرین کی دلیل:
منکرین کا استدلال ہے کہ اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں۔
جواب:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (223-311ھ) فرماتے ہیں:
"سنیے، ایک صحیح سند والی حدیث جو ثابت ہے، یہ دلالت کرتی ہے کہ مومنین اپنے خالق کو مرنے کے بعد دیکھیں گے، لیکن موت سے پہلے نہیں۔”
(کتاب التوحید وإثبات صفات الرب: 2/458)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
"دجال مومن سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، حالانکہ وہ کانا ہوگا، یاد رکھیے کہ آپ کا رب کانا نہیں ہے اور آپ قیامت سے پہلے اللہ کو نہیں دیکھ سکتے۔”
(السنۃ لابن أبي عاصم: 48، کتاب التوحید لابن خزیمۃ: 2/459، وسندہ، حسنٌ)
آیت کی تشریح:
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) فرماتے ہیں:
"ایک گروہ کہتا ہے کہ (لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ) کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، لیکن یہ آیت مومنین کے روز قیامت دیدارِ الٰہی سے مستثنیٰ ہے۔ معتزلہ کا ایک گروہ اس آیت کا مفہوم یہ لیتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کا دیدار ممکن نہیں۔ لیکن ان کی یہ بات قرآن و سنت کی تعلیمات اور اہل سنت کے اجماع کے خلاف ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر: 3/309)
وضاحت:
ادراک کی نفی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رؤیت کی نفی کی جا رہی ہے۔ ہم سورج کو دیکھتے ہیں لیکن اس کی روشنی اور حرارت کا مکمل ادراک نہیں کر سکتے۔ اسی طرح، اللہ کا دیدار ممکن ہے، لیکن اس کی ذات کا مکمل احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
شبہہ نمبر 2:
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
"(لَنْ تَرَانِي)” (سورۃ الأعراف: 143)
"موسیٰ! آپ مجھے نہیں دیکھ سکیں گے۔”
منکرین کی دلیل:
منکرین کا کہنا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں اللہ کے دیدار کی نفی ہے، جبکہ احادیث میں اللہ کے دیدار کا اثبات ملتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ احادیث میں دیدار سے مراد علم ہے، نہ کہ حقیقی دیدار۔ بطور دلیل وہ یہ آیت پیش کرتے ہیں:
"(أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)” (سورۃ النور: 41)
"کیا آپ کے علم میں نہیں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے؟”
جواب:
یہ احادیث متواتر ہیں اور ان کی صحت میں کوئی شک نہیں۔ قرآن مجید میں جس دیدار کی نفی کی گئی ہے، اس کا تعلق دنیاوی زندگی سے ہے، جبکہ احادیث میں جس دیدار کا ذکر ہے، وہ آخرت میں ہوگا۔ یعنی دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو دیکھنے کے قابل نہیں، لیکن آخرت میں مومنین کو اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔
قرآن کا ارشاد:
"(وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ . إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ)” (سورۃ القیامۃ: 22-23)
"اس روز جنتیوں کے چہرے شاداب اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔”
یہاں "نظر” کو "وجہ” یعنی چہرے کے ساتھ نسبت دی گئی ہے، جو کہ آنکھوں کا محل ہے، اور اسے "الی” کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے، جو کہ رؤیت بصری (ظاہری آنکھ سے دیکھنے) کو ثابت کرتا ہے۔
علامہ ابن قتیبہ دینوری رحمہ اللہ (213-276ھ):
"سیدنا موسیٰ کی یہ درخواست (رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ) واضح دلیل ہے کہ قیامت کے دن اللہ کا دیدار ممکن ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی اس صفت کا علم نہ ہوتا جو ان لوگوں نے جان لیا ہے۔”
(تاویل مختلف الحدیث، ص: 299)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (691-751ھ):
"جمہور سلف یہی کہتے ہیں کہ جو شخص آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔”
(مجموع الفتاوی: 6/486)
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751ھ):
"دیدار الٰہی وہ مقصد ہے جس کے لیے نیک لوگ کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ مقصد اہل جنت کو حاصل ہوگا تو وہ جنت کی تمام نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ اور اہل جہنم کے لیے اس محرومی کا درد ان کے جسمانی عذاب سے بھی زیادہ ہوگا۔ اس پر انبیاء، صحابہ، تابعین اور تمام ائمہ کا اجماع ہے، اور اس کا انکار اہل بدعت نے کیا ہے، جو اللہ کی رسی چھوڑ کر شیطان کی رسی تھامے ہوئے ہیں۔”
(حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح، ص: 285)
مضمون کا خلاصہ
یہ مضمون رؤیتِ الٰہی یعنی آخرت میں اللہ کے دیدار کے عقیدے پر تفصیلی بحث کرتا ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ کا بنیادی عقیدہ ہے۔ قرآن، حدیث اور علماء امت کا اجماع اس بات کی تائید کرتا ہے کہ قیامت کے دن مومنین اللہ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ یہ ایک عظیم انعام اور سعادت ہے جو اہلِ ایمان کو عطا کی جائے گی۔
اس مضمون میں منکرینِ رؤیتِ الٰہی کی طرف سے پیش کیے جانے والے شبہات اور ان کا رد بھی شامل ہے۔ منکرین کی جانب سے پیش کیے جانے والے شبہات کی وضاحت کی گئی ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ) کا مطلب دنیا میں اللہ کے دیدار کی نفی ہے، جبکہ احادیث آخرت میں دیدار کی تائید کرتی ہیں۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے (لَنْ تَرَانِي) کا تعلق بھی دنیا سے ہے۔ اس کے برعکس، قرآن و حدیث میں ایسی آیات اور احادیث موجود ہیں جو آخرت میں اللہ کے دیدار کے ممکن ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔
علماء اور ائمہ نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ دنیاوی زندگی میں اللہ کا دیدار ممکن نہیں، مگر آخرت میں یہ سعادت صرف اہلِ ایمان کو ملے گی۔ جن لوگوں نے اس عقیدے کا انکار کیا ہے، وہ قرآن و سنت اور صحابہ و تابعین کے متفقہ فہم کے مخالف ہیں۔ علماء نے انکار کرنے والوں کو گمراہ قرار دیا ہے۔
آخر میں، یہ مضمون اس بات پر زور دیتا ہے کہ آخرت میں اللہ کے دیدار کا عقیدہ انبیاء، صحابہ، تابعین، اور تمام ائمہ اسلام کے نزدیک متفقہ ہے۔ یہ اللہ کی ایک عظیم نعمت ہوگی، جس کا حاصل ہونا اہلِ جنت کے لیے سب سے بڑی خوشی کا باعث ہوگا، جبکہ اس سے محرومی اہلِ جہنم کے لیے سب سے بڑا عذاب ہوگی۔