آثارِ نبوی ﷺ سے برکت: صحابہ کی محبت کی چند مثالیں
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

آثارِ نبوی سے تبرک حاصل کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کی تعظیم کا عملی اظہار ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور ان کے وصال کے بعد بھی ان کے آثار سے تبرک حاصل کیا۔ صحابہ کرام کی اتباع میں تابعین اور تبع تابعین بھی آثارِ نبویہ سے برکت لیتے رہے۔

تبرک کے معاملے کو اسی طرح سمجھنا چاہیے جس طرح خیر القرون میں سمجھا جاتا تھا۔ سلف صالحین کی پیروی دراصل حق کی پیروی ہے، جو کہ آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ سلف صالحین کی مخالفت، درحقیقت، حق کی مخالفت ہے۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "خیر القرون قرنی” کے تحت بہترین امت کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان کا فہم سبیل المومنین اور سبیل حق کہلاتا ہے، جس پر عمل کرنا فرض ہے اور اس کی مخالفت حرام ہے۔ ان کے متفقہ فہم کو اجماع کہا جاتا ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہے۔ اہل سنت والجماعت کا تعلق انہی کے طریقہ اور عقیدے کی پیروی سے ہے۔

سلف صالحین، اہل سنت کے ائمہ کا موقف زیادہ محفوظ، علمی اور مضبوط ہے، کیونکہ وہ تقویٰ، ورع اور علم میں سب سے آگے تھے۔ ان کے استنباط اور اجتہاد میں کوئی تکلف نہ تھا، اسی لیے ان کی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم، محبت، اور سنتوں کی پیروی میں سب سے بڑھ کر تھے۔ یہی بزرگ ہمارے اکابر ہیں، جن سے امت میں خیر، برکت، اور علم کا تسلسل جاری ہے۔

آئیے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے آثارِ نبویہ سے کس طرح تبرک حاصل کیا:

جسدِ اقدس سے تبرک

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی صحابی سیدنا زاہر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحائف لایا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں تحائف دیا کرتے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے سے ان سے گلے ملے جبکہ وہ انہیں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو انہوں نے محبت سے اپنی پیٹھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے ملانا شروع کر دیا۔ (الشمائل المحمدیۃ للترمذی: 240، مسند الإمام أحمد: 161/3، مسند أبی یعلٰی: 3454)

وضو والے پانی سے تبرک

سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت تشریف لائے۔ آپ کے لیے وضو کا پانی پیش کیا گیا، اور آپ نے وضو فرمایا۔ لوگ آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو اپنے بدن پر ملنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو رکعت ظہر اور عصر کی نماز ادا کی، اور آپ کے سامنے ایک چھڑی تھی۔ (صحیح البخاری: 187، 188، صحیح مسلم: 503)

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدے کی تکمیل کا مطالبہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش خبری دی، لیکن اس نے اعتراض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں فرمایا کہ یہ بشارت اس نے رد کر دی ہے، تم دونوں قبول کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھوں اور چہرہ مبارک کو دھویا، اور فرمایا کہ اس پانی کو پی لو اور اپنے چہروں پر ڈال لو۔ (صحیح البخاری: 4328، صحیح مسلم: 2497)

سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اور جو اسے حاصل نہیں کر پاتے، وہ دوسروں کے ہاتھ کی تری لے لیتے۔ (صحیح البخاری: 376، صحیح مسلم: 503)

دستِ مبارک سے تبرک

➊ سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ: سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت بطحا نامی جگہ پر پہنچے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور ظہر و عصر کی دو دو رکعت نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک چھوٹا نیزہ بطورِ سترہ گڑا ہوا تھا۔ اس دوران صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو تھام کر اپنے چہروں پر ملنے لگے۔ سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو اپنے چہرے پر رکھا اور فرمایا کہ یہ ہاتھ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھا۔ (صحیح البخاری: 3553)

➋ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان: سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازِ فجر ادا فرماتے تو مدینہ کے خادم اپنے پانی کے برتن لے کر آپ کے پاس آتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک ان برتنوں میں ڈبو دیتے۔ سردیوں کی صبح میں بھی لوگ آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے برتنوں میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے تھے۔ (صحیح مسلم: 2324)

➌ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ: ذیال بن عبید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کے والد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بیٹے کے لیے دعا کی درخواست کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر دست مبارک رکھا اور دعا دی: "اللہ تمہیں برکت دے”۔ بعد میں، اگر کسی کے چہرے یا جانور کے تھن میں ورم ہوتا تو سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر دعا کرتے، جس سے ورم ختم ہو جاتا۔ (مسند الإمام أحمد: 68/5، دلائل النبوۃ للبیہقي: 214/6، وسندہٗ صحیحٌ)

➍ سیدنا ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کا ذکر: سیدنا ابو زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے قریب کر کے ان کے سر اور داڑھی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا کی: "اللّٰہُمَّ جَمِّلْہُ، وَأَدِمْ جَمَالَہٗ”۔ راوی کہتے ہیں کہ سیدنا ابو زید رضی اللہ عنہ نے سو سال سے زائد عمر پائی، اور ان کے سر اور داڑھی کے صرف چند بال سفید ہوئے تھے، جبکہ ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا۔ (مسند الإمام أحمد: 77/5، دلائل النبوّۃ للبیہقيّ: 211/6، وقال: ہٰذا إسناد صحیحٌ)

➎ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا واقعہ: سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی خالہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں اور عرض کی: "اللہ کے رسول، میرا بھانجا بیمار ہے”۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعا دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور انہوں نے وضو کا پانی پیا۔ بعد ازاں، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرِ نبوت کو بھی دیکھا۔ (صحیح البخاری: 5670، صحیح مسلم: 2345)

➏ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے۔ لیکن مرض الموت کے دوران، جب آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی، تو میں معوذات پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھونکتی اور برکت کی خاطر آپ ہی کے دست مبارک کو آپ کے جسم اطہر پر پھیرتی۔ (صحیح البخاری: 5016، صحیح مسلم: 2192)

توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیرہ اور تبرک

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کچھ کھجوریں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: "اللہ کے رسول! ان میں برکت کے لیے دعا کیجئے۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو اکٹھا کیا اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر فرمایا: "انہیں اپنے توشہ دان میں رکھ لو، جب بھی ان میں سے کچھ لینا چاہو، تو ہاتھ ڈال کر نکالنا، لیکن انہیں مکمل طور پر نہ انڈیلنا۔” سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کھجوریں میری زندگی کا حصہ بن گئیں۔ ہم ان سے کھاتے اور کھلاتے بھی تھے، حتی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن یہ توشہ دان ٹوٹ کر ختم ہوگیا۔ (سنن الترمذي: 3839، مسند الإمام أحمد: 352/2، دلائل النبوّۃ للبیہقي: 110/6، وصحّحہ ابن حبّان: 6532، وسندہٗ حسنٌ)

تنبیہ: ایک اور روایت میں ذکر ہے کہ ایک جنگ کے دوران، سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے جن کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ اس وقت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک توشہ دان میں چند کھجوریں تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں پر ہاتھ رکھ کر دعا کی اور حکم دیا کہ دس دس صحابہ کو بلاؤ۔ سب نے کھجوریں کھائیں اور سیر ہوکر گئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، حتی کہ پورا لشکر سیر ہو گیا اور کچھ کھجوریں باقی بھی رہ گئیں۔ (دلائل النبوّۃ للبیہقي: 110/6، تاریخ دمشق لابن عساکر: 189/40)

لیکن اس روایت کی سند "ضعیف” ہے، کیونکہ اس میں بعض راویوں کی توثیق نہیں ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک سے تبرک

➊ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹنی کو اپنے مبارک پاؤں سے ٹھوکر لگائی۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے دیکھا کہ اس کے بعد وہ اونٹنی اتنی تیز ہو گئی کہ کسی کو آگے نہیں نکلنے دیتی تھی۔” (صحیح مسلم: 1424، السنن الکبرٰی للبیہقي: 235/7، وصحّحہ الحاکم)

➋ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا اونٹ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اونٹ کو اپنے پاؤں مبارک سے ٹھوکر مار کر دعا دی، جس سے وہ اتنا تیز ہو گیا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہ تھا۔ (مسند الإمام أحمد: 299/3، صحیح مسلم: 715)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں سے تبرک

➊ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان: سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک منڈواتے، تو سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک حاصل کرتے تھے۔ (صحیح البخاری: 171)

➋ منیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک عطا کرنا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارنے کے بعد اپنا سر منڈوایا اور بال مبارک صحابہ کرام میں تقسیم کیے۔ آپ نے سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو خاص طور پر بال عطا کیے اور فرمایا: "یہ لوگوں میں تقسیم کر دو۔” (صحیح مسلم: 1305)

➌ صحابہ کرام کا عقیدت کا اظہار: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹے جاتے تو صحابہ کرام کا ہجوم ہوتا، تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر بال کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ میں آ جائے۔ (صحیح مسلم: 2325)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ناخنوں سے تبرک

سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ: سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بال منڈوائے اور انہیں ایک کپڑے میں محفوظ کر کے ایک قریشی شخص کو عنایت فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ناخن تراش کر بھی اسی شخص کو عنایت کر دیے۔ (مسند الإمام أحمد: 42/4، وسندہٗ صحیحٌ)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (2932) اور امام ابو عوانہ رحمہ اللہ (3248) نے "صحیح” قرار دیا ہے، جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر "صحیح” قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح بخاری کے ہیں۔” (مجمع الزوائد: 19/4)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک لعابِ دہن سے تبرک

➊ سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا واقعہ: سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب عبداللہ بن زبیر مکہ مکرمہ میں ان کے پیٹ میں تھے اور وقتِ ولادت قریب تھا، تو وہ مدینہ منورہ پہنچیں۔ قبا میں ان کی ولادت ہوئی۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عبداللہ بن زبیر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور منگوا کر چبائی اور اپنا لعاب دہن بچے کے منہ میں ڈالا۔ یوں، اس بچے کے پیٹ میں جانے والی سب سے پہلی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعابِ دہن تھا۔ (صحیح البخاری: 5469، صحیح مسلم: 2146)

➋ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان: سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی طلحہ انصاری پیدا ہوئے تو میں انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو چبایا اور بچے کے منہ میں ڈال دیا۔ بچے نے اسے چوسا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انصار کو کھجور پسند ہے” اور بچے کا نام عبداللہ رکھا۔ (صحیح مسلم: 2144)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک پسینہ سے تبرک

➊ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا واقعہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا، تو میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک شیشی لا کر اس پسینہ کو جمع کرنا شروع کیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو دریافت فرمایا: "ام سلیم! یہ کیا کر رہی ہیں؟” انہوں نے عرض کیا: "یہ آپ کا پسینہ ہے، ہم اسے اپنی خوشبو میں شامل کریں گے، کیونکہ یہ بہترین خوشبو ہے۔” (صحیح مسلم: 2331/83)

➋ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استراحت فرمانا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاتے اور ان کے بستر پر سو جاتے تھے۔ ایک دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سو رہے تھے اور پسینہ آیا، تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے وہ پسینہ جمع کر لیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے برکت حاصل کرنے کی نیت سے یہ کر رہی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آپ نے درست کیا۔” (صحیح مسلم: 2331/84)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ملبوسات سے تبرک

➊ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ: سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لیے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: ’’انہیں تین یا پانچ یا اس سے زائد بار غسل دو، اگر ضرورت محسوس ہو تو۔ جب غسل مکمل کر لو تو مجھے اطلاع دینا۔‘‘ جب وہ غسل سے فارغ ہوئیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ازار (تہبند) ان کے حوالے کیا اور فرمایا: ’’اسے ان رضی اللہ عنہا کے جسم کے ساتھ لگا دو۔‘‘ (صحیح البخاری: 1257، صحیح مسلم: 939)

➋ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کا واقعہ: سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چادر پیش کی۔ ایک صحابی نے عرض کیا: ’’اللہ کے رسول! یہ کتنی حسین چادر ہے، براہ کرم مجھے عنایت فرما دیجیے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، تو دوسرے صحابہ نے اس صحابی کو ملامت کی کہ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چادر کیوں مانگی جبکہ تم جانتے تھے کہ آپ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ اس پر صحابی نے جواب دیا: ’’میں نے اس چادر کو پہننے کے لیے نہیں مانگا تھا بلکہ اس سے برکت حاصل کرنے کی نیت تھی تاکہ میں اسے اپنا کفن بنا سکوں۔‘‘ (صحیح البخاری: 6036)

ایک دوسری روایت میں ہے: ’’اللہ کی قسم! میں نے یہ چادر پہننے کے لیے نہیں مانگی بلکہ (تبرک کی نیت سے) اس لیے مانگی تھی تاکہ یہ چادر میرا کفن بن سکے۔‘‘ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’چنانچہ وہ چادر اس صحابی کا کفن بن گئی۔‘‘ (صحیح البخاری: 1277)

قصیدہ بردہ کے بارے میں تنبیہ

محمد بن سعید بوصیری (م: 696ھ) نے ایک خواب کی بنیاد پر قصیدہ بردہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کی تعریف) لکھا تھا۔ بوصیری کا یہ دعویٰ غیر مستند اور ناقابل اعتبار ہے۔ اس قصیدے میں کچھ اشعار ایسے ہیں جو شرکیہ اور کفریہ خیالات پر مبنی ہیں۔ بعض لوگ اس قصیدے کو بڑی محبت اور عقیدت سے پڑھتے اور سنتے ہیں، لیکن یہ اسلامی عقائد کے مطابق نہیں ہے۔

دیوبندی علما کے شیخ الاسلام، حسین احمد مدنی (م: 1377ھ) نے اپنی تحریر میں محمد بن عبدالوہاب اور ان کے پیروکاروں کو وہابیت کی طرف منسوب کیا، اور کہا کہ دیوبندی اور وہابی عقائد میں کچھ مطابقت ہے۔ دیوبندی علما قصیدہ بردہ اور درود و سلام کی تلاوت کو جائز سمجھتے ہیں، جب کہ وہابیہ اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ دیوبندی علما کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں سے برکت حاصل کرنا جائز ہے، جیسے کہ قصیدہ بردہ کے اشعار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصا سے تبرک

سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کا واقعہ: سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا: "مجھے معلوم ہوا ہے کہ خالد بن سفیان بن نبیح ہذلی لوگوں کو میرے خلاف جنگ کے لیے اکٹھا کر رہا ہے اور اس وقت وہ عرنہ میں ہے۔ وہاں جاکر اسے قتل کر آؤ۔” سیدنا عبداللہ بن انیس نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! مجھے اس کی کوئی علامت بتا دیں تاکہ میں اسے پہچان سکوں۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم اسے دیکھو گے تو اس کے جسم پر خوف کے آثار محسوس کرو گے۔”

سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ اپنی تلوار لے کر روانہ ہوئے اور عرنہ پہنچے۔ انہوں نے خالد کو دیکھا اور اس کی علامت کو پہچان کر اسے قتل کیا۔ واپسی پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ چہرہ کامیاب ہوا۔” سیدنا عبداللہ نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے سچ کہا۔”

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے گھر لے جاکر ایک عصا دیا اور فرمایا: "عبداللہ بن انیس! اس عصا کو اپنے پاس رکھو۔” سیدنا عبداللہ نے اس عصا کو سنبھال کر رکھا۔ صحابہ نے ان سے پوچھا کہ اس عصا کا کیا معاملہ ہے، تو انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عنایت فرمایا ہے۔ پھر انہوں نے واپس جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یہ عصا کیوں دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ قیامت کے دن میرے اور تمہارے درمیان ایک علامت ہوگی۔”

سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے اس عصا کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا، حتی کہ جب ان کا انتقال ہوا تو انہوں نے وصیت کی کہ اسے ان کے کفن میں شامل کیا جائے، اور یوں وہ عصا ان کے ساتھ دفن کیا گیا۔ (مسند الإمام أحمد: 486/3، وسندہٗ حسنٌ، فتح الباری: 437/2)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک مشکیزہ سے تبرک

سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا واقعہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے، جہاں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشکیزہ کے منہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے برکت کی غرض سے مشکیزے کا منہ کاٹ لیا، جو ان کے پاس بطور تبرک موجود رہا۔ (مسند الإمام أحمد: 431/6، شمائل الترمذي: 215، وصحّحہ ابن الجارود: 868)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا شدہ سونے سے تبرک

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا واقعہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ ایک سست رفتار اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے وہ قافلے سے پیچھے رہ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حال پوچھا، اور جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ سست اونٹ کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اونٹ کو چھڑی سے مار کر دعا دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اونٹ تیز رفتار ہو گیا۔

بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کو چار دینار کے عوض خریدنے کی خواہش ظاہر کی، جسے سیدنا جابر نے قبول کیا۔ مدینہ منورہ پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا: "بلال! جابر کو اس کی قیمت ادا کرو اور کچھ اضافی بھی دے دو۔” سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے چار دینار اور ایک قیراط سونا اضافی دے دیا۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کیا ہوا قیراط سونا کبھی مجھ سے جدا نہیں ہوا۔ وہ ہمیشہ میری تھیلی میں موجود رہا۔” (صحیح البخاری: 2309، صحیح مسلم: 715)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بلغم سے تبرک

سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کا بیان: سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: "اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بلغم تھوکتے، وہ صحابہ کرام میں سے کسی کے ہاتھ پر گرتا، اور وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتے تھے۔” (صحیح البخاری: 2731)

نتیجہ: آثارِ نبوی سے محبت اور برکت کا حصول

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثارِ مبارکہ سے برکت حاصل کرنا اور ان کی تعظیم کرنا صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے اعمال میں نمایاں رہا ہے۔ ان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت کا اظہار ان کے آثار سے برکت حاصل کرنے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ یہ عمل ان کے نزدیک نہ صرف تعظیم رسول کا مظہر تھا بلکہ روحانی برکت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی تھا۔

مقالے میں کئی واقعات بیان کیے گئے ہیں، جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر سے متصل چیزوں جیسے آپ کے لباس، بال، لعاب، اور پسینے سے برکت حاصل کی۔ ان تمام واقعات میں صحابہ کرام کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا یہ طرز عمل اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منسلک چیزوں میں خصوصی برکت موجود تھی، اور ان چیزوں سے برکت حاصل کرنا ان کے لیے روحانی قربت کا ایک ذریعہ تھا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ان اعمال سے یہ سبق ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم محض زبانی دعوے تک محدود نہیں تھی بلکہ عملی طور پر بھی اس کا اظہار ہوتا تھا۔ ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کا احترام اور ان سے برکت کا حصول، اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

یہ روایات آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک پیغام ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ محبت اور عقیدت کو ہمیشہ بلند ترین مقام دینا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ہمیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر اور ان کی تعلیمات کے ذریعے اپنی زندگیوں کو روشن کرنا چاہیے۔ ان کی یاد اور تعظیم ہمارے لیے ایک روحانی سرمایہ ہے۔

نتیجتاً، یہ مضمون اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ آثارِ نبوی سے برکت کا حصول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اعمال میں شامل تھا، جو ان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری محبت اور عقیدت کا آئینہ دار ہے۔ یہ عمل ان کے لیے تعظیم اور برکت کا ذریعہ تھا، اور ہمارے لیے بھی یہ ایک مثال ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اپنی زندگیوں میں کس طرح جاری رکھ سکتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے